کارگہ رشوت گری

314

ذکر ہو رشوت کا اور دلاورفگار کا قطعہ یاد نہ آئے یہ کیسے ممکن ہے…

حاکمِ رشوت ستاں فکرِ گرفتاری نہ کر
کر رہائی کی کوئی آسان صورت چھوٹ جا
میں بتاؤں تجھ کو تدبیرِ رہائی مجھ سے پوچھ
لے کے رشوت پھنس گیا ہے دے کے رشوت چھوٹ جا

واہ بھائی دلاور کیا آسان نسخہء پُرکاری بتا کر دنیا سے رخصت ہو لیے یقینا اہلِ رشوت ستاں آپ کو دل سے دعائیں دیتے ہوں گے۔

میرے ہر دل عزیز قارئین ِکرا م… حکماء اور ڈاکٹر حضرات نے تقریبا ًہر مرض سوائے عشق کے علاج کی تدبیریں اور دوائیں تلاش کرلی ہیں مگر کوئی بھی حکیم وطنِ عزیز میں رشوت جیسے مرضِ بے حمیّت کا علاج تلاش نہ کر سکا۔

سرکاری محکموں میں افسر ہوں یا ایک معمولی کارندہ ہر ایک اس کارگہِ رشوت گری کا دلدادہ ہے اور اس کے حصول کو اپنا جائز حق قرار دیتا ہے ملک کو تباہ و برباد کرنے میں ان رشوت خوروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے ملک کو دیمک کی طرح کھانے والے یہ ’’آدم خور‘‘ آدم کی اولاد ضرور ہیں مگر شیطانیت ان کی رگ رگ میں اس طرح سمائی ہوئی ہے جیسے خون میں وائٹ سیل ۔

مجرم عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ضرور ہوتا ہے مگر وہاں سے اس طرح بری ہو کر آتا ہے گویا گنگا نہا کر آرہا ہے اب مزید اسے اپنے جوہر دکھانے میں زیادہ آسانیاں ہو جاتی ہیں مجرم اس وقت وکیل صاحب کو دعائیں دیتا ہے جس نے اپنی ذہانت سے عدالتی اہلکاروں سے مُک مُکا کرکے اس کے غلیظ پیراہن کو پاک صاف پیراہن میں تبدیل کر دیا …پاکستان زندہ باد… عدالتی نظام پائندہ باد۔

میرے گھر ایک سرکاری محکمے سے ٹیکس کا ایک نوٹس آگیا میں متعلقہ سرکاری افسر کی خدمت میں حاضر ہوا مدّعا بیان کیا جنابِ والا نے فرمایا تمہارا کام ہو جائے گا مگر تمہیں خرچہ پانی دینا ہوگا میں نے عرض کیا کہ میں رشوت دینے کے حق میں نہیں ہوں اسلام میں اس کی ممانعت ہے موصوف فرمانے لگے ٹھیک ہے اسلام میں اس کی ممانعت ضرور ہے مگر یہ اسلام آباد نہیں ہے کراچی ہے یہاں رشوت لینا اور دینا دونوں صورتوں میں جائز ہے اور یہ تو نعمت ہے جو ہم سرکاری کارندوں کو عطا کی گئی ہے دوسری بات یہ تو خوشی کا سودا ہے آپ ہمیں رقم دیں گے ہمارے بچّے آپ کو دعائیں دیں گے۔

تو حضرات یہ ہے صورتحال وطن ِعزیز کی اور ان بد خواہوں کی جن کے ناپاک وجود نے اس پاک سرزمین کو ناپاک کیا ہوا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اگر کسی افسر کی شکایت لے کر اس سے بڑے افسر کے پاس جاؤ تو معلوم ہوا کہ بڑا افسر چھوٹے افسر کا دادا اباّ ہے پہلا والا افسرِ ناروا دوسرا افسرِ ڈبل ناروا …نظیر اکبر آبادی کا ایک شعر یاد آ گیا…

تھا ارادہ تری فریاد کریں حاکم سے
وہ بھی کمبخت ترا چاہنے والا نکلا

ایسا لگتا ہے سب ایک ہی پیر کے مرید ہیں محکمہء پولیس میں رشوت بھی جائز ہے اور بھتہّ بھی کوئی بھی گاڑی جس پر کوئی سامان لدا ہو مجال ہے جو پولیس کو بھتہّ دیے بغیر گزر جائے سڑک کے ہر کنارے پر شکار کے انتظار میں مستعد کھڑے رہتے ہیں اگر خدانخواستہ آپ کسی حادثے کا شکار ہو جائیں یا آپ کے گھر میں چوری یا قتل جیسی کوئی سنگین واردات ہو گئی ہو اور آپ کو مجبوراً تھانے کی زیارت کرنی پڑ جائے تو بس یوں سمجھ لیں کہ…’’ اس عاشقی میں عزّتِ سادات بھی گئی‘‘ایسے مشکل اور پیچیدہ سوال سے آپ کی خاطر مدارات کی جائے گی کہ آپ کی عقل حیران ہو کر رہ جائے گی آپ کی ساری قابلیت دھری کی دھری رہ جائے گی آج آپ کو اس محاورے کا مفہوم ’’اونٹ پہاڑ کے نیچے آ گیا ‘‘سمجھ میں آجائے گا حاکم ِتھانہ اپنی حاکمیّت کو برقرار رکھتے ہوئے آپ کے گھر ہوئی واردات میں آپ کو یا آپ کے گھر کے کسی فرد کو ملوّث کرنے کی حتی الامکان کوشش کرے گا راحت اندوری یاد آ گئے…

اب کہاں ڈھونڈنے جاؤ گے ہمارے قاتل
آپ تو قتل کا الزام ہمی پر رکھ دو

آپ جس حاکمِ بالا سے ہم کلام ہوں گے وہ آپ کو اتنے چکّر دے گا کہ آپ گھن چکّر ہو کر رہ جائیں گے آخر میں موصوف بڑے نرم لہجے میں فرمائیں گے کہ کچھ ہمارا بھی خیال کرو بزرگو یعنی ٹھنڈی ہتھیلی کو گرمی پہنچائیں۔ تو جناب یہ ہے تھانے کے حاکموں کا طریقہ ء واردات۔ ’’لو آپ اپنے دام میں صیّاد آ گیا‘‘ رشوت خور اپنے بیوی بچوں کو حرام کھلاتے ہیں اور بڑے فخر سے فرماتے ہیں کہ ہم حقوق العباد ادا کر رہے ہیں واہ کیا حقوق العباد کی ادائی ہے۔

آفس سے واپسی پر راستے میں ایک پولیس کانسٹیبل نے اشارہ کیا میں نے گاڑی روک دی کہنے لگا حاجی صاحب کچھ عیدی ویدی ہو جائے میں نے کہا عید گزرے ہوئے بھی ایک ماہ سے زیادہ ہو ہارہیدوسری بات عیدی تو بچّوں کو دی جاتی ہے کہنے لگا ہم بھی آپ کے بچّے ہی تو ہیں میں نے کہا بچّوں کی توند اتنی زیادہ نہیں ہوتی جتنی تمہاری ہے اور شکر ہے تم نے اتنی بڑی بڑی مونچھیں رکھی ہوئی ہیں ورنہ توند دیکھ کر لوگ شک و شبہات میں بھی پڑ سکتے ہیں کہنے لگا اصل میں میں دیسی گھی کے پراٹھے کھاتا ہوں اس لیے توند تھوڑی بڑھ گئی ہے میں نے کہا نہیں …تم غلط کہہ رہے ہو …تمہاری توند کی وجہ وہ ناجائز آمدنی ہے جو تم اپنی توند میں ڈالتے ہو۔ بڑھی ہوئی توند کے حوالے سے نامور مزاح گو انور مسعود نے ایک ٹریفک پولیس والے کا جو خاکہ کھینچا ہے وہ شگفتہ بھی ہے اور طنزیہ بھی آپ بھی اس قطعے سے محظوظ ہو سکتے ہیں …

ایک ٹریفک انسپکٹر اس طرح گویا ہوا
کثرتِ خوراک سے کچھ اور برکت ہو گئی
توند میری ہو گئی ہے میز کی صورت دراز
اور بھی چالان لکھنے میں سہولت ہوگئی

وطنِ عزیز میں رشوت خوری ،حرام خوری کا خاتمہ کب ہوگا یہ تب ہی ممکن ہے جب حکمران ایمان دار آئیں گے جو نہ خود رشوت کے پرستار ہوں گے اور نہ ہی اپنے نیچے والوں کو اس حرام خوری میں مبتلا ہونے دیں گے۔ سارا کام اوپر سے ہوتا ہے اوپر والے اپنے نیچے والوں کو رشوت کی شکل میں ’’ڈھیل‘‘ دیتے ہیں تاکہ نیچے والے بھی عیش کر سکیں اور اوپر والے تو کر ہی رہے ہیں۔ بقول شخصے ’’سب مل بانٹ کر کھاتے ہیں۔‘‘

حصہ