جمال اور کمال کی بستی ایک ایسی بستی تھی جس کو گاؤں دیہات کے لوگ شہر کہا کرتے تھے لیکن وہ اتنی چھوٹی بستی تھی کہ شہر کے رہنے والے اسے دیہات ہی سمجھتے تھے۔ آس پاس کے چھوٹے چھوٹے گاؤں گوٹھ والے اپنی ضرورتوں کی چیزیں خریدنے جمال اور کمال کی بستی ہی میں آیا کرتے تھے۔ بے شک ضرورت کی بہت ساری اشیا یہاں سے ہی مل جایا کرتی تھیں لیکن پھر بھی بستی والوں کو بڑی خریداری کرنے کے لیے کسی نہ کسی بڑے شہر میں ہی جانا پڑ جاتا تھا۔ جہاں مکانوں کا سلسلہ تھا وہاں کی گلیاں اور سڑکیں کسی حد تک پختہ تھیں لیکن کچھ دور جو دیہات نما آبادیاں تھیں وہاں گلیاں اور گزرگاہیں کچی ہی تھیں یہاں تک کہ وہاں کے وڈیروں کے ڈیروں کے راستے تک کچے ہی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ جس ماحول میں اپنی آنکھیں کھولتا ہے وہیں کا عادی ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ شہری سہولیات نہ ہونے کے باوجود یہاں کا ہر رہائشی خوش اور اپنی اپنی زندگی سے مطمئن نظر آتا تھا۔
بستیاں جتنی چھوٹی ہوتی ہیں، لوگوں میں اتنا ہی پیار پایا جاتا ہے۔ تمام لوگ ایک دوسرے سے خوب اچھی طرح واقف ہوتے ہیں اور ہر کوئی ہر کسی کے دکھ درد میں کام آتا ہے۔ اچھے برے انسان ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں لیکن جہاں انسان کم ہوں وہاں بری بات کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہر فرد کو معلوم ہوتا ہے کہ غلط بات کرتے اگر کسی نے بھی دیکھ لیا تو بات سب میں پھیل جائے گی۔ اگر اس نے برے کام کرنے پر معافی مانگ لی تو خیر ورنہ لوگوں کے درمیان رہنا بہت ہی دشوار ہو جائے گا۔ معاشرے میں بدنامی کا یہ خوف ویسے تو ہر جگہ ہر انسان کو غلط کام کرنے سے روکتا ہے لیکن جہاں افراد ہوں ہی کم تو وہاں عام طور پر ہر فرد اپنے آپ کو ہر قسم کے غلط یا برے کام سے روکے رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین ہوں یا بچے بچیاں، سب ہی بلا خوف و خطر بستیوں میں گھوم پھر رہے ہوتے ہیں اور کوئی بھی ان کی جانب بری نیت سے دیکھنے کی جرات تک نہیں کر رہا ہوتا۔
چھوٹی بستیوں میں چوری چکاری، لوٹ مار یا ڈاکا زنی کے واقعات بھی نہیں ہوتے۔ اس قسم کے واقعات میں عام طور پر بستی والے ملوث نہیں ہوا کرتے بلکہ بستی کے باہر والے ہی اس قسم کی جرات کر گرزتے ہیں۔ بستی والوں کو اپنے پہچان لئے جانے کا ڈر ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہر خراب کام سے اپنے آپ کو دور ہی رکھتے ہیں۔
جمال اور کمال کی بستی کا امن و سکون تو تھا ہی مثالی لیکن آس پاس کی اور بہت ساری چھوٹی چھوٹی آبادیاں بھی بہت پر سکون شمار ہوتی تھی اسی لئے دیگر علاقوں کے افراد یہاں بلا خوف و خطر خریداریاں کرنے آتے جاتے تھے لیکن جس طرح کوئی جھیل کے ٹھیرے ہوئے پانی میں بڑا سا پتھر پھینک کر پر سکون جھیل میں یک دم ہل چل سی مچا دیتا ہے بالکل ایک ایسی ہی انوکھی ڈکیتی نے آس پاس کی ساری چھوٹی بڑی بستیوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ چوریاں یا ڈکیتیاں ہر بستی اور آبادی میں ہوتی ہی رہتی ہیں لیکن یہ ڈکیتی دو تین لحاظ سے پولیس کو چکرائے دینے کے لیے کافی تھی۔ ایسا تو بے شک ازل سے ہی چلا آ رہا ہے کہ اگر کمزور کے ساتھ کوئی واردات ہو جائے تو پولیس کارروائی تو ضرور کرتی ہے لیکن اس میں پولیس کی “پھرتیوں” کا عمل دخل کم ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ تھا کہ اس مرتبہ آس پاس کی ساری چھوٹی بڑی بستیوں کے سب سے بڑے وڈیرے ملک احمد خان کے گھر ڈاکوؤں نے بالکل ہی جھاڑو پھیر کر رکھ دی تھی۔ جھاڑو بھی رات کے ایسے پہر پھیری گئی تھی جب پورا خاندان کسی اور وڈیرے کے بیٹے کی شادی میں شریک ہونے گیا ہوا تھا۔ گھر میں چوکیدار اور چند نوکروں کے علاوہ اور کوئی بھی نہیں تھا لیکن یہ سب بیہوش پائے گئے تھے۔ جب وڈیرے صاحب رات کے آخری پہر ڈیرے پر لوٹے تو چوکیدار کو گیٹ پر غیر موجود پایا۔ نوکروں کو پکارا تو کسی کی جانب سے کوئی آواز نہ آئی۔ گھر کے کمروں میں داخل ہونے پر تمام کپڑوں کی الماریاں خالی پائیں اور قیمتی کپڑوں کے علاوہ سارے فرش پر ادھر ادھر بکھرے ہوئے ملے۔ تجوریاں ٹوٹی ہوئیں، سونے چاندی کے قیمتی زیورات اور کرنسی غیر موجود پائی۔ اسی وقت پولیس کو اطلاع دی گئی جو برق رفتاری کے ساتھ موقعہ واردات پر پہنچ گئی جس میں انسپکٹر حیدر علی سب سے آگے آگے تھے۔ ذرا سی دیر میں چوکیدار کے کوارٹر سے چوکیدار اور گھر کے سارے نوکر بیہوشی کی حالت میں مل گئے جن کو فوری طور پر شہر کے بڑے ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔
پولیس کے لئے سب سے زیادہ پریشان اور حیران کن بات یہ تھی کہ سارے راستے میں نہ تو انھیں گاڑیوں کے ٹائروں کے نشانات نظر آئے اور نہ ہی کسی کے بوٹوں یا پیروں کے نشانات۔ گھر کے مین گیٹ تک کسی قسم کی کوئی چہل قدمی کے آثار دکھائی ہی نہیں دیئے جبکہ پوارا راستہ کچا تھا۔ گھر کی پچھلی جانب کا جائزہ صبح کے اجالے تک مؤخر کرنے کے ساتھ ہی حیدر علی نے ہدایت کری کہ کوئی بھی گھر کی پچھلی جانب اس وقت تک نہ جائے جب تک پولیس راستوں کو کلیر نہ کردے۔ یہ ہدایت دینے کے بعد حیدر علی نے کئی پولیس اہلکاروں کو گھر کے چاروں جانب نظر رکھنے کو کہا اور تھانے واپس آگئے۔ (جاری ہے)
اگلی صبح جب حیدر علی نے موقعہ واردات کا جائزہ لیا تو ان پر یہ راز منکشف ہوا کہ گھر کی پچھلی جانب گھوڑوں کے نشانات موجود ہیں۔ پچھلی جانب کوئی ڈیڑھ فرلانگ کی دوری پر ایک پختہ سڑک کے کنارے سے چار پانچ گھوڑے گھر کی پچھلی دیوار تک آئے جن پر یقیناً ڈاکو سوار رہے ہونگے، انھوں نے واردات کی ہوگی اور جتنا سامان لاد کر لے جا سکتے ہونگے لے گئے ہوں گے۔ یہ بات تو ایسی نہیں تھی جو ایک عام انسان نہ سمجھ سکے لیکن عقل ہلادینے والی بات یہ تھی کہ تمام کے تمام نشانات آنے والے گھوڑوں کے کھروں کے تو ضرور تھے لیکن واپس جانے والے کسی گھوڑے کا کوئی ایک نشان بھی کہیں موجود نہیں تھا۔ انسپکٹر حیران تھے کہ جب گھوڑے پچھلی دیوار تک آئے تھے تو کیا یہاں سے واپسی کا سفر گھڑوں نے اڑ کر کیا تھا۔ دوسری حیران کن بات یہ تھی جس مقام سے گھوڑوں نے کچی زمین پر قدم رکھا وہاں سڑک پر نہ کسی گھوڑے کے کھروں کا آنے والا نشان تھا اور نہ جانے والا۔ کیا یہ گھوڑے سفر کے آغاز کے مقام پر بھی ہوا سے اڑ کر آئے تھے۔
جمال اور کمال کی بستی میں بھی یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ ساری بستی کے لوگ حیران بھی تھے اور کسی حد تک خوف زدہ بھی کہ کیا واقعی یہ اڑنے والے گھوڑے ہیں۔ یہی بات نہ صرف انسپکٹر حیدر علی کے لیے پریشان کن تھی بلکہ پولیس کے اعلیٰ حکام بھی حیران تھے۔ خبر کیونکہ غیر حقیقی سی لگتی تھی اس لئے تمام اعلیٰ افسران اپنی اپنی غیر یقینی کی کیفیت کو دور کرنے کے لیے جائے واردات پر آئے اور سب ہی یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ عمارت کی جانب 5 گھوڑے آئے تو ضرور تھے لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی واپس نہیں گیا۔ ناقابلِ یقین بات یہ تھی کہ گھوڑے یا گھوڑوں کے آنے کی نشانات تو بالکل نمایاں تھے لیکن جانے کے نشانات کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ راستے کی مٹی سیلی ہوئی اور نرم ہونے کی وجہ سے گھوڑوں کھروں کے نشان اتنے واضح تھے کہ انھیں شناخت کرنے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑ رہا تھا۔
اخبارات میں روز اس واقعے کی کسی نہ کسی انداز میں تفصیل بھی آ رہی تھی اور لکھنے والے اس پر اپنے اپنے حساب سے تبصرہ آرائیوں میں بھی مصروف تھے۔ جمال اور کمال کو بھی اخبارات کے ذریعے ہی یہ خبریں پہنچ رہی تھیں اور وہ بھی اپنی اپنی سوچ کے مطابق غور و فکر کر رہے تھے۔ ایک رات دونوں ہی اس مسئلے پر ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہے لیکن دونوں ہی سوچتے سوچتے جیسے تھک سے گئے۔ کچھ دیر کے بعد ایسا لگا جیسے ان دونوں پر نیند غالب آتی جا رہی ہے لیکن حقیقتاً ایسا نہیں تھا۔ انھیں ایسا لگا جیسے ان کے تحت الشعور میں کوئی خیال بہت تیزے کے ساتھ کلبلا رہا ہے۔ دونوں بیک وقت یوں چونک کر اٹھے جیسے کسی نے ان کے چٹکی سی لی ہو۔ کیونکہ وہ دونوں چڑواں بھائی تھے اور ایک ہی جیسی صلاحیتوں کے مالک بھی اسی لئے اکثر وہ جب بھی گہری سوچ میں ہوتے تو عموماً وہ ایک جیسی ہی بات سوچ رہے ہوتے تھے۔ جمال نے کمال کی جانب دیکھتے ہوئے کہا کہ مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے مجھے کچھ یاد آ رہا ہو۔ کمال نے بھی جمال سے کہا کہ شاید ایسا ہی ہے۔ کیا تمہیں دادا ابا کی کوئی بات تو یاد نہیں آ رہے۔ جمال نے اچھلتے ہوئے کہا، بالکل بالکل، تم نے درست کہا مجھے دادا ابا کا سنایا ہوا ایک واقعہ اچانک ہی یاد آ گیا۔ کمال نے کہا کہ لگتا ہے کہ یہ واقعہ ہونے والی واردات کا حل نکالنے میں کامیاب ہو جائے اور انسپکٹر حیدر علی مجرموں تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں لہٰذا ہم فوری طور پر انسپکٹر حیدر علی کو پورا واقعہ بتائے بغیر ایک ضروری کارروائی ڈالنے کا مشورہ دیں گے۔
یہ کیس کسی بھی لحاظ سے ایسا نہیں تھا جس میں انسپکٹر حیدر علی کو جمال اور کمال سے کسی قسم کی مدد لینے یا مشورہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی پھر بھی حیدر علی ان کے بلانے پر صبح ہی صبح جمال اور کمال کے گھر پہنچ گئے۔ جمال اور کمال نے ان کو عزت کے ساتھ اپنے چھوٹے سے ڈرائنگ روم میں بٹھایا تو انسپکٹر حیدر علی نے کہا کہ کہو کیسے یاد کیا۔ کہنے لگے کہ جس قسم کی واردات وڈیرے ملک احمد خان کے ڈیرے پر ہوئی ہے ہمیں اس کی تفصیل اخبارات کے ذریعے ہی حاصل ہوتی رہی ہے۔ خبر کیونکہ بہت ہی انوکھی سی ہے اس لئے ہمارے واسطے کافی تجسس کا سبب بنتی رہی۔ بظاہر یہ ایسی واردات نہیں تھی جس میں ہمارا کوئی رول نکل رہا ہو لیکن بعض اوقات کوئی بات ایسی بھی ہو جاتی ہے جس کا تعلق ایسے افراد سے بھی جڑ جاتا ہے جن سے واقعات کا جوڑے جانے کا کوئی امکان دور دور تک نہیں ہوتا۔ اگر آپ کو ہماری صلاحیتوں کا علم ہے اور آپ ہم پر اعتماد کر سکتے ہیں تو ہم آپ کو ایک نام دینا چاہتے ہیں۔ آپ فوراً ان کو اپنی “حفاظت” میں لیں۔ ہمارا اندازہ ہے کہ اس ڈکیتی سے نہ صرف ان کا تعلق بنتا ہے بلکہ خبر کے پھیلنے کے ساتھ ہی ان کی جان کو سخت خطرات بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔ انسپکٹر حیدر علی یہ سن کر جیسے اچھل سے گئے۔ بچوں نے کہا آپ نے تیس سال قبل سائیس غلام محمد کا نام تو سنا اور اخبارات میں پڑھا ہوگا۔ بس جتنی جلد ہو سکے اسے خفیہ طور پر سرکاری تحویل میں لے لیں باقی باتیں بعد میں ہونگی۔ حیدر علی نے کہا یہ تم کیا کہہ رہے ہو، کیا اسے سرکاری تحویل میں لینا آ سان ہے؟، سر کچھ بھی کریں، آپ کی اعلیٰ ترین حکام کی نظر میں بہت قدر ہے، آپ جو طریقہ بھی اختیار کریں جلدی کریں اور ان سے جو معلومات حاصل ہوں ان پر بھی نہایت برق رفتاری کے ساتھ کارروائی ڈالیں ورنہ سائیس غلام محمد کے غائب ہوتے ہی مجرمان سارے ثبوتوں کے ساتھ فرار ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
انسپکٹر حیدر علی کو ان بچوں پر اتنا اعتماد تھا کہ اپنی ساکھ اور نوکری کی پروا کئے بغیر بالکل ایسا ہی کیا جیسا بچوں نے مشورہ دیا تھا۔ تیسرے دن کے اخبار میں کیس کی پوری پوری اسٹوری اخبارات کی زینت بنی ہوئی تھی جس کا عنوان تھا کہ انسپکٹر حیدر علی نے “اڑنے والے گھوڑوں کا سراغ لگا لیا”۔ تمام مجرمان اپنے اڑنے والے گھوڑوں سمیت گرفتار کر لئے گئے۔ اخبارات ہاتھوں ہاتھوں فروخت ہونے لگے اور پوری بستی کیا پورے ملک میں انسپکٹر حیدر علی کے چرچے ہونے لگے۔
رات کے اندھیرے میں انسپکٹر حیدر علی جمال اور کمال کے گھر آئے لیکن اس بار شہر کی پولیس کے دو اعلیٰ عہدیدار بھی ساتھ تھے۔ یہ ایسی واردات کا ڈراپ سین تھا جس کو شاید ہی پورے ملک کی پولیس حل کر سکتی تھی جو جمال اور کمال کی نشاندہی نے منٹوں سیکنڈوں حل کر کے رکھ دیا تھا۔ بے شک سائیس غلام محمد کی جان کو بہت بڑا خطرہ در پیش تھا کیونکہ واقعات کے الم نشرح ہوتے ہیں مجرموں نے جرم کا واحد گواہ یعنی سائیس غلام محمد کو جان سے مار دینے کی مکمل تیاری کر لی تھی۔
جمال اور کمال اعلیٰ عہدیداروں کی موجود گی میں پولیس کو بتا رہے تھے کہ ایک دن ان کے والد صاحب اپنے والد صاحب یعنی ان کے دادا کا سنایا ہوا ایک بڑا قصہ سنا رہے تھے۔ والد صاحب کے والد کسی میلے میں شریک تھے۔ وہاں گھوڑوں کے مختلف کرتب دکھائے جا رہے تھے۔ اسی میں سائیس غلام محمد کا گھوڑا بھی شریک تھا۔ سائیس غلام محمد کا گھوڑے سدھانے میں بہت بڑا نام تھا۔ ایک خاص فاصلے سے اس کا گھوڑا مقررہ جگہ تک آہستہ آہتہ چلتا ہوا آیا اور پھر منہ موڑے بغیر وہ الٹے قدموں واپس بھی ہو گیا۔ میدان میں سنناٹا چھا گیا کیونکہ لوگ تو سمجھ رہے تھے کہ سائیس غلام محمد کا گھوڑا کوئی بڑا کارنامہ انجام دیگا۔ اس زمانے میں ایک نواب کا بڑا نام تھا اور سائیس غلام محمد انھیں کے گھوڑے سدھاتا تھا، ان کا چہرہ بھی اتر گیا کہ اس کے اتنی نامور سائیس نے ناک کٹوا کر رکھ دی۔ اتنے میں سائیس غلام محمد میدان میں آکر پکارا کہ جتنے ججز ہیں وہ یہاں تشریف لائیں اور ایمانداری سے بتائیں کہ کہ میرا گھوڑا یہاں آنے کے بعد کیا واپس گیا ہے؟، کیا کہیں بھی اس کے واپس جانے والے کھروں کے نشانات ہیں۔ یہ سن کر جیسے سب کے سب تجسس میں پڑ گئے۔ ساری جیوری دوڑی دوڑی آئی، پھر اور بہت سارے اکابرین معائینے کیلئے میدان میں اترے، وہ سب کے سب ہی حیران رہ گئے کہ گھڑے کے کھروں کی واپسی کے کسی بھی قسم کے نشانات زمین پر موجود ہی نہیں تھے۔ یہ جان کر سارے مجمع نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ نواب صاحب نے سائیس غلام محمد کو گلے سے لگا لیا اور اس میلے کا سب سے بڑا اعزاز سائیس غلام محمد کو عطا کیا گیا۔ بس یہ بات یاد آتے ہی ہمیں لگا کہ ہونا ہو، سائیس غلام محمد کسی نہ کسی شکل میں مجرموں کے ہاتھ لگ گئے ہیں اور اب مجرم یا تو انھیں مار دیں گے یا اغوا کر کے لے جائیں گے۔ مجرمان جو بھی ہیں ان کو ٹرینڈ کرنے والی شخصیت سائیس غلام محمد کے علاوہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتے۔ سائیس غلام محمد نے بھی یہی بات بتائی کہ بھاری معاوضے کے عوض میں نے کئی برس ان کے گھوڑوں کی تربیت کی تھی۔ معاوضے پر کام کرنا قانونی جرم بھی نہیں تھا لیکن جب سے مجھے واردات کا پتہ چلا ہے میرے گھر کے سارے فون بند کر دیئے گئے ہیں۔ جان کے خوف سے میں نے اپنے آپ کو گھر ہی میں قید کر لیا تھا۔ پولیس کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے اپنی تحویل میں لیکر میری جان بچائی۔ وہ کون لوگ ہیں میں خوب اچھی طرح جانتا ہوں۔ یہ کہہ کر سائیس غلام محمد نے سب کے ٹھکانے پولیس کو بتا دیئے تھے۔
یہ سن کر انسپکٹر حیدر علی کا عالم یہ تھا جیسے وہ جمال اور کمال کو اپنے سینے سے لگا لگا کر مار ہی ڈالیں گے۔ یہی حال پولیس کے اعلیٰ حکام کا تھا۔ ان کا تو جیسے بس ہی نہیں چل رہا تھا کہ وہ انھیں اپنے اپنے عہدے پیش کر دیں۔ سب نے مل کر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر ادا کیا اور دونوں کے حق میں ڈھیروں دعائیں دیں کہ اللہ تعالیٰ ان دونوں کو اور بھی خدمت کرنے کی توفیق عطا کرے اور اپنے خاص حفاظت میں رکھے۔