بیساکھی

340

آج بھی زمان کو نوکری نہ ملی تھی۔ مایوسی نے چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ ایسا نہ تھا کہ وہ کم حوصلہ تھا۔ وہ تو بہت ہمت والا اور دوسروں کے کام آنے والا تھا، بس وسائل کی کمی کی وجہ سے کبھی کبھی چڑچڑا ہوجاتا تھا۔ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا۔ سادہ لوح اور معصوم ہونے کی بنا پر لوگ اپنا مطلب نکالتے، پَر مستقل کام نہ ملتا۔

شعبان کا مہینہ اختتام پر تھا اور رمضان زیادہ دور نہ تھا۔ بچیوں نے بھی جب سے ہوش سنبھالا اپنی سہیلیوں کو رمضان سے قبل ہی عید کی خریداری زور شور سے کرتے دیکھا تھا۔ ’’بابا! میری ساری دوستیں بہت اچھے کپڑے بناتی ہیں عید پر، اب اس عید پر ہم بھی اچھی والی فراک لیں گے۔‘‘ زمان کے آتے ہی شزا نے اس کی گود میں بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’ اور میں مہندی لگاؤں گی، چوڑیاں پہنوں گی اور اور اور…‘‘ فزا کہتے کہتے سوچنے لگی تو زمان نے اسے بھی گود میں بھرتے ہوئے پوچھا ’’اور اور کیا؟‘‘ تو وہ یاد آ جانے والے انداز میں بولی ’’اور سویاں کھاؤں گی۔‘‘

زمان اور فرحانہ دونوں ہی اپنی بچیوں کی معصومیت پر مسکرا دیے، مگر زمان کی مسکراہٹ میں ایک فکر سی چھپی تھی۔

جس گلی میں ان کا گھر تھا وہ گلی اور اس سے اگلی دو گلیاں پار کرکے چوڑی سڑک اور اس کے کونے پر ہی اقبال بھائی کا مشہور ہوٹل تھا۔ زمان ان کے پاس اکثر بیٹھا کرتا تھا۔ ان کے چھوٹے موٹے کام بھی کردیا کرتا تھا۔

’’اقبال بھائی! میں زیادہ پڑھا لکھا تو نہیں لیکن ہاں محنتی بہت ہوں۔ لکھت پڑھت کا کام نہیں کرسکتا، لیکن تیرے گاہکوں کو دیکھ لیا کروں گا، میز صاف کرنے سے لے کر تجھے پیاز تک کاٹ کر دوں گا، بس تُو مجھے مستقل کام پر رکھ لے۔‘‘ زمان نے آج پھر سے اقبال بھائی سے لجاجت بھرے لہجے میں کہا۔

’’دیکھ بھائی زمان! ایک تو میرے پاس کاریگروں کی کمی نہیں ہے، اور جتنے کاریگر میں بڑھائوں گا سمجھ میری جیب پر بھاری پڑے گا، اور تُو کیا سمجھ رہا ہے یہ پیاز، ہری مرچ، ہرا دھنیا کاٹنا بچوں کا کھیل ہے؟ بھائی اپنے ہوٹل کی شان برقرار رکھنا کوئی آسان بات تو ہے نہیں، یہ سب ماہر لوگ کرتے ہیں۔ اگر میں تیرے ہاتھ میں نمک مرچ کا حساب دے دوں تو کل ہی میرے ہوٹل کو تالا لگ جائے گا۔‘‘ اقبال بھائی کے کرارے جواب سے وہ دل برداشتہ ہوا تھا۔

’’اچھا پھر کوئی نوکری ہو تیری نظر میں تو بتانا مجھے ضرور۔‘‘ زمان نے لڑکھڑاتی آواز میں کہا اور سلام کرکے نکل گیا۔

ہوٹل سے نکل کر چوڑی سڑک کے اختتام پر مین روڈ پر ایک دو دکانوں پر اور بات کی، مگر وہی کرارا جواب۔ زمان ان لوگوں کے لیے کوئی نیا چہرہ تو نہ تھا، روز کی دعا سلام تھی۔ پھر اس کے حالات سے بھی سب ہی واقف تھے۔ مین روڈ سے پیدل ہی پیدل آگے نکل کر پندرہ سے بیس منٹ کا فاصلہ عبور کرکے اسٹاپ پر پہنچا تو شبیر بھائی کے بنگلے پر بطور مالی خدمات انجام دینا چاہیں تو وہاں بھی ابھی کوئی جگہ خالی نہیں تھی، ہاں بڑی بی بی جی کے لیے دوائی وغیرہ زمان سے ہی منگوائی گئی۔ روز کے کام والا لڑکا غیر حاضر تھا۔

دل کی حالت عجیب ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی ٹانگیں بھی چلنے سے انکاری تھیں، ساتھ گرمی کا زور بھی۔ وہ کچھ دیر گھنے پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھ گیا مگر سکون ندارد۔ شزا اور فزا کے معصوم چہرے، بھربھر چوڑیاں پہننے کے ارمان، مہندی سے سجے ہاتھ، انارکلی بازار کی فراکیں سب ہی تو اس کے ذہن میں گھوم رہا تھا، مگر لوگوں کے رویّے نے اسے مایوس کیا تھا۔ اگر کوئی بڑھ کر حوصلہ دے دیتا تو کیا ہوجاتا! چلو اب کل اگلی جگہ معلوم کروں گا، شاید کسی اسکول وغیرہ میں جگہ خالی ہو۔ اس نے اپنے آپ کو تسلی دی اور اٹھ کھڑا ہوا، لیکن چلچلاتی دھوپ نے اس کو پھر سے لڑکھڑا کر گرا سا دیا۔ اس نے تھوڑی سانس بحال کی اور ہمت مجتمع کرکے مین روڈ کی جانب جلدی جلدی قدم بڑھانے لگا۔ ذہن مسلسل سوچوں میں گم تھا، کبھی شزا کا چہرہ تو کبھی فزا کی معصوم آنکھیں ذہن سے نکل ہی نہیں پا رہی تھیں کہ پیچھے سے تیز رفتار میں آتی گاڑی کی ٹکر نے اسے زمین پر لا پٹخا۔ ایک لمحے کے لیے وہ ہوش کی دنیا میں آیا اور پھر دوبارہ ہوش سے بیگانہ ہوگیا۔

تقریباً ایک ماہ بعد زمان اسپتال سے گھر آیا، مگر اب وہ ایک پاؤں سے معذور ہوچکا تھا۔ چارپائی پر لیٹے لیٹے خالی چھت کو گھورے جاتا۔ فرحانہ جہاں تک ہوتا اس کی دل جوئی کرتی… گھر بھی اتنا بڑا نہ تھا کہ کسی کونے میں بیٹھ کر دو آنسو بہا لیتی، دونوں بچیاں بھی چپ چاپ گم سم تھیں۔

’’ارے بھائی صاحب آپ…‘‘ فرحانہ کی آواز پر زمان کی سوچوں کا محور ٹوٹا تو سامنے اقبال بھائی کو کھڑا دیکھ اپنی جگہ سے اٹھنے کی بے سود کوشش کی۔

’’ارے لیٹا رہ زمان، میں تو بس تیری خیریت پوچھنے چلا آیا۔‘‘ زمان کی آنکھوں سے بے بسی سے گرنے والے آنسو دیکھ وہ زمان کے کچھ قریب آیا۔
’’دیکھ یار زمان میں چہرے سے کڑک لگتا ہوں مگر دل میرا بہت نرم ہے… تُو فکر بالکل نہ کریو، عید کے بعد میرے ہوٹل پر آجائیو … بیساکھی کے سہارے تُو چل سکتا ہے، بس پیسے گن لیجیو اور چھوٹے پر نظر رکھیو، مجھے شک ہے کہ وہ آج کل غبن کرنے لگا ہے اور میز پر کپڑا مارنے میں بھی چوری کرتا ہے، تجھے اس سے سارے کام کروانے ہیں اب… اور یہ ایڈوانس پکڑ، رمضان میں سو خرچے ہوتے ہیں اور پھر عید بھی آکھڑی ہوگی، پتا بھی نہ چلے گا۔ بچیوں کو عید کی خریداری کروادیجیو۔‘‘
اقبال بھائی نے اسے زبردستی پیسے پکڑائے تو اس کے چہرے پر ایک زخمی مسکراہٹ ابھری اور وہ سوچ رہا تھا :
’’کیا نیکی تب ہی کی جائے گی جب دوسرا محتاج و معذور ہوجائے؟ کیا کسی بے بس و بے سہارا شخص کی مدد اُس کے معذور ہونے سے قبل نہیں کی جا سکتی تھی؟‘‘

حصہ