آب حیات

560

چوتھے بچے کی پیدائش کے بعد تو اس کی ہڈیوں میں جان ہی نہ بچی تھی۔ کچھ دیر چلتی تو سانس پھول جاتا اور سر چکرانے لگتا۔ گھر کے کام تو جیسے تیسے کرلیتی، پَر بنگلے کا کام کرنا پہاڑ جیسا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔

اُس دن بھی اس کی طبیعت خراب تھی، کام کرتے ہوئے اس کے ہاتھ سے گلدان گر کرٹوٹ گیا۔ بیگم صاحبہ غصے میں آگ بگولہ ہوکر بولیں ’’دیکھ کر کام نہیں کرسکتی! کتنا قیمتی گلدان توڑ دیا۔‘‘

وہ بولی ’’بیگم صاحبہ میری طبیعت ٹھیک نہیں، سر چکرا رہا تھا اسی لیے گلدان ہاتھوں سے پھسل گیا۔‘‘

بیگم سلمان غرا کر بولیں ’’اچھا طبیعت ٹھیک نہیں تو پھر کام پہ کیوں آئی ہو؟ میں کتنے دنوں سے دیکھ رہی ہوں تم سے اب کام صحیح سے نہیں ہوتا۔ ایسا کرو تمہارا جتنا حساب ہے، لے لو، اور گھر جاکر آرام کرو، مجھے تم جیسی لاپروا کام والی نہیں چاہیے۔‘‘

وہ نوکری چلے جانے کا سوچ کر کانپ گئی اور بولی ’’بیگم صاحبہ! خدا کے لیے رحم کریں، آپ کے گھر کے بچے کھچے کھانے کھا کر ہی تو میرے بچے زندہ ہیں۔ اگر آپ نے نوکری سے نکال دیا تو ہم فاقوں سے مر جائیں گے۔ میں کل سے اپنی بیٹی آسیہ کو ساتھ لے کر آئوں گی، وہ بہت ہوشیار ہے۔ سارے کام کر لے گی۔آپ فکر نہ کریں۔‘‘

بیگم سلمان نے کہا ’’ٹھیک ہے، میں تمہیں آخری موقع دیتی ہوں۔ اگر کام اچھا نہ ہوا تو پھر تمہاری ہمیشہ کے لیے چھٹی۔‘‘

زبیدہ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور جلدی جلدی کام نمٹا کر اپنے حصے کا بچا ہوا کھانے کا تھیلا اٹھا کر گھر کی طرف چل پڑی۔ وہ تھیلا نہیں اس کے لیے آبِ حیات تھا جسے دیکھ کر اس کے دن بھر کے بھوکے بچے جی اٹھتے تھے۔
…٭…
زبیدہ کے ماں باپ تو اس کے بچپن میں ہی فوت ہوچکے تھے، اس کی پھوپھی نے اسے پالا۔ 14 سال کی عمر میں اس کی شادی اس کی پھوپھی نے اپنے معذور بیٹے کمالے سے کروا دی۔ معذور شوہر کی دیکھ بھال کے ساتھ اس کی روٹی کا انتظام بھی اب اس کے ذمے لگ گیا۔

وہ گھر گھر جا کے برتن، کپڑے دھونے اور صفائیاں کرنے لگی۔ ان کی برادری میں تمام عورتیں اسی طرح کام کرتی تھیں، وہ بھی کرنے لگی۔ روکھی سوکھی کھا کر زندگی گزر رہی تھی۔ بڑی بیٹی آسیہ نو سال کی ہوچکی تھی۔ باقی تینوں بیٹے چھوٹے تھے۔ انہیں وہ کمالے کے حوالے کرکے جاتی۔

…٭…

اگلے دن ماں بیٹی صبح سویرے بنگلے پہنچ گئیں۔ آسیہ گھر میں داخل ہوئی تو چونک گئی۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے گھر کی سجاوٹ دیکھنے لگی۔ وہ متحیر ہوئی ’’کتنا خوب صورت گھر ہے۔ ہمارے پاس تو ایسا کچھ بھی نہیں۔‘‘

بیگم سلمان صبح سویرے سے ہی اُٹھ چکی تھیں۔ وہ جاگنگ سوٹ میں ملبوس نوکروں کی فوج کے لیے حکم جاری کر رہی تھیں۔ کبھی مالی کی شامت آتی تو کبھی خانساماں اور زبیدہ کی۔

آسیہ اپنے ننھے ہاتھوں سے صفائی اور جھاڑ پونچھ میں ماں کی مدد کررہی تھی۔ وہ حیرت زدہ نگاہوں سے اس طلسم کدہ کو دیکھ رہی تھی جہاں کی ہر چیز اُس کے لیے ایک عجوبہ تھی۔ شام ڈھل چکی تھی، بنگلہ کرسٹل کے روشن فانوسوں سے اور بھی حسین لگ رہا تھا۔ بیگم صاحبہ کے مہمانوں کی آمد شروع ہوچکی تھی۔

صبح سے کبھی ہلکی اور کبھی تیز بارش ہورہی تھی۔ وسیع و عریض ڈرائنگ روم میں آتش دان جل رہا تھا جس کے بھڑکتے شعلوں سے ڈرائنگ روم کا منظر خواب ناک دکھائی دے رہا تھا۔

بڑے بڑے افسران کی بیگمات آج کی پارٹی میں مدعو تھیں۔ وہ سب بیگم سلمان کے لیے تحائف لے کر آئی تھیں۔

بیگم سلمان کو عورتوں کے حقوق کے لیے ان کی سماجی خدمات کے اعتراف میں انٹرنیشنل ویمن ڈے پر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔

آسیہ ان سب سجی سنوری خواتین کو دیکھ کر سوچ رہی تھی ’’اتنی خوب صورت بیگمات ہیں، یہ تو بالکل پری جیسی ہیں۔‘‘

کام تو اُن کا کب کا ختم ہوچکا تھا لیکن بیگم صاحبہ کا حکم تھا کہ جب تک مہمان ہیں وہ گھر نہیں جا سکتیں۔

رات کی بچی روٹی اور چائے کا آدھا کپ پی کر گھر سے نکلی تھیں۔ اب بھوک چمک اٹھی تھی۔ وہ چپ چاپ باورچی خانے کے کونے میں بیٹھ گئیں۔ باورچی خانے سے طرح طرح کے پکوانوں کی اشتہا انگیز خوشبو اٹھ رہی تھی۔

خانساماں تھالیوں میں سجے انواع و اقسام کے پکوان ڈرائنگ روم میں پہنچا رہا تھا۔

آسیہ نے زندگی میں پہلی بار تازہ کھانے کی خوشبو سونگھی تھی۔ اس خوشبو نے اُس کے پیٹ میں لگی آگ کو اور بھی بھڑکا دیا۔

اچانک ڈرائنگ روم کی طرف جاتے ہوئے خانساماں کی تھالی سے کیک کا ایک ٹکڑا زمیں پر آگرا۔ آسیہ سے رہا نہ گیا اور خانساماں کی نظر بچا کر وہ ٹکڑا اٹھا کر منہ میں ڈال لیا۔

عین اسی لمحے بیگم سلمان جو کسی کام سے ادھر آئی تھیں، ان کی نظر اس پر پڑ گئی، انہوں نے غصے سے اس کے گال پر تھپڑ رسید کردیا۔ آسیہ کے منہ سے کیک کا ٹکرا نکل کر نیچے جا گرا۔

’’تم کام کرنے آئی ہو یا چوری کرنے؟‘‘

آسیہ تھر تھر کانپنے لگی۔ اس کی ماں دوڑ کر ان کے قدموں میں گر گئی’’معاف کردیں… چھوٹی بچی ہے بھوک برداشت نہیں ہوئی اس لیے غلطی کر بیٹھی۔‘‘

’’نہیں اس کو سزا ملے گی، اگر سزا نہیں دوں گی تو یہ بڑے ہونے تک چور بن جائے گی۔‘‘

بیگم صاحبہ کے غصے سے وہ اچھی طرح واقف تھی، جو بات کہہ دیتیں وہ کرکے رہتیں۔

آسیہ کو باہر گارڈن میں کان پکڑ کے کھڑا ہونے کا حکم دے دیا ’’جاؤ باہر کھڑی ہو جاؤ اور جب تک میں نہ کہوں اندر نہیں آنا۔‘‘

آسیہ ڈر کے مارے رونے لگی، پَر بیگم صاحبہ کا دل نرم نہ ہوا۔ اس کی بے بس ماں نوکری اور کھانے کے تھیلے کی خاطر خاموش ہوگئی، بس اس کا دل رو رہا تھا۔

ڈرائنگ روم میں دبیز صوفوں پر براجمان بیگمات آتش دان کے قریب گرماگرم کافی سے لطف اندوز ہورہی تھیں۔ وہ سب بیگم سلمان کی تعریفیں کررہی تھیں۔

مسز سلمان ازرہِ تکلف بولیں’’ارے آپ سب تو مجھے شرمندہ کررہی ہیں۔ ایسا بھی کچھ کمال نہیں کیا… بس مظلوم اور بے بس عورتوں کو اُن کے حقوق دلوانے کی کچھ کاوشیں کرنے کی کوشش کی ہے میں نے۔‘‘

ایک خاتون بولیں ’’مسز سلمان! آپ نے تو دن رات ایک کرکے اپنی این جی او کو اندرون سندھ تک پہنچا دیا۔ وہاں کی عورتوں پر بڑے احسان ہیں آپ کے۔‘‘

مسز سلمان دل ہی دل میں ان تعریفوں پر نازاں تھیں اور سوچ رہی تھیں: ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں سب، میں ہوں ہی تعریف کے قابل۔

کھڑکی کے باہر ویلویٹ کے پردوں کے پیچھے بارش میں بھیگتی آسیہ روتے روتے تھک چکی تھی۔ اس کے ہونٹ سردی سے نیلے پڑ چکے تھے لیکن کیک کے لذیذ ٹکڑے کا ذائقہ اب بھی اس کے دل کو گدگدا رہا تھا جو اس کے لیے آبِ حیات سے کم نہ تھا۔

حصہ