مدینۃ النبیﷺ

225

اے کرۂ ارض کے سرتاج! اے سرتاج الانبیا کی آرام گاہ! ایک انسان کی بدولت کروڑوں انسانوں کو زندگی بخشنے والے، اے کلام اللہ کے 86430 کلمات اور 3 لاکھ 23 ہزار 7 سو 60 حروف میں سے مدنی آیتوں کی جائے نزول، اے اس آخری نبیؐ کے مدفنِ مبارک جس کی ذاتِ اقدس پر 22 سال 5ماہ کے عرصے میں 6666 آیت نازل ہوئیں، اے رحمتوں اور فضیلتوں کے شہر، اے عظیم انسانوں کے مامن، اے زبان و بیان کی روحِ رواں، اے سپہ سالاروں کے دل کی دھڑکن، اے انشا پردازوں کے علوفکر، اے شاعروں کے تخیل کی معراج، اے خطیبوں کے ولولہ خطابت کی آبرو، عالموں کے افکار کی آرزو، اے دانش وروں کے علم و حکمت کی جستجو، اے اہل اللہ کے آستانہ آخر، اے عابدوں کی جبین کے ناز، اے زاہدوں کی محبت کے محور، اے جود و سخا کے مخزن، اے جمالِ دولت کے مسکن، اے گناہ گاروں کی بخشش گاہ، اے بلدۂ رسالت پناہ، اے مرکزِ دل و نگاہ، اے انس و ملک کی بوسہ گاہ، اے خطاکاروں کے خطا پوش، اے ہر عہد کے فضلا کی منزل، اے عاشقانِ صادق کے محل، اے بیچ مداں اور بے سروساماں کا سلام قبول کر۔
اے مدینۃ النبیؐ تُو مرکزِ انوارِ الٰہی ہے، تُو نے سب غایتوں کی غایتِ اولیٰ کو دیکھا اور جاوداں ہوگیا۔ اللہ نے تجھے ہمیشگی بخشی ہے۔ فرشتے اللہ کے عرش سے تیرے فرش پر سلام و درود کے تحفے لاتے ہیں۔ تُو نے اسلام کو رونق بخشی اور تاریخ کو عزت دی ہے۔ تُو نے ادب کو درخشاں کیا، تُو نے زبان کو رعنائی، بیان کو زیبائی اور فکر کو گہرائی بخشی ہے۔ ہم تیرے اور تُو ہمارا ہے۔ تیری صبحوں میں صحابہ کا سوزِدروں اور انصار و مہاجرین کا جوش ِجنوں ہے۔ تُو شب زندہ داروں کی بلاواسطہ حکایت کا گہر مکنوں ہے۔ تُو عرش سے نازک تر ہے۔ تیری آغوش میں منصف ِاسلام سو رہا ہے۔ تیری مٹی پاتال تک مقدس ہے۔ تُو سب سے بڑی تاریخ ہے۔ تیرے شمال میں احد ہے جس نے بہ قول ابوالحسن علی ندوی لغت کو شجاعت کے لیے بے شمار الفاظ دیے ہیں۔ وہ پہاڑ جو قیامت کے روز جنت میں اٹھایا جائے گا۔ تیرے مشرق میںجنت البقیع ہے جہاں وہ لوگ سو رہے ہیں جوابدلا باد تک زندہ ہیں، جن کے لیے موت نہیں، جن سے موت بھاگتی رہی اور ہمیشہ کے لیے بھاگ گئی، جن کے چہروں کی غیرت نے عرش و فرش سے سلام لیے ہیں، جو صرف زندہ رہنے کے لیے پیدا کیے گئے، جن کا عقیدہ تھا کہ موت زندگی کی ابتدا ہے اور وہ مر کے زندگی کی ابتدا کرگئے، وہی زندگی تب سے اب تک رواں دواں ہے۔
(آغاشورش کاشمیری،ترتیب و انتخاب:سید عزیز الرحمن،تعمیر افکار، کراچی، مارچ2010ء)

حصہ