سینٹ کا ایک رکن جو قیصر کو قرطاجنہ میں پناہ لینے کا مشورہ دینے والے عافیت پسندوں کا سرغنہ تھا اُٹھ کر چلایا۔ ’’عالیجاہ! اگر کلاڈیوس کی بے احتیاطی یا حماقت کے نتائج اُس کی ذات، اُس کے خاندان یا اُس کے چند دوستوں تک محدود رہتے تو ہم درگزر کرسکتے تھے۔ لیکن یہ مسئلہ اب پوری قوم کا مسئلہ بن چکا ہے۔ اس ایوان میں ہماری وہ بہنیں موجود ہیں، جن کے آنسو ابھی تک خشک نہیں ہوئے۔ اور ایوان سے باہر آپ اُن ہزاروں انسانوں کی چیخیں سن سکتے ہیں، جنہیں کلاڈیوس کی غلط اندیشی کی سزا مل چکی ہے۔ مرقس کو یقیناً اپنا بیٹا بہت عزیز ہے۔ لیکن کیا وہ لاکھوں انسان جنہیں دشمن غلام بنا کر دریائے ڈینوب کے پار لے گیا ہے، رومیوں کی اولاد نہ تھے؟
کیا ہم پر یہ عبرتناک تباہی صرف اِس لیے نہیں آئی کہ ہماری فوج کا ایک ذمہ دار آدمی اتنا بیوقوف تھا کہ اُس نے خاقان کی باتوں میں آکر پوری قوم کے مستقبل کے متعلق اپنی آنکھیں بند کرلی تھیں؟ عالیجاہ آپ کا منصب یہی تھا کہ آپ اپنی رعایا کی خاطر بڑے سے بڑے سے بڑا خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہوجاتے۔ لیکن وہ لوگ یقیناً ناقابل معافی ہیں جنہوں نے دشمن کے عزائم کے متعلق پورا اطمینان حاصل کیے بغیر آپ کو ایک انتہائی غیر محفوظ جگہ پر ملاقات کی دعوت دی تھی۔ عالیجاہ! ہمیں معلوم ہوا ہے کہ اگر ایک اجنبی بروقت شور نہ مچاتا تو آپ کی زندگی بھی خطرے میں تھی لیکن عالیجاہ! یہ ایک مذاق نہیں کہ ایک اجنبی کو دشمن کے عزائم کا پتا چل جاتا ہے اور اس ملاقات کا انتظام کرنے والے آخری دم تک بے خبر رہتے ہیں؟‘‘
ہرقل نے اپنا دایاں ہاتھ بلند کرتے ہوئے کہا۔ ’’کلاڈیوس پر یہ الزام کئی بار دہرائے جاچکے ہیں‘‘۔
مقررّ بیٹھ گیا اور ہرقل نے کلاڈیوس کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا۔ ’’تم کچھ کہنا چاہتے ہو؟‘‘۔
کلاڈیوس نے جواب دیا۔ ’’عالیجاہ! مجھے مجرم ثابت کرنے کے لیے ان معززین کو لمبی چوڑی تقریریں کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ مجھ سے جو کوتاہیاں ہوئی ہیں، اُن کے نتائج میرے سامنے ہیں۔ اور مجھے اِس بات کا اعترف ہے کہ میں اِس ذمہ داری کا اہل نہ تھا۔ میں یہاں اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے نہیں آیا، بلکہ اپنی سزا کا حکم سننے کے لیے حاضر ہوا ہوں‘‘۔
ایوان میں سناٹا چھا گیا اور کلاڈیوس کے مخالفین فاتحانہ مسکراہٹوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
قیصر نے قدرے توقف کے بعد کہا۔ ’’لیکن تم اتنا تو کہہ سکتے ہو کہ تمہاری غلطیوں میں وہ تمام لوگ حصے دار ہیں جنہوں نے خاقان کے ساتھ ہماری ملاقات کی تائید کی تھی‘‘۔
’’عالیجاہ! میں اِس بات کا فیصلہ اُن کے ضمیر پر چھوڑتا ہوں‘‘۔
’’تم یہ بھی کہنا نہیں چاہتے کہ تم ہماری اجازت سے خاقان کے پاس گئے تھے؟‘‘۔
لیکن عالیجاہ! آپ کی اجازت کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اگر میری کوتاہ نظری کے باعث سلطنت کو تباہی کا سامنا کرنا پڑے تو مجھ سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی‘‘۔
’’لیکن تم یہ جانتے ہو کہ خاقان کے ساتھ نیک توقعات وابستہ کرتے وقت تم سے زیادہ دانشمند لوگ بھی خود فریبی کا شکار ہوگئے تھے؟‘‘۔
’’عالیجاہ میں اُن میں سے کسی کو بھی موردِ الزام نہیں ٹھہراتا۔ میں صرف یہ جانتا ہوں کہ گر میں خاقان سے ملاقات کے بعد بڑی بڑی اُمیدیں لے کر واپس نہ آتا تو وہ خود فریبی میں مبتلا نہ ہوتے۔ مجھے ایک عیار دشمن نے اپنے چہرے کا نقاب بنالیا تھا اور میرے ہم وطن اس نقاب سے دھوکا کھا گئے تھے۔ عالیجاہ! اگر اِس مجلس میں میرے خلاف غم و غصے کا اظہار نہ ہوتا تو بھی میرے لیے دیانتداری کا تقاضا یہی تھا کہ میں ازخود اِس حقیقت کا اعتراف کروں کہ میں آئندہ کسی ذمہ داری کا اہل نہیں ہوں۔ آج میں یہ کہنے کا ارادہ لے کر گھر سے نکلا تھا کہ اگر میرے لیے کوئی اور سزا نہیں تو کم از کم مجھے اپنے عہدے سے سبکدوش کردیا جائے‘‘۔
قیصر نے کہا۔ ’’تم اگر چاہو تو دُنیا بھر کے گناہ اپنے سر لے سکتے ہو۔ لیکن سزا تجویز کرنا تمہارے اختیار میں نہیں‘‘۔
ملکہ نے قیصر کے کان میں کچھ کہا۔ ’’اور اس نے کلاڈیوس سے مخاطب ہو کر پوچھا۔ اُس عرب کا ابھی کوئی سراغ نہیں ملا؟‘‘۔
’’عالیجاہ! وہ زندہ ہے اور اِس وقت باہر کھڑا ہے؟‘‘۔
قیصر نے برہم ہو کر کہا ’’ہمیں یہ توقع تھی کہ تم اُسے تلاش کرتے ہی ہمارے سامنے پیش کرو گے‘‘۔
’’عالیجاہ! میرا خیال تھا، موجودہ حالات میں ایک اجنبی کا یہاں پیش کیا جانا مناسب نہیں ہوگا۔ اس لیے میں نے پہریداروں کو یہ ہدایت کی تھی کہ جب سینٹ کی کارروائی ختم ہو تو اُسے آپ کی خدمت پیش کردیا جائے‘‘۔
’’تم نے یہ کیسے سمجھ لیا ہ سینٹ کے ارکان ایک ایسے آدمی کا شکریہ ادا کرنے میں بخل سے کام لیں گے جس نے اپنی جان پر کھیل کر ہمیں خبردار کرنے کی کوشش کی تھی‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’وہ میرے ساتھ آنے پر مصّر تھا۔ لیکن مجھے یہ بات گوارا نہ تھی کہ یہ معزز لوگ ان کے سامنے میں ایک مجرم کی حیثیت سے پیش ہوا ہوں، اُسے میری ڈھال سمجھ لیں۔ وہ میرا دوست ہے اور مجھے اندیشہ تھا کہ وہ اِس اجلاس کی کارروائی کے دوران خاموش نہیں رہ سکے گا‘‘۔
’’اُسے لے آئو!‘‘۔
کلاڈیوس نے جھک کر سلام کیا اور ایوان سے باہر نکل گیا۔ اور اُس کے مخالفین جو قیصر کے رویے سے کافی پریشان ہوچکے تھے، اضطراب کی حالت میں دروازے کی طرف دیکھنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد عاصم کلاڈیوس کے ساتھ نمودار ہوا۔ اُس نے کچھ فاصلے سے جھک کر قیصر کو سلام کیا اور پھر کلاڈیوس کا شارہ پا کر آگے بڑھا اور مسند کے قریب مودّب کھڑا ہوگیا۔
قیصر اور ملکہ کچھ دیر اُس کی طرف گھور گھور کر دیکھتے رہے۔ بالآخر قیصر نے کہا۔ نوجوان اگر قیصر کو قتل و قید ہونے سے بچانے والوں کے لیے کوئی انعام ہوسکتا ہے تو تم اپنے آپ کو بڑے سے بڑے انعام کا مستحق ثابت کرچکے ہو۔ ہمیں تمہارا انتظار تھا‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’یہ محض ایک اتفاق تھا کہ میں وہاں وجود تھا اور مجھے کچھ دیر قبل اِس سازش کا پتا چل گیا۔ میں نے آپ کی سلطنت میں پناہ لی تھی اور احسان مندی کا تقاضا یہی تھا کہ میں آپ کو آنے والے خطرے سے باخبر کردوں۔ اس کے لیے کوئی انعام مانگنا میں اپنے لیے باعث تنگ وعار سمجھتا ہوں‘‘۔
’’لیکن تم نے اپنی جان خطرے میں ڈالی تھی اور اس بات کا خاصا امکان تھا کہ سیتھین سپاہیوں سے بچ نکلنے کے بعد تمہیں ہمارے حکم سے پھانسی پر لٹکادیا جاتا‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’مجھے یقین تھا کہ میں کلاڈیوس کی موجودگی میں کسی خطرے کا سامنا کیے بغیر اپنا فرض ادا کرسکتا ہوں، لیکن اگر یہ بات نہ ہوتی تو بھی میں یہی کرتا‘‘۔
’’یہاں آنے سے پہلے تم ایرانی فوج کے ساتھ تھے؟‘‘۔
’’جی ہاں…‘‘۔
’’تم نے شام اور مصر کی فتوحات میں حصہ لیا تھا؟‘‘۔
’’جی ہاں، میں شام اور مصر کی جنگوں میں عرب دستوں کا سالار تھا‘‘۔
’’کیا یہ درست تھا کہ جب کلاڈیوس بابلیون میں زخمی تھا تو تم نے اِس کی جان بچائی تھی؟‘‘۔
’’جی ہاں‘‘۔ عاصم یہ کہہ کر کلاڈیوس کی طرف دیکھنے لگا۔
’’اِس کے بعد تم حبشہ کی طرف پیش قدمی کرنے والی فوج کے ساتھ تھے؟‘‘۔
’’جی ہاں‘‘۔
’’اچھا یہ بتائو، ایرانیوں کا ساتھ چھوڑ کر قسطنطنیہ کا رُخ کرتے وقت تمہیں اِس بات کا احساس نہیں تھا کہ رُومی، ایرانیوں اور اُن کے حلیفوں کو اپنا بدترین دشمن خیال کرتے ہیں۔ اور اگر کسی کو تمہارے متعلق پتا چل گیا تو لوگ تمہاری بوٹیاں نوچنے کے لیے تیار ہوجائیں گے‘‘۔
’’جی ہاں! مجھے معلوم تھا لیکن بعض حالات میں اپنا راستہ تبدیل کرتے وقت انسان یہ نہیں سوچتا، کہ وہ کہاں جارہا ہے۔ جب میں نے کلاڈیوس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا تو میں زندگی کی بجائے موت سے زیادہ قریب تھا‘‘۔
’’لیکن کلاڈیوس کو اِس بات کا اعتراف ہے کہ اُسے تمہارے متعلق سب باتیں معلوم تھیں اور اس کے باوجود وہ تمہیں اپنی پناہ میں لینے پر آمادہ ہوگیا تھا۔ کیا یہ ایک جرم نہیں تھا کہ کلاڈیوس نے ہمیں تمہارے ماضی سے خبردار کیے بغیر تمہیں اپنی پناہ میں لے لیا تھا؟‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ کلاڈیوس نے مجھ پر اعتماد کرنے میں غلطی نہیں کی تھی اسے یقین تھا کہ میں اِسے دھوکا نہیں دوں گا‘‘۔
قیصر نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔ ’’ہم پر جو نئی تباہی آئی ہے اُس کی تمام تر ذمہ داری کلاڈیوس کے سر ڈالی جارہی ہے۔ اگر ہم کلاڈیوس کے لیے کوئی بدترین سزا تجویز کریں تو تم کیا خیال کرو گے؟‘‘۔
’’میں کلاڈیوس سے یہ وعدہ کرچکا ہوں کہ میں اُس کی حمایت میں زبان کھولنے کی کوشش نہیں کروں گا۔ تاہم اگر آپ اُسے سزا دینے کے متعلق سوچ رہے ہیں تو میں یہ کہوں گا کہ رُوم کا مستقبل میرے اندازوں سے کہیں زیادہ تاریک ہے‘‘۔
’’تم کلاڈیوس کو بے گناہ سمجھتے ہو؟‘‘۔
’’عالیجاہ! میں کلاڈیوس کو بے گناہ ثابت کرنے نہیں آیا۔ میں یہ جانتا ہوں، اگر آپ کے مشیر اُسے سزا دینے کا فیصلہ کرچکے ہیں تو انہیں میرے احساسات کی پروا نہیں ہوگی۔ لیکن اگر یہ حضرات ایک بہادر اور شریف آدمی پر غصہ نکالنے کی بجائے روم کے مستقبل کی فکر کریں اور ہرقلیہ کے میدان کی طرح یہاں بھی میرا مذاق نہ اُڑایا جائے تو میں ایک تجویز پیش کرسکتا ہوں‘‘۔
حاضرین دم بخود ہو کر عاصم کی طرف دیکھنے لگے۔ اور قیصر نے قدرے بے تاب سا ہو کر کہا۔ ’’کہو تم خاموش کیوں ہوگئے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’روم کو امن کی ضرورت ہے۔ اور خاقان سے مایوس ہوجانے کے بعد اب آپ کے لیے ایرانیوں کی طرف دیکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں‘‘۔
(جاری ہے)