کسی بھی قوم کی سوچ ہی اُس کی اخلاقی حالت کا پتا دیتی ہے۔ چند دن قبل ایک شادی میں جانے کا اتفاق ہوا، جہاں بظاہر پڑھی لکھی اور جدید تراش خراش کا لباس زیب تن کی ہوئی چند خواتین کے خیالات جان کر شدید صدمہ ہوا، وہ خواتین اپنی بہوؤں کو پاؤں کی جوتی سے زیادہ کا درجہ دینے پر کسی طور تیار نہیں۔ اس جدید دور میں بھی اس قسم کا جاہلانہ رویہ ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے۔
اس دنیا میں خالقِ کائنات نے اگر عورت اور مرد کو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بنایا تو اس میں اُس کی بے پناہ حکمت کارفرما تھی۔ عورت اس کرۂ ارض کی وہ ہستی ہے جس کا معاشرے میں مرکزی کردار رہا ہے، معاشرے کی تعمیر میں مرد کے ساتھ عورت کا وجود لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتا ہے، جسے خداوندِ قدوس نے آدم کی تنہائی دور کرنے کے لیے بطور خاص ساتھی پیدا کیا، اور پھر جنت سے اس دھرتی پہ اتارکر انسانی تخلیق کا باعث بنایا۔
مغربی تہذیب نے عورت کو آزادی کے نام پر بے حیائی اور عریانی کا تاج پہنایا ہے، جبکہ اسلام میں عورت سمندر کے اُس موتی کی طرح محفوظ اور قیمتی ہے جو سیپی میں بند ہوتا ہے۔
ماں کی حیثیت سے اسلام نے عورت کے قدموں تلے جنت رکھ دی۔ ماں کی خدمت کو جہاد پر فوقیت دی۔ بیوی کی صورت میں اسلام نے اسے گھر کا حکمران، شوہر کی کھیتی اور ٹھنڈک بنادیا اور اسے اُن حقوق سے آراستہ کیا جن کی وہ مستحق تھی۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ گھریلو کاموں میں تعاون کرکے قیامت تک کے لیے عورت کو معتبر کردیا۔
بیٹی کی صورت میں گھر کی رحمت بناکر تین بیٹیوں کی پرورش اور نگہداشت کو حج پر فوقیت دی۔ بہن کی صورت میں اس کو وراثت میں حصہ دیا۔
یورپ نے انسانیت کی تمام حدود پھلانگ کر زنا، بدکاری اور بے راہ روی کی بدترین بنیادوں پر معاشرہ تشکیل دیا۔ سنیما گھر، ڈش اور کیبل نیٹ ورک سسٹم سے شیطانیت کا جال بچھاکر عزت دار خاندانوں کو ذلت آمیز انجام سے دوچار کیا۔ مخلوط تعلیمی نظام کے ذریعے ننھی کونپلوں کو تاریکی میں دھکیلا۔
اسلام کی روشنی نے اس کا توڑ کر ڈالا، حجاب کی برکت نے صنفِ نازک کو حیا کے آنچل میں سمیٹ کر عفت و عصمت کے آبگینوں کی حفاظت کا اہتمام کیا۔ اسلام کے احسان نے عورت کی انسانی حیثیت کو آدمیت اور انسانیت میں ناقص نہیں بلکہ کامل و اکمل بنادیا۔
آزادی کے لالچ میں دورِ حاضر کے فتنہ پرور عناصر لبرلزم اور سوشلزم کے تحت عورت کو پستی کی دلدل میں دھکیلا جا رہا ہے۔ اس کے خاطر خواہ نقصانات خود مغربی ممالک کو ہیں، بظاہر ترقی یافتہ کہلانے والی قوموں کے پاس کوئی خاندانی نظام متعین نہیں ہے۔
نبیؐ نے فرمایا ’’عورت اپنے گھر کی حکمران ہے اور اپنے عمل کے دائرے میں جواب دہ ہے۔‘‘
وہ فطرتاً نرم خو اور مہربان بنائی گئی ہے، اپنے بچوں کے لیے عمر کی ساری نقدی لگا دینے والی عورت نسلِ انسانی کا دامن وسیع کرتی ہے اور اس کے ساتھ اس پروان چڑھتی نسل میں خدا کی وحدانیت کا عشق گھول دیتی ہے۔
عورت کے کردار کو جانچا جائے تو ہم ایک تاریخی کردار سلطان صلاح الدین ایوبی کی بہن ربیعہ کو دیکھتے ہیں۔ ایک دین دار اور فاضلہ خاتون، جنہوں نے اپنی زیر نگرانی دمشق کے مقام جبل قاسیون میں ایک عظیم الشان مدرسہ بنوایا اور اس کے لیے اپنی جائداد وقف کردی۔ یہ مدرسہ آج بھی قائم ہے۔
غزوۂ خندق میں نبی ؐ کے ساتھ حضرت صفیہؓ کی بہادری قابلِ قدر ہے۔ ام المومنین کی زندگی عورت کی مایہ ناز صلاحیتوں کی عملی تفسیر ہے۔ نبوی معاشرے کے اس تابناک حسن نے بلاشبہ رہتی دنیا تک اپنی روشنی ہر گزرتی صدی تک جاوداں کردی ہے۔