مغربی تہذیب پر ہم خواہ کتنی ہی تنقید کیوں نہ کریں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے سلسلے میں ہمارے دلوں میں ایک چور پایا جاتا ہے اور چور چوری سے جاتا ہے مگر ہیرا پھیری سے نہیں جاتا۔ چناں چہ یہ چور ہمارے خیالات اور عمل کے ایوانوں اور گلی کوچوں میں اکثر صدا لگاتا ہوا پکڑا جاتا ہے، مگر ہم میں سے بے شمار افراد ایسے ہیں جو اسے چور کے بجائے کوئی ’’پھیری والا‘‘ سمجھتے ہیں۔ ایسا پھیری والا جو رزق کی تلاش میں گلی گلی صدا لگاتا پھرتا ہے۔ حیرت ہے کہ بہت سے لوگ چور اور پھیری والے کے حلیے کو تو چھوڑیے، اُن کی صدا کے فرق کو بھی نہیں سمجھتے حالاں کہ پھیری والے کی صدا ’’مال لے لو‘‘ ہوتی ہے اور چور کی ’’مال دے دو‘‘۔
ہمارے مفکرین اور دانشوروں نے مغربی تہذیب کی جو تنقید لکھی ہے، وہ خواہ کتنی ہی ہمہ گیر کیوں نہ ہو مگر ہمارے عوام حتیٰ کہ سیاسی رہنماؤں کے ذہنوں میں بھی اس تنقید کا صرف وہ حصہ تازہ رہتا ہے جو مغربی تہذیب کے بعض ظاہری اور سطحی پہلوؤں سے متعلق ہے۔ بنیادی تصورات سے متعلق تنقید یا تو ہمیں یاد ہی نہیں رہتی یا ہم اسے جان بوجھ کر بھلائے رہتے ہیں اور جو ایسا نہیں کرتے وہ ان پہلوؤں کے لیے ’’جواز جوئی‘‘ کی مہم میں مصروف رہتے ہیں۔ آپ کو ہماری اس بات پر اعتبار نہ ہو تو ذرا کسی عام فرد سے پوچھ لیجیے کہ مغربی تہذیب کے بارے میں تمہاری رائے کیا ہے؟ وہ کہے گا کہ بہت بری تہذیب ہے، اس نے پوری دنیا میں عریانی و فحاشی پھیلادی ہے، خواتین کو گھروں سے نکال کر دفتروں اور بازاروں میں لے آئی ہے۔ یہ عام فرد اگر ذرا سا اور باشعور ہوگا تو کہے گا کہ اس نے خاندان کے ادارے کو توڑ دیا ہے، والدین اور اولاد کے درمیان خلیج حائل کردی ہے اور اس تہذیب کے پرور دہ بچے بعض کتابیں پڑھ کر باپ کو خبطی سمجھتے ہیں۔ اگر اس عام فرد کا کوئی سیاسی پس منظر ہوا تو وہ جمہوریت کے بارے میں علامہ اقبال کے اشعار آپ کو سنادے گا۔ مگر معاف کیجیے گا! یہ صرف عام افراد کا ردعمل نہیں ہوگا بلکہ ہمارے اکثر دانشوروں، سیاسی رہنماؤں، یہاں تک کہ علمائے کرام کا ردعمل بھی یہی ہوگا۔ اس سلسلے میں عوام اور خواص میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔
کئی سال پہلے کی بات ہے، پی ٹی وی پر ملک کے مماز وکیل جناب خالد اسحاق صاحب ایک دینی پروگرام کے مقرر کے طور پر اسلام کے حوالے سے گفتگو فرما رہے تھے۔ پروگرام کا ایک خاص موضوع تھا جو اب ہمیں یاد نہیں مگر ایک بات کئی سال گزرنے کے باوجود آج بھی یاد ہے۔ انہوں نے پروگرام کے دوران میں امریکا کے ایک دورے کا ذکر کیا جہاں ان کی ملاقات (غالباً) کسی ایسے ممتاز وکیل سے ہوئی جو اسلامی تعلیمات سے بہت متاثر تھا۔ اس نے گفتگو کے دوران میں خالد اسحاق صاحب سے اسلامی تعلیمات کی بڑی تعریف کی۔ خالد اسحاق صاحب نے بجا طور پر اُس شخص سے پوچھا کہ جناب! جب آپ اسلام سے اس قدر متاثر ہیں تو پھر آپ مسلمان کیوں نہیں ہوجاتے؟ اس سوال کے جواب میں اس شخص نے کہا کہ جناب اس وقت میں ایک ترقی یافتہ معاشرے کا فرد ہوں مگر مسلمان ہوتے ہی میں یک بہ یک ایک پسماندہ (backward) برادری یا معاشرے کا حصہ بن جاؤں گا اور یہ مجھے منظور نہیں۔ ظاہر ہے کہ خالد اسحاق صاحب بھی اس فرد کے ’’احساس ذمے داری‘‘ میں برابر کے شریک تھے اور انہوں نے اپنے ٹی وی پروگرام کے دوران مسلمانوں کی Backwardness پر دِلی تاسف کا اظہار کیا۔ تو یہ ہے ہمارے دانشوروں کی پرواز کی آخری منزل۔ اس گفتگو کا پیغام صاف ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو بھی ترقی یافتہ ہوجانا چاہیے تا کہ نئے لوگ مسلمان ہوتے ہوئے شرمندگی محسوس نہ کریں۔ اس بات کے علمبردار اس کا اعتراف نہیں کریں گے مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ ذہنیت مغرب کی نام نہاد ’’تہذیب‘‘ کو جو ’’ترقی‘‘ کا ثمر ہے، مذہب اور عقیدے کے برابر اہمیت دیتی ہے، بلکہ مذکورہ مثال کی رُو سے تو ’’ترقی‘‘ کو مذہب پر بھی فوقیت دیتی ہے۔ اسی لیے مذہب کی قبولیت کے لیے معاشرے کا ’’ترقی یافتہ‘‘ ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ یہ ہمارے دلوں میں موجود اس چور کا صرف ایک روپ ہے جس کا ذکر ہم نے کالم کی ابتدا میں کیا ہے۔ یہ حق پر باطل کو فوقیت دینے کی مثال ہے، اس لیے عریانی اور فحاشی سے زیادہ ہولناک اور قابل مذمت ہے، مگر مغربی تہذیب سے متعلق ہمارے خوشگوار مغالطے ہمیں اسے ’’برا‘‘ بھی نہیں سمجھنے دیتے اور اس پر کسی بھی جانب سے کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ اعتراض نہ کرنے کی وجہ یہ نہیں کہ لوگ اعتراض کرنا نہیں جانتے (کیوں کہ ہمیں اعتراض کرنے کے سوا آتا ہی کیا ہے؟) بلکہ اعتراض اس لیے نہیں کیا جاتا کہ لوگوں کو اس طرزِ فکر میں کوئی قابل اعتراض بات نظر نہیں آتی۔ وہ اسے مذہب کی روح کے منافی خیال نہیں کرتے۔
مغربی تہذیب نے اپنے ’’ارتقاء‘‘ کے دوران میں ایک خاص رجحان پیدا کیا ہے۔ یہ رجحان ہر چیز کو اس کے وسیع پس منظر کے بجائے حاضر ماحول (Existing conditions) کے تناظر میں دیکھنے اور بیان کرنے سے عبارت ہے۔ اس رجحان کے زیر اثر ہر چیز کی اہمیت یا افادیت کا تعین ’’آج‘‘ کے حالات کے تحت کیا جاتا ہے۔ ’’گزرا ہوا کل‘‘ ارتقا کی ایک منزل تھی اور اس منزل کو ہرگز اتنی اہمیت نہیں دی جانی چاہیے کہ وہ آج کے لیے اشیا اور رویوں کے جانچنے کا پیمانہ مقرر کرے۔ ظاہر ہے کہ ہر چیز کی اہمیت کا تعین آج کے تناظر میں کیا جانا ہے تو پھر مستقل اقدار کا وجود نا پید ہوگا اور ظاہر ہے کہ اس حوالے سے ترقی کے جو معنی ہمیں آج مغرب سے موصول ہورہے ہیں، وہ بھی سو فی صد درست ہیں۔ لیکن یہ ایک جعلی فکر ہے، ایک بے حد سطحی رجحان ہے، اس لیے کہ ہر چیز کی قدر و قیمت کا تعین اس کے وسیع تر پس منظر ہی میں کیا جاسکتا ہے۔ ہر تہذیب کی عمارت تین مرکزی تصورات سے پھوٹتی ہے:
(1) حقیقت اَولیٰ کا تصور۔۔۔ اس کے تحت یا تو ایک خدا کا اقرار ہوگا یا انکار یا پھر ایک سے زیادہ خداؤں کا تصور موجود ہوگا۔
(2) کائنات سے خدا اور انسان کے تعلق کی نوعیت۔
(3) تصور انسان۔۔۔ یعنی انسان کیا ہے؟ اس دُنیا میں اس کا مقصد حیات کیا ہے؟ وہ کہاں سے آیا ہے، کہاں جائے گا؟ جائے گا بھی کہ نہیں؟
ان بنیادی تصورات اور ان تصورات سے پیدا ہونے والے سوالات کا جواب دیے بغیر کسی شے، رجحان یا رویے کی اہمیت کا تعین نری جہالت ہے۔ اس میں ترقی کے تصورات بھی ہیں اور پستی کے تصورات بھی، علم کے تصورات بھی اور جہالت کے تصورات بھی۔اس سلسلے میں مغربی تہذیب نے جو فکری سفر طے کیا ہے، وہ دلچسپ نہیں مضحکہ خیز ہے۔ اسی لیے اہل فکر و نظر نے اسے فکر کے ارتقا کے بجائے فکر کی Degeneration سے تعبیر کیا ہے۔ اس کا آغاز یہاں سے ہوا کہ خدا کی نفی کرکے اس کی جگہ انسان کو بٹھادیا گیا اور پوپ نے اعلان کیا کہ:
’’Proper study of makind is man‘‘ خدا کی جگہ انسان کو بٹھانے سے انسان پرستی (Humanism) وجود میں آئی مگر پھر مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ انسان (Human being) کیوں، انسان تو ایک نوع ہے۔ فرد Individual کیوں نہیں۔ جب بات یہاں تک پہنچی تو سوال پیدا ہوا کہ فرد کی سب سے توانا فیکلٹی کون سی ہے؟ معلوم ہوا کہ عقل جزوی (Reason) ہے۔ چناں چہ عقل کو اتھارٹی مان لیا گیا مگر پھر کہا گیا کہ نہیں جناب Rationalism بھی ٹھیک نہیں۔ Reason تو جبلت کے پیچھے چلتی ہے۔ چناں چہ بات جبلت پرستی تک آگئی اور پھر بالآخر اضافیت اور Paragmatism تک بات پہنچی اور Paragmatism کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں پہنچ کر فلسفہ ختم ہوگیا۔ Paragmatism سے افادیت پرستی کے تصورات پیدا ہوئے اور ہمارے یہاں اللہ بخشے سرسید احمد خان نے افادیت پرستی کے رجحانات کو اوڑھنا بچھونا بنالیا اور صاف کہہ دیا کہ مذہب کی جو چیزیں خلافِ عقل ہیں، وہ مسترد کیے جانے کے قابل ہیں اور جن رسوم میں ’’افادہ‘‘ نہیں، اُنہیں چھوڑ دینا ہی عین عقل ہے۔ مگر یہ دوسرا قصہ ہے۔ اصل میں ہم کہہ یہ رہے تھے کہ مغربی تہذیب انہی تین مرکزی یا بنیادی تصورات کے سلسلے میں ایک خاص نقطہ نظر کا نتیجہ ہے، جن کا ذکر ہم نے ابھی کیا ہے اور یہ بات ’’پڑھے لکھے‘‘ لوگوں کو بتاتے ہوئے شرم آتی ہے کہ ان بنیادی تصورات کا مغربی فکر نے کیا جواب دیا ہے۔ جدید مغربی تہذیب کے آغاز میں چوں کہ انکار کا شدید رجحان موجود تھا، اس لیے اہل مغرب ان بنیادی تصورات کے بارے میں منفی طور پر سہی مگر سوچتے ضرور تھے۔ لیکن اب ان کی تہذیب جس منزل پر آگئی ہے، وہاں جس چیز کی اہمیت ہے، وہ صرف روزمرہ کی زندگی یعنی Day to day life ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے اہل فکر و نظر کی زندگی بھی یہی ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی بیش تر سرگرمیوں کا مرکز یہی ہے۔ ان کی بین الاقوامیت اور ان کی سائنسی و تیکنیکی ترقی کا رخ بھی ’’روزمرہ‘‘ کی زندگی کی جانب ہے اور وہ دوسری قوموں کے بارے میں جس ’’فکری مندی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ان کے سلسلے میں پچیس اور پچاس سال کے منصوبے ترتیب دیتے ہیں، اُن کا ہدف بھی اپنی روزمرہ زندگی کو قائم رکھنے کے سوا کچھ نہیں۔ اس صورت میں ان کی ترقی کا کوئی تصور ہمارے لیے کیوں کر قابل قبول ہوسکتا ہے۔ ہم خدا کو ہر چیز کا خالق و مالک سمجھتے ہیں۔ انسان کو زمین پر اس کا خلیفہ کہتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم ہر تصور کے سلسلے میں قرآن و سنت کو اپنا بنیادی حوالہ بناتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کی مثالیں دیتے ہیں مگر ’’ترقی‘‘ کے تصور کے سلسلے میں نہ ہم قرآنی تصورات کا ذکر کرتے ہیں، نہ صحابہؓ کی زندگیوں سے حوالہ پیش کرتے ہیں، نہ سنت رسول کو مشعل راہ بناتے ہیں۔ بس اس کو جوں کا توں مان لیتے ہیں جیسے یہ ثابت شدہ چیز ہے۔ کیا یہ بھی ہمارا کوئی خوشگوار مغالطہ ہے یا کم علمی؟ بدنیتی ہے یا مغربی تہذیب کا سحر؟ یا کچھ اور؟؟؟
ہمارا ایک خوشگوار مغالطہ یہ ہے کہ تہذیب کا حاصل سائنسی و تیکنیکی و اقتصادی ترقی ہے۔ یہ بات جدید مغربی تہذیب کے پس منظر میں تو درست ہے مگر اسلامی پس منظر میں نہیں۔ نبی اکرمؐ نے جو معاشرہ تشکیل دیا تھا یا خلفائے راشدین کے زمانے کا جو معاشرہ تھا، وہ سائنسی و تیکنیکی اور اقتصادی ترقی والا معاشرہ تو نہیں تھا، وہ تو ایمان کی روشنی والا معاشرہ تھا اور یہی معاشرہ ہمارے لیے ماڈل ہے۔ اس معاشرے میں سائنسی، تیکنیکی اور اقتصادی ترقی بھی ہوسکتی ہے مگر وہ کبھی بھی ’’معیار‘‘ نہیں ہوگی اور جو چیز معیار نہیں ہوگی اس کے لیے انسان کی ساری توانائیوں کو وقف نہیں کیا جاسکے گا۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے یہ تو نہیں پوچھے گا کہ تم نے کتنے سائنسی نظریے پیش کیے تھے یا مریخ پر جانے کے لیے کتنے خلائی جہاز تیار کیے تھے، وہ تو مجھ سے کچھ اور ہی پوچھے گا اور یہ ’’کچھ اور‘‘ جس کے پاس جتنا زیادہ ہوگا وہ اتنا ہی ترقی یافتہ ہوگا۔
مغربی تہذیب کے بارے میں ان خیالات کے اظہار کا مقصد یہ نہیں کہ ہم مغرب سے کچھ سیکھ ہی نہیں سکتے۔ ہم اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، خاص طور پر یہ بات کہ ہم وہ غلطیاں نہ کریں جو مغرب کرچکا ہے۔ ان تجربوں سے بچیں جو خود مغرب کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں۔ مغربی تہذیب کا کئی صدیوں پر محیط ایک وسیع تجربہ ہمارے سامنے ہے اور یہ اللہ کا بڑا کرم ہے۔ اگر ہم آنکھیں کھلی رکھیں اور اپنے دینی سرمائے سے قریبی تعلق استوار کرلیں تو اس نشاۃ الثانیہ کا آغاز ہوسکتا ہے جو صدیوں سے ہمارا خواب ہے۔ سقراط نے اس سوال کے جواب میں کہ ’’تم نے دانش کس سے سیکھی ہے‘‘ کہا تھا کہ احمقوں سے۔ اگر کوشش کریں تو ہم بھی مغرب کی حماقتوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے ہمیں خود اپنی حماقتوں سے نجات حاصل کرنی ہوگی۔ ان حماقتوں سے بھی جو عملیت کا درجہ اختیار کرگئی ہیں۔