اسلام کے یہ معترضین
’’کیا تم چاہتے ہو کہ ہم آج سے ہزاروں برس قبل خیموں میں رہنے والے خانہ بدوشوں کی مانند زندگی گزاریں۔ صحرا کے رہنے والے وحشی اور اجڈ بدوئوں کے لئے اسلام بالکل موزوں اور ان کی ضروریات سے ہم آہنگ تھا۔ اس کی سادگی میں ان کے لئے کشش بھی موجود تھی، لیکن کیا موجودہ دور میں جو آواز سے تیز رفتار طیاروں، ہائڈروجن بموں اور سینما کا دور ہے، کسی ایسی تہذیب کی گنجائش ہوسکتی ہے، جس کی بنیاد خدا کے اقرار و ایمان پر ہو اور جدید ترقی یافتہ تہذیب کے معیار پر پوری نہ اترتی ہو۔ کیونکہ یہ جامد ہے اور وقت کا ساتھ دینے کی صلاحیت سے قطعاً عاری۔ اس لئے ہم جب تک اس سے چھٹکارا حاصل نہیں کریں گے، آج کی ترقی یافتہ اور مہذب اقوام کی صف میں شامل نہیں ہوسکیں گے‘‘۔
کچھ عرصہ ہوا، جب میری ملاقات ایک انگریزی فاضل سے ہوئی، تو مخالفین اسلام کے یہ سارے اعتراضات میرے ذہن میں گھوم گئے۔ یہ صاحب اقوام متحدہ کے ماہرین کے اس وفد سے متعلق تھے، جو گزشتہ دو برس سے مصر میں مقیم تھا۔ اس وفد کا مقصد مصری کسانوں کے معیار زندگی کو بڑھانے میں حکومت مصر کی مدد اور رہنمائی تھا، مگر اس خطہ اور یہاں کے لوگوں سے گہری ’’وابستگی اور محبت‘‘ کے باوجود چونکہ وفد کے ارکان میں سے کوئی بھی ان کی زبان سے واقف نہ تھا، نہ ان میں سے کسی نے اس کی ضرورت ہی محسوس کی تھی، لہٰذا حکومت مصر کی طرف سے مجھے یہ خدمت سونپی گئی کہ میں وفد اور مقامی کسانوں کے درمیان ترجمانی کے فرائض انجام دوں۔ اس طرح میری ملاقات اس فاضل انگریز سے ہوئی۔
میں نے پہلی ملاقات ہی میں اس انگریز کو جتادیا کہ مصر کے لوگ انگریزوں سے متنفر ہیں اور اس وقت تک متنفر رہیں گے جب تک وہ مشرق کے کسی ایک ملک میں بھی جارحیت اور ظلم کا باعث بنتے رہیں گے۔ میں نے اس کو یہ بھی بتایا کہ ہم ان کے حلیفوں مثلاً امریکہ وغیرہ سے بھی نالاں ہیں، کیوں کہ انہوں نے مصر، فلسطین اور ہمارے دوسرے مسائل کے بارے میں غیر منصفانہ طرز عمل اپنا رکھا ہے۔ میری گفتگو سن کر وہ بھونچکاسا ہوگیا، لمحہ بھر کے توقف کے بعد کہنے لگا: ’’کیا تم کمیونسٹ ہو؟‘‘
اس پر میں نے اسے بتایاکہ میں کمیونسٹ نہیں مسلمان ہوں اور اسلام کی صورت میں میرے پاس ایک ایسی تہذیب اور نظام زندگی موجود ہے جو اشتراکیت اور سرمایہ داری دونوں سے کہیں زیادہ اعلیٰ ارفع اور برتر ہے، کیونکہ یہ پوری زندگی پر محیط ہے اور اس سے اس کے مختلف شعبوں میں ہم آہنگی پیدا ہوجاتی ہے۔
تین گھنٹے تک ہم آپس میں یہی باتیں کرتے رہے، آخر میں وہ کہنے لگا: ’’اسلام کے بارے میں آپ جو کچھ کہتے ہیں، ممکن ہے، وہ بالکل صحیح ہو، لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے میں تو جدید تہذیب کے ثمرات سے محرومی گوارا نہیں کرسکتا۔ میں ہوائی جہازوں میں سفر کرنا چھوڑ سکتا ہوں اور نہ ریڈیو پر دلکش اور دلفریب موسیقی سے بے اعتنائی برت سکتا ہوں۔ آرام و آسائش کے اس سرو سامان کو میں نہیں چھوڑ سکتا‘‘۔
اس کے جواب سے میں بہت حیران ہوا، اور میں نے کہا: ’’لیکن آپ کی ان دلچسپیوں پر قدغن کون لگاتا ہے؟‘‘
تو کیا اسلام قبول کرنے کا مطلب خانہ بدوشی اور وحشت کے دور کی طرف پلٹ جانا نہیں ہے؟‘‘
بے بنیاد اعتراضات:
اسلام کے بارے میں معترضین بالعموم اب تک اسی طرح کے شبہات میں مبتلا نظر آتے ہیں جس طرح کے شبہات اوپر نقل کئے گئے ہیں۔ جن لوگوں نے تاریخ مذاہب کا مطالعہ کیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان اعتراضات اور شبہات کی کوئی حقیقت نہیں ہے، کیونکہ اسلام پر کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا، جب یہ ترقی اور تہذیب کی راہ میں سنگ گراں بنا ہوا۔
اسلام نے جس قوم کو اپنا مخاطب اول بنایا، وہ زیادہ تر بدوئوں پر مشتمل تھی، وہ تہذیب سے اس قدر دور اور اسے سنگ دل تھے کہ خود قرآن پاک نے ان کے بارے میں کہا
یہ بدوی عرب کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں(التوبہ:97)
اسلام کا عظیم معجزہ:
اسلام کا ایک بہت بڑا معجزہ ان وحشی اور اجڈ بدوئوں کو انسانوں کے ایک گروہ اور قوم میں تبدیل کرنا ہے۔ اس نے نہ صرف ان کو راہ ہدایت دکھائی، اور حیوانیت سے بلند کرکے انہیں انسانیت کی اعلیٰ قدروں سے روشناس کیا، بلکہ انہیں دوسروں کے رہنما اور خدا کے دین کا داعی بھی بنادیا۔ اسلام انسانوں کی تہذیب اور روح انسانی کی تطہیر کی جو معجز نما صلاحیت رکھتا ہے، یہ کارنامہ اس کی بڑی واضح اور روشن مثال ہے۔
اسلامی تہذیب اور روحانی و عملی زندگی:
روح انسانی کی تطہیر بڑا پاکیزہ مقصد ہے۔ یہی تمام انسانی سعی وجہد کا حقیقی منتہائے مقصود ہے اور انسانی تہذیب کی غایت اصلی بھی، لیکن اسلام روح کی تطہیر ہی کو کافی نہیں سمجھتا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تہذیب کے ان تمام مظاہر کو بھی باقی رکھتا ہے، جنہیں موجودہ زمانے میں زندگی کا اصل لطف سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ مفتوحہ ممالک کی ان تمام تہذیبوں کی اسلام نے سرپرستی کی اور انہیں اپنے زیر سایہ پروان چڑھایا، جو عقیدۂ توحید کے منافی نہیں تھیں، اور نہ لوگوں کو نیکی اور اچھے کاموں سے روکتی تھیں۔
قدیم یونان اور اسلام:
اسلام نے یونان سے ملنے والے اس سائنسی ورثے کی بھی حفاظت اور سرپرستی کی، جو علم الادویہ، فلکیات، ریاضی، طبیعات، کیمیا اور فلسفہ پر مشتمل تھا۔ اسلام نے اس ذخیرۂ معلومات کی صرف حفاظت ہی نہیں کی، بلکہ اس میں مزید اضافہ بھی کیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو سائنس اور اس کی تحقیق سے کس قدر گہری دلچسپی تھی، چنانچہ یورپ کی تحریک احیائے علوم اور اس کی مجودہ سائنسی کامرانیوں کی اساس مسلمانان اندلس کی سائنسی تحقیقات ہی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام نے اپنی تاریخ کے کسی دور میں بھی کسی حقیقی خادم انسانیت تہذیب کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالی۔
موجودہ مغربی تہذیب کے متعلق اسلام کا رویہ:
موجودہ مغربی تہذیب کے بارے میں بھی اسلام کا رویہ وہی ہے جو اس سے قبل دوسری تہذیبوں کے بارے میں رہا ہے۔ اسلام اس کی کسی خوبی سے انکار نہیں کرتا، مگر وہ اس کے لائے ہوئے فساد اور خرابیوں کو قبول کرنے کا روادار نہیں۔ اسلام نے اپنے پیروئوں کو مادی یا سائنسی میدانوں میں کبھی علیحدگی پسندی کی تعلیم نہیں دی۔ دوسری تہذیبوں کے خلاف اس کی کش مکش کی تہہ میں کوئی شخصی یا نسلی تعصبات کار فرما نہیں ہوتے، کیوں کہ اسلام وحدت آدمیت کا علمبردار ہے اور چاہتا ہے کہ انسان کی مختلف نسلوں اور طبقوں کے درمیان گہرے برادرانہ روابط قائم ہوں۔
جدید سائنسی ایجادات اور اسلام:
اسلامی تحریک جدید ایجادات کے خلاف نہیں ہے اور نہ مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ مختلف ہتھیاروں اور اوزاروں پر بسم اللہ الرحمن الرحیم کے الفاظ کندہ ہونے چاہئیں، ورنہ وہ ان کو اپنے گھروں، کھیتوں اور کارخانوں میں استعمال نہیں کریں گے۔ اسلام جو کچھ چاہتا ہے، وہ بس اتنا ہے کہ ان ہتھیاروں اور اوزاروں کو اللہ کے لئے اور اس کی مرضی کے مطابق استعمال کیا جائے، کیونکہ یہ تو بے جان آلات ہیں، ان کا نہ کوئی مذہب ہوسکتا ہے، اور نہ کوئی وطن، مگر ان کے غلط یا صحیح استعمال سے ساری دنیا کے انسان متاثر ضرور ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک توپ کو دیکھئے کہ اس کا نہ کوئی مذہب ہے، نہ رنگ اور نہ کوئی وطن، لیکن اسلام کے نزدیک کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اس کو غلط استعمال کرکے اس کی مدد سے دوسروں پر ظلم اور زیادتی کرنے لگے۔ کسی مسلمان کی بہرحال یہ شان نہیں ہے، بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ توپ کو ظالموں کی زیادتی سے لوگوں کو بچانے کے لئے کام میں لائے یا دنیا میں خدا کے دین کا کلمہ بلند کرنے میں اس سے مدد لے۔
اسی طرح فلم بھی ایک جدید ایجاد ہے، اسلام اس کے بھی خلاف نہیں ہے۔ بلکہ ایک اچھے مسلمان سے اس کا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ وہ فلم کو پاکیزہ جذبات، نیک کرداروں یا معاشرہ انسانی میں خیر و شر کی کش مکش کی عکاسی کے لئے استعمال کرے۔ کسی مسلمان کے لئے یہ بات بہرحال جائز نہیں ہے کہ وہ فلم کو عریانی اور گندے خیالات اور جذبات کے اظہار اور اشاعت کا ذریعہ بنائے اور اس کے ذریعے معاشرے کے ان بگڑے ہوئے کرداروں کو نمایاں کرے جو ہر طرح کی اخلاقی، ذہنی اور روحانی گندگیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ اس کے نزدیک اس طرح کی تمام فلمیں گندی اور سطحی ہیں کیونکہ ان میں زندگی کی بڑی سطحی اور گھٹیا تصویر پیش کی جاتی ہے اور یہ انسان کے پست سفلی جذبات کو اپیل کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی فلمیں انسان کے روحانی ارتقا میں ممدو معاون نہیں بن سکتیں، بلکہ الٹا اس کے لئے انتہائی مضر ثابت ہوتی ہیں۔
اسلام نے انسان کی سائنسی ایجادات کی کبھی مخالفت نہیں کی۔ مسلمانوں کو اس نے یہی تعلیم دی ہے کہ وہ تمام اچھے سائنسی علوم کو اپنے مقصد کی خدمت کے لئے استعمال کریں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’علم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘۔ یہ کہنے کی غالباً یہاں ضرورت نہیں ہے کہ علم کی تعریف میں ہر قسم کا علم شامل ہے۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود یہ تھا کہ مسلمانوں کو علم اور سائنس کے ہر شعبے میں آگے بڑھنا چاہئے۔
الغرض اسلام کسی ایسی تہذیب کی مخالفت نہیں کرتا جو انسانیت کی خادم ہو، لیکن اگر کوئی تہذیب میخواری، قمار بازی، اخلاقی انحطاط، قحبہ گری اور نوآبادیاتی سامراج اور دوسری قوموں کو مختلف حیلوں اور بہانوں سے اپنا غلام بنانے کی ہم معنی بن کر رہ جائے تو اسلام اس تہذیب کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ اس کے خلاف علم جہاد بلند کرتا ہے، تاکہ دنیا کے لوگ اس کی لائی ہوئی تباہیوں اور بیماریوں سے محفوظ رہیں۔