رمضان کے خزانے

232

روزہ داروں کو ایسے خزانوں کا ہمیشہ اشتیاق رہتا ہے جنھیں وہ اپنی روزمرہ زندگی میں بالعموم اور رمضان میں بالخصوص پائیں اور اُن سے استفادہ کریں۔ یہ سونے چاندی کے خزانے نہیں، بلکہ خیرو رحمت کے خزانے ہیں۔ اللہ اپنے روزہ دار بندوں کو یہ خزانے رمضان میں عطا فرماتا ہے تاکہ وہ ہمیشہ ان کے کام آئیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ جہاں خزانے ہوتے ہیں، وہاں ان کی حفاظت کا بھی بندوبست ہوا کرتا ہے۔ یہ خزانے مقفل ہوتے ہیں اور چابیوں سے ہی ان خزانوں کے تالوں کو کھولا جا سکتا ہے۔ خیر و رحمت اور بخشش و برکت کے خزانوں کی چابیاں روزوں میں مخفی ہیں۔ جس نے یہ چابیاں دریافت کرلیں، وہ خزانوں کا مالک بن گیا۔ چابیاں پاس ہوں گی تو خزانوں کے تالے کھولنا مشکل نہ ہوگا۔

آئیے انھی خزانوں اور ان کی چابیوں کی کچھ بات کریں۔

پہلی کنجی۔ بـے بہا اجر: روزہ دار کو روزے کی جزا اور اس کے عظیم اجر کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔ اسے یہ اجرو ثواب حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یاد رہے کہ جس چیز کا اجر زیادہ ہوتا ہے، اس کے آداب بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فرزندِ آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے مگر روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ روزہ ایک ڈھال ہے۔ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ گالی گلوچ نہ کرے، نہ شور و شغب کرے۔ اگر کوئی اسے گالی دے یا اس سے لڑائی کرے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت میں محمد ؐکی جان ہے، روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے۔ جب وہ روزہ کھولتا ہے تو اپنی افطاری کرنے سے خوش ہوتا ہے، اور جب وہ اپنے پروردگار سے ملے تو اپنے روزے کی وجہ سے خوش ہوگا‘‘ (متفق علیہ)۔ یہ تو بخاری کی روایت تھی، جب کہ ہدایت میں یہ الفاظ ہیں: ’’وہ اپنی شہوتوں اور کھانے پینے کو میری خاطر چھوڑتا ہے‘‘۔

روزے کی جزا کے بارے میں ارشاد نبویؐ ہے: ’’جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے سب پہلے گناہ معاف کردیے گئے‘‘ (بخاری ومسلم)۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کو ایمان و احتساب کے ساتھ قائم کیا، اس کے پہلے گناہ معاف کردیے گئے‘‘ (مسلم)۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جنت میں ایک دروازہ ہے جسے الریان کہا جاتا ہے۔ اس دروازے سے قیامت کے روز روزہ دار داخل ہوں گے، روزہ داروں کے سوا اور کوئی اس میں سے داخل نہ ہوگا۔ کہا جائے گا: روزہ دار کہاں ہیں؟ چنانچہ روزہ دار کھڑے ہوں گے، وہی اس میں سے داخل ہوں گے۔ جب وہ داخل ہوجائیں گے تو یہ دروازہ بند کردیا جائے گا اور کوئی اور اس میں سے داخل نہ ہوپائے گا‘‘ (بخاری ومسلم)۔ ارشادِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو جکڑ دیا جاتاہے۔‘‘(بخاری ومسلم)

روزے کے اجر و ثواب کی فضیلت و عظمت کا احساس روزہ دار میں اس کے حصول کی جو خواہش پیدا کرتا ہے، یہ اسے محنت و کوشش پر آمادہ کرتی ہے۔ وہ اپنے تمام کاموں میں آدابِ شریعت کی پابندی کرتا ہے اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتا ہے۔

دوسری کنجی۔ تقویٰ: روزے کی غرض تقویٰ ہے۔ روزہ دار کو معلوم ہونا چاہیے کہ روزے اور تقویٰ میں کیا باہمی تعلق ہے؟

یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo (البقرۃ ۲:۱۸۳) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا ؑ کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔

تقویٰ کے آسان ترین معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسان کو وہاں نہ دیکھے، جہاں جانے سے اس نے منع فرمایا ہے، اور جہاں پر ہونے کا حکم دیا ہے وہاں اسے اِدھر اُدھر نہ پائے۔ تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ روزہ دار محتاط رہے کہ وہ کسی ایسی چیز کا مرتکب نہ ہو جس سے اس کی عبادت اور اخلاق تباہ ہوجائیں۔ انسان عبادت کے ضوابط اور اس کے آداب کی پابندی کرتا ہے تو وہ نافرمانی میں مبتلا ہونے سے بچ جاتا ہے۔ جب انسان اس احتیاط اور پرہیز کا عادی ہوجاتا ہے تو اس کی زندگی بہتر سے بہترین ہوجاتی ہے۔ پھر بھی اگر کہیں اس کے قدم پھسلتے ہیں تو وہ سچی توبہ کرکے خطا و گناہ میں مبتلا ہونے سے بچ جاتا ہے۔

جب انسان روزے کی حقیقت کو سمجھ لیتا ہے تو وہ تقویٰ کے حصول کے لیے سرگرم ہوجاتا ہے۔ محض کھانے پینے اور شہوت کی تکمیل سے بچنے کا نام روزہ نہیں ہے، بلکہ روزہ تو گناہ و معصیت کی تاریکی میں گرنے سے نفس کو بچانے اور پابندیوں کا عادی ہونے کا نام ہے۔ رسول اکرمؐ نے اسی حقیقت کو ان الفاظ ِ مبارکہ میں بیان فرمایا ہے: ’’جو شخص جھوٹی بات کہنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا تو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ یہ شخص اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘ (بخاری)

اگر تقویٰ کی چابی روزہ دار کے ہاتھ میں آجائے تو ایک اتنا بڑا خزانہ اُس کے ہاتھ لگے گا جو قیامت کے دن اُس کے نامۂ اعمال کو چمک دار اور روشن کردے گا۔

تیسری کنجی۔ تعمیرسیرت و کردار: اس بات پر غور کیجیے کہ روزے ’چند دنوں‘ کے کیوں ہیں؟ یعنی صرف ایک مہینہ۔ روزوں کا اس سے کم مدت کا پروگرام کیوں نہیں؟ اس غور وفکر سے روزہ دار روزوں کی غرض و غایت، یعنی تقویٰ کو جان لے گا۔ اس پر یہ حقیقت بھی منکشف ہوگی کہ عبادت کا انسانی ارادے سے گہرا تعلق ہے، یعنی انسان جن عبادات سے مانوس ہوتا ہے، انھیں چھوڑنا یا تبدیل کرنا دراصل انسانی ارادے پر منحصر ہے، اور اس کا عبادت سے گہرا تعلق ہے۔ وہ فجر سے لے کر مغرب تک اپنی تمام ضروریات کو ترک کردیتا ہے اور اپنی عادات میں تبدیلی لاتا ہے۔ عادات کو تبدیل کرنا ایک دشوار کام ہے۔ اس کی تربیت حاصل کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔ اسلامی شریعت میں انسانی ارادے کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ اس لیے کہ ارادے سے محروم شخص اپنی ذمہ داری اٹھانے سے قاصر ہوتا ہے۔ حضرت علیؓ نے انسانی ذمہ داری کو یوں بیان فرمایا ہے: ’’اللہ نے جبراً کسی کو مکلف نہیں کیا، انبیا ؑکو بلامقصد نہیں بھیجا، اس نے حکم دیا ہے اختیار کرنے کی آزادی کے ساتھ، نہی فرمائی ہے ڈراوے کے ساتھ‘‘۔

انسان اگر اپنی عادات کو بدل لیتا ہے اور انھیں بہترین صورت میں ڈھال لیتا ہے اور اپنے جس نادرست طرزِعمل کا عادی ہے، اسے چھوڑ کر درست طرزِعمل اپنا لیتا ہے تو یقیناً اس کے ہاتھوں میں خزانے کی کنجی آجاتی ہے۔ ہمارا ہر سال کا مشاہدہ ہے کہ لوگ رمضان کی پہلی تاریخ سے ہی اپنے آپ کو نئی تبدیلیوں کے لیے آمادہ کرلیتے ہیں۔ اگر ایک مسلمان اپنے روزوں کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ارادے کو خوب تر رخ پر ڈھالنے کی کوشش کرے تو اس میں بڑی انقلابی تبدیلی رونما ہوجاتی ہے۔

چوتھی کنجی۔ روزہ اور آسانی: اگرچہ روزہ دار سے بہت زیادہ اجرو ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے، پھر بھی اسلامی شریعت کی ایک نمایاں خصوصیت آسانی بہم پہنچانا ہے:

فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَط وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ (البقرۃ ۲:۱۸۴) اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو، یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے۔ اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں) تو وہ فدیہ دیں۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جب تم میں سے کوئی بھول جائے، پس کھا یا پی لے تو وہ اپنا روزہ مکمل کرے، اسے اللہ نے کھلایا یا پلایا ہے‘‘ (متفق علیہ)۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے: ’’بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کے وقت غسلِ جنابت کرتے اور روزہ رکھتے‘‘ (بخاری و مسلم)۔ روزوں کی آیات میں ہے:

اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمْ ط ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ ط عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَاعَنْکُمْ ج (البقرۃ ۲:۱۸۷)تمھارے لیے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیاہے۔ وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم اُن کے لیے لباس ہو۔ اللہ کو معلوم ہو گیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے، مگراُس نے تمھارا قصور معاف کر دیا اور تم سے درگزر فرمایا۔

آسانی مہیا کرنے سے انسان کو اطاعت و فرمانبرداری جاری رکھنے کی ترغیب ملتی ہے، نیز اسے اسلامی قانون سازی کی حقیقت جاننے کا بھی موقع ملتا ہے۔ روزے سزا نہیں ہیں بلکہ انسانی ارادے کی تربیت اور اطاعت کا عادی بنانے کا ذریعہ ہیں۔ انسان جب لوگوں کے ساتھ معاملہ کرے تو اسے بھی آسانی بہم پہنچانے کی فکر کرنا چاہیے کیونکہ روزوں سے اسے یہی تربیت ملتی ہے۔

پانچویں کنجی ۔ قرآن : رمضان نزولِ قرآن کا مہینہ ہے:

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ (البقرۃ۲:۱۸۵) رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے، اورایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔لہٰذا، اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآن انسانوں کی ہدایت کے لیے ہے اور اس ہدایت کے نزول کا زمانہ رمضان ہے۔ قرآن رمضان میں اترنا شروع ہوا۔ ترقی کا خواہاں اور روزہ دار قرآن ہی کی بدولت ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے۔ حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ اس کتاب کے ذریعے قوموں کو بلندی عطا فرماتا ہے اور اس کتاب (کو نظر انداز کرنے کی پاداش میں) پستی سے دوچار کر دیتا ہے۔‘‘ (مسلم)

کثرت سے تلاوت کیجیے، تدبر کیجیے۔ ہر حرف پڑھنے پر ایک نیکی ہے اور ایک نیکی دس گنا بڑھتی ہے۔ الف حرف ہے، لام حرف ہے اور میم حرف ہے جیسا کہ ترمذی میں ابن مسعودؓ سے مروی روایت میں ہے۔ حضرت عثمان بن عفانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تم لوگوں میں سے سب سے اچھاوہ ہے جو قرآن پڑھے اور پڑھائے‘‘ (بخاری)۔ غرضیکہ یہ کتاب دنیا و آخرت میں ترقی کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’صاحبِ قرآن سے کہا جائے گا: پڑھ اور ترقی کی منازل طے کرتا جا، اس طرح ٹھیر ٹھیر کر پڑھ جیسے کہ تُو دنیا میں ترتیل سے پڑھا کرتا تھا۔ تیری منزل وہ ہو گی، جہاں تُو آخری آیت پڑھے گا‘‘۔ (ترمذی، ابوداؤد)

بقیہ: رمضان کے خزانے/ڈاکٹر ابوزید عجمی
رمضان اور قرآن کے مابین تعلق روزہ دار کو اسی بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ اس کتاب کی ہدایت سے بہرہ یاب ہو، اور یوں وہ اس کتاب کو پڑھ کر، سمجھ کر، اسے سیکھ کر اور سکھا کر اور اس پر عمل کرکے ترقی و کمال سے ہم کنار ہو۔
چھٹی کنجی۔ قربِ الٰہی: روزوں کی آیات میں ان کے فرض ہونے کا تذکرہ ہے، نیز روزوں میں دی گئی آسانی کا بیان ہے۔ روزوں کے احکام کے دوران ہی ایک ایسی آیت ہے جو بعض حضرات کے نزدیک روزوں سے متعلق نہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ روزوں کے سیاق و سباق میں اس آیت کا وجود ایک عظیم حقیقت پر دلالت کررہا ہے مگر اس حقیقت کو جاننے کے لیے غور و فکر کی ضرورت ہے۔ وہ آیت یہ ہے:

وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْابِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَo (البقرۃ ۲:۱۸۶)اور اے نبیؐ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو انھیں بتا دو کہ میںاُن سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اُس کی پکار سنتا اورجواب دیتا ہوں۔ لہٰذاانھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں (یہ بات تم انھیں سنا دو) شاید کہ وہ راہِ راست پالیں۔

جو روزوں کے احکام کی پابندی کرتا ہے اور قرآن کی راہ نمائی سے استفادہ کرتا ہے وہ قربِ الٰہی کا مستحق ٹھیرتا ہے اور اللہ سبحانہٗ کی محبت کا اہل بن جاتا ہے۔ رمضان میں کثرت سے نوافل کی ادائیگی انسان کو اللہ کا محبوب بنا دیتی ہے۔ مشہور حدیث ِقدسی ہے: ’’بندہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا رہتا ہے، حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں‘‘۔

روزہ دار کے ہاتھ میں جب یہ چابی آجاتی ہے تو اسے دعا کی ضرورت و اہمیت کا احساس ہونے لگتا ہے۔ دعا عبادت ہے۔ انسان جب کثرت سے دعا کرتا ہے اور یوں اللہ سے اس کا رابطہ مضبوط ہو جاتا ہے تو وہ لامحالہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے، اس کے احکام کو قبول کرتا اور ان پر عمل کرتاہے۔ دعا اللہ کی پناہ میںآنا ہے، اللہ کو یاد کرنا ہے۔ اور جب بندہ اپنے پروردگار کو یاد کرتا ہے توربّ بھی اپنے بندے کو یاد فرماتا ہے۔ ارشاد ہے:

فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْ کُرْکُمْ وَاشْکُرُوْالِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ o(البقرۃ ۲:۱۵۲) لہٰذا تم مجھے یاد رکھو، میں تمھیں یاد رکھوں گا، اور میرا شکر ادا کرو کُفرانِ نعمت نہ کرو۔

روزہ دار فرائض و نوافل ادا کرکے، تمام نیک اعمال بجا لا کے قربِ الٰہی کا مستحق بنتا ہے، پھراللہ اسے اپنے قرب سے نوازتا ہے اور اس کی دعاؤں کو سنتا اور قبول فرماتا ہے۔

ان کنجیوں کی مدد سے روزہ دار کو موتیوں اور ہیروں سے بھرے خزانے مل سکتے ہیں۔ ان خزانوں کے منہ رمضان کے مہینے میں کھلتے ہیں، اور اس عہدوعمل کو تازہ رکھنے والوں پر رمضان کے بعد بھی کھلے ہی رہتے ہیں۔ روزہ دار اپنی دُنیوی زندگی کے لیے بھی ان سے بہت کچھ لے سکتا ہے اور یہیں سے آخرت کی دائمی زندگی کے لیے بہت کچھ پا سکتا ہے۔ گویا ان چابیوں کی مدد سے وہ تمام مراحل میں ترقی کرسکتا ہے اور ان خزانوں سے کافی حد تک فائدہ اٹھا سکتاہے۔ آئیے اب یہ دیکھیں کہ یہ خزانے ہیں کون کون سے؟

پرہیز کے خزانے

روزہ دار جب اطاعت ملحوظ رکھتا ہے، نافرمانی ترک کردیتا ہے، روزوں کے آداب کی پابندی کرتا ہے، اپنے ارادے کو قوی کرلیتا ہے، اسے عادات کی غلامی سے بچا لیتا ہے تو ان سب کاموں سے وہ روزوں کی فرضیت کا اصل مقصد، یعنی تقویٰ پا لیتا ہے۔ اس میں مشق و تربیت کے ذریعے برے کاموں سے بچنے اور دور رہنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ یوں اب وہ پرہیز و احتیاط کے خزانوں کا مالک بن جاتا ہے۔ وہ اس استعداد کی بدولت اپنے طرزعمل کو ہر خرابی سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس پر یہ حقیقت منکشف ہوجاتی ہے کہ انسان اپنے ارادے کو بروئے کار لاکر جب پابندیاں اختیار کرتا ہے، ہر قبیح و شر سے بچتا ہے تو اسے پرہیز کا خزانہ ملتا ہے۔ اللہ پر اس کا اعتماد بڑھتا ہے، خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے، پھر شیطان اس پر وار نہیں کرسکتا، وسوسہ اندازی کرکے اسے گمراہ نہیں کرسکتا۔ روزہ دار کو تقویٰ و پرہیز گاری کی دولت مل جاتی ہے، اور یہی دولتِ بے بہا انسان کو منکرات و شہوات اور گناہوں سے دور رکھتی ہے۔

ترقی کے خزانے

روزہ رکھنے اور راتوں کو قیام کرنے کا اجرو ثواب یقینی ہے۔ روزہ دار اجر و ثواب کا دنیا میں بھی منتظر رہتا ہے اور آخرت میں تو اجر و ثواب کی صورت میں جزا کا ملنا اس کے لیے یقینی ہے۔ معلوم ہوا کہ ثواب کی چابیوں کا تعلق قرأتِ قرآن، دعا، قیام، اعتکاف وغیرہ جیسے اعمال سے ہے۔ انھی چابیوں سے روزہ دار کو عظیم خزانہ ملتا ہے، یہ ہے ترقی کا خزانہ۔ اس لیے کہ جو شخص اللہ کی مہربانی و عنایت سے تقویٰ کی صفت سے بہرہ ور ہوجاتا ہے تو وہ ایمان کی مٹھاس سے آشنا ہوجاتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ اسے سب سے زیادہ محبوب ہوجاتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ تمام طاعات(فرض ہو یا نفل) کی پابندی کی جائے اور فرماںبرداری میں خوب کوشش کی جائے۔ یہ خزانہ نیک اعمال سے بھرپور ہے۔ تلاوتِ قرآن، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں رمضان میں خوب سخاوت، روزہ داروں کی افطاری کے انتظام، صلہ رحمی، یتیموں کا خیال رکھنا اور رمضان میں ہر طرح کی نفل عبادت زیادہ سے زیادہ کرنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا راستہ ہے۔

ان تمام کاموں سے روزہ دار ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے اور اللہ کی رضا کا حق دار بنتا ہے۔

حُبِّ الٰہی کے خزانے

جس شخص کو تقویٰ و پرہیزگاری کی نعمت اور اطاعتِ الٰہی میں ترقی کے مواقع ملے ہوں وہی اس بات کا حق دار ہے کہ اللہ کی عنایات کا بھی مستحق بنے۔ بندے پر اللہ کی سب سے بڑی عنایت محبت ہے۔ بندے کے لیے یہ بہت بڑی جزا ہے۔ حدیث میں ہے: ’’پس جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے مانگے تو اسے ضرور دوں گا، اور اگر مجھ سے پناہ مانگے تو ضرور اسے پناہ دوں گا‘‘۔

روزہ دار چاہتا ہے کہ اس نے قرآن سے جو تعلق قائم کیا ہے، اس کا اسے اجر ملے۔ وہ پورے مہینے میں لیلۃ القدر کا متلاشی رہا ہے، اسے اس رات کا نور ملے۔ اسے اعتکاف اور شب بیداری کا ثواب ملے۔ اسے آخری عشرے کی دوڑ دھوپ کا اجر حاصل ہو۔

روزہ دار چاہتا ہے کہ وہ جہنم سے آزادی پائے، اللہ اس کے روزے قبول کرے۔ یہ بات یہاں ملحوظ رہے کہ اللہ کے فضل کی یہ اُمید عمل، محنت اور جدوجہد کے بعد کی جارہی ہے۔ روزہ دار کو ملنے والے یہ خزانے رب کریم کے عطیے ہیں۔ یہ خزانے روزہ دار کے لیے زندگی بھر باعثِ تقویت رہیں گے۔ قبولیت ِدعا کے لیے بھی اسے انھی خزانوں پر بھروسا ہوگا، مگران تمام آرزوؤں کا انحصار عمل پر ہے۔ اس لیے ارشاد ہوا:

فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَo (البقرۃ۲: ۱۸۶) لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں (یہ بات تم انھیں سنادو) شاید کہ وہ راہِ راست پالیں۔

یا اللہ! ہمیں خزانوں کی کنجیاں عطا فرما۔
جب ہم رمضان کا مہینہ گزار لیں تو ہم تیرے فضل سے مالا مال ہوں۔
پھر ہم تیرے فضل و کرم سے ہمیشہ مالا مال رہیں۔
یا اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم رمضان کا احترام کریں۔
اس کی چابیاں اورخزانے ہمارے ہاتھ لگیں۔
ان چابیوں سے ہمیں اپنی ہدایت کے خزانے کھولنے کی توفیق عطا فرما دے۔آمین!

حصہ