اگلی صبح جب حیدر علی نے موقعہ واردات کا جائزہ لیا تو ان پر یہ راز منکشف ہوا کہ گھر کی پچھلی جانب گھوڑوں کے نشانات موجود ہیں۔ پچھلی جانب کوئی ڈیڑھ فرلانگ کی دوری پر ایک پختہ سڑک کے کنارے سے چار پانچ گھوڑے گھر کی پچھلی دیوار تک آئے جن پر یقیناً ڈاکو سوار رہے ہونگے، انھوں نے واردات کی ہوگی اور جتنا سامان لاد کر لے جا سکتے ہونگے لے گئے ہوں گے۔ یہ بات تو ایسی نہیں تھی جو ایک عام انسان نہ سمجھ سکے لیکن عقل ہلادینے والی بات یہ تھی کہ تمام کے تمام نشانات آنے والے گھوڑوں کے کھروں کے تو ضرور تھے لیکن واپس جانے والے کسی گھوڑے کا کوئی ایک نشان بھی کہیں موجود نہیں تھا۔ انسپکٹر حیران تھے کہ جب گھوڑے پچھلی دیوار تک آئے تھے تو کیا یہاں سے واپسی کا سفر گھوڑوں نے اڑ کر کیا تھا۔ دوسری حیران کن بات یہ تھی جس مقام سے گھوڑوں نے کچی زمین پر قدم رکھا وہاں سڑک پر نہ کسی گھوڑے کے کھروں کا آنے والا نشان تھا اور نہ جانے والا۔ کیا یہ گھوڑے سفر کے آغاز کے مقام پر بھی ہوا سے اڑ کر آئے تھے۔
جمال اور کمال کی بستی میں بھی یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ ساری بستی کے لوگ حیران بھی تھے اور کسی حد تک خوف زدہ بھی کہ کیا واقعی یہ اڑنے والے گھوڑے ہیں۔ یہی بات نہ صرف انسپکٹر حیدر علی کے لیے پریشان کن تھی بلکہ پولیس کے اعلیٰ حکام بھی حیران تھے۔ خبر کیوںکہ غیر حقیقی سی لگتی تھی اس لئے تمام اعلیٰ افسران اپنی اپنی غیر یقینی کی کیفیت کو دور کرنے کے لیے جائے واردات پر آئے اور سب ہی یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ عمارت کی جانب 5 گھوڑے آئے تو ضرور تھے لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی واپس نہیں گیا۔ ناقابلِ یقین بات یہ تھی کہ گھوڑے یا گھوڑوں کے آنے کی نشانات تو بالکل نمایاں تھے لیکن جانے کے نشانات کا دور دور تک پتا نہ تھا۔ راستے کی مٹی سیلی ہوئی اور نرم ہونے کی وجہ سے گھوڑوں کھروں کے نشان اتنے واضح تھے کہ انھیں شناخت کرنے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑ رہا تھا۔
اخبارات میں روز اس واقعے کی کسی نہ کسی انداز میں تفصیل بھی آ رہی تھی اور لکھنے والے اس پر اپنے اپنے حساب سے تبصرہ آرائیوں میں بھی مصروف تھے۔ جمال اور کمال کو بھی اخبارات کے ذریعے ہی یہ خبریں پہنچ رہی تھیں اور وہ بھی اپنی اپنی سوچ کے مطابق غور و فکر کر رہے تھے۔ ایک رات دونوں ہی اس مسئلے پر ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہے لیکن دونوں ہی سوچتے سوچتے جیسے تھک سے گئے۔ کچھ دیر کے بعد ایسا لگا جیسے ان دونوں پر نیند غالب آتی جا رہی ہے لیکن حقیقتاً ایسا نہیں تھا۔ انھیں ایسا لگا جیسے ان کے تحت الشعور میں کوئی خیال بہت تیزے کے ساتھ کلبلا رہا ہے۔ دونوں بیک وقت یوں چونک کر اٹھے جیسے کسی نے ان کے چٹکی سی لی ہو۔ کیونکہ وہ دونوں چڑواں بھائی تھے اور ایک ہی جیسی صلاحیتوں کے مالک بھی اسی لئے اکثر وہ جب بھی گہری سوچ میں ہوتے تو عموماً وہ ایک جیسی ہی بات سوچ رہے ہوتے تھے۔ جمال نے کمال کی جانب دیکھتے ہوئے کہا کہ مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے مجھے کچھ یاد آ رہا ہو۔ کمال نے بھی جمال سے کہا کہ شاید ایسا ہی ہے۔ کیا تمہیں دادا ابا کی کوئی بات تو یاد نہیں آ رہی۔ جمال نے اچھلتے ہوئے کہا، بالکل بالکل، تم نے درست کہا مجھے دادا ابا کا سنایا ہوا ایک واقعہ اچانک ہی یاد آ گیا۔ کمال نے کہا کہ لگتا ہے کہ یہ واقعہ ہونے والی واردات کا حل نکالنے میں کامیاب ہو جائے اور انسپکٹر حیدر علی مجرموں تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں لہٰذا ہم فوری طور پر انسپکٹر حیدر علی کو پورا واقعہ بتائے بغیر ایک ضروری کارروائی ڈالنے کا مشورہ دیں گے۔
یہ کیس کسی بھی لحاظ سے ایسا نہیں تھا جس میں انسپکٹر حیدر علی کو جمال اور کمال سے کسی قسم کی مدد لینے یا مشورہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی پھر بھی حیدر علی ان کے بلانے پر صبح ہی صبح جمال اور کمال کے گھر پہنچ گئے۔ جمال اور کمال نے ان کو عزت کے ساتھ اپنے چھوٹے سے ڈرائنگ روم میں بٹھایا تو انسپکٹر حیدر علی نے کہا کہ کہو کیسے یاد کیا۔ کہنے لگے کہ جس قسم کی واردات وڈیرے ملک احمد خان کے ڈیرے پر ہوئی ہے ہمیں اس کی تفصیل اخبارات کے ذریعے ہی حاصل ہوتی رہی ہے۔ خبر کیونکہ بہت ہی انوکھی سی ہے اس لئے ہمارے واسطے کافی تجسس کا سبب بنتی رہی۔ بظاہر یہ ایسی واردات نہیں تھی جس میں ہمارا کوئی رول نکل رہا ہو لیکن بعض اوقات کوئی بات ایسی بھی ہو جاتی ہے جس کا تعلق ایسے افراد سے بھی جڑ جاتا ہے جن سے واقعات کا جوڑے جانے کا کوئی امکان دور دور تک نہیں ہوتا۔ اگر آپ کو ہماری صلاحیتوں کا علم ہے اور آپ ہم پر اعتماد کر سکتے ہیں تو ہم آپ کو ایک نام دینا چاہتے ہیں۔ آپ فوراً ان کو اپنی “حفاظت” میں لیں۔ ہمارا اندازہ ہے کہ اس ڈکیتی سے نہ صرف ان کا تعلق بنتا ہے بلکہ خبر کے پھیلنے کے ساتھ ہی ان کی جان کو سخت خطرات بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔ انسپکٹر حیدر علی یہ سن کر جیسے اچھل سے گئے۔ بچوں نے کہا آپ نے تیس سال قبل سائیس غلام محمد کا نام تو سنا اور اخبارات میں پڑھا ہوگا۔ بس جتنی جلد ہو سکے اسے خفیہ طور پر سرکاری تحویل میں لے لیں باقی باتیں بعد میں ہونگی۔ حیدر علی نے کہا یہ تم کیا کہہ رہے ہو، کیا اسے سرکاری تحویل میں لینا آ سان ہے؟، سر کچھ بھی کریں، آپ کی اعلیٰ ترین حکام کی نظر میں بہت قدر ہے، آپ جو طریقہ بھی اختیار کریں جلدی کریں اور ان سے جو معلومات حاصل ہوں ان پر بھی نہایت برق رفتاری کے ساتھ کارروائی ڈالیں ورنہ سائیس غلام محمد کے غائب ہوتے ہی مجرمان سارے ثبوتوں کے ساتھ فرار ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
(جاری ہے)