سوشل میڈیا میں اِن باکس کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔ ہم اکثر کمنٹس میں یہ لکھا دیکھتے ہیں کہ ”ان باکس کردو“، ”ان باکس میں بات کرلو“، یا ”ان باکس کردیا ہے“۔ یہ ”ان باکس“ دراصل نجی طور پر بھیجا گیا پیغام ہوتا ہے، اس کو چیٹ کرنا بھی کہہ سکتے ہیں، اور انفرادی بات چیت بھی، جس میں دیگر لوگ شامل نہیں ہوتے۔ آج کے مضمون کا آغاز کچھ ایسے جمع شدہ ”اِن باکس“ سے کررہے ہیں جو براہِ راست سوال جواب یا گفتگو تو ہیں مگر متفرق ہیں۔ ایک جیسی باتوں کو ایک جگہ کیا ہے، پھر دیے گئے جوابات کو ایک جگہ کیا ہے۔ ایک ہی موضوع، جو کہ حالیہ تھا، اس کو پیشکش کے لیے تیار کیا ہے۔ اس کا مقصد قارئین کو بات سمجھانا ہے کیونکہ معاملہ مستقل پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ مغربی فلسفوں یا نظریات کے تضادات بہت زیادہ ہیں، وہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ کوئی تضادات نہ پکڑے، بلکہ ان کے خوشنما لبادے، نعرے، پیشکش میں ہی کھویا رہے۔ اس لیے بار بار تذکیر ضروری ہے۔ گزشتہ اتوار کو کراچی میں سارا دن، رات گئے تک عورت مارچ کے نام پر جو کچھ جاری رہا وہ سوشل میڈیا پر تو شیئر ہوا، مگر سادہ لوح مسلمانوں کو مزید کنفیوژ کر گیا۔
کچھ اپنے ان باکس سے جمع کرکے:
جناب آپ تو پیچھے ہی پڑ گئے ہیں۔ آخر مسئلہ ہے کیا؟ اپنے کام سے کام رکھیں، کیوں غیر متعلقہ ایشوز میں شامل ہوتے ہیں؟ کیا سارے زمانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟ یہ خدائی فوجدار بننا چھوڑ دیں، جو کام ہے وہی کریں، دوسروں کے معاملات میں ٹانگ نہ اڑائیں۔ لوگوں کو اپنی آزاد مرضی سے فیصلہ کرنے دیں۔ ضروری نہیں کہ لوگوں کی مرضی تبدیل کی جائے۔ اپنے فلسفے کو اپنے تک رکھیں۔ اگر کوئی میڈیا آپ کو جگہ دے رہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اپنے تئیں لوگوں کی رائے بدلنا شروع کردیں۔ انسانوں کو اُن کے فطری، قدرتی تعلق سے جڑنے دیں۔ ہر چیز میں مذہب کو لانا درست نہیں۔ مذہب ایک ذاتی معاملہ ہے، جس کو کرنا ہے کرے، نہیں کرنا نہ کرے۔ پاکستان کے آئین کو تو مانتے ہیں نا، اس کو تو سب اسلامی اسلامی کہتے نہیں تھکتے۔ اس کے آرٹیکل 20میں صاف لکھا ہے کہ ”ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہوگا“۔ تو کیوں کسی کو تکلیف ہے اس بات سے کہ ہم ”انسانیت“ کی بات کرتے ہیں، انسانوں کو برابر کرنے، سمجھنے کی بات کرتے ہیں، انسانوں کے درمیان نفرت اور فرق کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں، انسانوں کو آزاد کرنے، آزادی دینے، آزادیِ فکر، آزادیِ اِظہار، آزادیِ عمل کی بات کرتے ہیں، ہم انسانوں کو اِنسان کی اصل، فطری انسان سے جوڑنے کی بات کرتے ہیں، انسان کے اصل جوہر پر انسان کو قبو ل کرنے کی بات کرتے ہیں، ہم فطری انسان کی بازیافت چاہتے ہیں تو آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ پھر جو چیز آپ کا شعوری فیصلہ ہی نہ ہو تو وہ آپ کے لیے نہ شرمساری ہے نہ فخر ہوسکتی ہے۔ تو آخر کیوں اس کو غلط طریقے سے موضوع بنایا جاتا ہے؟ آخر انسان کو اُس کے فطری وجود سے الگ کرکے، اُس کی فطری جبلت پر مبنی حقیقی تاریخ سے الگ کرکے کسی معاشرتی، مذہبی جبر میں ہی کیوں دیکھا جائے؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ جو آپ کہیں وہی صحیح ہو، ہم جو اتنی تاریخ بتا رہے ہیں، سائنس ثابت کررہی ہے، اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں؟
جوابی کارروائی:
میں نے کہا: واہ، بہت خوب… چاہتے ہیں، چاہتے رہیں، مگر یہ تو بتائیں کہ آپ میری آزادی میں کیوں رکاوٹ بن رہے ہیں؟ میرے لکھنے کی آزادی سے آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ آپ اپنا لکھیں، میں نے تو آپ کو نہیں روکا۔ میں جس چیز کو غلط جانتا ہوں، میرا معاشرہ غلط جانتا ہے اسے تو اُس غلط سے بچانا میرا کام ہے جو چاہے کسی اچھے میک اَپ میں کیوں نہ آرہا ہو۔ آپ مستقل جھوٹ اور تضاد بیانی سے لوگوں کو خوشنما باتوں سے، جعلی اصطلاحات سے دھوکا دے رہے ہیں، سارے میڈیا کا سہارا لے کر 24گھنٹے، سال کے 365دن اپنے جھوٹ کی جگہ بنانے میں لگے ہیں اور میری چند ہفتہ وار سطروں میں لکھا سچ، آپ کو تکلیف دے رہا ہے؟ کیا اس لیے کہ آپ کی تضاد بیانی، دھوکا دہی سامنے آجاتی ہے؟ برابری کے جعلی، غیر حقیقی نعرے کی پول پٹیاں کھل جاتی ہیں؟ یہ جو فطری انسان، انسانیت کے مکروہ لبادے کی حقیقت اگر میرے چند جملوں سے سامنے آجاتی ہے تو پھر دلائل سے بات کریں۔ علمیت کا مقابلہ علمیت سے ہوگا نا۔ دھمکی سے نہیں۔ منہ چھپانے سے نہیں ہوگا۔ آپ کا یہ عورت مارچ، جب مورت مارچ کی صورت سامنے آیا تو میں سمجھ گیا کہ یہ اب آگے جانور مارچ تک بھی جائے گا۔ ایلگا کی رپورٹ بتا چکی ہے کہ ہم جنس پرستی کے ایجنڈے کے ساتھ عورت مارچ پلانٹ کیا جارہا ہے۔ آپ مجھے آئین بتا رہے تھے، میں آئین کی شقیں نکالوں تو یہ ساری آزادی یک لخت ختم ہوجائے گی۔ انسانوں کی آزادی اور ان کے حقوق آپ مانگ کس سے رہے ہو؟ ریاست سے نا۔ تو جو ریاست بولے وہ خاموشی سے کرو۔ پھر یہ ریاست کی غلامی کیوں قبول ہے تمہیں؟ ریاست بھی تو کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی پابندی لگا رہی ہے نا۔ وہاں کیوں ساری ہوا نکل جاتی ہے! وہاں بھی تو حقوق کی بات کرو نا۔ اگر تمہارے مطابق انسان کی تاریخ فطری جبلت پر مبنی ہے تو ہر کمزور کو مارنا، شکار کرنا بھی انسانی جبلت ہے۔ تو پھر کرلو برداشت۔ برابری بولنے سے تو نہیں ملے گی، ثابت کرلو، تم تو ویسے بھی حواس خمسہ سے چیزوں کو ثابت کرتے ہو۔ انسانوں کی ہزار سالہ ہو یا لاکھ سالہ تاریخ، امیزون کے جنگل میں بھی عورت، مرد کی قوّامیت کے ماتحت ہے۔ اس کو سمجھنا ہو تو کبھی ببر شیر اور شیرنی کی تصویر دیکھ لو، بات خود سمجھ آجائے گی۔ اس لیے غیر فطری تقاضوں کو حقیقت بنانے کی ہر ناپاک، غلیظ کوشش کو ہم روکیں گے، پیچھے پڑیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تم چندلوگ اپنے شیطانی آقاؤں کے اشارے پر ساری ترتیب بگاڑنے پر لگے ہوئے ہو۔ یہ کوئی غیر متعلقہ ایشو نہیں ہے۔ یہ آگ ہم اپنے گھر، محلے تک نہیں پہنچنے دیں گے۔ ہم نے سارے زمانے کا ٹھیکہ لیا نہیں بلکہ یہ تو ہمیں پیدائشی طور پر ملا ہے۔ یہ زمین ہمارے مالک، ہمارے خالق کی ہے، ہم اس کے مقرر کردہ نائب ہیں، جس نے ہم سے وعدہ لیا ہے ”الست بربکم“ کا۔ ”نہی عن المنکر“ فرض کے طور پر ہماری رگوں میں دوڑتا ہے۔ ہمیں خدائی فوجداری کی بائی ڈیفالٹ ڈیوٹی ملی ہوئی ہے۔ اس زمین پر خدا سے بغاوت روکنے کا مشن، تمام انبیاء سے چلا ہے جو ہم تک پہنچا ہے۔ ہم اپنی علمیت کی مضبوط ٹانگ ضرور اڑائیں گے اور سر بھی دیں گے تاکہ جھوٹ کو رستہ نہ ملے۔ آزاد کوئی نہیں، سب غلام ہیں، کوئی مانے یا نہ مانے۔ ہم تو اتنی رعایت دیتے ہیں کہ تم کوئی آزادی ثابت کرکے تو دکھا دو۔ یہ تم سے ہوتا نہیں۔ تم صرف جنس کا چشمہ لگا کر سب کو دیکھتے ہو اور دکھانا چاہتے ہو۔ تمہارے نزدیک انسان، محض انسان ہے، مگر ہمارے نزدیک ہر پیدا ہونے والا انسان نہ مرد ہے نہ عورت.. وہ صرف کسی کا بیٹا، بھائی، بہن، بیٹی، نواسا، نواسی، پوتا، پوتی، بھانجا، بھانجی، بھتیجا، بھتیجی ہوگا۔ ہم یہی دیکھتے ہیں کہ آج بھی لوگ بچے کی پیدائش کی اطلاع ہمیں اپنے بیٹے، بیٹی کی صورت ہی دیتے ہیں، بلکہ بیٹی کی پیدائش پر تو لکھتے ہیں کہ اللہ کی رحمت آئی ہے۔ انسان ہمیشہ سے رشتوں میں، خاندانوں میں ہی پیدا ہوتا رہا ہے، یہی حقیقت ہے، یہی فطرت ہے۔ تم سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے اگر کرائے کی کوکھ اور جعلی کوکھ پیدا کررہے ہو تو یہ خود غیر فطری عمل ہے، ایسا پہلے تو کبھی نہیں ہوا۔ برابری کا کوئی تصور کہیں موجود ہی نہیں۔ اسلام میں تو بالکل نہیں ہے۔ عورت،بطور ماں الگ مقام رکھتی ہے، بطور بیوی الگ، بطور بیٹی بالکل الگ۔ اسلام نے ہر مرد کو نہیں شوہر کو اجازت دی ہے کہ وہ بیوی یا بیٹی پر ہاتھ اٹھاسکے، مگر بیوی یا بیٹی کو کسی حال میں اجازت نہیں کہ وہ شوہر یا باپ پر ہاتھ اٹھا سکے۔ مگر یہی عورت کسی غیر مرد پر ہاتھ اٹھا سکتی ہے، بیٹے پر ہاتھ اٹھا سکتی ہے، چھوٹے بھائی پر ہاتھ اٹھا سکتی ہے، شوہر اور باپ پر نہیں۔ اس لیے اسلامی معاشرت میں برابری کا کوئی تصور نہیں، بلکہ اسلام ہی نہیں تمام روایتی معاشروں میں ایسی کوئی اجازت نہیں۔ مذہبی ہندوؤں، عیسائیوں، یہودیوں کی معاشرت بھی ایسی ہی رہی ہے۔ اس لیے یہ فیمن ازم دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔
اب یہ دیکھیں کہ خبر آئی ہے: افغانستان میں مرد درزیوں پر خواتین کے لباس سلائی کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس خبر پر سوشل میڈیا پر خوب چرچا جاری ہے۔ سارے بڑے میڈیا اداروں نے یہ خبر نشر کی۔ کسی سے بھی معلوم کرلیں کہ یہ سرے سے کوئی خبر ہے ہی نہیں۔ مطلب یہ نہیں کہ جھوٹ بات ہے۔ بات یہ ہے کہ بریکنگ نیوز اور ایکس کلوسیو نیوز کے دور میں اس خبر کا کیا مقام ہوگا۔
ایشیا کی پاکستان کنٹری رپورٹ 2021 والی منظرعام پر آئی ہے، یہ ہم جنس پرستوں کی عالمی این جی او ہے، جس میں وہ صاف لکھتے ہیں کہ ہماری ایل جی بی ٹی کمیونٹی عورت مارچ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں وہ صاف لکھتے ہیں کہ ہم معاشرتی ردعمل کی وجہ سے کھلے عام ہم جنس پرستی کو فروغ نہیں دے سکتے اس لیے ہم ٹرانس جینڈر حقوق اور عورت مارچ کے دائرے میں کام کرتے ہیں۔ اس کے بعد برطانوی وزارت داخلہ کی جانب سے 2022ء کی جاری کردہ رپورٹ بعنوان ”پاکستان میں جنسی واقفیت اور جنسی شناخت و اظہار“ میں وہ صاف لکھتے ہیں کہ عورت مارچ کی وجہ سے یہ طبقات معاشرے میں نمایاں ہوئے ہیں۔ اس رپورٹ میں انہوں نے یہ بھی لکھا کہ امریکی ایمبیسی نے اسلام آباد میں ”پرائڈ“، مطلب ہم جنس پرستی کے مہینے کی مبارک باد پر ٹوئیٹ کی تو سخت ردعمل سامنے آیا۔