معروف اینکر قیصر وجدی قادرالکلام شاعر بھی ہیں‘ ان کے دو شعری مجموعے ’’وجد‘‘ اور ’’لہجہ‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ انہوں نے پاکستان اور بیرون پاکستان لاتعداد مشاعرے پڑھے ہیں۔ جسارت کے لیے ان سے انٹرویو کیا گیا جو کہ قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
جسارت میگزین: علمِ عروض کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟
قیصر وجدی: عروض اس علم کا نام ہے جس سے اوزانِ اشعار کا اندازہ لگایا جاتا ہے ہر شاعر کو علم عروض کا سیکھنا ضروری ہے تاہم یہ علم سیکھنے کے بعد آدمی شاعر نہیں بن جاتا بلکہ شاعری ودیعت الٰہی ہے۔ ہمارے ملک میں رائج بہت سے تعلیمی نصاب میں علم عروض شامل ہے۔ جن شعرا کو علم عروض نہیں آتا وہ گنگنا کر عر کو وزن میں کر لیتے ہیں۔ میری رائے میں علم عروض سکھانے کے لیے معتبر اداروں کو آگے آنا چاہیے اور کلاسز کا اہتمام کرنا چاہیے۔
جسارت میگزین: آج کے زمانے میں تنقید کا معیار کیا ہے کیا آج کے نقاد اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں؟
قیصر وجدی: تنقید کی روایت کمزور ہوتی جا رہی ہے‘ اب تنقید کا مطلب کسی فن پارے کی توصیف کرنا ہے سچی اور کھری تنقید نہیں ہو رہی۔ تنقید کے معروضی اصولوں سے رُو گردانی کی جا رہی ہے۔
جسارت میگزین: اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے جو حکومتی ادارے قائم ہیں کیا وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں؟
قیصر وجدی: میں سمجھتا ہوں کہ یہ ادارے ایک چوتھائی ایمان داری سے بھی کام نہیں کر رہے ہیں ان اداروں کے معاملات پر تحفظات ہیں‘ ان اداروں سے جینوئن قلم کاروں کی حوصلہ شکنی کا سلسلہ جاری ہے انجمن ستائش باہمی کی بنیاد پر کام ہو رہا ہے یہ ادارے اپنے من پسند قلم کاروں کو پروموٹ کر رہے ہیں۔
جسارت میگزین: انسانی زندگی اور سماج پر شاعری کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں‘ نیز آپ کا نظریۂ ادب کیا ہے؟
قیصر وجدی: ادب کا سب سے بڑا موضوع انسانی زندگی اور کائنات ہے۔ ادب کسی کی ہدایت کے مطابق نہیں لکھوایا جاتا‘ ادب تو زندگی سے جڑا ہوا ہے۔ شاعری کے اثرات معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیںلیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ صرف شاعری سے اچھا معاشرہ تشکیل پاتا ہے معاشرے کو اچھا بنانے میں اور بھی عوامل شامل ہیں۔ شاعری میں زندگی کے تلخ و شیریں حقائق لکھے جاتے ہیں‘ زمینی حقائق سے جڑی شاعری زندہ رہتی ہے۔
جسارت میگزین: اردو ادب میں نثری نظم کی کیا حیثیت ہے‘ کیا نثری نظم کا کوئی رول ماڈل ہمارے سامنے ہے؟
قیصر وجدی: ردیف اور قافیے کے ملاپ سے شاعری میں غنائیت پیدا ہوتی ہے جب کہ نثری نظم ان قواعد سے آزاد ہے۔ نثری نظم کو شاعری کہنا ظلم ہے۔ نثری نظم کا تجربہ ناکام ہو چکا ہے۔ چند سہل پسند لوگ نثری نظم کی طرف آئے اور اپنی موت آپ مر گئے اب نثری نظم کا کوئی رول ماڈل نہیں ہے‘ کوئی نثری نظم زندہ نہیں ہے۔
جسارت میگزین: وہ کیا اسباب ہیں کہ کتب بینی کا ادارہ کمزور ہورہا ہے؟
قیصر وجدی: کتب بینی کا رجحان پاکستان میں بھی بھی باعثِ فخر نہیں رہا ہے مگر میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ کمپیوٹر کے آنے سے قبل ہر محلے میں چھوٹی چھوٹی لائبریریاں ہوتی تھیں جہاں سے ہم کہانی کی کتابیں کرائے پر حاصل کیا کرتے ھے۔ جوان خواتین و مرد ڈائجسٹ یا ناول وغیرہ کرائے پر لے پڑھتے تھے۔ اب ہمارے معاشرے سے لائبریری کلچر ختم ہو چکا ہے۔
جسارت میگزین: اردو زبان ابھی تک سرکاری زبان کیوں نہیں بن پائی‘ اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
قیصر وجدی: ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے لوگوں کی زبان اردو ہے لیکن یہ زبان پاکستان میں رابطے کی زبان ہے۔ ہر قوم اور ہر قبیلہ اس زبان کو بولتا اور سمجھتا ہے۔ عدالتی ریمارکس کے باوجود اردو ابھی تک سرکاری زبان نہیں بن پائی اس کی بنیادی وجہ بیورو کریسی ہے۔
جسارت میگزین: رثائی ادب کے بارے میں آپ کے کیا نظریات ہیں‘ برصغیر پاک و ہند میں رثائی ادب کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالیے گا؟
قیصر وجدی: واقعۂ کربلا نے شعری دنیا کو نئے موضوعات سے نوازا ہے۔ کربلا کے تاریخی واقعہ نے اندھیرے اور اجالے کے فرق کو واضح کیا ہے۔ رثائی ادب نے ہر معاشرے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے آپ کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ آپ حسینی ہے یا یزیدی۔ رثائی ادب کے استعارے اور تشبیہات حقائق پر مبنی ہیں۔ میر انیس نے رثائی ادب میں نمایاں مقام پایا ہے میں سمجھتا ہوں کہ میر تقی میر خدائے سخن نہیں تھے بلکہ میر انیس خدائے سخن تھے۔
جسارت میگزین: ترقی پسند تحریک نے اردو ادب پر کیا اثرات مرتب کیے؟
قیصر وجدی: 1936ء میں جب ترقی پسند تحریک کا باقاعدہ آغاز ہوا تو پریم چند‘ مولوی عبدالحق‘ مولانا حسرت موہانی اور ٹیگور جیسے قدر آور قلم کاروں نے اس تحریک کا پرجوش خیر مقدم کیا۔ لکھنؤ کو ترقی پسند تحریک میں مرکزی حیثیت حاصل تھی‘ ترقی پسند تحریک کے پہلے ادب میں گل و بلبل کے افسانے لکھے جا رہے تھے۔ اس تحریک نے ادب کو نئے مضامین‘ نئے استعارے دیے اور زمینی حقائق پر بات ہونے لگی۔ ہر شاعر اپنے اردگرد کے ماحول کو لکھنے لگا‘ معاشرتی مسائل شاعری کا حصہ بن گئے۔ مسلمانوں پر جو ظلم ہو رہا تھا ترقی پسند تحریک نے ان مظالم کو شاعری میں ڈھالا اور مزاحمتی شاعری کا بول بالا ہوا۔ اس تحریک نے حقیقت نگاری پر زر دیا۔ نظم نگاری بھی ترقی پسند تحریک ایک کارنامہ ہے۔ موضعاتی نظمیں لکھی گئیں۔ ترقی پسند تحریک سے انجمن ترقی پسند مصنفین کا آغاز ہوا جس کے تحت تنقیدی نشستوں ترتیب دی گئیں۔
جسارت میگزین: ادبی گروہ بندیوں سے نقصان ہو رہا ہے یا کچھ فوائد بھی ہیں؟
قیصر وجدی: ادبی گروہ بندیوں نے نقصان زیادہ پہنچایا ہے فائدہ کم ہوا ہے۔ استاد شعرا نے اپنے اپنے گروپ بنا لیے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں‘ ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملے کر رہے ہیں ادب سے گروہ بندیوں کا خاتمہ ضروری ہے ورنہ آنے والا وقت ہمیں معاف نہیں کرے گا۔
جسارت میگزین: کیا آپ شاعری میں اپنے استاد بتانا پسند کریں گے؟
قیصر وجدی: مجھے یاد ہے کہ امریکا‘ کینیڈا‘ برطانیہ یا دیگر ممالک میں جہاں جہاں میرا جانا ہوا اور میرے انٹرویوز ہوئے ہیں میں نے جون ایلیا کا ذکر کیا ہے میں ان کی بدولت اس مقام تک آیا ہوں وہ میرے استاد تھے البتہ میں نے شکیل عادل زادہ سے بھی زبان و بیان سیکھا ہے۔ میںوسیع المطالعہ شخص ہوں اچھی تحریروں سے بھی سیکھتا رہتا ہوں۔
جسارت میگزین: کیا مزاحمتی ادب کو تخلیقی ادب کا نام دے سکتے ہیں۔
قیصر وجدی: مزاحمتی ادب ولی دکنی کے زمانے سے لکھا جا رہا ہے میر تقی میر اور غالب کے کلام میں بھی ایسے اشعار موجود ہیں جس میں انہوں نے اس وقت کے مروجہ نظامِ معاشرت اور نظام معیشت پر احتجاج کیا تھا۔ بیسویں صدی سے مزاحمتی ادب لکھا جا رہا ہے۔ علامہ اقبال‘ جوش ملیح آبادی اور مولانا ظفر علی خان کے یہاںبھی مزاحمتی شاعری ملتی ہے مزاحمتی شاعری کی دو اقسام ہیں ایک ہنگامی شاعری جو ایک خاص وقت کے لیے ہوتی ہے جیسے مولانا ظفر علی خان کی شاعری تھی دوسری شاعری خاص ادوار پر مشتمل ہوتی ہے جو ہمیشہ زندہ رہتی ہے جیسے حبیب جالب کی مزاحمتی شاعری‘ مزاحمتی ادب کا زیادہ شہرہ قیام پاکستان کی تحریک کے زمانے میں سامنے آیا۔ قیام پاکستان میں مزاحمتی شاعری کا بہت عمل ہے آج کے زمانے میں بھی مزاحمتی شاعری ہو رہی ہے۔