حورعین کی گڑیا

381

“امی! امی! امی! ” حورعین مستقل اپنی امی کو آواز لگا رہی تھی ، دوسری طرف اس کی امی کچن میں تھیں،وہ اسے جواب دے رہی تھیں کہ :” آرہی ہوں بیٹا یہ روٹی جائے”، لیکن حورعین کو اپنی آواز کے آگے اور کسی کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی اور وہ بنا رکے بس آواز لگا رہی تھی ۔

“یا اللہ ! حورعین کیا ہوا ہے؟ ابھی کچھ دیر پہلے تو میں یہاں سے گئی ہوں اور اب آپ نے مستقل امی امی کی رٹ۔۔۔۔ ” ابھی حورعین کی امی کہہ ہی رہی تھیں کہ وہ جھنجھلا کر کہنے لگی ،” امی! میں نے یہاں اپنی گڑیا رکھی تھی وہی جو اس دن ہی خریدی ہے نئی اب وہ نہیں ہے یہاں ، مجھے ڈھونڈ کر دیں بس مجھے نہیں پتا۔”

“جی بیٹا پرسوں خریدی ہے آپ نے اور کھیلتے ہوئے رکھ دی ہوگی کہیں ، یاد کریں آپ کہاں کھیل رہی تھیں اس سے۔” امی نہیں ناں میں نے اس کبرڈ cupboard میں جگہ بنائی ہے ناں آپ کو پتا تو ہے میں ہر چیز اس کی جگہ پہ ہی رکھتی ہوں۔”
“جی بیٹا مجھے معلوم ہے میری بیٹی ہر چیز اس کی جگہ پہ رکھتی ہے، “اس کی امی نے یہ کہتے ہوئے زمین پہ پڑا اسکیل اٹھا کر ٹیبل پہ رکھا۔ اوہ یہ تو غلطی سے گر گیا تھا ۔ اس نے کہا۔

“ارے ہاں یاد آیا ، وہ کل وہ آیا تھا ناں ارے وہی برابر والی آنٹی کا بیٹا ، عجیب بھینگی آنکھوں والا موٹا اور۔۔۔ ” “بس بس” ، اس کی امی نے اسے روکا ، بری بات ہے اس طرح کسی کے بارے میں بات نہیں کرتے، نام ہوتا ہے ہر شخص کا تو اسی نام سے اسے پکارتے ہیں۔” “ہاں تو مجھے نام یاد تھوڑی ہے اس کا۔” اس نے کہا ۔

“اسفر نام ہے برابر والی آنٹی کے بیٹے کا ” “جی جی وہی اسفر، مسفر۔ ” حورعین نے دہرانے کے ساتھ نام بھی بگاڑا ۔
“چچ ایک اور غلط بات۔۔ نام نہیں بگاڑتے کسی کا، جائیں میں آپ سے بات نہیں کر رہی بلکہ میں ہی کچن میں جارہی ہوں۔ ”
اُس کی امی جانے لگیں تو حورعین پیچھے پیچھے آئی ،” امی امی رکیں ناں۔۔۔ پہلے میری گڑیا تو بازیاب کروائیں۔”
“بازیاب، “؛اس کی امی اس کے منہ سے اتنا مشکل لفظ سن کر حیران ہوئیں کیوں کہ حورعین ابھی جماعت دوم میں تھی ۔
“جی امی میں نے کہانی میں پڑھا تھا کہ جب کوئی اغوا ہوتا ہے تو اسے بازیاب کرواتے ہیں۔”
“اچھا تو مطلب آپ کی گڑیا اغوا ہوئی ہے؟ ” “جی بالکل اور مجھے شک ہے اس اسفر پہ، وہ کل آیا تھا ہری مرچ لینے اور میں یہاں لاؤنج میں کھیل رہی تھی، وہ میرے سارے کھلونوں کو دیکھ رہا تھا مجھے پتا ہے اسی نے اغوا کی ہے گڑیا ۔” حورعین نے پوری بات بلکہ اپنا پورا شک بتایا ۔
“یہ کیا بات ہوئی ایسے کیسے آپ نے کسی کو کہہ دیا کہ اس نے آپ کا کھلونا لیا ہے کیا آپ نے اسے یہ کرتے ہوئے دیکھا؟ اور آپ نے خود بتایا آپ کے پاس اس وقت اور کھلونے بھی تھے تو صرف گڑیا کیسے غائب ہوئی۔۔؟ آپ ہی نے کہیں رکھ دی ہے اور اب یاد نہیں آپ کو ۔۔”
“ہاں، لیکن اغوا اسی نے کیا ہے میری پیاری گڑیا کو آپ ابھی میرے ساتھ اس کے گھر چلیں میں اس سے پوچھوں گی اگر نہیں بتائے گا تو میں اس کے کمرے کی تلاشی لوں گی اور کیا پتا اگر اس نے گڑیا کہیں بیچ دی ہو تو میں پھر پولیس کو شکایت کروں گی۔”
“کیا کیا ! پولیس، بھئی کون شکایت کرے گا ایسا بھی کیا ہوگیا ؟” اپنے ابو کی آواز پہ حورعین نے مڑ کر دیکھا۔
“ابو آپ آگئے!” “جی ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔”
“وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔”
“ابو آپ کو معلوم ہے میری ۔۔۔۔۔”
“حورعین اپنے ابو کو پانی پلائیں اور ابھی تو وہ آئیں ہیں تھوڑی دیر بعد بتائیے گا۔”
اس کی امی نے کہا تو وہ کچن میں پانی لینے چلی گئی ، اس نے پانی کا گلاس اپنے ابو کو دیا۔
“جزاکِ اللہ!” اس کے ابو نے کہہ کر گلاس لیا اور پوچھا
“بتائیں آپ کیا کہہ رہی تھیں؟ ” “جی وہ میری گڑیا اغوا ہوگئی۔ ”
اس نے منہ بسور کر بتایا۔ “اوہ،! اچھا وہی گڑیا جو ہم نے۔۔۔”
“جی وہی جو ابھی پرسوں ہی نئی خریدی ہے اور آپ کو پتا ہے اسے اسفر نے اغوا کیا ہے۔ ” حورعین نے اپنے ابو کے کان میں کہا۔
“اسفر ۔۔۔ ؟” اس کے ابو سوچنے لگے ،” اچھا وہ جو پڑوس میں رہتا ہے؟ 1 کلاس میں ہے شاید” “جی وہی۔”
” اچھا لیکن آپ کو کیسے شک ہوا اس پہ؟” ابو نے پوچھا ۔
“حورعین چلیں دسترخوان بچھائیں ، میں کھانا لگا رہی ہو۔ بس اور باقی باتیں بعد میں۔”
“اچھا امی۔ ” ابو آپ ہاتھ منہ دھوئیں میں آپ کو باقی بات بعد میں بتاؤں گی ، اس نے پہلے امی اور پھر ابو سے کہا اور بھاگ کر دسترخوان بچھایا، اس کے ابو منہ ہاتھ دھو کر آئے اور ساتھ میں اپنا آفس بیگ بھی لے آئے ۔
امی نے کھانا رکھا، اور وہ تینوں کھانا کھانے بیٹھ گئے اس کے ابو نے آفس بیگ ساتھ ہی رکھ دیا۔
“ابو، آپ تو اپنا آفس بیگ آفس سے آنے کے بعد کمرے ہیں رکھ دیتے ہیں ابھی کیوں ساتھ لے کر بیٹھ گئے ، کیا آپ دوبارہ آفس جائیں گے کھانا کھا کر؟ ”
“نہیں تو ! میں اپنی بیٹی کی گڑیا واپس دلائے بغیر کیسے ہیں جاسکتا ہوں، یہ بیگ کیوں لایا ہوں یہ میں بعد میں بتاتا ہوں، ابھی آپ کھانا شروع کریں چلیں شاباش۔”
“جی ، پھر ہم برابر والی آنٹی کے گھر جاکر اپنی گڑیا واپس لیں گے اسفر سے۔ ” حورعین کو یقین تھا کہ گڑیا اسے وہیں سے ملے گی ۔
اس کی اس بات پہ اس کے امی ابو بس مسکرا کر رہ گئے ۔
کھانا کھانے کے بعد اس کی امی برتن سمیٹنے لگیں اور اس کو اس ابو نے پاس بٹھا کر اپنا آفس بیگ دیا۔
“یہ آپ مجھے کیوں دے رہے ہیں؟ ” اس نے پوچھا۔
“آپ کھولیں اسے ، اس میں سرپرائز ہے آپ کے لیے۔”
“اچھا! کیا ہے؟ ” وہ کہہ کر بیگ کی زپ کھولنے لگی ، بیگ کھلتے ہی اس نے دیکھا کہ اس کی گڑیا اس میں رکھی ہے۔
“اوہ اچھا تو یہ اس بیگ میں تھی؟ مطلب آپ کے پاس تھی؟ تو پھر آپ اسے آفس لے گئے ؟”
“جی آج آپ کی گڑیا نے میرے آفس کی ہوا کھائی ہے، اور اب آپ کہیں گی کہ اسے میں نے اغوا کیا تھا ۔ ہے ناں؟” “نہیں مجھے یاد آیا میں رات کو آپ سے باتیں کررہی تھی اور آپ کا بیگ کھلا ہوا تھا میں نے گڑیا کو اس میں بٹھایا اور پھر شاید زپ بند کر دی تھی پھر شاید نکالنا بھول گئی اور آپ بھی۔ ؟ ”
“جی میں نے بھی پھر زپ نہیں کھولی اور آفس جا کر دیکھا تو اس میں سے گڑیا نکلی ، خیر میں نے اسے واپس بیگ میں رکھ دیا تھا اور سوچا کہ آپ کو گھر آ کر دے دوں گا لیکن مجھے کیا پتا تھا کہ آپ نے آج اس سے کھیلنا ہے ورنہ پہلے ہی فون پہ بتا دیتا ۔”
“آپ بتا ہی دیتے کیوں کہ پھر اسفر پہ تو شک نہ کیا جاتا اور ہماری حورعین کو تو یقین ہوگیا تھا کہ ان کی گڑیا اسی کے پاس ہے۔” اس کی امی نے کہا۔
“ہم م م ! آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا حورعین ۔ کوئی اس طرح کیوں آپ کا کھلونا لے کر جائے گا؟ بلکہ آپ پہلے یاد کر لیتیں کہ آپ نے کہاں رکھی ہے اپنی گڑیا تو یاد آ ہی جانا تھا۔”
اس کے ابو نے اسے پیار سے سمجھایا ۔
“جی ابو مجھے لگا کہ اسفر نے۔۔۔ ”
“چلیں اب آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔۔ٹھیک ؟ ” اس کے ابو نے کہا۔
“جی اور اب میں اپنی ساری چیزیں یاد سے رکھوں گی تاکہ مجھے کسی اور پہ شک نہ کرنا پڑے۔” حورعین نے عہد کیا۔ اور بیگ میں سے گڑیا نکال لی۔
ایک اور بات۔۔۔۔۔ اس واقعے کے بعد حورعین کے گھر کوئی محلے کا بچہ آتا ہے تو وہ ان کو اپنے ساتھ اپنے کھلونوں سے کھلاتی ہے، اپنے سارے کھلونے اور اسکول کی چیزیں ان کی جگہ پہ رکھتی ہے اور اس نے اسفر کو یہ گڑیا والی بات نہیں بتائی کہ اس نے اس پہ شک کیا تھا اور وہ اب کسی کی چڑ بھی نہیں بناتی کیوں کہ اس کی امی نے اسے بتایا ہے کہ کسی کی چڑ بنانا یا مذاق اڑانا بری بات ہے اور وہ فرمانبردار بچی ہے، اس کے امی ابو جو بات سے سکھاتے ہیں وہ اس کو مان لیتی ہے۔

حصہ