کس نے کہا ہے کہ عورت ذات نازک ہے اور وہ مشکلات کا سامنا نہیں کر سکتی ہے لیکن اس نازک ذات پر اپنے رب کی طرف سے جب آزمائش آتی ہیے تو بڑی ہمت اور حوصلے سے اس کا سامنا کرتی ہے اور اپنی مشکلات کا واویلہ بھی نہیں کرتی… طیبہ (فرضی نام) بھی ایسی ہی خواتین میں میں شامل ہے۔ بظاہر ایک بڑی کوٹھی میں رہائش پذیر یہ خاتون ہنستی مسکراتی نظر آتی ہیں لیکن اس کے اندرونی حالات سن کر مجھے بڑا دکھ ہوا اسی لیےآپ سب سے بھی شیئر کرنے کو دل چاہا۔ طیبہ جو اس وقت تیس سال کی خاتون ہے اس نے اپنی زندگی کے وہ بہترین سال جب لڑکیاں اپنے گھر اور بچوں کے خواب دیکھتی ہیں اس نے وہ ماہ و سال اپنوں کے لیے وقف کر دیئے ہیں۔ تینوں بڑی بہنوں کی شادی تو والد نے دوران ملازمت خیر و خوبی سے کر دی۔ تینوں بیٹیاں خوشحال گھرانوں میں بیاہی گئیں اور خوش و خرم زندگی گزار نے لگیں باپ نے ان کی شادیوں میں تمام جمع پونجی خرچ کر ڈالی اب گھر میں ایک والدہ بہن، اور اپاہج بھائی اور طیبہ اس کے والد کی ذمہ داری تھے والد کی ریٹائرمنٹ کے بعد مجبوراً طیبہ نے بھی ملازمت کر لی تاکہ والد کا ہاتھ بٹا سکے سب کا بڑی کفایت شعاری سے گزارا ہو رہا تھا۔ بس سفید پوشی کا بھرم تھا گرچہ دونوں چچا اور دونوں ماموں بیرون ممالک انتہائی آسودہ زندگی گزار رہے تھے طیبہ کا وہ وقت جب لڑکیاں سنہرے سپنے دیکھتے ہوئے سسرال میں قدم رکھتی ہیں۔ اس نے وہ وقت بوڑھے بیمار والدین اور اپاہج بھائی کے لیے وقف کر دیئے والد کو اپنی بیٹی کی بڑی فکر تھی جس کی مانگ میں چاندی جھلکنے لگی تھی لیکن طیبہ ہر آنے والے رشتے کو ٹھکرا دیتی والد اور اپاہج بھائی کے انتقال کے بعد تو اس پر دہری ذمہ داریوں کا بوجھ بھی آپڑا ۔بیمار والدہ جیسے وہ اکیلا نہیں چھوڑ سکتی، گھر کو چلانے کے لیےکمانا بھی بے حد ضروری ہے اس لیے ملازمت چھوڑ کر گھر میں ٹیوشن سینٹر کھول لیا ہے اب چھوٹی بہن جو اسکول میں تدریس کا کام انجام دے رہی ہے اس کی تنخواہ بھی اس بہن کے جہیز کے لیے جمع کرتی جا رہی ہے۔ صرف ٹیوشن سینٹر سے گزارا اس مہنگائی کے دور میں ناممکن ہے لہٰذا اس نے محلے کے چند بچوں کو اسکول کےلیے پک اینڈ ڈراپ کا کام بھی شروع کر دیا ہے لیکن وہ اس کام کے لیے زیادہ وقت نہیں نکال سکتی کیوںکہ گھر میں بیمار والدہ ہے اس کی تمام ذمہ داری اسی کے کندھوں پر ہے یہاں تک کہ اسے باتھ روم تک لے جانے کی ذمہ داری طیبہ کی ہے۔ لیکن اس ساری صورت حال میں نہ دونوں ماموں اور نہ دونوں چچائوں اور نہ بہنوں کو ہی طیبہ کی فکر ہے نہ ہی یہ خوش حال اور آسودہ لوگ اس کی کسی قسم کی مالی مدد کررہے ہیں اور نہ ہی کسی کو اس کی شادی کی فکر ہے جبکہ طیبہ کو دوسری پریشانیوں کے ساتھ ساتھ اپنی چھوٹی بہن کی فکر بھی لاحق ہے کہ وہ جلد سے جلد اس کی کہیں اچھی جگہ شادی کروا دے کہ کہیں اس کی بھی شادی کی عمر نہ نکل جائے جبکہ بڑی بہن طیبہ کی شادی نہیں کرنا چاہتی کہ بوڑھی ماں کو کون سنبھالے گا۔
میں نے جب طیبہ کے حالات سنے تو مجھے بڑا افسوس ہوا کہ دین اسلام تو غیروں کے ساتھ بھی ہمدردی اور مدد کی تلقین کرتا ہے۔ لیکن یہاں اتنی بے حسی کیوں؟ رب العزت اس کی والدہ کو زندگی اور صحت دے لیکن جب بہن کی بھی شادی ہو جائے گی تو وہ بالکل تنہا رہ جائے گی…
مشکل حالات اور پریشانیوں میں خصوصاً اپنوں کا ساتھ ہو تو انسان کو تقویت محسوس ہوتی ہے وہ بڑی سے بڑی تکلیف بھی آسانی سے برداشت کر لیتا ہے ایسی حالت میں احباب کا توجہ سے دکھ اور تکلیف سن کر ان سے صرف چند ہمدردی کے بول بھی ان کے لیے بڑا سہارا ہوتے ہیں پھر ایک کمزور عورت جو ان سارے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کررہی ہے۔
دین اسلام کی تعلیمات سے تو یہ واضح ہے کہ یتیم اور مجبور خاتون کی تمام کفالت اور ذمہ داری اس کے رشتے داروں پر عائد ہوتی ہے اور ماموں اور چچا تو سب سے قریبی رشتے دار ہیں جو ایسی خواتین کا سہارا ہوتے ہیں دنیا میں ہر جگہ نا انصافی اور برائی نہیں ہمارے سامنے کچھ مثبت واقعات بھی نظر آتے ہیں جن کا تذکرہ نہ کرنا نا انصافی ہوگی… جی ہاں ریحانہ (فرضی نام) جو کہ ایک مظلوم اور مطلقہ خاتون ہیں اسے اس کے بہن بھائیوں نے زمانے کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا ہے بلکہ سب نے مل کر اس کے رہنے کے بندوبست کے ساتھ اس کے اور اس کے بچوں کے تعلیم وغیرہ کے اخراجات کے لیے مثبت اقدامات کیے ہیں ان بہن بھائیوں کی وجہ سے اسے بڑی تقویت حاصل ہوئی ہے اور اس کے دکھوں میں کمی آئی ہے اس کی بچیوں پر بھی نمایاں مثبت تبدیلیاں نظر آرہی ہیں انہیں بھی سر اٹھاکر جینے کا حوصلہ ملا ہے… اگر خدا نخواستہ ریحانہ کو اس کے بہن بھائی جو سب خود بھی بال بچوں والے ہیں اس بے بسی کی حالت میں چھوڑ دیتے تو اس مظلوم خاتون کی کیا حالت ہوتی اس کی بچیاں تو تعلیم سے بھی محروم رہ جاتی ہیں۔ بے شک میرا رب اپنے ایسے بندوں کی کسی نیکی کو ضائع نہیں کرے گا یہ تو میرے رب کا وعدہ ہے قرآن پاک میں جگہ جگہ اس بات کو بیان کیا گیا ہے۔ اگر ہم ان اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں تو یقیناً اپنے ساتھ ساتھ بہت سوں کا بھلا ہو سکتا ہے اور میرا تو یہ پختہ ایمان ہے کہ ایسی نیکی کرنے والوں کے لیے آخرت کا اجر تو یقیناً ہے لیکن دنیا میں بھی میرا رب انہیں کسی نہ کسی طرح نوازتا رہتا ہے (سبحان اللہ) ان شاء اللہ ایسے نیک لوگ جو دوسروں کو رب کی رضا کے لیے نوازتے ہیں اور صلہ رحمی کا حق ادا کرتے ہیں ان کے بارے میں ضرور لکھوں گی (ان شاء اللہ)
ان سطور کے ذریعے ایک بات ضرور کہوں گی کہ لوگ صرف دوسروں پر خرچ کرنے کے لیے زکوٰۃ ہی نکالتے ہیں اور کچھ تو اس میں بھی ڈنڈی مارتے ہیں یا نصاب سے کم نکالتے ہیں جبکہ اگر یہ صاحب حیثیت ایمانداری سے صرف زکوٰۃ ہی نکالیں تو ان کے غریب احباب کا ضرور مسئلہ حل ہو جائے پھر اہل ایال اور رشتہ داروں کو ’’ہدیہ‘‘ کے ذریعے بھی نوازا جاتا ہے اسے بھی میرا رب پسند کرتا ہے۔
اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ …اور خرچ کیا کرو اللہ کی راہ میں… اس ارشاد ربانی سے واضح ہے کہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی اللہ کے نام پر جہاں شرعی ضرورت ہو خرچ کرنا چاہیے۔
اللہ خود ایسے خرچ کرنے والوں کو اجر عطا فرماتا ہے ارشاد ربانی ہے کہ ’’اور جو کچھ چھوٹا بڑا انہوں نے خرچ کیا اور جتنے میدان ان کو طے کرنے پڑے، یہ سب ان کے نام (نیکیوں میں) لکھا گیا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے سب کاموں کا اچھے سے اچھا بدلہ دے…
میرا رب تو چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی ضائع نہیں کرتا۔ جیساکہ اللہ کے حبیبؐ نے فرمایا کہ ’’کسی قسم کی نیکی کو حقیر نہ سمجھو، خواہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملو۔پھر ان مذکورہ بالا قسم کے رشتہ داروں کو نوازنے سے تو میرا رب دہرا اجر دے گا۔ سبحان اللہ… اللہ رب العزت ہمیں احکامات لٰہی کی پیروی کی توفیق عطا فرماے (آمین)