ویسے تو سوشل میڈیا پر یہ ہفتہ ’’شاہوں‘‘ کے نام رہا۔ قاسم علی شاہ اپنی تازہ نوکری الحمرا آرٹس کونسل لاہور کے بورڈ آف گورنر کا چیئر پرسن، بننے پر ردعمل کا شکار ہوئے (کیوں کہ وہ اپنے موٹی ویشنل خطابات میں سب کو نوکری سے منع کرتے تھے) پھر عدالت میں ان کی تقرری چیلنج ہوئی تو یوں یہ صاحب ہفتہ بھر موضوع بنے رہے۔ اداکارہ اشنا شاہ نے پہلی شادی کرلی تو وہ بھی موضوع بن گئیں، ایک کمنٹ سے اندازہ کریں ’’شادی جیسے مقدس بندھن کو ان اداکاروں نے مجرہ بنادیا ہے جب تک دولہا اور دلہن ڈانس نہ کریں اُن کی شادی مکمل نہیں ہو تی۔‘‘
اداکارہ نے بتایاکہ ’’فوٹوگرافی ٹیموں کی خدمات معاہدہ کرکے حاصل کی گئیں، دروازے پر سخت سیکیورٹی اور مہمانوں کی فہرست تھی کہ وہ اپنے نجی لمحات کی حفاظت کرنا چاہتی تھی، مگر کئی لوگوں نے میری خوشی کے موقع سے فائدہ اٹھاکر میری پرائیویسی پر حملہ کیا۔‘‘
ان کی شادی کی تقریب کی تصاویر اور وڈیو لیک ہوگئیں اور جو رد عمل آیا تو اداکارہ کو اپنا انسٹا گرام اکائونٹ معطل کرنا پڑ گیا۔
اسی طرح تیسری شاہ ہیں ’’حریم شاہ‘‘ جن کی وڈیوز گو کہ پہلی بار لیک نہیں ہوئیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ شاید یہ آخری بار ہوئی ہوں۔ ہفتے میں دو دن تک تو یہ تینوں مختلف بہانوںسے ٹرینڈ لسٹ پر چھائے رہے۔
اس ہفتے امریکا میں ایک قانون منظور ہوا جس کے مطابق کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پابندی لگانے کا اختیار امریکی صدر کو دے دیا گیا ہے، اس میں اوّلین ہدف چینی سوشل میڈیا موبائل ایپلی کیشن ’’ٹک ٹاک‘‘ ہے۔ رائٹرز کے مطابق اس وقت11 کروڑ امریکی اس ایپلی کیشن کا شکار ہیں۔ امریکا نے اس ایپلی کیشن کو ’’نیشنل سیکیورٹی تھریٹ‘‘ (قومی سلامتی کے لیے خطرہ) قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب جواب دینے کا وقت آگیا ہے۔
میں پہلے بھی کئی بار ذکر کرچکا ہوں کہ ’’ڈیٹا‘‘ اب تیل سے بھی زیادہ قیمتی شے بن چکا ہے۔ امریکا جیسے ملک کی پوری سلامتی اُس کے شہریوں کے ایک موبائل ایپلی کیشن پر وڈیوز بنانے سے جڑچکی ہے۔ مطلب یہ کہ اب کسی بم باری، گولہ باری، سرد یا گرم جنگ کی ضرورت ہی نہیں۔
دنیا کے نقشے پر دیکھیں تو چین ایک کونے پر ہے تو امریکا دوسرے کونے پر مگر چین کی ایک موبائل ایپلی کیشن دنیا کے طاقتور ترین ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ حالیہ چند ہفتوں میں اس خدشے پر خوب شور مچایا گیا کہ ٹک ٹاک استعمال کرنے والوں کی معلومات چینی حکومت کے ہاتھ میں جا سکتی ہیں۔ اب یہ بات حتمی طور پر کوئی نہیں کہہ سکتا کیوں کہ ٹک ٹاک چین کا کوئی سرکاری ادارہ نہیں ہے۔
وائٹ ہائوس نے اس ہفتے اپنی تمام سرکاری ایجنسیوں کو یہ یقینی بنانے کے لیے 30 دن کا وقت دیا کہ TikTok کسی بھی وفاقی ملازم کے ڈیوائس اور سسٹم پر انسٹال نہیں ہونی چاہیے۔ 30 سے زائد امریکی ریاستوں سمیت کینیڈا اور یورپی یونین کے پالیسی ساز اداروں نے بھی TikTok کو سرکاری ڈیوائسز پر لوڈ کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔
منافقت، تضاد، بے شرمی کی یہ کوئی نئی حد ہے جو امریکا نے پھلانگی ہے کیوں کہ اگر ٹک ٹا ک کے استعمال کنندگان کا ڈیٹا لیک ہونے کا خوف ہے تو فیس بک، ٹوئٹر، اسنیپ چیٹ، انسٹا گرام کے استعمال کنندگان کا ڈیٹا بھی تو بعینہ وہی ہے؟ اس کی لیکیج پر سوال کیوں نہیں؟ جب کہ فیس بک اور گوگل پر تو اسکینڈل بھی آچکا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ فیس بک، گوگل وغیرہ پر سوال دیگر ممالک کو اٹھانا چاہیے مگر اُن میں ہمت نہیں۔ ٹک ٹاک کا معاملہ یہ ہے کہ چین ایک تو بالکل مسابقت میں ہے دوسرا چینی لوگ فیس بک یا دیگر امریکی ایپلی کیشن استعمال ہی نہیں کرتے۔ امریکا میں 11کروڑ افراد ٹک ٹاک استعمال کرتے ہیں تو چین میں صرف 39 لاکھ جو کہ چینی آبادی کا 0.2 فیصد ہیں (بحوالہ:datareportal.com)
ٹوئٹر پر چین نے 2009ء سے پابندی لگائی ہوئی ہے(بحوالہ: techcrunch.com)۔ اب آپ ان استعمال کنندگان کے اعداد و شمارسے ہی اندازہ کر سکتے ہیں کہ معاملے کی نوعیت اور سنگینی کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے دل میں سوال اٹھے کہ چین نے تو اپنے شہریوں کا ڈیٹا یعنی ’’قومی سلامتی‘‘ بچا لی، ہمارا کیا ہوگا؟ تو جناب غلاموں کے لیے اقبالؔ کے چند اشعار پیش ہیں۔
غلامی کیا ہے ذوقِ حسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا
اقبالؔ کے نزدیک غلام بے ضمیر ہو جاتا ہے۔ وہ دورِ آزادی میںجس چیز کو غیرت و حمیت کے صریحاً منافی سمجھتا ہے‘ غلامی کے زیر اثر پھر اُسی کو دل و جان سے قبول کر لیتا ہے۔
آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف، ورلڈ بینک جیسے اداروں کے مقروض ممالک کے حکمرانوں کے لیے اقبالؔ نے یہی اصول بتایا ہے کہ
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے
ہمارے ایک بھائی نے مجھ سے سوال کیا کہ بچوں کوکیسے سمجھائیں کہ تصویر کشی سے اجتناب کریں، جب سے موبائل ہاتھ آیا ہے، حدیں پار ہوتی جا رہی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ تصویر کشی نہایت مشکل کام تھا، کوئی دور دراز ایک فوٹوگرافر ہوتا وہ اتنا بڑا کیمرا ساتھ لاتا، سب کو کھڑا کرتا اور ایک فوٹو بناتا۔ پھر کیمروں کی بہتات ہوئی بھی تو ’’کیمرا فلم رول‘‘ ایک بڑی رکاوٹ بنا۔ پھر ڈیجٹل کارڈ آگئے بلکہ موبائل آگئے اور پھر سارا کام ہی اُتر گیا۔
موبائل کہنے کو تو ایک فون کا نام ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ آپ تار کے بغیر کہیں بھی بات کر سکتے ہیں۔ مگر اب موبائل فون کیمرے سے پہچانے جاتے ہیں۔ کیمروں کا معیار موبائل کا فیصلہ کرتی ہے۔ خیر میں نے پہلے تو اُن کو سیدھا سیدھا رسائل و مسائل کی ایپلی کیشن کھول کر سید مودودیؒ کے جواب بتا دیے کہ اُن کے مطابق ’’تصویروں کا فتنہ فی الواقع ایک بلائے عام بلکہ سَیلِ بَلا کی صورت اختیار کر گیا ہے۔‘‘ (ترجمان القرآن۔ جلد52، 5۔ اگست 1959ء)
اِس کے بعد میں نے اُن سے کہا کہ اگر آپ کے بچے فی الحال حلال، حرام والی بات ہضم نہیں کر سکتے تو بس پیار سے بٹھا کر ایک یقین دہانی لے لیںکہ کیمروں یا ڈجیٹل کیمرے سے بھی لی جانے والی تصاویر تمہارے پاس ہی محفوظ رہیں گی، اس کی کوئی ضمانت دے دو؟
کہنے لگے کہ کیا مطلب؟
میںنے کہا مطلب یہ کہ آپ کے گھر کی خواتین تو پردہ کرتی ہیں تو بچوں کو یہ سمجھائیں کہ آپ جس کی تصویر اپنی امی، خالہ، بہن کے طور پر اپنے موبائل میں لے رہے ہو، کیا وہ صرف آپ ہی کے لیے ہے؟ میرا ،آپ کا، کسی کا بھی موبائل یا کمپیوٹر اگر انٹرنیٹ سے منسلک ہے تو وہ قطعاً محفوظ نہیں ہے۔ یہی تو ڈیٹا کی جنگ ہے کہ امریکا نے ٹک ٹاک اور چین نے ٹوئٹر وغیرہ پر پابندی لگا دی۔ یہ جو آئے دن آڈیو، وڈیو لیک ہو رہی ہیں، یہ کیا ہیں؟ تمام موبائل ایپلی کیشن انسٹال ہوتے وقت ہی پوچھتی ہے کہ میں آپ کے مقام، آپ کے تصویری فولڈر، کنٹیکٹ لسٹ میں رسائی لے لوں؟ آپ اس کو خود اجازت دیتے ہیں۔
حریم شاہ سے لے کرعامر لیاقت کی وڈیوز تک، عمران خان سے لے کر بشری بی بی کی آڈیوز لیک تک‘ سب کا ایک ہی پیغام ہے کہ کوئی محفوظ نہیں۔ مضمون کے شروع میں اشنا شاہ کے کیس کا ذکر اہم مثال ہے، اشنا شاہ پیسہ لے کر اسکرین پر جو کچھ کرتی ہے، اس کے باوجود اپنی شادی کے موقع پر اس نے سیکیورٹی لگائی کہ کوئی تصویر نہ لے مگر پھر بھی اس کی شادی کی ایسی تصاویر لیک ہوگئیں جو کہ اُس کی خوشی کو برباد کر گئیں۔ اب کر لو جو کرنا ہے۔
خوب جان لیںکہ یہ اسمارٹ فون اتنا ’’اسمارٹ‘‘ ہے کہ بند حالت میں بھی اس سے آپ کی تمام معلومات لی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور اس جیسے ممالک ہیکرز کے لیے جنت ہیں کہ اکثریت سیکیورٹی کے چھوٹے موٹے اقدامات سے ناواقف ہوتے ہیں بلکہ سیدھی طرح موبائل چلانا نہیں جانتے تو کون‘ کب اور کہاں ان کو بیچ دے انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا۔ موبائل چھیننا آگے چل کر بے معنی ہوجائے گا جب ہیک کرکے میں آپ کے فون سے نجی، گھریلو تصاویر، بینک کی معلومات اور کوڈز لے کر اس کے ذریعے خوب مال بنائوں‘ جان لیںکہ ’’ڈارک ویب‘‘ کی دنیا میں سب بکتا ہے، سب کچھ۔ کسی نے اس صورت حال پر یہ ٹوئیٹ کیا کہ’’صالحین کے زمانے میں عورتیں اس نیت سے بچوں کو دودھ پلاتی تھیں کہ بڑا ہو کر اسلام کا شہ سوار، دین کا داعی اور بڑے مرتبے والا بنے گا اور اس طرح ہمارے قبیلوں اور اسلاف میں عظیم شخصیتیں بنیں۔ لیکن آج عورتیں اپنے بچوں کو اس نیت سے دودھ پلاتی ہیںاور موبائل تھما دیتی ہیں کہ بچہ سو جائے اور انہیں تنگ نہ کرے۔ اس لیے امت بھی بحیثیت مجموعی اب سوتی یا موبائل میں کھوئی نظر آرہی ہے۔
پاکستان کو درپیش مسائل کے حل میں زراعت کے شعبے پر مستقل توجہ بہت سارے مسائل حل کر سکتی ہے، اس پر سوشل میڈیا پر مستقل بات ہوتی رہتی ہے۔ سودی معیشت سے جان چھڑانے کے لیے زراعت یعنی اپنی زمین کو فوکس کرنا ہوگا۔
معروف سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ ڈاکٹر فیاض عالم کے مطابق ایسے ہی ایک زبردست تجربے کو سوشل میڈیا پر عام کرنے کی ضرورت ہے۔ 1970 کی دہائی سے، افریقہ میں خشک سالی سے متاثرہ آبادی کو پروٹین فراہم کرنے کے لیے Wattleseed کاشت کی جاتی رہی ہے۔ ویٹل بیجوں میں صحت مند فیٹی ایسڈ ہوتا ہے جو خون میں کولیسٹرول کی سطح کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اس میں آئرن اور کیلشیم کی مقدار دیگر پھلوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے جو خون کی کمی کو دور کرنے کے لیے بے حد مفید ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے خالق نے ان بیجوں کے اندر زنک، پوٹیشیم اور میگنیشیم جیسے طاقتور اجزا رکھے ہیں جو انسانی نشوونما اور قوتِ مدافعت کے لیے نہایت اہم ہیں۔ بیج کا نام اگر مشکل لگے تو جان لیں کہ اس کے درخت کو ’کیکر‘ یا Acacia کہتے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے کئی حصوں میں کیکر کے جنگلات موجود ہیں۔ یہ درخت ایندھن، چھوٹی لکڑی، چارہ، ٹینن اور شہد کے انتہائی قیمتی ذرائع ہیں بلکہ کاغذ کی تیاری میں بھی اسے بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس کا پودا انتہائی خشک سالی کو بھی برداشت کرتا ہے اور بہت سی مشکل جگہوں پر زندہ رہتا ہے۔ سندھ میں، یہ سماجی اور زرعی جنگلات میں سب سے اہم درختوں میں سے ایک ہے۔ اس میں ایک تو جنگلی کیکر ہے جو ہمارے شہر میں بھی عام تھا، مگر کیکر کی ایک وہ نسل ہے جس میں کانٹے نہیں ہوتے‘ اس کے پتے سارا سال ہرے بھرے رہتے ہیں‘ اس کو ’’آسٹریلین کیکر‘‘ بھی کہتے ہیں۔ انہوں نے اس کی کاشت کے لیے ایک جامع منصوبہ ترتیب دیاہے جس میں پہلے اس کے بیجوں سے اس کی کافی کی تیاری، اس کے بسکٹ کی تیاری اور اس کو مقامی سطح پر متعارف کرایا جائے گا تاکہ اتنے زبردست اور سستے فوڈ سپلیمنٹ سے لوگ استفادہ کریں اور ساتھ ہی اس کی ایکسپورٹ ملک میں زرمبادلہ لا سکے۔ اس درخت کا کمال یہ ہے کہ اس کے بیج سے لیے کر اس کی لکڑی تک باہر فروخت کی جا سکتی ہے۔ یہ اور اس طرح کے دیگر منصوبے ہیں جو پاکستان کو بھاری سود والی قرضوں کی معیشت سے نجات دلا سکتے ہیں۔ زراعت کے حوالے سے بات ہو رہی ہے تو اس ضمن میں سندھ کی ایک خاتون رکن اسمبلی نصرت سحر کی ٹوئیٹ نظر سے گزری جس میں انہوں ایک اہم مسئلے کی جانب توجہ مبذول کروائی کہ پاسکو یعنی پاکستان ایگری کلچرل اسٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن کی جانب سے خراب گندم کی فروخت کا اشتہار لگا کر سوال اٹھایا کہ ’’اللہ کی پناہ سندھ میں 44000 میٹرک ٹن گندم گوداموں میں پڑے پڑے خراب ہو گئی،بھوک سے بلکتے سیلاب زدگان 10 کلو آٹے کے لیے لڑتے مرتے رہے، یہ مضرِ صحت گندم سستے دام فلور ملز کو بیچ کر ’’سستا آٹا‘‘ کے نام سے فروخت کیا جائے گا۔ ہے کوئی جو پاسکو سے پوچھے کہ خلقِ خدا بھوک سے مر رہی تھی تو یہ گندم کہاں تھی؟‘‘