زبان و ادب کی ترقی میں مشاعروں کا اہم کردار ہے‘ رفیع الدین راز

537

زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں مشاعروں کا اہم کردار ہے‘ ہر زمانے میں مشاعرے ہوتے رہے ہیں‘ وقت و حالات کے سبب مشاعروں کے انعقاد میں تنزلی یا ترقی ہوتی رہتی ہے جیسے کورونا کے دوران مشاعرے بند تھے تاہم حالات کی بہتری کے سبب مشاعرے دوبارہ شروع ہو گئے ہیں۔ کراچی ایک بڑا شہر ہے یہاں بیک وقت کئی کئی ادبی پروگرام ہوتے ہیں‘ مشاعروں سے ذہنی آسودگی کے علاوہ معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار معروف شاعر و ادیب رفیع الدین راز نے بزمِ سعید الادب کے زیر اہتمام ہونے والے مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو زندہ اور متحرک زبان ہے یہ اپنی ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے۔ اب اردو زبان عالمی شہرت یافتہ زبان ہے پاکستان کے علاوہ دنیا کے بیشتر ممالک میں اردو بستیاں قائم ہیں اس زبان میں یہ خصوصیت ہے کہ یہ ہر زبان کے الفاظ اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔ مشاعرے کے مہمان خصوصی ساجد رضوی نے کہا کہ شاعری سے قوموں کا مستقبل وابستہ ہے اچھی اور معیاری شاعری سے معاشرے میں اچھے اثرت مرتب ہوتے ہیں۔ ہر شاعر اپنے زمانے کو لکھتا ہے‘ وہ اپنے اردگرد کے مسائل پر نظر رکھتا ہے اور ہر مسئلے پر قلم اٹھاتا ہے۔ مہمان اعزازی سعید الظفر صدیقی نے کہا کہ اردو زبان کو بگاڑنے میں الیکٹرونک میڈیا شامل ہے کہ بہت سے اینکرز کو اردو نہیں آتی‘ وہ غلط اردو بولتے ہیں جن سے ہمارے بچے متاثر ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ غزل کے مقابلے میں کوئی صنف سخن نہیں ٹھیر پائی۔ غزل کا ہر شعر ایک مختصر نظم ہوتا ہے یہ الگ بات ہے کہ بڑی شاعری نظم میں موجود ہے آج کل نظم کہنے والے شعرا کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے ہم نے اپنی آسانی کے لیے نثری نظم ایجا دکر لی ہے جس کا کوئی رول ماڈل نہیں ہے۔ نثری نظم کا مستقبل نہیں۔ چند شعرا نے تو نثری نظموں میں شہرت پالی ہے لیکن یہ سلسلہ تقریباً متروک ہوتا جا رہا ہے غزل آج بھی زندہ ہے۔ ہر مشاعرے میں غزل پڑھنے والے زیادہ ہوتے ہیں۔ بزمِ سعید الادب کے روح رواں یاسر سعید صدیقی نے نظامت کے فرائض کے علاوہ خطبہ استقبالیہ میں اپنے ادارے کے اغراض و مقاصد پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہم مسلسل کوشش کر رہے ہیں کہ ہر ماہ ایک مشاعرہ ترتیب دیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر طرح کے تعصب سے باہر نکلیں اور اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے کام کریں اس مشاعرے میں رفیع الدین راز‘ سعید الظفر صدیقی‘ ساجد رضوی‘ ڈاکٹر رخسانہ صبا‘ اختر سعیدی‘ سلمان صدیقی‘ فیاض علی فیاض‘ سلیم فوز‘ یاسر سعید صدیقی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ احمد سعید خان‘ ضیا حیدر زیدی‘ انا خالد محمود‘ کشور عدیل جعفری‘ یاسمین یاس‘ خالد میر اور تاجور شکیل نے اپنا کلام پیش کیا۔
سلام گزار ادبی فورم کا طرحی مشاعرہ
گزشتہ ہفتے سلام گزار ادبی فورم انٹرنیشنل (کراچی) نے 148 ویں ماہانہ محفلِ اسلام کا اہتمام کیا جس کی طرح ردیف ’’جا بہ جا‘‘ تھی۔ مشاعرے کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کی۔ ہارون جمالی مہمان خصوصی تھے جب کہ مقبول زیدی نے نظامت کے فرائض کے علاوہ خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ ہم ماہانہ بنیادوں پر سلام گزار کی محفل سجاتے ہیں اور حضرت امام حسینؓ کو سلام پیش کرتے ہیں ہم رثائی ادب کی پروموشن میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں‘ ہم حضرت امام حسینؓ اور ان کے رفقائے کار کو یاد کرتے ہیں اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ حق و باطل کے درمیان کربلا حد فاصل ہے‘ نواسۂ رسول نے دین اسلام کے لیے جو قربانی دی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے‘ آپ نے یزید کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی بلکہ اپنی جان کا نذرانہ دے کر یہ ثابت کیا کہ وہ صرف اللہ سے ڈرتے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم اسوۂ شبیر پر عمل کریں۔ ہارون جمالی نے کہا کہ ذکر محمد و آل محمد کی محفلیں مسلمانوں کے درمیان محبت اور بھائی چارے کے فروغ کا باعث بنتی ہیں۔ سلام حسین کی محفل میں شریک ہونا باعثِ ثواب ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ رثائی ادب نے اردو زبان و ادب میں گراں قدر اضافہ کیا ہے تمام شعرا نے آج بہترین اشعار پیش کیے۔ اصغر علی سید نے کلمات تشکر ادا کیے انہوں کہا کہ حضرت امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی قربانیوں سے دینِ اسلام مستحکم ہوا ہے آج بھی حق کی خاطر جان دینا عین اسلام ہے کربلا کا درس آفاقی پیغام ہے آج یزید کا نام مٹ چکا ہے لیکن حضرت امام حسینؓ کا نام زندہ ہے ان پر اللہ کی رحمتیں نازل ہو رہی ہیں۔ اس مشاعرے میں پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی‘ مقبول زیدی‘ سمیع نقوی‘ قمر حیدر قمر‘ جمال احمد جمال‘ فرحت عباس ترمذی‘ پروین حیدر‘ شارق رشید‘ صفدر علی انشا‘ نعیم انصاری‘ مانوس ناطقی‘ اعجاز نقوی‘ سلطان رضوی‘ محمد علی‘ زیدی‘ کاشف متھراوی‘ عروج واسطی‘ ناصر مہدی‘ اصغر علی سید اور ہما ساریہ نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

حصہ