میئر تو ہمارا ہی بنے گا

350

’’یہ کیا ڈرامے بازی ہے، گندے پانی کا مسئلہ حل کرنے کے بجائے پورے علاقے کا ہی پانی بند کردیا ہے! ہم بے وقوف نہیں جو تمہاری چالاکیوں میں آجائیں۔ ہر دوسری سڑک کھود کر کیا بتانا چاہتے ہو! پچھلے مہینے سے یہی رونا دھونا لگا ہوا ہے… کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے… انسانیت نام کی کوئی چیز ہے تم میں! کہاں ہے تمہارا صاحب جس نے یہ قیامت ڈھا رکھی ہے؟‘‘

’’آپ پریشان نہ ہوں، آپ کے مسئلے کے حل پر ہی کام کررہے ہیں، تھوڑا سا وقت دیں سب ٹھیک ہوجائے گا، یوں لڑنے جھگڑنے سے کیا حاصل ہوگا!‘‘

’’آواز بند کرو اپنی… ایک تو وقت مانگنے کا عجیب دور آگیا ہے، ہمارے حکمران ہوں یا کوئی ادارہ.. ہر کوئی بس یہی کہتا دکھائی دیتا ہے کہ تھوڑا سا وقت دے دو۔ ابھی گرمیاں آئی نہیں کہ علاقے میں پانی کی سپلائی بند کردی گئی ہے، پانی منقطع ہوئے ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے.. بجائے مسئلہ حل کرنے کے، باتیں بنا رہے ہو! اور کتنا وقت درکار ہے تم کو؟ خدا کا خوف کرو۔ گھروں میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے ٹینکر مافیا کے متھے لگنا پڑ رہا ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں ہزاروں روپے دے کر ٹینکر ڈلوانے پڑرہے ہیں، اور تم کہتے ہو کہ تھوڑا سا وقت دے دو…!‘‘

’’آپ تو خوامخواہ غصہ کررہے ہیں۔ دیکھیے یہاں پر بحث کرنے سے کوئی فائدہ نہیں، یقین جانیے آپ کا ہی کام ہورہا ہے، پانی کی سپلائی پیچھے سے ہی نہیں ہے، ہماری مجبوری ہے ہم کیا کریں! ہر دوسرا آدمی آکر ہم سے لڑنے کھڑا ہوجاتا ہے.. خدارا ہمیں کام کرنے دیں۔‘‘

’’کیا کام کررہے ہو؟ جب سے میں دیکھ رہا ہوں یہاں بیٹھے باتیں ہی کیے جارہے ہو، لوگ گھروں میں پیاسے مر رہے ہیں اور تم ہو کہ بات تک سننے کو تیار نہیں! تم سب لوگ کرپشن کرتے ہو، پورا محکمہ ہی کرپٹ ہوچکا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اگر میرے ہاتھ میں ہو تو میں تمہاری نوکریاں ختم کردوں۔‘‘

’’انکل جاؤ یہاں سے، ہماری جان چھوڑو، نہ جانے کہاں سے دماغ خراب کرنے آجاتے ہیں، ایسے لوگوں کی شکل دیکھ لو تو سارا دن ہی خراب گزرتا ہے، لگتا ہے آج بھی یہی ہوگا۔‘‘

’’اوئے ہوش کر ہوش، تمیز سے بات کر، تُو مجھے جانتا نہیں، تیرے جیسے سیکڑوں لوگ میں اپنی جیب میں لیے گھومتا ہوں، تیری اوقات ہی کیا ہے! لائن مین ہے تو لائن مین بن کر ہی رہ، زیادہ افسری نہ جھاڑ، ورنہ اچھا نہیں ہوگا، دو دو ٹکے کے لوگ ہیں زبانیں دیکھو ان کی، گز گز بھر کی بڑھا رکھی ہیں، اگر میں اپنی پر آگیا تو گدی سے زبان کھینچ کر تیرے ہاتھ میں دے دوں گا، تم سب چور ہو، سائیں سرکار کے کارندے ہو، تم کام کرنا نہیں چاہتے، تمہاری صوبائی حکومت نے اس شہر کو تباہ و برباد کردیا ہے، اگر کوئی شہر کی حالت درست کرنا چاہتا ہے تو اُسے کرنے نہیں دیتے، جماعت اسلامی بلدیاتی انتخابات جیت گئی ہے، اس کی نشستیں سب سے زیادہ ہیں، کراچی کی میئر شپ ان کا حق ہے، یہاں بھی سائیں سرکار رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ یاد رکھو میئر تو حافظ نعیم الرحمٰن ہی بنے گا، اور وہ جب آئے گا تو تم سب کو ٹھیک کرے گا، تم کچھ بھی کرلو میئر تو ہمارا ہی بنے گا۔“

’’انکل چھوڑیں، جانے دیں، غریب آدمی بے چارہ، اس کا کیا قصور ہے! یہ سارا بگاڑ تو اس محکمے کے افسران کا پھیلایا ہوا ہے، اس سے بحث کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔‘‘

’’ارے بیٹا تم ان کو نہیں جانتے، یہ بھی ملوث ہیں۔ سبھی چور ہیں۔ صنعتی علاقوں میں پانی کی سپلائی دے کر بھتہ یہی لوگ تو وصول کرتے ہیں۔ تم ان کو معصوم نہ سمجھو، یزیدی ہیں بے ایمان کہیں کے! جب بھی کوئی تہوار آتا ہے کسی نہ کسی بہانے سے پانی بند کردیتے ہیں۔“

’’یار اِن کو یہاں سے لے جا، ورنہ جھگڑا ہوجائے گا۔ دیکھ اب یہ ذاتیات پر اتر رہے ہیں، یہ اچھی بات نہیں، میں نے بھی چوڑیاں نہیں پہنی ہوئیں جو اِن کی باتیں سنتا رہوں،ہر شخص کی عزت ہوتی ہے، ان کے منہ میں جو آرہا ہے بولے چلے جارہے ہیں، بہت برداشت کرلیا، اب کچھ اور نہیں سنوں گا۔‘‘

’’چھوڑ بھائی جانے دے، عمر میں بڑے ہیں، ایسی بات نہ کر جس سے تیری ہی بدنامی ہو۔ تُو ان کی طرف توجہ نہ دے، اپنا کام کر۔‘‘

’’کیا خاک کام کروں! صبح سے ہی متھا پینے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں، میں عزت سے بات کیے جا رہا ہوں اور یہ اپنے آپ کو نہ جانے کیا سمجھ رہے ہیں!‘‘

’’تُو کیا کرے گا؟ تیرے جیسوں سے تو میں اکیلا ہی نمٹ لوں گا، تجھ میں ہمت ہے تو آ دیکھ تیرا کیا حال کرتا ہوں۔‘‘

’’انکل جاؤ ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔‘‘

’’ابے نہیں جاتا، کیا کر لے گا تُو؟‘‘

’’بتاؤں کیا کرسکتا ہوں؟‘‘

’’اوئے اوئے شرم کر، بزرگ ہیں۔ جائیں انکل آپ جائیں، میں دیکھ لیتا ہوں، میرا یقین کرو میں اس مسئلے کو ٹھیک کرواتا ہوں، آپ گھر جائیں۔‘‘

’’اچھا بیٹا تُو کہہ رہا ہے تو چلا جاتا ہوں، ورنہ آج میں اسے نہیں چھوڑتا۔‘‘

ناصر بھائی نے بیچ میں مداخلت کرکے لانڈھی 36 بی کی سڑک پر عنایت صاحب کا لائن مین سے ہونے والا جھگڑا تو ختم کروا دیا لیکن پانی کا مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ ہوتا بھی کیسے! بقول عنایت بھائی:اس محکمے کے سارے ہی لوگ کرپشن میں ملوث ہیں۔ بات تو ٹھیک ہی ہے وگرنہ کراچی کے مکینوں کو ہر آنے والے دن کے ساتھ پانی کی کمی کا یوں سامنا نہ کرنا پڑتا۔ ویسے تو یہ مسئلہ سارے ہی ملک کا ہے جس کی طرف کسی حکومت نے کبھی بھی سنجیدگی سے کوئی توجہ نہ دی۔ مسئلے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان پانی کی شدید قلّت سے دوچار ہوتا جارہا ہے۔ زرعی ملک ہونے کے ناتے پاکستان کے لیے بوند بوند پانی کی اہمیت ہے، لیکن بڑھتی ہوئی آبادی، شہروں کی طرف نقل مکانی، موسمیاتی تبدیلیوں اور حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں نے پاکستان کو پانی کی شدید قلّت کا شکار ممالک کی فہرست میں لاکھڑا کیا ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کے تین بڑے آبی ذخائر منگلا، تربیلا اور چشمہ ڈیم میں صرف 60 سے 90 دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت باقی رہ گئی ہے، حالانکہ عالمی معیار کے مطابق کم از کم ایک سو بیس دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ دوسری جانب ترقی یافتہ ممالک ایک سے دو سال کے لیے بآسانی پانی ذخیرہ کررہے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے پاس دو سو بیس دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے، جبکہ جنوبی افریقہ پانچ سو دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش رکھتا ہے۔ آسٹریلیا چھ سو دن، جبکہ امریکہ نو سو دن کا پانی ذخیرہ کررہا ہے۔ مصر ایک ہزار دن کا پانی صرف ایک دریائے نیل سے ذخیرہ کررہا ہے، مگر پاکستان میں دریاؤں کا بہ مشکل 10فیصد پانی ہی ذخیرہ ہوپاتا ہے۔ ملکی دریاؤں میں آنے والے پانی کا 28 ملین ہیکڑ فٹ سے زائد ضائع ہوکر سمندر میں چلا جاتا ہے۔ ہمارے دریاؤں میں 144ملین ہیکڑ فٹ پانی آتا ہے جس میں سے صرف 13.8 ملین ہیکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہوتا ہے، اور اگر کبھی بارشیں زیادہ ہوجائیں تو اضافی پانی ہمارے لیے سیلاب کی صورتِ حال پیدا کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں گزشتہ چند برسوں میں آنے والے سیلابوں سے اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے، جبکہ اس مرتبہ تو سیلاب نے وہ تباہی مچائی جس کی نظیر نہیں ملتی، جبکہ سیلاب متاثرین اب تک بے یارو مددگار پڑے ہیں۔

ماضی میں اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ورلڈ واٹر ڈے رپورٹ کے مطابق سیلاب سے متاثرہ ممالک میں پاکستان نویں نمبر پر تھا، جبکہ حالیہ سیلاب کی تباہ کاریاں بتا رہی ہیں کہ شاید اب پہلے نمبر پر ہو۔ اس کے علاوہ بھارت اور افغانستان کے ڈیم بنانے کے جاری منصوبے بھی پاکستان کے لیے خطرہ بنتے جارہے ہیں۔دنیا کی آبادی 1927ء میں صرف دو ارب تھی جو کہ 2011ء میں بڑھ کر سات ارب ہوچکی تھی، اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ 2050ء میں یہ آبادی 9.3 ارب تک پہنچ جائے گی، جس کے لیے صاف پانی کے مزید ذخائر کی ضرورت ہوگی۔ عالمی ادارۂ خوراک کے مطابق 2050ء تک آبادی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے خوراک کی پیداوار میں 70فیصد اضافہ ناگزیر ہوگا،جبکہ عالمی واٹر ریسورسز گروپ کے اندازوں کے مطابق تازہ اور صاف پانی کے ذخائر میں اضافہ ازحد ضروری ہے۔ اندیشہ ہے کہ 2025ء تک 3 ارب لوگ پانی جیسی نعمت کی کمی کا شکار ہوں گے جن میں ایشیائی اور افریقی ممالک کے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگی۔لہٰذا پاکستان 2030ء تک پانی کی شدید قلت کا شکار تیس ممالک کی فہرست میں شامل ہوسکتا ہے۔اس وقت پاکستان اس حوالے سے 36 ویں نمبر پر ہے۔ امریکی ادارے ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کے مطابق پاکستان میں 60 سال پہلے فی فرد سالانہ 50 لاکھ لیٹر پانی دستیاب تھا،جو کہ اب 5گنا کمی کے بعد فی فرد10 لاکھ لیٹر رہ گیا ہے۔اس کے باوجود افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں پانی ضائع کرنے والے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ اس کا سیدھا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم نے اپنی یہ روش برقرار رکھی اور حالات کی نزاکت کو نہ سمجھا تو 2025ء تک ہم اس فہرست میں پہلے نمبر پر آجائیں گے۔اب یہ مسئلہ کون حل کرے؟ اگر ہم کو زندگی معمول کے مطابق رواں دواں رکھنی ہے تو پینے کے صاف پانی کو بچانا ہوگا جس کے لیے پانی کے گھریلو، زرعی اور صنعتی استعمال میں سائنسی اندازِ فکر اپنانا ہوگا۔پانی کے دستیاب وسائل کی حفاظت کے ساتھ ساتھ بے ہنگم طور پر زیر زمین پانی کی نکاسی پر پابندی عائد کرنا ہوگی، کیونکہ ہمارے ہاں زیر زمین پانی نکالنے کا کوئی باضابطہ واصول موجود نہیں،جس کا جب جی چاہے زمین سے پانی نکال سکتا ہے۔ میٹھے پانی کے غیر انسانی استعمال سے متعلق بھی طریقہ کار طے کرنا ہوگا۔گاڑیوں اور گھروں کی غیر ضروری دھلائی پر مکمل پابندی عائد کرنا ہوگی۔صنعتی،زرعی اور گھروں کے سیوریج کے پانی کو میٹھے پانی میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے سپلائی لائنوں کو ٹھیک حالت میں رکھنا ہوگا، گٹر لائن سے ملنے اور رِسنے سے بچانا ہوگا۔زیادہ پانی استعمال کرنے والی فصلوں اور سیلابی پانی سے متعلق سخت قوانین بنانے ہوں گے اور ایسی فصلوں کی کاشت کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی جن میں پانی کم سے کم درکار ہوتا ہے۔فوری طور پر ایسے امور پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی جن کی وجہ سے بارش کے پانی سے کاشت کاری کی جاسکے۔ ہمارے ملک میں زرعی مقاصد کے لیے 70 فیصد سے 94 فیصد تک میٹھا پانی استعمال ہوتا ہے۔ جدید طرز اپنانے سے یہ شرح 50 فیصد تک آسکتی ہے۔سب سے زیادہ توجہ آلودگی کے خاتمے،موسمی تغیرات اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر دینا ہوگی تاکہ حد سے زیادہ بلند ہوتی سمندری سطح پر جلد از جلد قابو پایا جا سکے۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں پانی کے استعمال سے متعلق عوام کے رویوں میں بھی مثبت تبدیلی لانے کے لیے ہر سطح پر مؤثر اور بھرپور آگہی مہم چلانے کی بھی ضرورت ہے۔خاص طور پر دیامر بھاشا ڈیم سمیت دوسرے چھوٹے ڈیمز بنانے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرناہوں گے تاکہ جلد سے جلد ان منصوبوں کی تکمیل ہوسکے۔یقیناً ایسے اقدامات کو عملی جامہ پہنا کر ہی ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے قدرت کی اس نعمت اور بنیادی ضرورت پانی کو بچا سکتے ہیں، بصورتِ دیگر ملک کو خشک سالی سے بچانا ممکن نہیں۔ اب یہ ہمارے حکمرانوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنی ذاتی اَنا اور سیاسی جھگڑوں کو بالائے طاق رکھ کر کب عوامی مسائل کے حل پر توجہ دیتے ہیں۔

حصہ