حیا اور ہراسمنٹ

387

حیا باجی مجھ سے چھ سال بڑی تھیں، ایم بی اے کے بعد اسٹیٹ بینک میں چھ ماہ کی تربیت کے بعد اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعنیات ہوئیں تو بالکل بدل گئیں۔

ان کا رہن سہن، کھانا پینا سب کچھ… باس کے ساتھ اور عوام کے ساتھ کیسے بات کرنی ہے، باس کے ساتھ میٹنگ، اپنے ماتحت کے ساتھ رویہ کیسا رکھنا ہے، اپنی سیلف گرومنگ کیسے کرنی ہے، لباس کیسا پہننا ہے موقع محل کے مطابق۔

ہم متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لحاظ سے وہ فیشن زیادہ کرنے لگی تھیں۔ جینز اور شرٹ شارٹ پہننے لگی تھیں، دوپٹہ برائے نام، اورکبھی نہیں بھی لیتیں۔

پاپا اعتراض کرتے اور امی سے کہتے: اعلیٰ تعلیم کا مطلب اپنی روایت سے بغاوت ہرگز نہیں ہے۔

ٹریننگ کے بعد کچھ عرصہ اسلام آباد میں نوکری کی، پھر کراچی میں پوسٹنگ ہوگئی۔ دو ماہ بڑی چستی سے کام کیا۔ ڈائریکٹر ان سے بہت خوش تھے۔

حیا باجی بتاتیں کہ ان کے باس بہت شریف آدمی ہیں، بیٹا کہہ کر بات کرتے ہیں، بلاضرورت بات نہیں کرتے، تمام خواتین کی عزت کرتے ہیں اس لیے ہمارا عملہ ان سے ڈرتا بھی ہے اور کوئی کسی کو ہراساں نہیں کرتا۔ تمام خواتین خود کو بہت محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ حیا باجی اپنی سارے دن کی مصروفیات مجھے بتاتیں اور میں انہیں اپنی انجینئرنگ یونیورسٹی کی باتیں بتاتی۔

آج انہوں نے بتایا کہ ایک لڑکی عبایا اور اسکارف میں ہمارے بینک میں آئی ہے، میں حیران ہوئی اس کو کیسے سر کی پرسنل سیکرٹری بنا دیا!

میں نے بھی حیرت سے سر ہلایا۔

کل حیا باجی شرٹ اور جینز میں، جو کہ انہوں نے ایک معروف برانڈ سے خریدی تھی، بہت اچھی لگ رہی تھیں، آئینے میں اپنے آپ کو بار بار دیکھ رہی تھیں۔

امی نے دیکھا تو پوچھا ’’دوپٹہ یا اسکارف کہاں ہے؟ بغیر دوپٹے کے مت جانا، آپ کے بابا مجھ سے ناراض ہوں گے۔‘‘

حیا باجی نے برا سا منہ بنا کر میچنگ کا اسکارف لیا۔ اتنے میں ان کی گاڑی آگئی۔ ناشتا بھی نہ کیا۔

امی نے ’’دودھ پی لو‘‘ کی صدا لگائی۔ باجی نے کہا ’’آفس سے آکر پی لوں گی۔‘‘ گاڑی میں بیٹھتے ہی انہوں نے اسکارف اتار لیا۔

ڈائریکٹر جمشید نے سرسری نظر سے حیا کو دیکھا اور پھر اُس کی پریزنٹیشن دیکھنے لگے، اور تعریف کی۔

میڈم آمنہ سینئر اکاؤنٹنٹ تھیں، سر اُن سے اپنے ماتحت کی ہر بات کرتے۔ پھر وہ بات آگے پہنچاتیں اور نئے لڑکوں اور لڑکیوں پر نظر رکھتیں۔

حیا باجی دن بہ دن بولڈ لباس پہننے لگی تھیں، امی انہیں ٹوکتیں تو وہ فوراً کہتیں ’’یہ ہماری جاب کی ضرورت ہے۔‘‘جس پر امی خاموش ہوجاتیں۔

میڈم آمنہ اور سر جمشید نے نوٹ کیا کہ چند نئی لڑکیاں بھی حیا کی طرح بہت بولڈ کپڑے پہن رہی ہیں اور دوپٹے بھی نہیں لے رہیں۔

حیا باجی کی دوست مومنہ باجی کسی پرائیویٹ بینک میں منیجر تھیں۔ وہ بھی فیشن ایبل تھیں اور اکثر حیا باجی سے نئے ڈریس ڈیزائن کی باتیں کرتیں اور گلہ بھی کرتیں کہ ان کے آفس کا ماحول اچھا نہیں، ہراساں ہوتی ہیں لڑکیاں۔

حیا باجی کہتیں: ہمارے بینک کا ماحول بہت اچھا ہے۔
میڈم آمنہ نوٹ کررہی تھیں اور بات کرنا چاہ رہی تھی حیا باجی سے۔

دوسرے دن حیا باجی آفس گئیں تو میڈم آمنہ نے سب لڑکیوں کو آفس بلایا اور کہا کہ یہ گورنمنٹ کا ادارہ ہے، ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہیں، ہمیں مغربی طریقے سے کیسی بھی تربیت دی جائے مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ حیا اور حجاب مسلم عورت کا زیور اور پہچان ہے۔ ہمیں اس کے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہے، ہمارا لباس اس کے مطابق ہونا چاہیے جو ہماری تہذیب وتمدن کے مطابق اور ہماری اقدار کی عکاسی کرتا ہو، ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے ڈائریکٹر اچھی سوچ کے ہیں، سب کو اپنے فیملی ممبر کی طرح سمجھتے اور عزت و احترام دیتے ہیں، ہمیں اپنی حدود کے اندر رہ کر لباس کا انتخاب کرنا ہے۔ میرا خیال ہے سمجھدار کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔ آپ تمام لڑکیوں سے کہیں شرعی لباس پہنیں اور آفس کا ماحول خراب نہ کریں۔

میڈم آمنہ نے لنچ میں سب لڑکیوں کو آگا ہ کیا ۔
حیا کو بہت برا لگا کہ لباس کے بارے میں ایسا کیوں کہا کہ ہم لڑکیاں ہی شرم و حیا کے لیے ہیں۔ مردوں کی نگاہیں بھٹکنے کے بھی ہم ذمہ دار ہیں۔ ہماری زندگی نہیں، ہماری کوئی خواہش نہیں! تبھی تو عورتوں کا عالمی دن ان کے حقوق کے تحفظ و پاسداری کے لیے منایا جاتا ہے۔ ہم کچھ بھی نہ کریں! پھر لوگ کہتے ہیں کہ عورت یہ کیوں کہے میری زندگی میری مرضی…!
’’اتنے میں مومنہ باجی کا فون آیا کہ کیا تمہارے بینک میں کسی طرح جاب مل سکتی ہے؟ یہاں تو ہراسمنٹ بہت بڑہ گئی ہے۔ لڑکی کسی آفس میں کام ہی نہیں کرسکتی۔ کل تمھارے ساتھ جو شرٹ لے کر آئی تھی، جینز کے ساتھ پہن لی، اسکارف بھی لیا تھا، تب بھی ہر بندے نے گھورا۔‘‘
حیا نے کہا ’’پہننا بھی نہیں ایسے ماحول میں۔ ہمیں ٹریننگ کیسی بھی دی جائے مگر ہمیں اپنی تہذیب کو مدنظر ہی رکھنا چاہیے۔‘‘
تب حیا نے سوچا: میرے آفس میں تو کسی نے بھی کبھی ایسی حرکت نہیں کی، بلکہ خواتین کی عزت کرتے ہیں، سر نے اسی لیے میڈم سے یہ بات کی۔
اور میں نے بھی حیا باجی کو سمجھایا کہ ناراض نہ ہوں، ایسا آفس اور ماحول آپ کو کہیں نہیں ملے گا قدر کریں جہاں آپ اور والدین بے فکر ہیں۔
تب حیا باجی کو میڈم آمنہ اور سر جمشید کی بات سمجھ میں آئی، اور دوسرے دن وہ شلوار قمیص فل آستین والی اور دوپٹے کے ساتھ آفس گئیں۔
میڈم آمنہ نے مسکراکر دیکھا اور سر نے اور عزت دی۔

حصہ