روزانہ کھڑکی سے جب بعد نماز فجر کچھ بزرگ سامنے پارک کی ہری بھری گھاس پر بھرپور ورزش کرتے نظر آتے ہیں تو یہ ایک منفرد اور دلکش منظر ہوتا ہے۔ یہ لوگ نوجوانوں کی طرح بھاگنے اور ہاتھ پیر اوپر نیچے کرکے تمام ورزشیں اپنے انسٹرکٹر کی ہدایت کے ساتھ کرتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ وزن کم ہونا چاہیے اور موٹاپے سے بچنا چاہیے۔ یہ معاشرے کے بہترین لوگ ہیں جنہیں اپنی صحت کا خیال ہے، اور یہ ایک خوب صورت، قابلِ تقلید طرزِ زندگی ہے، کیونکہ موٹاپا ایک ایسی بیماری یا کئی بیماریوں کی بڑی وجہ ہے جن سے ہم میں سے ہر شخص بچنا چاہتا ہے، لیکن بچتے کم لوگ ہیں، اور ایسے ان بزرگوں کی طرح بہت کم ہیں۔ زیادہ تر لوگ تو پوری زندگی اس سے نجات کی خواہش کے ساتھ ہی گزار دیتے ہیں۔
موٹاپا ایک ایسی حالت ہے جس میں جسم میں اضافی چربی اس حد تک جمع ہوجاتی ہے کہ اس کا انسان کی صحت پر منفی اثر پڑتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق موٹاپا ایک وبا ہے جس نے دنیا بھر میں 650 ملین سے زیادہ بالغ اور 124 ملین بچوں اور نوعمر افراد کو متاثر کیا ہے۔
حال ہی میں ایک تحقیق سامنے آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 2035ء تک دنیا کی نصف آبادی موٹاپے کا شکار ہوسکتی ہے۔ اس سے طرح طرح کے مسائل پیدا ہوں گے اور عوام یا حکومتوں کو لگ بھگ 4.32 ٹریلین ڈالر سالانہ اضافی خرچ کرنا ہوں گے۔ دنیا بھر میں فربہی پر نظر رکھنے والی تنظیم ورلڈ اوبیسٹی فیڈریشن نے ایک مفصل جائزے کے بعد ’ورلڈ اوبیسٹی اٹلس‘ 2023 جاری کیا ہے۔ ماہرین نے پیشگوئی کی ہے کہ اگر اس طرف توجہ نہ دی گئی اور مناسب و سنجیدہ اقدامات نہ کیے گئے تو اگلے 12 برس میں مزید ڈیڑھ ارب بڑے اور 40 کروڑ بچے موٹاپے کا شکار ہوجائیں گے۔ اس طرح کرئہ ارض پر موٹے افراد کی تعداد لگ بھگ 4 ارب تک پہنچ سکتی ہے جو کُل آبادی کا 51 فیصد ہوگی۔
رپورٹ میں اس پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ بڑوں کے مقابلے میں 5 سے 19 برس کے بچے قدرے تیزی سے موٹاپے کا شکار ہورہے ہیں، اور یوں اوائل عمر میں ہی وہ طرح طرح کے امراض کا شکار ہوسکتے ہیں جن میں ذیابیطس، بلڈ پریشر، سانس کے امراض اور امراضِ قلب شامل ہیں۔
وطنِ عزیز میں صورتِ حال تصور سے زیادہ خراب ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل روزنامہ جنگ میں وقار بھٹی کی خبر تھی کہ پاکستان نیوٹریشن اینڈ ڈائٹیٹک سوسائٹی (پی این ڈی ایس) کی جانب سے پاکستان بھر کے گیارہ شہروں میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق 25 سو افراد کا باڈی ماس انڈیکس چیک کیا گیا تو انکشاف ہوا کہ ان شہروں کے 88 فیصد سے زائد افراد موٹاپے کا شکار ہیں، جبکہ پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں 95 فیصد سے زائد مرد و خواتین موٹاپے کا شکار ہیں۔ سروے کے مطابق پاکستان میں 73 فیصد افراد خود کو موٹاپے کا شکار سمجھتے ہیں لیکن جب ان افراد کا ماڈی ماس انڈیکس چیک کیا گیا تو ایشیا پیسیفک کلاسیفکیشن کے مطابق موٹاپے کی شرح اس سے کہیں زیادہ تھی۔ سندھ میں سکھر اور آزاد کشمیر میں میرپور کے 100 فیصد شہری موٹاپے کا شکار پائے گئے۔ اسلام آباد کے 95 فیصد افراد موٹاپے کا شکار ہیں، کراچی میں تقریباً 84 فیصد، جبکہ کوئٹہ میں 73 فیصد افراد موٹاپے کا شکار ہیں۔
موٹاپے کی وجوہات:
موٹاپے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سب سے عام وجہ غیر صحت بخش غذا ہے، اور پھر زیادہ مقدار میں کھانا۔ خاص طور پر وہ غذائیں جن میں کیلوریز زیادہ اور غذائیت کم ہو، وزن میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں۔ بہت کم جسمانی سرگرمی بھی ایک اہم عنصر ہے، کیونکہ جسم کو صحت مند رہنے کے لیے ایک مخصوص سطح کی ورزش کی ضرورت ہوتی ہے۔ دیگر ماحولیاتی عوامل جیسے بیٹھنے کا انداز بھی موٹاپے میں حصہ ڈال سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آرام دہ ماحول اور بے عملی کی روش سے بچے تیزی سے موٹاپے کی جانب بڑھ رہے ہیں اور متعلقہ فورم تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔
موٹاپے کی وجوہات میں جینیاتی عوامل بھی اہم ہیں۔ یہ جینز کسی شخص کے موٹاپے کے خطرے کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ چربی کا ذخیرہ اور پروسیسنگ جینیاتی عوامل سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ کئی جینز کی نشاندہی کی گئی ہے جو موٹاپے کا خطرہ بڑھاتے ہیں، اسی طرح ماحولیاتی عوامل موٹاپے کی ایک اور عام وجہ ہیں۔ غیر صحت بخش غذا جس میں چکنائی، چینی اور کیلوریز زیادہ ہوتی ہیں، وزن میں اضافے اور موٹاپے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک ایسی طرزِ زندگی جس میں بہت کم یا کوئی جسمانی سرگرمی شامل نہ ہو، موٹاپے میں اپنا پورا حصہ ڈال سکتی ہے۔ جب ہم متحرک نہیں ہوتے اور اپنی کیلوریز کو جو ہم استعمال کرتے ہیں، کم نہیں کرتے تو اضافی کیلوریز جسم میں چربی کے طور پر جمع ہوجاتی ہیں۔ طبی حوالے سے دیکھیں تو ہارمونل عدم توازن بھی موٹاپے میں حصہ ڈال سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک غیر فعال تھائیرائیڈ گلینڈ وزن میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ جسم کا میٹابولزم سست ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کچھ دوائیں بھوک بڑھا سکتی ہیں اور وزن میں اضافے کا سبب بن سکتی ہیں۔ ان میں اسٹیرائیڈز، اینٹی ڈپریسنٹس اور ذیابیطس کی بعض دوائیں شامل ہیں۔ نفسیاتی عوامل بھی موٹاپے میں حصہ ڈال سکتے ہیں جن میں تنہائی، ذہنی تناؤ، ڈپریشن، جذباتی پن، نیند کی کمی اہم وجہ ہیں۔ڈان کی ایک خبر کے مطابق اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق میں 20 ہزار کے قریب امریکی افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کرکے نیند کے دورانیے اور چینی، چکنائی، کیفین اور کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل غذائی اشیا کے استعمال کے درمیان تعلق کو دریافت کیا گیا۔
تحقیق کے مطابق مناسب نیند یا نیند میں کمی کا شکار افراد سب نمکین اور میٹھے اسنیکس اور مشروبات کے استعمال کو پسند کرتے ہیں، مگر کم سونے والے دن بھر میں ان غذائی اشیا سے ضرورت سے زیادہ کیلوریز جزوِ بدن بنا لیتے ہیں۔ تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ اکثر افراد رات کو مشروبات اور غذاؤں کا استعمال کرتے ہیں، یعنی رات گئے تک جاگتے رہتے ہیں اور موٹاپے کا باعث بننے والے رویوں کو بھی اپنا لیتے ہیں جیسے جسمانی طور پر کم متحرک رہنا، اسکرین کے سامنے زیادہ وقت گزارنا، ہلکی پھلکی اشیا کھانا وغیرہ۔ اسی لیے طبی ماہرین کی جانب سے لوگوں کو رات میں 7 گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت نیند کا مشورہ دیا جاتا ہے تاکہ اچھی صحت کو یقینی بنایا جاسکے۔ اسی طرح ایک اہم بات یہ ہے کہ آپ کی کم خوداعتمادی بھی زیادہ کھانے کا باعث بن سکتی ہے، کیونکہ ہم میں سے کچھ لوگ منفی جذبات سے نمٹنے کے لیے کھانے کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ثقافتی عوامل بھی موٹاپے میں حصہ لے سکتے ہیں۔ غیر صحت بخش کھانوں کی دستیابی لوگوں کے لیے صحت مند انتخاب کرنا مشکل بنا سکتی ہے۔ آج کی دنیا اشتہارات اور دکھاوے کی دنیا ہے، نت نئے کھانوں کی تشہیر بھی لوگوں کی کھانے کی عادات کو متاثر کرسکتی ہے اور کرتی ہے، کیونکہ اشتہارات اکثر زیادہ کیلوری والے، زیادہ چکنائی والے کھانوں کو فروغ دیتے ہیں۔
موٹاپے کے خوف ناک اثرات اور اس سے بچائو کا طریقہ:
موٹاپا کسی فرد کی جسمانی اور ذہنی صحت پر نمایاں اثر ڈال سکتا ہے۔ جسمانی طور پر یہ سنگین بیماریوں جیسے ٹائپ 2 ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، فالج اور دل کی بیماری بڑھنے کے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ ٹائپ 2 ذیابیطس ایک ایسی حالت ہے جس میں جسم خون میں شکر کی سطح کو مناسب طریقے سے کنٹرول نہیں کرپاتا۔ اسی طرح موٹے افراد میں بعض قسم کے کینسر کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ موٹاپا جوڑوں کے درد اور نقل و حرکت کے مسائل کا باعث بن سکتا ہے، کیونکہ اضافی وزن جسم کے جوڑوں اور پٹھوں پر اضافی دباؤ ڈالتا ہے۔
موٹاپے پر بروقت قابو پانا بہت ضروری ہے۔ اس کا پھیلاؤ کم کرنا فرد کے ساتھ صحتِ عامہ کے شعبوں کی بھی اہم ترجیح ہونی چاہیے۔ ملک میں موٹاپے کی بیماری سے نمٹنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان بنانے کی ضرورت ہے۔ ورلڈ اوبیسٹی فیڈریشن سے وابستہ ڈاکٹر پروفیسر لوئس بائر نے حکومتوں اور منصوبہ ساز اداروں سے کہا ہے کہ وہ بالخصوص بچوں میں موٹاپے کی روک تھام کے لیے مناسب حکمتِ عملی تیار کریں تاکہ اس عفریت کو روکا جاسکے۔ آرام دہ ماحول اور بے عملی کی روش سے بچے تیزی سے موٹاپے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ موٹاپا جو دوسرے عارضوں کی وجہ بنے گا اُن کے علاج کا بوجھ اگر رقم میں دیکھا جائے تو وہ کم سے کم 4 ٹریلین ڈالر تک ہوسکتی ہے۔ یہ رقم عالمی خانگی پیداوار (گروس ڈومیسٹک پراڈکٹ یا جی ڈی پی) کے تین فیصد کے برابر ہوگی۔ ماہرین ہمیشہ سے سادہ غذا، جسمانی کھیل کود اور ورزش کو فروغ دینے کے اقدامات اور ٹی وی اور اسکرین کا دورانیہ محدود کرنے پر زور دیتے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ سبزیوں اور پھلوں کے استعمال کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ نہ صرف موٹاپے بلکہ دیگر کئی امراض سے بھی بچا سکتے ہیں۔ تو آئیے خود کے لیے وقت نکالیں اور اپنی زندگی ضائع نہ کریں۔ ہم موٹاپے سے بچنے کے اقدامات کرکے ایک صحت مند معاشرے کو فروغ دینے کا سبب بنیں اور اپنے گھر کی معیشت اور ملکی معیشت کو محفوظ کریں۔ کہتے ہیں کہ کسی کی عمر کم اور وزن جتنا زیادہ ہوگا اتنا ہی اُس کی صحت پر اس کا برا اثر پڑے گا۔ چلیں آج سے ہی اُن بزرگوں (جن کا ذکر شروع میں ہوا) کی طرح کچھ کم کھائیں، اور چلنا پھرنا، بھاگنا دوڑنا شروع کریں اور اس کا پورا ماحول پیدا کریں۔