ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ شور سے کھل گئی۔
’’اللہ خیر، لگتا ہے بہو کا پھر کسی سے جھگڑا ہوگیا‘‘۔ کشور خالہ کچھ دن پہلے ہی اپنی بڑی بہو کے گھر رمضان گزارنے آئی تھیں۔
سال بھر وہ چاہے کتنے ماہ چھوٹے بیٹے کے گھر رہ لیں، رمضان سے پہلے انہیں بڑے بیٹے کے ساتھ اُس کے گھر جانا ہوتا تھا۔ جب ان کے شوہر حیات تھے، تب بھی یہی دستور تھا۔ عید بڑے بیٹے کے گھر ہی منائی جاتی۔ سب اس کے گھر اکٹھے ہوجاتے… اکٹھے عید کرنے کا مزا ہی کچھ اور ہے۔
کشور خالہ چپل پہن کر فوراً باہر کی طرف لپکیں۔ سیڑھیوں کی طرف شور مچا ہوا تھا۔
’’یہ تو صنوبر کی آواز لگ رہی ہے‘‘۔
کشور خالہ دروازے پر کھڑی صنوبر کو دیکھ کر بولیں’’کیا بات ہے صنوبر! کیا ہوگیا بیٹا؟‘‘
صنوبر کا چہرہ غصے سے لال ہورہا تھا ’’خالہ جان! دیکھیں اپنی بہو کو، اپنی سیڑھیاں دھلوا کر سارا کچرا میری سیڑھیوں کی طرف ڈال دیا… یہ بھی کوئی طریقہ ہے بھلا!‘‘
رابعہ بھی تنک کر بولی ’’کیوں بھئی ساری بلڈنگ کا ٹھیکہ میں نے لے رکھا ہے؟ میں نے اپنی سیڑھیاں دھلوائی ہیں، تمہیں صفائی کا شوق ہے ، تو خود کرو۔‘‘
کشور خالہ حیرت سے بہو کا منہ تک رہی تھیں… وہ جانتی تھیں کہ فی الوقت بہو کو سمجھانا آسان نہیں۔
’’اچھا صنوبر بیٹی! تم فکر نہ کرو، میں صفائی کروا دیتی ہوں… ویسے بھی پڑوسیوں کے بہت حقوق ہوتے ہیں۔ بلاوجہ چھوٹی سی بات پر تم دونوں جھگڑ رہی ہو۔‘‘
کشور خالہ سدا سے امن پسند اور صلح جو تھیں، چند لمحوں میں جھگڑا ختم کروا دیا۔
…٭…
کشور خالہ کا تعلق میانوالی کے گاؤں سے تھا… شوہر ڈاک خانے میں ملازم تھے۔ اللہ نے دو بیٹوں کی نعمت سے نوازا۔ بارہ جماعتیں پڑھ کے چھوٹے بیٹے صابر نے اپنے آبائی گاؤں میں دکان داری شروع کردی، جب کہ بڑے بیٹے اجمل نے لاہور میں ملازمت کی۔ دونوں بھائیوں کی شادی خالہ کی بیٹیوں رابعہ اور راشدہ سے ہوئی۔ دونوں بہنیں سلیقہ شعار اور نیک تھیں، بس رابعہ کی جلد غصہ کرنے کی عادت کی وجہ سے کبھی کبھار گھر میں کچھ بدمزگی ہوجاتی۔
والد کے انتقال کے بعد اجمل ضد کرکے ماں کو اپنے ساتھ شہر لے گیا لیکن کشور خالہ کا دل شہر کے شور اور ہنگامے سے جلد ہی بیزار ہونے لگا، اسی لیے کچھ عرصے بعد وہ میانوالی صابر کے پاس رہنے ضرور جاتیں۔
…٭…
ا
س روز تو معاملہ رفع دفع ہوگیا، پَر چند روز بھی نہ گزرے تھے کہ پھر سے نیا قضیہ کھڑا ہوگیا۔
کام والی ’شبو‘ نے بخار کی وجہ سے تین روز کی چھٹی کرلی… رابعہ کا پارہ پھر چڑھ گیا۔ چوتھے روز شبو بے چاری ہانپتی کانپتی پہنچی تو تین دن کی تنخواہ کاٹ کر بقایا روپے اس کے ہاتھ میں تھمائے اور نوکری سے نکال دیا۔
شبو ہاتھ پاؤں جوڑنے لگی… رمضان قریب ہے اور ایسے میں نیا کام ملنا بہت مشکل تھا، مگر رابعہ اپنی بات پر اڑی رہی۔
شبو کے رونے دھونے سے کشور خالہ کا دل ہولنے لگا ’’رابعہ بیٹی! جان بوجھ کر تو چھٹی نہیں کی اس نے۔ بیماری تو کسی کو بھی آسکتی ہے… معاف کردو غریب کو۔‘‘
’’امی جان! آپ نہیں جانتیں یہ سب اس کی ڈرامے بازیاں ہیں۔ یہ اچھی طرح جانتی ہے کہ میں رمضان سے پہلے بھرپور صفائیاں کرواتی ہوں اسی لیے کام سے جان چھڑانے کے لیے چھٹی کرلی۔‘‘
کشور خالہ لاکھ سمجھاتی رہیں، سب بے سود رہا، رابعہ نے اپنا فیصلہ تبدیل نہ کیا۔
شبو حقیقتاً بیمار تھی اور اسے پیسوں کی بھی سخت ضرورت تھی۔کشور خالہ نے چپکے سے اسے کچھ روپے اور دلاسا دے کر رخصت کردیا۔
…٭…
شام کی چائے پر سب جمع تھے۔ اجمل کو رمضان المبارک کی آمد کی وجہ سے ایک ماہ کی تنخواہ ایڈوانس دی گئی تھی۔ رابعہ بے حد خوش تھی۔
رمضان کے لیے راشن کی فہرست بنائی جا رہی تھی۔ انواع و اقسام کے مشروبات، کھجوریں، چٹنیاں، بیسن اور نہ جانے کیا کچھ…
کشور خالہ کے دل میں صبح والے واقعے کی چبھن اب بھی تھی… شبو کے آنسو انہیں بے چین کررہے تھے –
’’کیا بات ہے امی جان! آپ کیا سوچ رہی ہیں؟‘‘ رابعہ نے انہیں خاموش دیکھ کر پوچھا۔
کشور خالہ رابعہ کی تیز مزاجی کی وجہ سے بہت فکرمند تھیں، کہنے لگیں ’’میری بیٹی! بس افسوس ہورہا ہے کہ ہماری رمضان المبارک کی تیاریاں ادھوری رہ گئیں۔‘‘
رابعہ چونک کر بولی ’’نہیں امی جان! ایسا ہرگز نہیں، میں نے تو اپنی تیاری تقریباً مکمل کر بھی لی ہے۔ استقبالِ رمضان کے لیے گھر کا کونا کونا چمکا دیا۔ باورچی خانے کی ایک ایک برنی دھوکر خشک کرکے رکھ دی۔ الماریوں، اسٹور اور گیلریوں کا سامان ترتیب دے دیا، اور آج ہم سپر اسٹور سے ضرورت کا تمام راشن بھی لے آئیں گے۔‘‘
کشورخالہ ٹھنڈی آہ بھر کر بولیں ’’میری بیٹی! تم سے ایک بات پوچھوں… تم نے یہ سب کس لیے کیا؟‘‘
رابعہ ان کا سوال سن کر حیران ہوئی ’’امی جان! ظاہر ہے رحمتوں اور برکتوں والا ماہِ رمضان جو آنے والا ہے تاکہ بآسانی ہم روزے رکھیں۔‘‘
کشور خالہ بولیں ’’اور روزہ رکھنے کا کیا مقصد ہے؟‘‘
رابعہ ساس کے انوکھے سوالات پر کچھ الجھ رہی تھی ’’امی جان! یہ تو بچے بچے کو معلوم ہے… روزے ہم پر فرض ہیں اور ہم اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے یہ عبادت کرتے ہیں۔‘‘
’’میری بیٹی! اگر میں کہوں کہ اتنی مشقت والی عبادت کرنے کے بعد بھی ہم اللہ کی خوشنودی حاصل نہ کر پائیں گے، تو تم کیا کہو گی؟‘‘
رابعہ یہ سن کر پریشان سی ہوگئی ’’امی جان! صاف صاف بتائیں نا، کیا مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے…؟ آپ نے پہلے کبھی ایسی باتیں نہیں کیں۔‘‘
کشور خالہ نے بالآخر دل کی بات کہہ ڈالی ’’رابعہ بیٹی! تم سچ کہہ رہی ہو، تم نے پورا گھر چمکا ڈالا… کہیں کوئی میل کچیل نہیں چھوڑا، پَر اپنی پڑوسن سے ناراضی کا میل دل سے نہیں نکال پائیں۔ اللہ کی رضا تو دلوں سے کینہ نکال کر ایک دوسرے کو معاف کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ مسلمان کے لیے تین دن سے زیادہ ناراضی رکھنا جائز نہیں۔‘‘
رابعہ کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں… اسے چند دن پہلے صنوبر سے کیا اپنا جھگڑا یاد آگیا۔ سچ ہی تو کہہ رہی ہیں امی جان! صنوبر سے ذرا سی بات پر میں نے بات چیت بند کر رکھی ہے۔
وہ شرمندہ ہوکر بولی ’’امی جان! آپ نے درست کہا، رمضان المبارک کے آغاز سے پہلے ہی میں صنوبر سے صلح کرلوں گی… پتا نہیں کیوں مجھے اچانک بے انتہا غصہ آجاتا ہے۔‘‘
کشور خالہ نہایت شفقت سے بولیں ’’شاباش رابعہ بیٹی! اللہ پاک صلح میں پہل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ شیطان ہمیں اللہ کی رضا سے محروم رکھنے کے لیے بلاوجہ اشتعال دلاتا ہے۔ بس جب بھی غصہ آئے لاحول پڑھ لیا کرو۔‘‘
رابعہ نے اثبات میں گردن ہلائی۔
’’ایک اور بات بھی کہنا چاہتی ہوں بیٹی! اپنی ملازمہ شبو کو بھی معاف کردو… ان غریبوں کو رمضان میں ہمارے گھروں سے بڑی آس لگی ہوتی ہے۔‘‘
محبت اور حکمت سے سمجھائی بات رابعہ کے دل پر اثر کر گئی… اگلے روز نہ صرف اس نے شبو کی نوکری بحال کردی بلکہ اسے رمضان کا راشن بھی ہدیہ کردیا۔