بزمِ یارانِ سخن کراچی کا مشاعرہ

297

بزمِ یارانِ سخن کراچی تقریباً چالیس برس سے ادبی پروگرام ترتیب دے رہی ہے۔ یہ تنظیم اپنا ہر پروگرام مقررہ وقت پر شروع کرتی ہے۔ گزشتہ ہفتے بزمِ یارانِ سخن نے پی ایم اے ہائوس سر آغا خان سوم روڈ کراچی میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا جس کی صدارت رفیع الدین راز نے کی۔ سعید الظفر صدیقی مہمان خصوصی تھے جو خرابیٔ صحت کے سبب مشاعرے میں شریک نہ ہوسکے۔ اختر سعیدی اور فیاض الحسن مہمانانِ اعزازی تھے۔ آئیرین فرحت نے نظامت کے فرائض انجام دیے انہوں نے بہت شان دار نظامت کی اور کسی بھی عنوان سے مشاعرے کا ٹیمپو ٹوٹنے نہیںدیا اپنے چھوٹے چھوٹے جملوں سے محفل کو گرمائے رکھا۔ تلاوتِ کلام مجید کی سعادت نظر فاطمی نے حاصل کی۔ حمد باری تعالیٰ زیفرین صابر نے پیش کی جب کہ نعت رسولؐ کی سعادت پیرزادہ خالد رضوی کے حصے میں آئی۔ ڈاکٹر نثار احمد نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ بزم یارانِ سخن اصولوں پر سودے بازی نہیں کرتی‘ یہ تنظیم اس حوالے سے بھی قابل ستائش ہے کہ یہ کسی ادبی گروہ سے وابستہ نہیں ہے اس کے کریڈٹ پر متعدد شان دار پروگرام موجود ہیں انہوں نے مزید کہا کہ مشاعرے کا انعقاد بہت مشکل کام ہے‘ ہر شاعر ہم سے یہ کہتا ہے کہ وہ بہت سینئر ہے‘ میں فلاں سے پہلے نہیں پڑھوں گا جب کہ وہی شاعر اپنے مفادات کے تحت جونیئر شاعر کی صدارت میں بھی مشاعرہ پڑھ لیتا ہے۔ رفیع الدین راز نے خطبۂ صدارت میں کہا کہ آج بہت اچھی شاعری سامنے آئی‘ تمام شعرا نے بہترین غزلیں پیش کیں جب کہ ایک زمانے میں نظم کے مشاعرے بھی ہوا کرتے تھے اب نظم کہنے والے شعرا کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے یاد رکھیے کہ نظم میں دنیا کی بہترین شاعری موجود ہے جب کہ غزل کا ہر شعر مختصر نظم ہے غزل ایک سدا بہار صنفِ سخن ہے اور تمام تر مخالفت کے باوجود ترقی کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو آج تک سرکار طور پرنافذ العمل نہیں ہوسکی ہے جب کہ ابھی حال ہی میں ایک عدالتی حکم جاری ہوا ہے جس میں بطور خاصایک مدت کا تعین کیا گیا ہے کہ اس مدت میں اردو کو سرکاری زبان بنا دیا جائے لیکن بیورو کریسی اردو کے نفاذ میں حائل ہے ہم سب جانتے ہیں کہ اردو کا سوفٹ ویئر موجود ہے ہم قتل کر رہے ہیں اردو اگر دفتری زبان بن جاتی ہے تو روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے‘ ہر شخص آسانی کے ساتھ اپنا مطلب بیان کرے گا کیوں کہ ہر قوم اور ہر قبیلہ اردو بولتا اور سمجھتا ہے۔ اردو رابطے کی زبان ہے‘ یہ دنیا کی پانچویں بڑی زبان بن چکی ہے اب یہ پاکستان و ہندوستان کے علاوہ دیگر ممالک تک پھیل چکی ہے۔ مجھے امید ہے کہ اردو ضرور سرکاری زبان بن جائے گی۔ سرور چوہان نے کلماتِ تشکر ادا کیے انہوں نے کہا کہ یہ وہ تمام شرکائے محفل کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اپنی مصروفیات میں وقت نکال کر مشاعرے میں شرکت کی۔ آپ کے بروقت آنے سے ہمارا پروگرام کامیاب ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشاعرہ ہر زمانے میں موجود رہتا ہے کیوںکہ یہ ہماری تہذیب و ثقافت کا حصہ ہے۔ مشاعروں سے زبان و ادب کی ترویج و اشاعت ہوتی ہے‘ مشاعرہ بھی ذہنی سکون فراہم کرتا ہے کیوں کہ شاعری تو ہماری روح کی غذا ہے مشاعروں کے ادب و آداب بدل رہے ہیں اور یہ فیسٹول کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ مشاعرے میں رفیع الدین راز‘ اختر سعیدی‘ حیات رضوی امروہوی‘ سلیم فوز‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ نسیم شیخ‘ مقبول زیدی‘ آئیرین فرحت‘ کفیل احمد‘ پیرزادہ خالد رضوی‘ احمد سعید خان‘ انجم ضیائی‘ ثمرین ندیم‘ ڈاکٹر علی اطہر‘ فخر اللہ شاد‘ نظر فاطمی‘ سلمان عزمی‘ فرح اظہار‘ شاہد اقبال‘ تنویر سخن‘ شجاع الزماں شاد‘ کامران صدیقی‘ سرور چوہان‘ کشور عروج‘ صدف بنت اظہار‘ ذوالفقار علی پرواز اور ہما سائرہ نے کلام پیش کیا۔

حصہ