قمری مہینہ شعبان عربی لفظ شعب سے بنا ہے جس کے معنی شاخ در شاخ ہونا، متفرق ہونا، اور فاصلہ و دوری کے ہیں۔ بعض علمائے کرام نے فرمایا کہ اس کو شعبان اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں روزہ داروں کے لیے نیکیاں شاخ درشاخ ہوتی ہیں، نیز چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے سال بھر ہونے والے امور اور بندوں کو ملنے والا رزق اسی ماہ میں منشعب یعنی تقسیم کرتا ہے اس لیے بھی اس مہینے کو شعبان کہا جاتا ہے۔
٭رمضان المبارک کے روزے شعبان 2ھ میں تحویلِ قبلہ سے چند روز بعد فرض ہوئے۔
٭تبدیلیِ قبلہ کا حکم: 15شعبان 2ھ کو مسجد قبلتین میں نماز ظہر کے دوران قبلہ تبدیل کرنے کا حکم ہوا۔
٭سیدنا امام حسین مدینہ منورہ میں ہجرت کے چوتھے سال 5 شعبان کو پیدا ہوئے۔ بعض روایات میں اختلاف بھی ہے لیکن زیادہ تر یہی روایت ہے۔
٭حضرت سیدنا عثمان بن مظعون ؓ شعبان المعظم 3ہجری میں فوت ہوئے (جنت البقیع میں دفن کیے جانے والے سب سے پہلے مہاجرتھے)۔نبی کریمﷺ کے رضاعی بھائی،قدیم الاسلام، حبشہ و مدینہ دونوں جانب ہجرت کرنے والے، سادہ و نیک طبیعت کے مالک، کثرت سے عبادت کرنے اور روزے رکھنے والے، اصحابِ صُفہ اور بَدری صحابہ میں سے تھے۔
٭ غزوہ بنو مصطلق 5 ھ ہجری میں ہوا ۔اس کے لیے حضورِ اقدس ﷺ 2شعبان کو سات سو صحابہ کی معیت میں نکلے ۔حضرت عا ئشہ ؓ و حضرت ام سلمہ ؓبھی ساتھ تھیں۔ حضوراکرمﷺ یکم رمضان کو واپس پہنچے ۔بنو المصطلق مکہ و مدینہ کے درمیان ایک دن کی مسافت پر تھے۔
٭سریہ عبدالرحمٰنؓ بن عوف6ھ میں ہوا ۔اس سریہ کے لیے حضورِ اقدس ﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے حضرت عبدالرحمٰن ؓ کی دستار بندی کی اور سات سو کا لشکر دے کر روانہ فرمایا۔ بیشتر لوگ اس موقع پر مسلمان ہوئے، باقی لوگوں نے جزیہ دینا قبول کیا۔ یہ سریہ دومتہ الجندل میں ہوا۔
٭سریہ حضرت علیؓ بن ابی طالب6ھ میں ہوا ۔ایک سو افراد کی معیت میں یہ سریہ فدک (خیبر کے قریب) بھیجا گیا جو مدینہ سے تقریباً چھ دن کی مسافت پر ہے۔ یہاں قبیلہ بنو سعد بن بکر آباد تھا۔ آپؓ کامیاب لوٹے اور ساتھ میں پانچ اونٹ اور دو ہزار بکریاں لائے ۔
٭سریہ بشیر بن سعد انصاریؓ شعبان7 ھ میں ہوا۔ آپ ﷺنے تیس سواروں کے ساتھ بنو مرہ کی طرف وفد بھیجا ۔ اس میں اسامہ ؓ بن زید،ابو مسعو دؓ عیدری، کعب ؓ بن عجرہ شامل تھے ۔
٭سریہ امیر المومنین عمرؓ بن خطاب 7ھ میں ہوا۔ آپؓ کا یہ سریہ موضع تربہ بھیجا گیا جو مکہ مکرمہ سے دو دن کی مسافت پر ہے۔ یہاں بنو ہوازن کے بقیہ کافر آباد تھے۔ آپؓ کے ہمراہ تیس سوارتھے۔ کفار کو جب حضرت عمرؓ کی آمد کاعلم ہوا تو وہ سب بھاگ کھڑے ہوئے۔
٭سریہ امیر المومنین حضرت ابو بکرؓ 7ھ میں ہوا ۔آپؓ کا سریہ نجد میںبنو کلاب کی طرف روانہ کیا گیا جو لکاوی القری کی جانب آباد تھے ۔سلمہ بن الاکوع سے روایت ہے کہ دشمن کے چند افراد قتل اور قید ہوئے۔آپ ؓ صحیح سالم مدینہ منو رہ واپس آگئے۔
٭عدیؓ بن حاتم جو کہ مشہور سخی حاتم طائی کے بیٹے تھے شعبان 9ھ میں مسلمان ہوئے۔
٭وفات حضرت ام کلثومؓ9 ھ میں ہوئی۔بنت ِحضرتﷺ ام کلثوم ؓ حضرت عثمان غنی ؓ کے عقد میں تھیں،ان سے کوئی اولاد نہ تھی۔
٭ 9ھ..قبیلہ ثقیف جن کا تعلق طائف سے تھا،ان کی ایک بڑی تعداد نے حضور اقدسﷺ کی خدمت میں آکر بیعت کرلی۔ آپؐ سے ان میں سب سے باصلاحیت اور کم سن حضرت عثمانؓ ابن ابی العاص کو امیر طائف مقرر فرمایا۔
٭حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا وصال : ماہِ شعبان 11ہجری میں جنت کی عورتوں کی سر دار اور حضورؐ کی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا وصال ہوا۔ (الاصابہ)
٭حضرت سیدنا ابوعبید ؓبن مسعود ثقفی (شہادت شعبان 13ہجری )اَجَلّہ صحابہ میں سے ہیں ، امیرالمومنین حضرت عمرؓ نے ابتدائے خلافت میں جب جنگ ِعراق کے لیے مسلمانوں کو ابھارا تو یہ فوراً تیار ہوگئے ، بہادری اورشجاعت کی وجہ سے انہیں امیر ِلشکر بنایا گیا ، اس لشکر نے جنگ ِنمارق اور جنگ ِکسکر میں فتح حاصل کی۔ شعبان 13ہجری میں جنگ ِجسر ابوعبید میں آپ ؓ شہید ہوئے۔
٭حضرت سیدنا سلیط ؓبن قیس خزرجی انصاری نے شعبان 13ہجری میں شہادت پائی۔ بنوعدی بن نجار کے چشم و چراغ ، بدر سمیت تمام غزوات اور جنگوں میں شرکت کرنے والے ، نڈر اور شجاعت کے پیکر تھے ۔ آپ ؓ سے ایک حدیث بھی مروی ہے ۔ آپ ؓ نے جنگ جسرابوعبید (جسے جنگ قس النَّاطِف اور جنگ مروحہ بھی کہتے ہیں) میں حصہ لیا ، یہ مقام کوفہ کے قریب دریائے فرات کے پاس ہے۔
٭حضرت سیدنا اسید بن حضیر انصاریؓ جلیل القدر صحابی ، مدنی ، قبیلہ بنی عبدالاشہل کے چشم و چراغ ، ذہین و فطین ، صاحب الرائے ، خوش الحان قاریِ قرآن ، بہترین کاتب (لکھنے کی صلاحیت رکھنے والے) اور جرأت مند مجاہد تھے ، اعلانِ نبوت کے بارہویں سال اسلام لائے ، تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ شعبان 20ہجری کو وصال فرمایا۔ جنت البقیع میں دفن کیے گئے۔
٭حضرت سیدنا ام ایمن برکہ بنتِ ثعلبہ حبشیہ ؓ نبی پاکﷺ کی رضاعی والدہ، آپؐ سے بہت محبت کرنے اور خدمت کی سعادت پانے والی، حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ اور حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ تھیں، حبشہ و مدینہ دونوں جانب ہجرت فرمائی، وصال شعبان یا رمضان 10ہجری یا محرم 23ہجری کو ہوا۔
٭ام المومنین حضرت سیدنا حفصہؓ بنت ِعمرؓ بن خطاب کی ولادت اعلانِ نبوت سے 5 سال قبل مکہ شریف میں ہوئی اور وصال شعبان 45ہجری میں مدینہ منورہ میں فرمایا، تدفین جنت البقیع میں ہوئی۔ آپؓ کثرت سے روزے رکھنے والی، بہت عبادت کرنے والی، علم حدیث و فقہ سے شغف رکھنے والی بلند ہمت اور حق گو خاتون تھیں۔ آپؓ سے مروی احادیث کی تعداد 60ہے۔
٭حضرت سیدنا مغیرہ بن شعبہ ثقفی ؓ: ان جلیل القدر صحابی کی ولادت طائف میں ہوئی اور شعبان المعظم 50 ہجری میں کوفہ میں وفات پائی۔ آپؓ 5 ہجری میں اسلام قبول کرنے والے، عاشقِ رسول، مجاہدِاسلام، کئی احادیث کے راوی، سحرالبیان خطیب، صاحب الرائے، بہترین منتظم، متعدد شہروں کے گورنر اور ذہانت میں ضرب المثل تھے۔
٭سیدنا امام اعظم ابوحنیفہؒ نعمان بن ثابت : ( وفات 2 شعبان 150ہجری) ۔ مزار بغداد (عراق) میں مرجعِ خلائق ہے۔ آپ تابعی بزرگ، مجتہد، محدث، عالم اسلام کی مؤثر شخصیت، فقہ حنفی کے بانی اور کروڑوں حنفیوں کے امام ہیں۔
٭محمد بن ادریس شافعی ؒ : یکم شعبان 204ھ کو شافعی مذہب کے بانی حضرت امام محمد بن ادریس شافعی کا 54 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ ان کی قبر قاہرہ شہر میں قرافہ کی ایک گلی میں واقع ہے۔