مجھے یاد ہے سال 1982 کا تھا‘ آصف فرخی ڈائو میڈیکل کالج میں سال دوم کے طالب علم تھے۔ ایک دن ملاقات پر اپنا افسانوی مجموعہ ’’آتش فشاں پر کھلے گلاب‘‘ پیش کیا‘ حیرت و استعجاب کے ساتھ کھولا تو دستخط کے ساتھ لکھا تھا ’’آپ کی کتاب کب آئے گی؟‘‘
میرے اور ان کے مراسم کی بنیاد افسانہ نگاری تھی جو ہم دونوں میں قدر مشترک کی حیثیت رکھتی تھی۔ زمانۂ طالب علمی میں خاکسار کے افسانے ملک کے اہم ادبی رسائل کی زینت بن چکے تھے‘ مگر جب آصف نے اپنے افسانوں کا مجموعہ مجھے پیش کرکے حیران کیا‘ تب تک میں اخبار نویسی کے کانِ نمک میں داخل ہو چکا تھا اور کم و بیش نمک بن چکا تھا۔ ادب میرے لیے ناکام محبت کی طرح محض دل کی ایک بے نام سی خلش بن کر رہ گیا تھا۔ ادب اور زندگی کے حوالے سے ان گنت سوالات تھے‘ جو کچوکے لگاتے رہتے تھے‘ میں پڑھتا تھا‘ سوچتا تھا مگر ان کے جواب نہ پاتا تھا۔ ایسے میں آصف کا افسانوی مجموعہ ایک خوش کن واقعہ تھا۔
ایک بات طے تھی کہ آصف کا ادبی مستقبل روشن ہے۔ وہ نوجوان ادیبوں میں سب سے زیادہ Promising رکھتے تھے۔ مسلسل مطالعہ‘ بے پناہ محنت و ریاضت‘ ادب میں اونچا مقام بنانے کی شدید آرزو جو انہیں بے چین رکھتی تھی۔ ابھی ان کا پہلا افسانوی مجموعہ موضوعِ بحث بنا ہوا تھا کہ اگلے ہی برس قوسین جیسے معتبر ادارے سے ان کا کیا ہوا ہرمن بیسے کے ناول ’’سدھارتھ‘‘ کا ترجمہ شائع ہو گیا۔ خاص بات یہ تھی کہ اس ناول پر انہوں نے شاعر و نقاد سلیم احمد سے ایک نہایت بامعنی گفتگو بھی ’’سدھارتھ اور آگہی‘‘ کے عنوان سے شاملِ کتاب کر دی تھی۔ یہ ترجمہ انہوں نے کچھ لکھے بغیر یہاں تک کہ دستخط کے بغیر مجھے دیا۔ شاید میرا کانِ نمک میں نمک بن جانا انہیں کچھ بھایا نہیں تھا۔ مگر ابھی وہ مجھ سے پوری طرح مایوس نہیں ہوئے تھے۔ چنانچہ دوسرے افسانوی مجموعہ ’’اسم اعظم کی تلاش‘‘ کی اشاعت کے بعد انہوں نے مجھے یہ عزت بخشی کہ اپنی افسانہ نگاری پر اس تقریب میں مجھے کچھ بولنے کے لیے مدعو کیا جو مذکورہ کتاب کی رونمائی کے لیے منعقد کی گئی تھی۔ ہوٹل جبیس کی اس پُرہجوم اور بارونق تقریب میں جہاں شہر کے نمائندہ ادیب و شعرا جمع تھے‘ میں نے والد محترم ڈاکٹر اسلم فرخی سے معذرت کے ساتھ آصف سے التجا کی تھی کہ غالب کی طرح وہ بھی کوئی رو گ پالیں کہ اس بے مثل شاعر اور عندلیب گلشن نآفریدہ نے اپنے کسی مکتوب میں ماتم کیا تھا کہ جب سے اندر کے ناسور نے رسنا بند کیا ہے‘ نزولِ شعر بھی بند ہے۔ میں کیا اور میری نصیحت کیا۔ ہاں یاد پڑتا ہے کہ اس کے بعد ان کی کسی کتاب کی تقریب نہیں ہوئی۔ مجھ جیسے ناصحین سے بچنے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے کہ وہ کتنی کتابوں کی تقریبیں کرتے۔ تیس‘ بتیس برسوں میں ان کے سات افسانوی مجموعے‘ تنقید کی دو کتابیں‘ تین عدد سفر نامے‘ ناول‘ افسانے اور ڈراموں کی سولہ کتابوں کے تراجم‘ ایک کتاب ادبی انٹرویو کی‘ بچوں کے لیے کہانیوں کی پانچ کتابیں‘ افسانے اور تنقید وغیرہ پر بارہ مرتبہ کتابیں منظر عام پر آکر ان کے نام کو ایسا ادبی استناد بخش چکی ہیں کہ انہیں نظر انداز کرنا کوئی بھی چاہے تو نہیں کرسکتا۔ اردو زبان و ادب کو جو انہوں نے یہ پینتالیس کتابیں نذر کیں تو ہماری سرکار بھی چونک پڑی۔ اکادمی ادبیات کی طرف سے انہیں وزیراعظم نے ادبی انعام دیا‘ پھر صدر مملکت نے بھی انہیں تمغۂ امتیاز سے نوازا۔
آصف کی ادبی کامیابیوں اور کارناموں کی داستان یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ انہوں نے لکھنے کے لیے دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں کا استعمال کیا۔ ہیرلڈ‘ ڈان کے ادبی ایڈیشن ’’بکس اینڈ آرتھرز‘‘ میں بنا تھکے متواتر چھپنے کے علاوہ اردو سے انگریزی میں ترجمہ اور طبع زاد اتنی تحریریں انہوں نے نہایت عمدہ‘ رواں دواں ادبیت سے بھرپور انگریزی میں لکھیں کہ اس زبان میں پانچ کتابیں ان کے کریڈیٹ پر ہیں۔
آصف نے مجھے ہمیشہ حیران ہی کیا ہے۔ ان حیرتوں میں ایک حیرت یہ بھی ہے کہ وہ جب بھی ملے ہیں نہایت پرسکون‘ مطمئن اور فراغت کے احساس کے ساتھ ملے ہیں۔ اردو اور انگریزی کے پچاس کتابوں کے مصنف کو اصولاً تو بہت عدیم الفطرت نظر آنا چاہیے کیوں کہ کتاب لکھنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ’’شہرزاد‘‘ کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ بھی کھول رکھا ہے‘ جس سے اب تک سیکڑوں ادبی و علمی کتابیں چھپ چکی ہیں۔ ’’دنیازاد‘‘ ان کا خاص ادبی ذوق کا رسالہ ہے جو برسہا برس سے چھپ رہا ہے۔ اور تو اور آکسفورڈ کے ساتھ مل کر وہ ہر سال لٹریچر فیسٹول بھی سجاتے ہیں‘ جو شہرکی سب سے بڑی علمی و ادبی تقریب سمجھی جاتی ہے کہ پڑھا لکھا طبقہ اُمڈ اُمڈ کر آتا ہے اور کھؤے سے کھوّا چھلتا ہے۔
آرٹس کونسل کی عالمی اردو کانفرنس کو بھی ان کا تعاون حاصل رہتا ہے پھر آصف کا رابطہ پاکستان و ہندوستان ہی کے ادیبوں سے نہیں‘ عالمی ادیبوں سے بھی بذریعہ انٹرنیٹ قائم ہے۔ آئے دن انہیں اندرون و بیرون ملک اسفار بھی درپیش رہتے ہیں۔ ان کی سرگرمیوں سے بظاہر لاتعلق رہنے کے باوجود میں بہت غور سے ان کے ادبی و علمی معاملات کا مشاہد رہا ہوں۔ انہوں نے یہ بھی دکھایا ہے کہ ایک ادیب‘ ادب کے ساتھ رشتہ محبت و سپردگی استوار کرکے دنیاوی اعتبار سے بھی کامیاب ہو سکتا ہے۔ یونیسیف سے وابستہ ہو کر وہ مالی طور پر آسودہ حال ہوئے۔ اب وہ یونیسیف کو خیر باد کہہ کر حبیب یونیورسٹی میں لبرل آرٹس کی تدریس سے وابستہ ہوگئے ہیں۔
آخر بات یہ ہے کہ آصف نے ادب اور ادیبوں کی ہمیشہ خدمت ہی کی ہے‘ بغیر کسی دعوے کے‘ ان کے توجہ دلانے اور بار بار کی یاددہانی کے نتیجے میں کتنے ادیبوںکی کتابوں کو دن کی روشنی دیکھنا نصیب ہوا۔
آصف کو دو تنقیدی مضامین کے مجموعے ’’عالم ایجاد‘‘ (2004)اور نگاہ آئینہ ساز(2009) چھپ چکے ہیں۔ تیسرا مجموعہ ’’درمیاں سے سنی‘‘ اشاعت کے مرحلے میں ہے۔ ان کے سات افسانوی مجموعے ’’آتش فشاں پرکھلے گلاب (1982)‘ ’’اسم اعظم کی تلاش‘‘ (1985)‘ ’’چیزیں اور لوگ (1991)‘ شہر بیتی‘‘ (1995)‘ ’’شہرِ ماجرا‘‘ (1995) ’’میں شاخ سے کیوں ٹوٹا‘‘ (1997) ’’ایک آدمی کی کمی‘‘ (1999) منظر عام پر آچکے ہیں۔ آصف فرخی کی شخصیت اور فن پر بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ اردو کی ایک طالبہ رخسانہ ایم فل کی سطح کی تحقیق کر رہی ہیں۔
طاہر مسعود: آپ کی ترجمہ شدہ کتاب’’موت اور قطب نما‘‘ کو اکیڈمی آف لیٹرز کی طرف سے ایوارڈ دیا گیا ہے‘ اس پر آپ کے تاثرات؟
آصف فرخی: مجھے حیرت ہوئی۔ یہ کتاب اور مترجم اکیڈمی آف لیٹرز کی نظر میں کیسے آگئے۔ اس لیے کراچی میں جب یہ کتاب شائع ہوئی تو اس پر سوائے ایک تبصرے کے جو غالباً محمد سلیم الرحمن نے کیا تھا‘ کوئی تبصرہ بھی نہیں ہوا اور اس کتاب کا کوئی نوٹس بھی نہیں لیا گیا۔ اس کتاب میں شامل تراجم کرنے اور اس کے چھپنے میں بارہ تیرہ برس کا عرصہ حائل ہے کیوں کہ یہ کتاب مختلف ناشروں کے پاس گھومتی رہی اور کسی کو بھی اس لائق معلوم نہیں ہوئی کہ وہ اسے شائع کرتا۔ ایسی کتاب کا لوگوں کی نظر میں آنا اور انعام کا مستحق ٹھہرنا میرے لیے حیرت کا باعث تھا جب کہ یہ بھی معلوم ہے کہ انعام کے لیے سفارشیں بھی ہوتی ہیں‘ غیر ادبی معیار بھی ہوتے ہیں جن کو میں پورا نہیں کرسکتا۔ شاید اس میں یہ پہلو بھی ہے کہ دوسری کتابیں اس سے بھی بری ہوں گی جس کی وجہ سے اندھوں میں کانا راجا کے طور پر اسے پسند کر لیا گیا۔ یہ تضحیک نہیںہے بلکہ باقی جو کتابیں جن کو انعام کا مستحق قرار دیا گیا‘ ان کتابوں سے یہ لگاّ نہیںکھاتی۔
طاہر مسعود: آپ نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں‘ ان کتابوں میں اس کتاب کے انعام ملنے پر آپ مطمئن تو ہیں؟
آصف فرخی: میں اس کتاب کے انعام ملنے پر اس لیے خوش ہوں کہ یہ ترجمے کی کتاب ہے اور ترجمے کو ہمارے ہاں ثانوی درجے کا کام سمجھا جاتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اس کتاب کو بہت عرصے تک شائع نہیں کیا گیا اور شائع ہونے کے بعد پڑھا نہیںگیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ لاطینی امریکا میں فکشن لکھا جارہا ہے‘ اس فکشن کی نئی جہات‘ نئے ابعاد سامنے آئے ہیں۔ ان سے ہم صرفِ نظر نہیں کرسکتے تو لولی لنگڑی‘ ٹوٹی پھوٹی جیسی بھی یہ کاوش ہے‘ اس سے فکشن کے ایک نئے امکان کی طرف لوگوں کو توجہ دلانا اس کا مقصد تھا۔ اگر اس کو انعام کا مستحق سمجھا گیا تو یہ اہم بات ہے کہ ترجمے کی ایک کتاب کا نوٹس لیا گیا۔
طاہر مسعود: آپ کے ناقدوں کو آپ سے ایک شکایت یہ ہے کہ آپ خاصی کثرت سے لکھتے ہیں‘ بہت زیادہ لکھتے ہیں اور مختلف شعبوں میں دخل اندازی کرتے ہیں۔ مثلاً کہانیاں لکھتے ہیں‘ تراجم کرتے ہیں‘ نظموں کے تراجم کرتے ہیں‘ صحافت بھی کرتے ہیں‘ تنقید بھی لکھتے ہیں تو میں دو سوال آپ سے کرنا چاہتا ہوں ایک تو یہ کہ اس شکایت کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ اور دوسرے یہ کہ آپ اپنا اصل میدان کسے سمجھتے ہیں؟
آصف فرخی: نقادوں کا اعتراض سر آنکھوں پر۔ مجھے جو اپنے آپ سے شکایت ہے‘ وہ یہ ہے کہ میں اپنے حساب سے بہت کم لکھتا ہوں‘ یعنی میں جتنا لکھنا چاہتا ہوں یا مجھے جتنا لکھنا چاہیے میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں لکھتا۔ زندگی کا بہت سا وقت روزگار کے سلسلے میں یا دوسری مصروفیات میں گزر جاتا ہے جس طرح کا کام کرنا چاہیے تھا وہ میں شروع بھی نہیں کر سکا مثلاً ایک آدھ ناول مجھے لکھنا چاہیے تھا‘ ایک آدھ ناول میرے تجربے میں آیا اور میرے ہاتھ لگاتے لگاتے وہ ٹوٹ بھی گیا تو میں اس پر کام نہیں کرسکا اور کاش میرے اندر اتنا حوصلہ ہوتا کہ میں پَتّا مار کر بیٹھ سکتا اور دل جمعی کے ساتھ لکھ سکتا تو شاید بہتر بھی لکھتا اور جو کہانیاں میں لکھنا چاہتا ہوں وہ لکھ سکتا۔ ابھی تو میں نے ٹوٹا پھوٹا آغاز کیا ہے‘ ابھی تو میں ان چیزوں کو کاغذ اور قلم کی گرفت میں لا ہی نہیں سکا۔ اب اگر لوگوں کو اس میں بسیار نویسی نظر آتی ہے تو اس کے سوا اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ یہ اس آدمی کی مجبوری ہے جو اپنے تجربوں کو گرفت میں لاناچاہتا ہے۔ زیادتی یاکثرت کے حوالے سے میں چیزوں کو نہیں دیکھتا لیکن ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اردو والوں کے ہاں ایک Cult سا بن گیا ہے جن کے نام بہت بڑے ہیں اور جو لکھتے نہیں ہیں وہ پیر کے سے درجے پر فائز رہتے ہیں تو کام کرنے والے اور مسلسل لکھتے رہنے والوں پر بہت سے اعتراض ہوتے ہیں۔ ایسا شخص جو اپنے کام میں آگے بڑھتا جا رہا ہے اس کے کام کو ہمارے ہاں وہ اہمیت نہیں ملتی۔ فکشن میں ہمارے ہاں قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کی مثالیں ملتی ہیں جنہں نے اپنے کام میں مسلسل اضافہ کیا ہے لیکن ہم گھوم پھر کر ان ہی لوگوں کی باتیں کرتے ہیں جنہوں نے چند ایک کہانیاں لکھیں اور ولایت کا درجہ حاصل کر لیا۔ قرۃ العین حیدر نے اپنے ایک مضمون میں شکایت کی ہے کہ جن لوگوں نے لکھنا چھوڑ دیا‘ ان کے نہ لکھنے پر بہت مقالے لکھے جاتے ہیں اور جو لوگ لکھتے رہے ہیں ان پر مقالہ نہیں لکھا جاتا۔
طاہر مسعود: میرے سوال کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ آپ اپنا اصل میدان کسے سمجھتے ہیں جس میں آپ اپنی شخصیت کا بھرپور طریقے سے اظہار کر پاتے ہوں؟
آصف فرخی: اس کا کوئی ایک جواب دینا مشکل ہے اور مجھے اندازہ ہے کہ میں آپ کو اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دی سکتا۔ پھر بھی میں کوشش کروں گا۔ دیکھیے اصل میدان تو لکھنا ہے۔ زندگی کے مختلف تجربات مختلف صورتیں اختیار کرتے ہیں۔ یہ شعور طور پر نہیں ہوتا کہ اپنے لیے کوئی ایک صنف یا کوئی ایک ذریعۂ اظہار منتخب کیا جائے۔ مثلاً میں اپنے آپ کو شاعر نہیںؓ سمجھتا لیکن ایک خاص لمحے میں کچھ تجربات ایسے ہوئے جنہوں نے نثری نظم کی شدید پیروی کی شکل اختیار کی۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ افسانے ہی کی کوئی شکل ہے جو بعد میں کتابی صورت میں شائع ہوئی۔ ’’اس وقت تو یوں لگتا ہے‘‘ کے عنوان سے۔ وہاں جو کام تھا وہ شعوری طور پر شاعری کرنا نہیں تھا۔ اگر مجھے ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ مجھے شاعری کرنے کی ضرورت پڑے گی تو میں اس کام سے بدک جاتا لیکن وہ ایک شکل بنتی گئی اور اسی تجربے کے تعاقب میں چلتے چلتے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ نثری نظم جیسی فارم اس میں بن رہی ہے۔ لکھنے کا محرک یہی ہوتا ہے کہ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنہیںExplore کرنے میں یا دریافت اور بازیافت کرنے میں مضمون لکھنا پڑتا ہے یا بعض سوالوں کے جواب میں بعض لوگوں سے انٹرویو کی شکل اختیار کرنی پڑتی ہے۔ اس کا محرک اور جذبہ ایک ہی ہوتا ہے۔ کسی ایک صنف میں کام کرنا اس کا بنیادی مقصد نہیں ہوگا اس میں ایک عجز کا پہلو یہ بھی ہے کہ چونکہ میں بنیادی طور پر افسانہ نگار ہوں اور چونکہ میں افسانہ نگاری جیسے مشکل فن کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا اس لیے مجھے اِدھر اُدھر پائوں مار کر دیکھنا پڑتا ہے کہ ادھر ڈوبے تو اُدھر نکل جائیں۔ یہ ایک قسم کی مجبوری ہے۔
طاہر مسعود: آپ نے افسانے کو ایک مشکل فن کہا ہے اور یقینا یہ ایک مشکل فن ہے لیکن اس فن پر عبور حاصر کرنے کے لیے آپ نے خاصی ریاضت کی ہے تو اب تک اس فن پر آپ کو عبور حاصل ہو ہوگیا ہوگا؟
آصف فرخی: نہیں صاحب! یہ کہنا تو بہت مشکل ہے۔ ریاضت ہر مسئلے کو حل نہیں کرسکتی۔ وجدان کسی بھی لکھنے والے کا بعض مسئلوں کو ایک چٹکی میں حل کر لیتا ہے کہ برسہا برس کی ریاضت اور مشقت وہاں پر کچھ نہیں کرسکتی۔ ہمارے سامنے دو لکھنے والوں کی مثالیں ہیں جن سے میں بہت ڈرتا ہوں ایک محمد حسن عسکری دورے ممتاز شیریں۔ دونوں بے انتہا پڑھے لکھے ادیب تھے لیکن افسانہ نگاری میں وہ مقام حاصل نہیں کرسکے جو ان کے مطالعے کا تقاضا تھا۔ عسکری صاحب کا افسانہ دیکھیے ’’حرامجادی‘‘ اس میں جو وہ دائی ہے جو انگریز خاتون‘ وہ اپنے دکھ درد لیے سوچتی ہوئی وہاں پہنچی تو وہاں جاہل دائی اپنا کام کرکے بچے کو پیدا کرکے ہاتھ جھٹک رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ ’’گھروے سے نکلی نہیں بھی تک حرامجادی‘‘ تو کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ منٹو جیسا افسانہ نگار جس کا مطالعہ عسکری کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھا‘ وہ تو افسانہ مکمل کرکے اور کام پورا کرکے آگے جا رہا ہے اور عسکری صاحب ’’بھی گھروے سے نہیں نکلے‘‘ ہیں اور اپنی سوچ میں پڑے ہوئے ہیں۔ ممتاز شیریں کو دیکھیے انہوں نے جو کہانیاں لکھیں اور بہت اچھی کہانیاں لکھی لیکن ان کہانیوں سے ان کی اپنی جو عملی توقع تھی جس کی بہت عجیب و غریب صورت دیباچوں میں تو موجود ہے‘ کہانی میں اس طرح سے موجود نہیں ہے تو ریاضت دونوں کی تھی لیکن ریاضت سے صرف افسانہ نہیں بنتا۔
طاہر مسعود: کیا افسانہ لکھنے کے لیے کسی خاص طرز کی زندگی گزارنا ضروری ہے کہ جس میں ویسے تجربات آدمی کی زندگی میں شامل ہوں جس کو وہ بعد میں اپنے افسانوں کا موضوع بنائے؟
آصف فرخی: سلیم احمد کے ایک دوست تھے جو کہا کرتے تھے کہ افسانہ نگار کو ’’تلمیذ السٹرک‘‘ ہونا چاہیے کہ جو وہ کچھ دیکھ رہا ہے اس کا انجذاب کرے اور پھر اس کو صورت دے۔ جس طرح کی زندگی منٹو یا کرشن چندر نے گزاری‘ اس زندگی کا ایک رومانوی تصور ہماری نسل تک پہنچا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ افسانہ نگار کے لیے اس قسم کی زندگی ضروری نہیں ہے بلکہ زندگی کے بارے میں کوئی زاویہ اور کوئی نقطہ نظر ضروری ہے۔ انسان زندگی جو بھی گزار رہا ہو‘ اس سے وہ حاصل کیا کرتا ہے اس سے وہ بناتا کیا ہے۔ اب مجھے جو افسانہ نگار بہت پسند ہے چیخوف۔ اس کی زندگی دیکھیے تو اس کی زندگی میں بہت بڑے واقعات بہت بڑی کامیابیاں اور مسائل نظر نہیں آتے بلکہ وہ بہت چھوٹی چھوٹی باتوں کے اندر زندگی کی پوری رو کو جاری دیکھتا ہے۔ جو بھی افسانہ نگار چھوٹے یا بڑے واقعات کے اندر زندگی کا ایک عمل‘ اس کا تانا بانا دکھا سکتا ہے۔ تو واقعہ خواہ کچھ بھی ہو دیکھنا یہ ہے کہ اس نے واقعے سے کیا بنایا۔ ہمارے بہت سے افسانہ نگار ایسے گزرے ہیں جنہوں نے بڑی بھرپور زندگی گزاری ہے لیکن ان کے ہاں دیکھیے تو ٹائیں ٹائیں فش نکلتا ہے اور ایسے لوگ بھی ہیں جن کے ہاں بظاہر سکون اور طلاطم کی کمی نظر آتی ہے لیکن انہوں نے بڑے قیامت خیز افسانے لکھے ہیں۔
طاہر مسعود: مثال کے طور پر؟
آصف فرخی: فوری طور پر جو مثال نظر آتی ہے جیسے میں نے محمد سلیم الرحمن کا حوالہ دیا۔ ان کی کہانی ’’سائبریا‘‘ بہت پسند ہے۔ انہوں نے گنتی کے چند ایک افسانے لکھے ہیں لیکن بہت منفرد افسانے ہیں۔ اس سے بھی بڑی مثال نیز مسعود صاحب کی ہے جو اردو اور فارسی کے بہت بڑے عالم ہیں اور ایک یونیورسٹی پروفیسر کی زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن تخیل کی جولانی اور کمالِ فن جو ان کے افسانوں میں نظر آتا ہے کسی اور کے ہاں نظر نہیں آتا۔ مستنصر حسین تارڑ جیسے لوگوں کے ہاں نظر نہیں آتا جن کے ہاں دھو دھڑکا بھی ہے‘ مہم جوئی بھی ہے تو صرف مہم جوئی اور سفر سے افسانویت کا التزام برتنے سے افسانہ ہاتھ نہیں آتا۔
طاہر مسعود: تو وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے ایک لکھنے والا تو افسانے کو برت لیتا ہے اور دوسرا لکھنے والا نہیں برت پاتا‘ کوئی چیز تو ہوگی‘ اس کی آپ نشان دہی کریں گے؟
آصف فرخی: اس چیز کا نام کیا ہے‘ یہ تو کہنا مشکل ہے۔ میں اس کو ایک مجرّد اصطلاح کے طور پر بیان نہیں کرسکتا۔ افسانے کے حوالے سے بیان کر سکتا ہوں۔ وہ چیز زندگی کا ٹریٹمنٹ ہے۔ زندگی ایک دریا کی طرح بہہ رہی ہے افسانہ نگار نے اس میں سے ایک موج کو اٹھا لیا اور اسے توڑ کر ایک الگ سے مکمل افسانے کا روپ کیسے دے دیا۔ یہ کمال ہے جو افسانہ نگار کا اصل جوہر ہے۔ یہ بعض لوگوں کے ہاں تواتر کے ساتھ بنتا ہے اور ہم ایسوں کے ہاں کوشش بہت ہوتی ہے اور گاڑی فرسٹ گیئر میں چلتی رہتی ہے۔
طاہر مسعود: آپ نے ایک مضمون کا ترجمہ کیا تھا جس میں ادب کی موت کا اعلان تھا‘ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ زمانہ ادب کے لیے سازگار نہیں ہے اور ادب مر چکا ہے؟
آصف فرخی: دیکھیے اگر ادب مر چکا ہوتا تو شاید ہم اور آپ ابھی تک اس کے بارے میں بیٹھ کر گفتگو نہ کر رہے ہوتے۔ وہ جو مضمون میں نے ترجمہ کیا تھا‘ ایک امریکی پروفیسر ہیں آلون کیرنن جس میں انہوں نے ادب کے بارے میں بڑی لمبی چوڑی باتیں کی تھیں‘ اس پہ جو میں نے نوٹ لکھا تھا کہ ادب کے بارے میں باتیں کرنا ہماری نفسیاتی ضرورت بن گئی ہے لیکن ادب کی ضرورت اور اہمیت اس دور میں جتنی ہے اتنی پہلے کبھی نہیں تھی اور وہ افادیت اپنے اظہار کے لیے نئی نئی صورتیں ڈھونڈتی رہتی ہے۔ تو ادب کی موت تو اس وقت ہوگی جب انسان کی ہو جائے گی۔ جب یہ تمام دنیا ختم ہو جائے گی۔
طاہر مسعود: لیکن ادب ایک چھوٹے سے طبقے کا شوقِ فضول بن کر رہ گیا ہے جیسے پہلے افسانے جس شوق سے پڑھے جاتے تھے‘ ادبی رسائل کی جو سرکولیشن تھی اور جیسا ان کا چرچا ہوتا تھا‘ وہ ماحول نہیں رہا۔ اب اس کی جگہ دوسری چیزوں نے لے لی ہے جیسے ٹیلی ویژن وغیرہ اس صورت حال کا آپ کا تجزیہ کرتے ہیں؟
آصف فرخی: میں نہیں سمجھتا کہ اس کو ہم ادب کی موت یا ادب کے اندر نقائص کے پیدا ہو جانے سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ یہ اصل میں معاشرے کے اندر جو زوال کا ایک عمل جاری ہے‘ اس کے اظہار کی ایک صورت ہے کہ یہ معاشرہ کتاب سے‘ ادب سے جتنی تیزی کے ساتھ دور ہوتا جا رہا ہے بلکہ اردو زبان سے پیچھے ہٹتا جا رہا ہے‘ اس کا لامحالہ نتیجہ اسی قسم کی صورتوں میں نکلے گا۔ ہمارا معاشرہ جس تیزی سے کتاب دشمن معاشرے میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے اس کو دیکھ کر خوف محسوس ہوتا ہے۔ جو کتابیں چھپتی ہیں‘ وہ چند سو لوگوں تک محدود رہتی ہیں۔ ایک جعلی ادب معاشرے پر اس طرح حاوی ہے جو اصل ادب کو پنپنے نہیں دیتا۔ ہمارے معاشرے نے جو وتیرہ اختیار کیا ہے وہ کسی طرح ادب کی بقا کا راستہ نہیں ہے اور جو معاشرہ ادب کو کچلنے کی طرف آجاتا ہے وہ معاشرہ اپنی تخریب اور اپنی موت کی طرف بڑھ رہا ہے۔
طاہر مسعود: ایک طرف یہ صورت حال ہے دوسری طرف جو تحریریں لکھی جا رہی ہیں ان میں وہی پرانا ابلاغ کا مسئلہ ہے کہ یہ تحریریں اپنا ابلاغ نہیں کرتیں۔ افسانوں میں علامتی افسانے اور شاعری میں نثری نظمیں تو یہ صورت حال بھی تو پڑھنے والوں کو ادب سے دور کرنے کا باعث بن رہی ہے؟
آصف فرخی: میں تھوڑا سا اختلاف کی جسارت کروں گا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بات غلط ہو‘ مجھے ایسا لگتا ہے کہ نثری نظم اور علامتی افسانے کو ادب کے قارئین کی تعداد میں کمی کی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اگر ادب کو پرکھنے والے ایسے لوگ ہوتے جیسے 1930 اور 1940ء میں تھے تو علامتی افسانہ اور نثری نظم زیادہ بہتر طور پر پڑھے اور سمجھے جاتے۔ ان کے لیے جو ذہنی فضا ہموار ہونی چاہیے تھی چونکہ وہ کام نہیں ہو سکا۔ ادب پڑھنے اور لکھنے والوں میں جو فاصلہ پیدا ہو رہا ہے ہمارے نقادوں اور استادوں نے اس کے لیے ہمیں ذہنی طور پر تیار نہیں کیا۔
طاہر مسعود: ایک عرصے تک آپ اپنے افسانوں کی کتابیں خود ہی چھپواتے رہے ہیں۔ یہ مسئلہ کراچی کے ادیبوں کے ساتھ خاص طور سے ہے کہ وہ اپنی کتابیں خود ہی چھپوانے پر مجبور ہیں۔ لاہور کے ادیبوں کے ساتھ یہ مسئلہ نہیں ہے کہ وہاں پبلشر آسانی سے دست یاب ہیں‘ آپ اپنی ذاتی تجربے کی روشنی میں اس مسئلے کو کس نگاہ سے دیکھتا سے ہیں؟
آصف فرخی: ادیب کا بنیادی کام لکھنا ہے‘ اس کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ لکھنے کے بعد اس کی کتابت کرائے‘ اس کو چھپوائے پھر ا سکی جلد بندی کرائے اور پھر بیٹھا یہ دیکھتا رہے کہ یہ کتابیں بن بیاہی بیٹیوں کی طرح گھر میں ڈھیر پڑی ہیں‘ ان گائے بھینسوں کی طرح جو گھر سے باہر نہیں جاتیں اور ایک اپنے جرأت رندانہ اور شوقِ فضول کا ماتم کیے چلا جائے تو آپ دیکھیے کہ ادب کے جس معاشرتی زوال کی بات ہم کر رہے ہیں‘ اگر وہاں ادیب کو اپنے اظہار کے لیے صحیح چینلز اور آئوٹ لٹ نہیں ملیں گے تو اس طرح کے ذہنی گھٹن پیدا ہوگی جو ہمارے بہت سے لکھنے والوں میں ہے۔ ادب کا پہلا بنیادی اور جائز مطالبہ یہ ہے کہ وہ جو کچھ لکھے وہ پڑھنے والوں تک پہنچے۔ ہمارا معاشرہ تو یہ پہلا مطالبہ پورا نہیں کر پاتا۔ ہمارے شہر میں ابوالفضل صدیقی جیسا ادیب تھا جس کی موت کے بعد ان کی کتابں ان کے ورثا شائع کر رہے ہیں اس سے بڑا ادب کے زوال کی علامت اور کیا ہو سکتی ہے؟
طاہر مسعود: نئے افسانہ نگاروں میں آپ کن کے ہاں زیادہ امکانات پاتے ہیں؟
آصف فرخی: بھئی نئے اور پرانے کی بہت زیادہ سمجھ مجھ میں نہیں ہے۔ پرانے لکھنے والے بھی اکثر نئے ہو جاتے ہیں۔ جیسے اسد محمد خان میرے محترم سینئر لکھنے والے ہیں جنہوں نے ادھر کہانیاں لکھی ہیں وہ بالکل نئے امکان کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ حال ہی میں جتنے افسانے چھپے ہیں ان میں سب سے زیادہ حیران اور خوش میں ان ہی کہانیوں کو پڑھ کر ہوں کہ اچھا اس طرح بھی کہانی لکھی جاتی ہے۔ اس طرح اسلم سراج الدین کی کہانیاں مجھے بہت پسند ہیں۔ کشمیر میں ایک صاحب محمد الیاس ہیں جن کی تین کتابیں آچکی ہیں۔ آغا گل (کوئٹہ) بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔
طاہر مسعود: ہندوستان کے لکھنے والوں میں؟
آصف فرخی: ہندوستان میں لکھنے والے تو بہت سارے ہیں۔ نیر مسعود صاحب کا ذکر ہوا۔ افسانہ نگاروں کی ایک پوری کھیپ سامنے آئی تھی جس میں انور خان‘ انور قمر‘ سلام بن رزاق‘ علی امام نقوی‘ قمر احسن‘ شوکت حیات ان سب نے بہت اچھے افسانے لکھے ہیں۔ ان سب سے بعد میں آنے والوں میں سید محمد اشرف کا نام آتا ہے جنہوں نے بڑی کسی کسائی کہانی‘ ڈھلی ڈھلائی ترسٹی ترشائی کہانیاں لکھی ہیں۔ میں ان کی کہانیاں بہت شوق سے پڑھتا ہوں۔ ہاں میں ساجد رشید کا نام لوں گا جن کی کہانیوں میں ایک تلخی اور جھنجھلاٹ ہے جو بعض دفعہ مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔
طاہر مسعود: ان سارے لکھنے والوں میں آپ کچھ چیزیں مشترک پاتے ہیں؟
آصف فرخی: ایک تو چیز یہ مشترک پاتا ہوں کہ ان کے افسانوں کی اس حد تک رسائی اور پہنچ نہیں ہے جس حد تک 30 ء اور 40 ء کی دہائی کے افسانہ نگاروں کی تھی اور ان کے افسانوں پر اس طرح گفتگو نہیں ہو پاتی۔
طاہر مسعود: آپ کافی کثرت سے لکھتے ہیں اور بہت تیزی سے آپ کی کتابیں شائع ہوتی ہیں‘ آپ اپنے کام کی تقسیم کس طرح کرتے ہیں۔ لکھنے کے آپ نے اوقات مقرر رکھے ہیں یا کیا صورت ہے اس کی۔ یہ سوال میں اس لیے کر رہا ہوں کہ تاکہ اس سے دوسرے لکھنے والوں کو فائدہ ہو؟
آصف فرخی: میرا سب سے بڑا گلہ تو یہ ہے کہ کتابیں اس رفتار سے نہیں چھپتیں جس لحاظ سے انہیں چھپنا چاہیے تھا۔ جس کتاب سے آپ نے گفتگو کا آغاز کیا تھا یہ کام 1982ء میں مکمل ہوا تھا اور چھپا 1997ء میں۔ خاص طور پر ترجموں کی اشاعت میں مجھے دقتیں ہوئیں‘ میں بیان نہیں کرسکتا۔ کتابوں کے چھپنے میں بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 1992ء اور اس کے بعد تین چار کتابوں کے ترجمے کیے ان کی اشاعت میں اتنی دشواری ہوئی کہ اس کے بعد میں نے کسی کتاب کا ترجمہ نہیں کیا۔ اور میرا فی الحال کسی کتاب کا ترجمہ کرنے کا ارادہ نہیں ہے کیوں کہ ترجمہ کرکے اسے بھاری پتر کی طرح سر پر اٹھا کر پھرنا بہت مشکل کام معلوم ہوتا ہے۔ ممتاز مفتی صاحب مجھ سے بہت شفقت برتتے تھے‘ اکثر مجھے ڈانٹتے رہتے تھے کہ یہ تُو ترجمے کیا کرتا رہتا ہے‘ ترجمہ بھی کوئی کام کرنے کا کام ہے‘ تُو کہانیاں لکھا کر۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک نیا پیرایۂ اظہار حاصل کرنے کے لیے اور زبان کو منطقوں کی طرف لے جانے کے لیے ترجمہ صرف اہم نہیں بلکہ ترجمہ ناگزیر ہے۔ ہماری زبان میں وہ پیرایہ اظہار نہیں ہوں گے جن کی ہمارے اوپر یورش ہے تو ہم اپنے بعض تجربوں کے سامنے گونگے ہوتے جائیں گے۔ میں تو اس گویائی کو بحال کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں ورنہ میرے اپنے تجربے چپ سادھے بیٹھے رہیں گے۔ خیر آپ نے سوال کچھ کیا تھا اور بات ترجمے کی آگئی۔
طاہر مسعود: ترجمے کے حوالے سے یہ بات کہ جاتی ہے کہ آپ کسی بڑے منصوبے پر ہاتھ نہیں ڈالتے۔ مثال کے طور پر فکشن کی تنقید کی روایت ہمارے ہاں کمزور رہی ہے تو اس کے حوالے سے اگر بیسویں صدی میں انگریزی اور دوسری مغربی زبانوں میں فکشن کی تنقید پر جو اہم مضامین ہیں انہیں یک جا کرکے ان کا ترجمہ کیا جانا چاہیے لیکن آپ اس طرح کے کسی بڑے منصوبے پر کام نہیں کرتے۔ جب کہ یہ کام زیادہ اہم اور مفید نہیں ہے؟
آصف فرخی: کئی منصوبے ہیںجن پر کام کیا اور ہاتھ کچھ نہ آیا۔ 1981ء میں مظفر علی سید کے ساتھ مل کر ایک انتخاب پر کام شروع کیا ’’تیسری دنیا کا افسانوی ادب‘‘ جس کے لیے چالیس افسانے ابتدا میں منتخب کیے تھے پھر وہ سلسلہ آگے بڑھتا رہا‘ انتظار حسین‘ انور سجاد اور خالدہ حسین سے لے کر اس فقیر تک کئی لوگوں سے ترجمے کروائے گئے۔ اس کے لیے میں نے بیس کہانیوں کے ترجمے کیے اور وہ انتخاب 1982ء سے لے کر آج تک غیر مطبوعہ پڑا ہوا ہے تو اگرکوئی منصوبہ بنا بھی لیں تو اس کا حاصل کیا۔