اسکول کی چھٹیاں ہوئیں تو والد صاحب نے اپنے چھوٹے بھائی کے گاؤں جانے کا پروگرام بنا لیا۔ ہمارے والد صاحب کے چھوٹے بھائی بہت دلچسپ انسان تھے۔ تقریباً دو مربے رقبے کے مالک تھے۔ رقبے پر زیادہ تر گنا کاشت ہوتا تھا جس سے مناسب آمدنی ہو جایا کرتی تھی۔ کیونکہ بہت بااخلاق اور ملنسار تھے اس لئے ان کے پاس کام کرنے والے جتنے بھی افراد تھے وہ ان سے بہت خوش تھے۔ آس پاس کی زمینوں پر جو لوگ آباد تھے وہ بھی ان کے اخلاق سے بہت متاثر تھے اور کسی بھی قسم کی مشکل صورتِ حال میں اُن سے مشورہ ضرور کرتے تھے۔ دور و نزدیک کوئی بہت بڑا زمیدار نہیں تھا سب ہی مربے دو مربے زمین سے بڑا کاشت کار نہیں تھا۔ بہت سارے زمینداروں نے آس پاس کے چھوٹے شہروں میں اپنے اپنے گھر والوں کو رکھا ہوا تھا لیکن ہمارے چچا کو کھیت کھلیان کے ماحول میں ہی رہنا پسند تھا۔ شور و شر سے محفوظ ماحول، نہری اور چاہی پانی کی فراوانی، تازہ ہوا و فضا اور ہردم زمینوں پر کاشت ہونے والی تازہ تازہ سبزیاں اور چند پھل دار درختوں سے حاصل ہونے والے پھلوں کی تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ ہمارے چھوٹے بڑے عم زاد بھائی بہن جو اسکول جایا کرتے تھے ان کے لیے گھر میں ایک مضبوط سے چیپ ہردم تیار رہتی تھی جو اور بہت سارے کاموں میں بھی استعمال میں آتی تھی۔ کاشتکاری کے ہر قسم کے آلات اور مشینری رقبے پر ہی موجود تھی جس کی وجہ سے نہ تو زمین پر رہائش کوئی مسئلہ تھی اور نہ ہی فصل اگانے یا ان کو کاٹنے میں کسی قسم کی کوئی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
بے شک جمال اور کمال کا شہر بہت بڑے شہروں میں تو شمار نہیں ہوتا تھا لیکن دل میں شہر سے باہر کسی کھلی ہوا و فضا میں دن گزارنے کی خواہش ضرور جنم لیتی رہتی تھی۔ جب جمال اور کمال کے والد نے ان کو یہ خبر دی کہ وہ ایک ہفتے کے لیے اپنے چھوٹے بھائی کے گھر جاکر قیام کرنا چاہتے ہیں تو حقیقتاً وہ دونوں بہت خوش ہوئے۔ گھر سے روانہ ہونے لگے تو انسپکٹر حیدر علی نے دونوں کو بلا کر کہا کہ تم واقعی بہت اچھی جگہ جا رہے ہو۔ وہاں جو تھانا لگتا ہے وہاں میرے بہت اچھے دوست ایس ایچ او ہیں۔ ان کا نام لہر اسپ ہے۔ تمہاری ذہانت کی باتیں ان کے علم میں بھی ہیں مجھے یقین ہے کہ وہ تم سے مل کر بہت خوش ہونگے۔ تمہارے جو چچا وہاں رہتے ہیں، ان سے وہ اچھی طرح واقف ہیں اس لئے اگر وہ تم سے یا تم ان سے ملنا چاہو گے تو کوئی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جو انسان جس چیز میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے وہ چیز اس کا تعاقب ضرور کرتی ہے۔ جمال اور کمال کیونکہ کھوج لگانے یعنی جاسوسی کرنے میں قدرتی طور پر بہت زیادہ دلچسپی رکھتے تھے اس لئے وہ جہاں بھی جاتے کوئی نہ کوئی موضوع ایسا ضرور چھڑ جاتا جو ان کے تجسس کو ضرور بڑھاوا دیا کرتا تھا۔ چچا کے گھر میں اس وقت جو بات موضوعِ گفتگو تھی وہ چوری کی وارداتوں کے حوالے سے تھی۔ وہ جمال اور کمال کے والد صاحب سے کہہ رہے تھے کہ ہمارا علاقہ چوری چکاری کے لحاظ سے بالکل ہی پُر سکون علاقہ تھا۔ ہم لوگ برسوں سے یہاں آباد ہیں لیکن ہم نے کبھی کسی گھر سے یہ شکایت نہیں سنی تھی کہ ان کے گھر کوئی چوری یا ڈکیتی بھی ہوئی ہو۔لیکن گزشتہ ہفتے کے دوران آس پاس دو وارداتیں ہو چکی ہیں۔ ایک واردات میں کچھ مال مویشی چرانے کی واردات ہوئی اور ایک اور واردات میں میں چور گھر کے اندر سے کچھ نقدی اور زیورات چرانے میں کامیاب ہو گئے۔ علاقے والے بہت پریشان ہیں اور اب اکثر گھروں میں کوئی نہ کوئی ایک فرد اس بات پر مامور رہتا ہے کہ وہ رات بھر جاگ کر گھر کی نگرانی کرے۔ یہ سب باتیں جمال اور کمال کے لیے قدرتی طور پر بہت دلچسپی کی باتیں تھیں۔ انھوں نے اپنے چچا زاد بھائیوں سے پوچھا کہ کیا یہ وارداتیں تمہارے آس پاس کے گھروں میں ہوئی ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ ایسا ہی ہے۔ جن دو گھروں میں ایسی وارداتیں ہوچکی ہیں وہ ہمارے گھر سے دور نہیں۔ ہمارے والد صاحب سے ان دونوں گھر والوں کے بہت اچھے مراسم ہیں۔ وہ سب سے پہلے والد صاحب ہی کے پاس آئے تھے۔ والد صاحب نے ان کے ساتھ جاکر تھانے میں رپورٹ بھی درج کرائی تھی۔ شاید تمہیں معلوم ہو کہ یہاں کے ایس ایچ او جن کا نام لہر اسپ ہے، ان سے میرے والد صاحب کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ وہ جب سے چوروں کی تلاش میں ہیں۔ ایس ایچ او لہر اسپ کا نام سن کر جمال اور کمال کو یاد آیا کہ ان کے علاقے کے انسپکٹر حیدر علی نے بھی انھیں یہی نام بتایا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ وہ تمہیں یعنی جمال اور کمال کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور ان کی ذہانت کے متعلق سن کر انھیں بہت اشتیاق ہے کہ وہ ان دو بچوں سے ملا قات کریں۔ جمال اور کمال نے اپنے عم زاد یعنی چچا زاد بھائیوں سے کہا کہ کیا وہ انھیں ان دو گھروں کے آس پاس کا علاقہ دکھا سکتے ہیں۔ ان کے چچا زاد بھائیوں نے کہا کہ کیوں نہیں، اب تو رات ہو چکی ہے جب وہ کل نمازِ فجر کے بعد سیر کے لیے نکلیں گے تو ان دونوں گھروں کے آس پاس کا علاقہ بھی دکھا دیں گے۔
اگلی صبح جمال اور کمال اور ان کے دو چچا زاد بھائی جب فجر کی نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکلے تو ان کے چچا زاد بھائیوں نے کہا کہ آؤ اب ہم تمہیں ان ڈیروں کے آس پاس کا علاقہ دکھاتے ہیں جن گھروں میں چوری کی وارداتیں ہوئیں۔ جب جمال اور کمال ان گھروں کے آس پاس سے گزرے تو جمال اور کمال ایک ایک بات پر بہت زیادہ توجہ اور غور کرتے جا رہے تھے۔ ایک ڈیرے کے بعد جب وہ دوسرے ڈیرے کے قریب سے گزرے تو انھیں دونوں جگہ کچھ ایسی نشانیاں نظر آئیں جو ایک دوسرے سے مماثلت رکھتی تھیں۔ یہ مماثلتیں اتفاق بھی ہو سکتی تھیں اور معمول کی بات بھی لیکن پھر بھی جاسوسی کی رگ انھیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہی تھی۔ یہ سب باتیں انھوں نے اس خاموشی اور غیر محسوس طریقے سے نوٹ کیں کہ ان کے چچا زاد بھائیوں کو کسی قسم کا کوئی گمان بھی نہ گزر سکا۔ گھر واپس آکر جب جمال اور کمال کو تنہائی میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا تو دونوں نے ایک دوسرے کو معنی خیز انداز میں دیکھا۔ ان دونوں میں اتنی ذہنی ہم آہنگی تھی کہ وہ ایک دوسرے کو بتائے بغیر بھی ایک دوسرے کی ہر بات کو سمجھ جایا کرتے تھے۔ جمال اور کمال دونوں نے ہی کہا کہ بات تو غور طلب ہے لیکن ابھی آخری نتیجہ نکالنا قبل از وقت ہی ہوگا۔ ابھی ہم اس پر مزید بھی غور کرتے ہیں اور نمازِ ظہر کے بعد ایک مرتبہ پھر ہم اور تم جاکر اس مسئلے کا مزید جائزہ لے کر آئیں گے اور پھر سوچیں گے کہ ہمیں کیا نتیجہ نکالنا چاہیے۔ (جاری ہے)