’’نہیں امی جان‘‘۔ فسطینہ اس کے ساتھ لپٹ کر ایک بچے کی طرح سسکیاں لینے لگی۔
’’میں ابھی پتا کرتا ہوں‘‘۔ سین یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
یوسیبیا نے کہا۔ ’’بیٹی اگر وہ سچ مچ آگیا ہے تو تمہیں مجھ سے زیادہ خوشی نہیں ہوسکتی۔ لیکن وہ اتنی مدت کہاں تھا؟‘‘
’’مجھے معلوم نہیں۔ میں صرف یہ جانتی ہوں کہ وہ آگیا ہے۔ خدا نے میری دعائیں سن لی ہیں۔ امی جان اب آپ کو یہ شکایت نہیں رہے گی کہ میں عیسائیت کی دشمن بن چکی ہوں‘‘۔
یوسیبیا کی آنکھوں میں مسرت کے آنسو چھلک رہے تھے۔ ’’میری بیٹی! میری فسطینہ! مجھے عاصم کی آمد سے زیادہ اس بات کی خوشی ہے کہ خدا نے تمہیں گمراہی سے بچالیا‘‘۔
تھوڑی دیر بعد فسطینہ اور یوسیبیا دروازے میں کھڑی باہر جھانک رہی تھیں۔ سین عاصم کے ساتھ باتیں کرتا ہوا صحن میں نمودار ہوا اور یوسیبیا نے آگے بڑھ کر ایک ماں کی دعائوں کے ساتھ اس کا خیر مقدم کیا۔ پھر یہ چاروں ایک کشادہ کمرے میں بیٹھ گئے۔ اور سین نے عاصم سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’اب تم اطمینان سے مجھے اپنی سرگزشت سنائو۔ ہماری آخری اطلاع یہ تھی کہ جب تم طیبہ سے روانہ ہوئے تھے تو قبطی ملاحوں کے علاوہ ایک رومی غلام بھی تمہارے ساتھ تھا۔ پھر چند دن بعد غالباً یہی کشتی جس پر تم طیبہ سے سوار ہوئے تھے۔ بابلیوں کے آس پاس دیکھی گئی تھی۔ لیکن وہ بابلیوں میں نہیں ٹھہری اور ہمیں یہ اندیشہ تھا کہ تم نے قبطی ملاحوں اور رومی غلام کی وفاداری پر بھروسہ کرنے میں غلطی کی ہے اور یہ لوگ تمہیں دریا یا سمندر میں پھینک کر روپوش ہوگئے ہیں اور اگر انہوں نے تمہیں دھوکا دیا تو تم نیل کے دہانے اور شام کے ساحل کے درمیان کسی جگہ بحریہ حادثے کے شکار ہوچکے ہو۔ چونکہ ان ایام میں کوئی قابل ذکر طوفان بھی نہیں آیا تھا۔ اس لیے ہمارا یہ خیال بھی تھا کہ رومیوں کے کسی جنگی جہاز سے متصادم ہونے کے بعد تمہاری کشتی غرق ہوچکی ہے۔ اب تم یہ معما حل کرسکتے ہو کہ تم اتنی مدت تک کہاں تھے‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’میں بیمار تھا اور طیبہ سے روانہ ہونے کے بعد میں نے کئی دن بے ہوشی کی حالت میں گزارے۔ پھر جب ہوش میں آنے کے بعد مجھے یہ معلوم ہوا کہ میرے ساتھی مجھے شام کے ساحل کی بجائے قسطنطنیہ کی طرف لے جارہے ہیں تو میں کوئی مزاحمت نہ کرسکا‘‘۔
سین نے پوچھا۔ ’’تو اب تم اتنی مدت کے بعد قسطنطنیہ کے کسی قید خانے سے فرار ہو کر یہاں پہنچے ہو؟‘‘
عاصم نے کچھ دیر سوچنے کے بعد جواب دیا۔ ’’جی نہیں، وہاں مجھے ایک نیک دل رومی کے ہاں پناہ مل گئی تھی‘‘۔
’’اور وہ نیک دل رومی کون تھا‘‘۔
’’جناب یہ وہی غلام تھا جسے میں صحرائے نوبہ سے اپنے ساتھ لایا تھا‘‘۔
’’سین نے کہا۔ ’’یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر وہ رومی اتنا شریف تھا تو تمہیں دھوکا دے کر قسطنطنیہ کیوں لے گیا؟‘‘
’’میں بیمار تھا اور اس کے خیال میں میری جان بچانے کی بہترین صورت یہی تھی‘‘۔
’’لیکن جب تمہیں ہوش آیا تو تم نے کشتی کا رُخ بدلنے کا مطالبہ نہیں کیا؟‘‘
’’جی نہیں میں ایسا محسوس کرتا تھا کہ میں بہت دور آچکا ہوں اور مجھے مڑ کر پیچھے کی طرف دیکھنے کی ہمت نہ تھی‘‘۔
’’اور اب تم یہاں کس طرح پہنچے ہو؟‘‘
’’جناب اس کے لیے بھی اس رومی کا ممنون ہوں۔ اس نے رات کے وقت میرے لیے کشتی کا انتظام کردیا تھا‘‘۔
’’سین نے عاصم کے چہرے پر نظریں گاڑتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹا! تمہاری صورت بتارہی ہے کہ تم مجھ سے کوئی بات چھپارہے ہو‘‘۔
’’عاصم نے کہا۔ ’’مجھے اندیشہ ہے کہ میری کئی باتیں آپ کو ناقابل یقین محسوس ہوں گی‘‘۔
’’سین نے کہا۔ ’’عاصم تم میرے لیے اجنبی نہیں ہو۔ اور تمہیں ایک لمحہ کے لیے بھی یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ میں تمہاری کسی بات پر شبہ کرسکتا ہوں‘‘۔
’’عاصم نے کہا۔ ’’اگر میں یہ کہوں کہ میں چند دن قیصر کا مہمان رہ چکا ہوں۔ اور جب میں وہاں سے روانہ ہوا تو وہ بذاتِ خود بندرگاہ پر مجھے الوداع کہنے آیا تھا۔ اور اس نے مجھ سے یہ کہا تھا کہ رومی ہر قیمت پر ایرانیوں سے صلح کرنا چاہتے ہیں۔ پھر میں نے اس سے یہ وعدہ کیا تھا کہ میں سپہ سالار کے پاس آپ کی درخواست لے جائوں گا تو آپ یقین کریں گے‘‘۔
سین کچھ دیر انتہائی اضطراب کی حالت میں عاصم کی طرف دیکھتا رہا، بالآخر اس نے کہا۔ ’’مجھے یہ بات بھی بعیدازقیاس معلوم نہیں ہوتی کہ ہرقل ایک مدت سے کسریٰ کے قدموں پر گرنے کے لیے بے قرار ہے۔ لیکن ہمیں تم سے یہ توقع نہ تھی کہ تم رومیوں کے ایلچی بن کر ہمارے پاس آئو گے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’لیکن میں یہ سمجھتا تھا کہ آپ ہاتھ باندھ کر صلح اور امن کی درخواست کرنے والے دشمن پر وار کرنا پسند نہیں کریں گے‘‘۔
سین نے جواب دیا۔ ’’روم کے ساتھ جنگ یا صلح میری پسند یا ناپسند کا مسئلہ نہیں۔ میں کسریٰ کا نوکر ہوں، اور میرے لیے ان کا آخری حکم یہی ہے کہ میں قسطنطنیہ پر ایران کا جھنڈا نصب کرنے سے پہلے رومیوں کے ساتھ کوئی بات نہ کروں گا‘‘۔
’’لیکن آپ جانتے ہیں کہ قسطنطنیہ پر قبضہ کرنا آسان نہیں‘‘۔
’’میں جانتا ہوں‘‘۔ سین نے جواب دیا۔ ’’لیکن کسریٰ کے حکم سے انحراف کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ کہ میں خود پابہ زنجیر اس کے سامنے پیش ہوجائوں‘‘۔
’’لیکن اگر آپ کو پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو پھر کیا ہوگا۔ میں یہ سوال ایران کے ایک اولوالعزم سپہ سالار کا حوصلہ پست کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ آپ قسطنطنیہ کے دفاعی استحکامات دیکھ چکے ہیں‘‘۔
’’سین نے مغموم لہجے میں جواب دیا۔ ’’اگر مجھے اس مرتبہ بھی ناکامی ہوئی تو میری سپہ سالاری کا عہد ختم ہوجائے گا اور مجھے کسریٰ کے سامنے اس مہم کے تمام نقصانات کی ذمے داری اپنے سر لینا پڑے گی۔ شاید تمہیں یہ معلوم نہیں کہ ایک شکست خوردہ سپہ سالار کا انجام کتنا عبرتناک ہوتا ہے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’اگر آپ کی جنگ کا مقصد صرف کسریٰ کے اَنا کی تسکین ہے تو میں کچھ اور نہیں کہنا چاہتا۔ اب آپ کے لیے میری سزا کا فیصلہ کرنا باقی ہے‘‘۔
سین نے جواب دیا۔ ’’اگر تم نے یہ باتیں اور کسی سے نہیں کیں تو تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘‘۔
’’میں نے یہ باتیں کسی اور سے نہیں کیں۔ لیکن میں ایرانی فوج کا ساتھ چھوڑ کر رومیوں کی پناہ میں چلا گیا تھا اور یہ جرم ایسا نہیں جسے آپ نطر انداز کرسکیں‘‘۔
’’ایک رضا کار کی حیثیت میں تم ان پابندیوں سے مستثنیٰ تھے جو ایرانی سپاہیوں پر عائد ہوتی ہیں۔ عرب قبائل کے بیشتر رضا کار واپس جاچکے ہیں اور ہم نے ان سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ بلکہ انہیں انعامات دے کر رخصت کیا ہے تمہارے متعلق عام ایرانی شاید یہ سننا پسند نہ کریں کہ تم قسطنطنیہ چلے گئے تھے اس لیے یہ بہتر ہوگا کہ تم ان سے اس بات کا ذکر نہ کرو۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں تمہاری مجبوری سمجھ سکتا ہوں۔ اگر تمہارا مفرور ہوجانا ایک جرم ہوتا تو بھی میں تمہاری ڈھال بننے کی کوشش کرتا‘‘۔
’’تو آپ کا مطلب ہے کہ میں اپنے مستقبل کے متعلق فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں۔ اور جہاں چاہوں جاسکتا ہوں؟‘‘۔
سین نے جواب دیا۔ ’’بیٹا تم آزاد ہو۔ تم ہمیشہ آزاد تھے۔ لیکن میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ تم میرا ساتھ چھوڑ دو گے‘‘۔
عاصم نے قدرے متاثر ہو کر کہا۔ ’’میں ناشکر گزار نہیں ہوں، آپ نے مجھے اس وقت پناہ دی تھی۔ جب دنیا میں کوئی نہیں تھا۔ اور اس زمانے میں تشکر اور احسان مندی کا تقاضا یہی تھا کہ میں آنکھیں بند کرکے آپ کے پیچھے چل پڑوں۔ اور آج احسان مندی کا تقاضا یہ ہے کہ میں آپ کا راستہ روک لوں۔ اور چلا چلا کر یہ کہوں کہ اس جنگ کا انجام انسانیت کی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ اگر یہ جنگ انسانیت کی بھلائی کے لیے ہوتی اور مجھے ذرہ برابر اس بات کا یقین کرتا کہ جس زمین پر قیصر کے جھنڈے سرنگوں ہوں گے وہاں عدل و انصاف کے پرچم لہرائے جائیں گے۔ تو میں دنیا کے آخری کونے تک کسریٰ کے لشکر کا ساتھ دیتا۔ لیکن کسریٰ کی فتوحات سے انسانیت کی کسی بھلائی کی توقع کرنا آگ کے الائو سے پھول تلاش کرنے کے مترادف ہے۔ یہ ممکن ہے کہ آپ قسطنطنیہ کو فتح کرلیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بے بس انسانوں کی لاشوں کے انبار لگاتے ہوئے مغرب کی طرف روم کی قدیم سلطنت کی آخری حدود سے بھی آگے نکل جائیں۔ لیکن یہ ممکن نہیں کہ آپ کی تلواریں کسی ایسی تہذیب کو جنم دے سکیں جو خون میں ڈوبی ہوئی انسانیت کے زخم مندمل کرسکتی ہو۔ میں رومیوں کی حمایت نہیں کرتا۔ میں جانتا ہوں کہ بازنطینی حکمران بھی اپنے عروج کے ادوار میں اس زمین کو اپنے کمزور حریفوں کے خون اور آنسوئوں سے سیراب کرچکے ہیں۔ لیکن آج وہ مظلوم ہیں، اور وہ اس وقت تک مظلوم رہیں گے جب تک کہ روم کی سرزمین ایرانیوں کے مظالم کا حساب چکانے کے لیے کسی بڑے عفریت کو جنم نہیں دیتی۔ لیکن جب تک رومی مظلوم ہیں اور مجھے اس بات کا احساس ہے کہ کسریٰ کی فتوحات کے ساتھ ساتھ ان کی مظلومیت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ میری ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں‘‘۔
عاصم کی یہ جسارت سین کے لیے غیر متوقع تھی اور اس نے تلخ ہو کر کہا۔ ’’عاصم تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ تم عیسائی ہوچکے ہو‘‘۔
یوسیبیا جو انتہائی ضبط و سکون کے ساتھ ان کی باتیں سن رہی تھی اچانک بھڑک اُٹھی…‘‘ عاصم بیٹا تم ناخوش کیوں ہوگئے۔ ہمت سے کام لو۔ میرا شوہر عیسائیوں سے نفرت نہیں کرتا۔ صرف قیصر کی کمزوری اور بے بسی کو ناقابل معافی سمجھتا ہے۔ اگر عیسائی ہونا جرم ہوتا تو اس گھر میں میرے اور میری بیٹی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے تھی۔ یہ عیسائیت کے دشمن نہیں بلکہ انہیں اس بات کا اعتراف ہے کہ عیسائیت اس گئی گزری حالت میں بھی مجوسیت سے بہتر ہے۔ لیکن انہیں کسریٰ کا یہ حکم ہے کہ قسطنطنیہ پر ہر حالت میں قبضہ کیا جائے اور یہ اس حکم کی تعمیل پر مجبور ہیں‘‘۔