کاسمیٹس اور لمز کا سوشل میڈیا پر شور

802

کیا آئی بی اے کراچی میں ہونے والی ہم جنس پرستوں کی پارٹی یاد ہے آپ کو؟ جس کا سوشل میڈیا پر خوب شور مچا تھا۔ پھر ابھی لاہور کے اسکارسڈیل اسکول کا واقعہ تو یاد ہوگا نا، جس میں چار طالبات ایک طالبہ پر تشدد کررہی تھیں؟ یہ وہی اسکول ہے جو اپنے آپ کو براعظم ایشیا کا صفِ اوّل کا اسکول قرار دیتا ہے۔ یہ ایشو تو قومی میڈیا کا بھی موضوع بن گیا تھا۔ اس کے بعد کراچی میں سویلائزیشن اسکول کا کیس بھی یاد ہوگا جہاں ایک بچے کا انگریزی نہ بولنے پر منہ کالا کیا گیا۔ یہ بھی ہمارے نجی چینلز اور سوشل میڈیا پر خوب پیٹا گیا۔ ہاں حیدرآباد کے اسکول میں طالبہ کی خودکشی کا کیس ذرا کم موضوع بنا تھا۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر کراچی کے گرلز کالجز میں کوک اسٹوڈیو کی مہم تو ضرور آپ کی نظر سے گزری ہوگی، اور اِس ہفتے کامسیٹس کے انگریزی پرچے کی جو ہر طرف دھوم مچی ہوئی ہے، کئی ’’دانا‘‘ لوگوں کی طرح ثواب سمجھ کر آپ نے بھی اسے ضرور شیئر کیا ہوگا اور سب کو اردو ترجمہ کرکے بتایا بھی ہوگا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ ارے ابھی گاڑی رُکی نہیں، ہمارے ملک کے ایک اور بہت معروف تعلیمی ادارے ’لمز‘ کے طلبہ و طالبات نے اپنی تفریح طبع کی خاطر ’’بالی ووڈ ڈے‘‘، مطلب بھارتی فلم انڈسٹری سے محبت کے اظہار کا دن منایا۔ اچھا آپ ابھی تو بھائی بہن والے معاملے پر ہی سیخ پا تھے، مگر لمز میں تو جیسے دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ناپاکی، غلاظت، بےحیائی کو آرٹ کا عنوان دے کر عام کیا جارہا ہے۔ خواتین کے مخصوص ایام، ان کے استعمال شدہ مواد کو آرٹ کی صورت پیش کرکے اس پر تعلیمی اداروں میں ڈسکشن پروگرام ہورہے ہیں۔ یہ شاید آپ کو معلوم نہیں ہوگا۔ یہ ذرا ہمت والے لوگوں نے ہی شیئر کیا ہے۔ اِس سب کے اثرات اس ہفتے بلکہ کامسیٹس کی اسٹوری کے اگلے دن ہی ٹوئیٹر پر ’ڈیوریکس‘ اور ’دراز‘ کے ٹاپ ٹرینڈ پر مشتمل اشتہاری مہم کی صورت برآمد ہوئے۔ پیغام یہ تھا کہ اَب ’مانع حمل اشیا‘ خریدنے کے لیے دکان پر جانے کی بھی ضرورت نہیں، ’دراز‘ یہ سہولت گھر پر ہی فراہم کردے گا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ٹرینڈ پیسے دے کر مارکیٹنگ کمپنیوں سے بنوایا گیا، مگر یقین مانیں جو کچھ اس اشتہاری مہم میں دکھایا گیا، وہ یہاں ناقابلِ بیان ہے۔

کامسیٹس یونیورسٹی میں یہ سنگین واقعہ کہنے کو تو دسمبر میں ہوا اور جنوری میں رپورٹ ہوا، مگر یہ سب کامسیٹس اور اس جیسے دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں کی کلاسز اور وہاں کے ماحول میں مستقل پرورش پارہا ہے۔ فی زمانہ رائج مغربی علم کا مکمل ڈسکورس ’اقداری‘ نہیں ہے، خالص ’اقتداری یا ریاستی‘ ہوتا ہے، یہ صرف سرمایہ دارانہ منہج پر کھڑا ہے اور اندر سے کھوکھلا ہے۔ اس لیے شیطان کو اپنا رنگ جمانے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔ یہ صرف اُس ’خیرالبشر‘ نامی عارضی لیکچرار کا معاملہ نہیں ہے۔ اس جیسے سیکڑوں لوگ پاکستانی جامعات میں بھرے ہوئے ہیں۔ آپ کو باچا خان یونیورسٹی میں مشال خان کیس یاد ہے؟ مشال تو سامنے آیا مگر اس پر کام کرنے والے نام نہاد اساتذہ آج بھی سامنے نہیں آئے، وہ اگلے مشال کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تمام تعلیمی ادارے اس وقت جن لبرل اقدار کا گڑھ بنے ہوئے ہیں، اُن میں ایک بڑا کردار وہاں موجود ’خیر البشر‘ طرز کے اساتذہ بھی ہیں، جو اپنا کام باریک بینی سے کلاسز میں انجام دیتے ہیں۔ کامسیٹس کے 7 کیمپسز میں مجموعی طور پر 33 ہزار طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ ہم نے یونیورسٹی کے ایک سینئر استاد سے تازہ صورتِ حال جاننے کے لیے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ ادارہ بھی اسلام آباد میں آزاد خیالی و منشیات فروشی کا اہم گڑھ جانا جاتا ہے۔ یہ کوئی ہوائی الزام نہیں ہے، مقامی پولیس بلکہ اینٹی نارکوٹکس کے ڈائریکٹر بریگیڈئیر حماد کی رپورٹ اس کی گواہ ہے۔ اب جہاں آزادانہ مخلوط ماحول میں منشیات سرایت کرچکی ہو، طالبات کے جسمانی خدوخال کو نمایاں کرتے لباس کی آزادی ہو، ہاسٹلز کا پُرتعیش ماحول، کنسرٹ اس میں مزید رنگ جماتے ہوں، وہاں کسی کو برائی برائی لگتی ہی نہیں ہے، وہ ’نارم‘ بن جاتی ہے۔ جب موسیقی کو نصاب کے طور پر پڑھایا جائے اور ڈگریاں دی جائیں تو کیسے آپ اس کو شیطانی کہہ کر پابندی لگا سکتے ہیں؟ آلاتِ موسیقی کو توڑنے والے نبیؐ کے مشن کو کیسے اور کون زندہ کرےگا؟

یہ تو تھا دارالحکومت کا احوال۔ اب باری آتی ہے سندھ کی، جہاں خود وزیر تعلیم سید سردار شاہ موسیقی، رقص، تھیٹر کے نام پر ٹیلنٹ ہنٹ کرنے نکلے ہوئے ہیں اور پوری سوشل میڈیا ٹیم کو لگایا ہوا ہے کہ سوشل میڈیا پر بھرپور کوریج ہونی چاہیے۔ سندھ کے تعلیمی اداروں کی تدریسی کیفیت بتانے کی ضرورت نہیں، مگر غیر تدریسی بلکہ تدریس کُش سرگرمیوں پر نظر ڈالیں تو تباہی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ بھاری انعامات کے لالچ میں طلبہ و طالبات کو موسیقی اور رقص (چاہے وہ کسی ملّی نغمے، صوفی یا لوک موسیقی کے نام پر ہی کیوں نہ ہو)کی جانب لانا انتہائی قبیح فعل ہے۔ پھر تھیٹر کلچر سے آپ طلبہ میں کیا اور کون سی صلاحیت پیدا کرانا چاہ رہے ہیں؟ کھیلوں کے نام پر طالبات کو کیوں استعمال کیا جارہا ہے؟ اور جس طرح کیا جارہا ہے وہ سب ڈائریکٹر کالجز کے فیس بک پیج پر واضح ہے۔ کسی زمانے میں تقریر، نعت، بیت بازی، قرات کے مقابلے ہوتے تھے جو کسی نہ کسی طور اسلامی معاشرت سے جڑے محسوس ہوتے تھے۔ مگر اب ریاستی قوت سے ٹیلنٹ کے نام پر جس طرح موسیقی، رقص، تھیٹر کو شامل کیا جارہا ہے وہ قابلِ مذمت ہونا چاہیے۔ اسلامی ملک کے تعلیمی ادارے اپنے طلبہ میں اپنے دین، مذہب، معاشرت، اخلاقی اقدار، یہاں تک کہ حب الوطنی کا بھی کوئی ایسا درس نہیں دے پارہے جو اُنہیں کسی تہذیبی دائرے میں لا سکے۔ بلاشبہ یہ سب چیزیں تعلیمی اداروں میں جمع ہوکر ایسے ہی دھماکے کریں گی۔

اب چلتے ہیں لمز لاہور، جن کی سرگرمیوں کی بڑی دھوم ہے۔ انہوں نے سال کے پہلے چار ماہ میں 6 دن انتہائی لچر اور بے حیائی پر مبنی موضوعات پر بات کرنے کے لیے مختص کیے ہیں۔ بے حیائی کے یہ تمام موضوعات جنہیں مسلم معاشرت میں زبان پر نہیں لایا جاتا، یہاں اُن پر باقاعدہ ڈسکشن اور بک لانچ رکھی جارہی ہیں۔ اندازہ کرلیں کہ یہ طبقہ جب عملی زندگی میں جائے گا تو کیا اور کیسے گل کھلائے گا! یہی نہیں، تفریح کے نام پر وہاں کے طلبہ و طالبات کا ’’بالی ووڈ ڈے‘‘ منانا، اپنے آپ کو ہندوستانی فلموں کے کرداروں میں ڈھال کر خوشی کا اظہار کرنا، غلامی کے آثار کو نہیں بلکہ لبرل اقدار کے نفوذ کو ظاہر کررہا ہے۔ اب ہوگا یہ کہ اس کی دیکھا دیکھی باقی تعلیمی ادارے بھی اسی دوڑ میں لگ جائیں گے کیونکہ لمز نے ایسا کیا ہے نا۔ بالی ووڈ ڈے منانے پر سوشل میڈیا پر قوم پرستی میں ڈوبا ردعمل سامنے آیا، کیونکہ بھارتی فلم انڈسٹری مستقل پاکستان کے خلاف فلمیں بنارہی ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر یہ ’’ہالی ووڈ ڈے‘‘مناتے تو یہ ردعمل دینے والے لوگ پھر کیا جواز لاتے؟ کیونکہ ہالی ووڈ پاکستان مخالف فلمیں بالکل نہیں بناتا۔ دوسری جانب مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی اپنی کوئی فلم انڈسٹری تو ہے ہی نہیں اس لیے بجائے خوش ہونے کے کہ بھارت یکطرفہ پروپیگنڈا کرکے پاکستان کو ازخود مظلوم بنا رہا ہے، ہم الٹا غصہ کررہے ہوتے ہیں۔ جی ہاں، جب تک بھارت فلمیں، کتابیں، خبریں پاکستان کے خلاف بناتا، چھاپتا اور چلاتا رہے گا اور پاکستان خاموش رہے گا تو یہ حقیقت میں سب کے لیے صرف ’پروپیگنڈا‘ کہلائے گا، مگر جیسے ہی پاکستان نے اسی میڈیم میں جواب دینے کی کوشش شروع کی تو ناظرین کے لیے فیصلہ کن چیز پھر ’کوالٹی آف میڈیم‘ ہوجائے گی۔ مارشل میکلوہن، ابلاغ عامہ کے ماہرین میں بہت بڑا نام ہے، وہ فی زمانہ ٹیلی وائزڈ ریئلٹی کے لیے صاف کہتا ہے کہ ’میڈیم از میسیج‘، مطلب یہ کہ جب دو طرفہ میسیج کا تبادلہ ہوگا تو اثر صرف ’کوالٹی آف میڈیم‘کا ہوگا۔ اس کو یوں سمجھ لیں کہ آپ یوٹیوب پر آج ایک پاکستانی ڈرامہ ’’آخری چٹان‘‘ دیکھیں، پھر ذرا ’’ارتغرل‘‘ دیکھیں۔ میسیج دونوں کا ایک ہی ہے، مگر میڈیم کی کوالٹی بدلنے سے اثرات بالکل واضح محسوس ہوں گے۔ اس کو یوں بھی سمجھ لیں کہ بھارت نے ابھی 30 ملین ڈالر کی لاگت سے فلم ’پٹھان‘بناکر جو پاکستان مخالف پروپیگنڈا کیا ہے، پاکستان اب اگر اس معیار سے کم میں کوئی بات کرے گا تو وہ کسی پر اثر نہیں کرے گی، کیونکہ فلم کو جانچنے کا پیمانہ فلم کا معیار ہوگا، کانٹینٹ فلمی معیار پر ہی پرکھا جائے گا، ڈائیلاگ میں بے شک قرآن و حدیث ہی کیوں نہ ہوں، مگر اچھی اداکاری سے نہ بولا جائے، اچھی موسیقی نہ ہو، کیمرا ورک اچھا نہ ہو تو وہ خواہ کتنا ہی مقدس مواد ہو، کسی پر کوئی اثر نہیں کرے گا۔

میں تو مستقل اپنی تحریر سے توجہ دلا رہا ہوں کہ صورت حال مستقل خراب ہورہی ہے۔ اس لیے بھی کہ جنہیں بات کرنی چاہیے، جنہیں شور مچانا چاہیے، جنہیں یہ سب روکنا چاہیے، وہ خاموش ہیں۔ ملکی آئین و قانون ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیتا، پھر کون سی قوتیں ہیں جو یہ سب کرانا چاہ رہی ہیں؟ سوشل میڈیا تین دن سے کامسیٹس کے خلاف غم و غصے سے بھرا ہوا ہے، مگر لوگ اصل مسئلے اور اس کے حل کی جانب نہیں جارہے۔ کیا والدین کے لیے بھی سب کچھ کیریئر اور بہترین نوکری تک محدود ہوچکا ہے؟ علم اور عمل کے باہمی تعلق کو سمجھنا ہمیشہ ضروری ہے۔ ’فتنہ جدیدیت‘ نے انسانی تاریخ میں تصورِ علم کو روندکر اُسے طاقت کے ہم معنی کردیا ہے۔ اب ’علم‘ اشیاء کی تفہیم کے منہج میں نہیں بلکہ ’’اشیاء پر عقلِ انسانی کی گرفت‘‘ کے منہج میں چلتا نظر آرہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہنے کو علم بڑھ رہا ہے لیکن جیسے جیسے جامعات میں نئے شعبہ جات متعارف ہورہے ہیں، ویسے ویسے معاشرہ جہالت، لاعلمی، اخلاقی انحطاط و زوال کی جانب دکھائی دیتا ہے۔ اسکولوں کے لیے یہ جملہ اب عام ہوگیا ہے کہ ”تربیت ہمارا کام نہیں“، وجہ یہی ہے کہ اس علم کا اقدار سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں، خواہ آپ اسلامیات کی کوئی اچھی سے اچھی کتاب ہی کیوں نہ پڑھا دیں۔ جہالت بڑھنے کی مثال یوں سمجھیں کہ جو کام صدیوں سے انسان کرتا آرہا ہے، جیسے اپنے والدین کی خدمت کیسے کی جائے؟ یا ماں بچوں کو کیسے پالے؟ مہمان داری کیسے کرنی ہے؟ کاروبار کیسے کرنا ہے؟ اب یہ سب باقاعدہ ڈگری والے علم کے طور پر سامنے آچکا ہے، کورس بن چکا ہے، اس کے الگ ماہرین ہیں جو آپ کو سکھائیں گے کہ بوڑھے والدین یا بزرگوں کی خدمت کیسے کرنی ہے۔ جب تعلیمی اداروں میں جینڈر اور وومن اسٹڈیز پڑھایا جائے گا تو ’پیریڈز‘ پر تو بات ہوگی نا۔ پھر اِس کورس کی فیس ہوگی اور یہ کرنے کے بعد آپ کو اس کام کی نوکری بھی ملے گی، کیونکہ اس کی پوری ’’اولڈ ایج، ڈے کیئر، ہاسپٹیلٹی معیشت‘‘ قائم ہوچکی ہے، جس کے پیچھے سرمایہ اور حُبِّ مال اور معیارِ زندگی بلند کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ ایک وقت تھا کہ تعلیمی اداروں میں ایسی سرگرمیوں کا تصور نہیں تھا، مگر آج عام ہے۔ ٹھیک اسی طرح جن چیزوں پر آج احتجاج ہورہا ہے کل وہ بھی عام ہوجائیں گی اور یہ بچا کھچا سا ’’کی بورڈ احتجاج‘‘بھی دم توڑ جائے گا۔ جان لیں کہ خاموشی کو رضامندی اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ شور، مزاحمت، احتجاج اُس عمل کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے شعور کو زندہ رکھنے کے لیے بھی ہوتا ہے۔

اسی طرح اس ہفتے ایک اور ایشو گرم رہا، بھارتی فلمی شاعر جاوید اختر لاہور میں منعقدہ ’’فیض امن میلہ‘‘میں شرکت کرنے پاکستان آئے۔ پھر اپنی گفتگو میں  پاکستان کو ممبئی حملوں کا پشت پناہ قرار دے دیا، جس پر دیسی لبرلز نے خوب تالیاں بجائیں مگر سیکورٹی ادارے خاموش رہے۔ اس ایشو پر اہم ردعمل ہماری کچھ شوبز شخصیات کی جانب سے آیا، اس میں نیوز اینکرز، ڈرامہ اداکار و گلوکار بھی شامل تھے۔ سب نے جاوید اختر کو یاد دلایا کہ جس طرح ممبئی حملہ آور اگر ناروے سے نہیں آئے تھے اُسی طرح کلبھوشن، ابھی نندن وغیرہ بھی ناروے سے نہیں آئے تھے۔ یہ ٹھیک ہے کہ جاوید اختر باوجود اس کے کہ ایک انتہائی سیکولر و لبرل انسان ہیں، اُن کو بھارت میں آج بھی کسی نہ کسی دائرے میں ہندو تعصب جھیلنا پڑتا ہے تو انہوں نے زبردستی اپنی بھارتی حب الوطنی کے اظہار کے لیے یہ بونگی مار دی۔ہو سکتا ہے ویزہ دیتے ہوئے ان کویہ ہدایات دی گئی ہوں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہمارے ہاں جعلی قسم کی حب الوطنی جھاڑتے ہوئے شوبز کے لوگوںنے ردعمل سوشل میڈیا پر ڈالا۔مجھےبھی لگ رہاتھا کہ ہمارے ادارےباقاعدہ سے یہ جواب دلوا رہے ہیں۔دوسری جانب جاوید اختر کو ہمارے میزبان اتنا سر پر بٹھائے نظر آئے کہ مت پوچھیں۔

عمران خان کی جیل بھرو تحریک شروع ہوچکی ہے، ملکی سیاست کا ماحول نئے ڈھب پر ہے، حکومتی جماعتوں نے ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے تحریک انصاف کو بلامقابلہ لانے کے لیے، تاکہ اس قسم کے استعفیٰ ڈرامے میں کم از کم قومی خزانے سے خطیر رقم بچائی جا سکے۔ عمران خان پر سب سے بڑا الزام یہی ہے کہ خود تو اپنے اصل کیسز میں ضمانت کرا رہے ہیں اور کارکنان کو بغیر مقدمات زبردستی جیل بھجوا رہے ہیں۔

حصہ