طاہر مسعود: کویتا دیوی سے پہلی ملاقات کب اور کیسے ہوئی؟
انور شعور: ہمارے ابا پکے نمازی تھے۔ چار‘ چھ سا کی عمر کا جب میں ہوا تو وہ مجھے اپنے ساتھ مسجد لے جانے لگے تاکہ میں بھی پکا نمازی بن جائوں۔ ابا ذرا خشک طبیعت کے تھے‘ پان‘ سگریٹ‘ حتیٰ کہ چائے سے بھی کوئی علاقہ نہ تھا۔ تو مسجد میں نعت خوانی ہوتی تھی۔ آواز میری بھی اچھی تھی تو میں خوش الحانی سے نعتیں پڑھنے لگا۔ جب نعت خوانی کا شوق بڑھا تو اردو اور فارسی کی اکثر مشہور نعتیں زبانی یاد ہوگئیں۔ یہ میں رنچھوڑ لائن کی صابری مسجد کا ذکر کر رہا ہوں۔ وہاں ایک شاعر تھے افسر صابری‘ بچوں کو قرآن پڑھاتے تھے۔ شاعر تھے اور بے خود دہلوی کے شاگرد تھے۔ افسر صابری صاحب نے جب مجھ میں شاعری کا ذوق دیکھا تو ہمت افزائی کی۔ وہ ایک غریب آدمی تھے مگر دل کے ایسے غنی تھے‘ ایسے خوددار کہ کبھی کسی سے اپنی کسی حاجت کا ذکر تک نہ کرتے تھے۔ جو مل جاتا تھا‘ لے لیتے تھے۔ ساتھ ہی تواضع میں پیش پیش رہتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نو آموز شاعر کے لیے کسی استاد کی شاگردی ضروری سمجھی جاتی تھی۔ استاد خود چاہے اچھا شاعر نہ ہو مگر سکھانے کے معاملے میں وہ سکہ بند استاد ہی ہوتا تھا۔ افسر صابری صاحب نے مجھ پر ایسی توجہ کی کہ بار برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے انہوں نے شاعری کا فن مجھے گھول کر پلا دیا۔ ان کے مراسم اکثر مشہور شعرا سے تھے مثلاً مولانا ماہرالقادری‘ بہزاد لکھنوی‘ تابش دہلوی اور دیگر بہت سے شعرا ان کے دوستوں میں شامل تھے۔ جب افسر صابری کا انتقال ہو گیا تو میں نے تابش دہلوی کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ ساتھ ہی کچھ عرصے سراج الدین ظفر کی بھی شاگردی اختیار کی۔
طاہر مسعود: یہ اساتذہ آپ کے کلام پر کس طرح اصلاح دیتے تھے؟ کیا کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا تھا کہ آپ کی کہی ہوئی پوری غزل اصلاح کی نذر ہوگئی ہو؟
انور شعور: ایسا تو کبھی نہیں ہوا کہ پورا کلام بدل گیا ہو۔ ہاں لفظ بدل دیتے تھے۔ صرف ایک لفظ بدل دینے سے بھی معنی کہاں سے کہاں پہنچ جاتا تھا۔ مثلاً سراج الدین ظفر اصلاح میں عموماً ایک آدھ لفظ کاٹ کر اس کی جگہ موزوں لفظ لکھ دیا کرتے تھے۔ میری غزل کا ایک شعر ہے:
ہو گیا آ کے بغل گیر جب اس نے دیکھا
اس سے کترا کے گرنا کوئی آسان نہیں
اس شعر کا اصل مصرعۂ ثانی یہ تھا:
اس سے کترا کے گزرنا بہت آسان نہیں
سراج صاحب نے ’’بہت‘‘ کو کاٹ کر ’’کوئی‘‘ کر دیا۔ اب دیکھیے کتنا فرق پڑ گیا۔ وہ فارسی شاعری کی مثالیں دیا کرتے تھے‘ اردو اساتذہ کے بھی حوالے دیتے تھے۔ مثلاً مولانا حالی نے لکھا:
ہوئے تم نہ سیدھے جوانی میں حالی
مگر اب بڑھاپے میں ہونا پڑے گا
مرزا غالب نے ’’بڑھاپے‘‘ کو کاٹ کر ’’مری جان‘‘ کر دیا۔ دیکھیے شعر کہاں سے کہاں پہنچ گیا:
مگر اب مری جان ہونا پڑے گا
اسی طرح ایک مرتبہ میں نے کہا:
ہزار وصل کے دن کٹ گئے بھٹکنے میں
نہ ہوٹلوں پہ یقیں تھا نہ گھر گئے ہم تم
ظفر صاحب نے ’’ہزار وصل‘‘ کو بدل کے ’’اُمیدِ وصل‘‘ کر دیا۔ اس ایک لفظ کی تبدیلی سے شعر بولنے لگا۔ میں نے اصلاح کی غرض سے رئیس امروہوی مرحوم کو بھی غزلیں بھجوائی تھیں۔ انہوں نے ایک ہی غزل پر’’فارغ التحصیل‘‘ لکھ کر واپس کر دیا۔ مطلب یہ تھا اصلاح کی ضرورت نہیں۔ ہم نے سمجھا کہ ہمیں ٹال رہے ہیں۔
طاہر مسعود: کیا نو آموز شاعر کے لیے کسی استاد کی شاگردی اختیار کرنا ضروری ہے؟
انور شعور: ہر فن میں کمال حاصل کرنے کے لیے کسی نہ کسی استاد کی ضرورت ہوتی ہے‘ یہی معاملہ شاعری کا ہے۔ اقبال جیسے عظیم شاعر نے بھی داغ دہلوی کی شاگردی اختیار کی۔ کوئی کوئی شاعر ایسا ہوگا جسے استاد کی ضرورت نہ ہوگی۔ جیے فیض احمد فیض۔ ریکارڈ پر فیض کی شاعری میں کسی استاد کا سراغ نہیں ملتا۔ محمد حسین آزاد نے شعرا کا تذکرہ ’’آبِ حیات‘‘ میں کیا۔ اس میں بھی آپ دیکھیے کہ کم شعریت کا حامل شعر مل جائے گا لیکن فنی اعتبار سے کوئی ناقص شعر نہیں ملے گا۔ استاد کی اہمیت یہ ہے کہ ایک شاعر شعر کی بابت جو باتیں اپنے مطالعے اور غور و فکر سے دس سال میں سیکھے گا‘ استاد وہ باتیں اسے دس مہینے میں سکھا دے گا۔ یہ ہے استاد کی اہمیت۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بے باپ کا ہونا اتنا برا نہیں جتنا بے استاد ہونا برا ہے۔ آج کل کے نوجوان شعرا کی سب سے بڑی کم زوری یہ ہے کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ زبان کا استعمال کیا ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے نوجوان شعرا میں بے پناہ صلاحیتیں ہیں لیکن چونکہ بے استادے ہیں اس لیے بے عیب غزل نہیں لکھ پاتے۔ ان کے اشعار میں مصرعے عموماً دو لخت ہو جاتے ہیں اور انہیں پتا تک نہیں چلتا۔ بھئی جس طرح سائیکل چلانا‘ پتنگ اڑانا‘ پیراکی کرنا‘ یہ سارے مشاغل آدمی کسی نہ کسی سے سیکھتا ہے تو شاعری تو امام الفنون ہے‘ کیا اس کے لیے استاد کی ضرورت نہ ہوگی؟
طاہر مسعود: کیا آج جو شعرا استاد کے آگے زانوے تلمذ تہہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے یا اس سے جھجکتے ہیں اس کی وجہ عزتِ نفس یا انانیت وغیرہ تو نہیں ہے؟
انور شعور: ایک عجیب رویہ یہ بھی ہے کہ بعض شعرا اپنے استاد کا ذکر تک نہیں کرتے‘ وہ اسے چھپاتے ہیں کہ ان کا کوئی استاد بھی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ آپ نے شعر کہنا شروع کیا تو کسی کم زور استاد سے اصلاح لی‘ کچھ عرصے بعد مشاعروں یا دوسرے ذرائع سے آپ کی شاعری میں چھوٹی موٹی حیثیت بن گئی‘ شاعر کے طور پر آپ کا نام چل پڑا تو اب آپ کو اپنے استاد کا نام لینے کے لیے بڑی ہمت اور اخلاقی مضبوطی چاہیے کیوں کہ استاد کم زور شاعر ہے۔ پھر ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ ادب میں شاعروں نے اپنے اپنے جتھے اور گروپ بنا لیے۔ اب اپنے گروپ میں کیسی بھی آپ شاعری کریں‘ گروپ والے واہ واہ تو کریں گے تو پھرآپ کو استاد سے اصلاح لینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوگی؟ لیکن ان وجوہ کی بنا پر ’’استاد‘‘ کے انسٹی ٹیوشن کو ختم کرنا درست نہ ہوگا۔ دیکھیے ناں اگر کسی اسکول کا معیار تعلیم پست ہو تو آپ اس اسکول پر تالہ ڈال دیتے ہیں یا اس کے معیار کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب اس وقت صورت حال یہ ہے کہ احمد مشتاق کے بعد کوئی ایسا شاعر نہیں ہے جس کا نام میں آنکھ بند کرکے لے سکوں۔ جب ناصر کاظمی جیسے غزل کے شاعر کو حفیظ ہوشیار پوری کی شاگردی کی ضرورت پیش آسکتی ہے تو آج کے نوجوان شعرا خود کو استاد سے بے نیاز کیسے سمجھ سکتے ہیں۔
طاہر مسعود: گویا شاعری استاد اور ریاض کی محتاج ہے؟
انور شعور: موسیقی اور گائیکی میں لتا جیسی آواز رکھنے والی گلوکارہ کو بھی ریاض کرنا پڑتا ہے۔ نورجہاں اور مہدی حسن ریاض کے بغیر بڑے گائیک بن سکتے تھے؟ بات یہ ہے کہ جب تک کسی فن کا علم حاصل نہیں ہوگا‘ اس فن میں اونچا مقام بنانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
طاہر مسعود: مسئلہ یہ بھی تو ہے کہ آج کے نوجوان شعرا استاد بنانا چاہیں بھی تو کسے بنائیں؟ استادی کا انسٹی ٹیوشن ہی ختم ہو گیا۔
انور شعور: یہ بات بڑی حد تک درست ہے۔ ہمارے زمانے میں فدا خالدی اور حمید نسیم جیسے لوگ تھے‘ جو اس فن کے ماہر تھے۔ میں نے ان بزرگوں سے فیض اٹھایا ہے۔ میں نے اس زمانے میں بھی کئی نوجوان شعرا کو ترغیب دی تھی کہ ان بزرگوں کے پاس جائو ان سے شعر کہنے کا فن اور اس فن کے عیوب و محاسن سیکھو لیکن وہ لوگ نہیں گئے۔
طاہر مسعود: وجہ وہی انانیت اور خود پسندی ہوگی‘ ورنہ سیکھنے کے لیے چلے جاتے‘ اس میں حرج ہی کیا تھا؟
انور شعور: ارے بھئی ابھی آپ شاعر بنے نہیں اور آپ میں شاعرانہ اَنا پیدا ہوگئی۔ یہ کیسی احمقانہ سی بات ہے۔ اللہ مغفرت کرے عطا شاد کو ایک مرتبہ مجھ سے فخریہ کہنے لگے کہ میرا کوئی استاد نہیں ہے۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ آپ کو استاد کی کیا ضرورت ہے‘ آپ خود استاد ہیں۔ کہنے کو تو یہ میں نے ان سے کہہ دیا لیکن ساتھ ہی دل میں کہا کہ آپ کی شاعری سے پتا چل رہا ہے کہ آپ بے استادے ہیں۔ ایک مرتبہ پروفیسر سحر انصاری نے اپنے مضمون میں بڑی عمدہ بات لکھی تھی کہ جو شعرا کچھ سیکھ کر آتے ہیں‘ وہی کچھ کہہ رہے ہیں‘ باقی تو سب رطب و یابس ہے۔
طاہر مسعود: ایک استاد نو آموز شاعر کی تربیت کیسے کرتا ہے یا اسے کیسے کرنا چاہیے؟
انور شعور: دیکھیے شاعر کے اندر ایک تنقیدی نظر ہونی چاہیے۔ اس کی تنقیدی نظر جتنی اچھی ہوگی‘ اس کی شاعری بھی اتنی ہی اچھی ہو گی۔ استاد نو آموز شاعر کے اندر اپنی اصلاح سے ایک تنقیدی نظر پیدا کر دیتا ہے۔ منیر نیازی‘ ناصر کاظمی ان شاعروں کی تنقیدی نظر بہت عمدہ تھی۔ غزل کہنے کے لیے جو نصابی علم درکار ہوتا ہے ناصر کاظمی یہ سمجھیے کہ اس علم میں پی ایچ ڈی تھا۔ منیر نیازی کی اپنی نظر بہت اچھی تھی جبھی تو وہ اپنے آگے کسی کو مانتا نہیں تھا۔ فارسی کے عظیم شاعر حافظ کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کی شاعری بادہ خانے کی شاعری تھی لیکن حافظ نے شاعری کے لیے جو کتب خانے گھول کر پی رکھے تھے‘ اس کا تذکرہ کوئی نہیں کرتا۔
طاہر مسعود: اب آپ یہ فرمایئے کہ شاعری کے فن کو مزید بہتر بنانے کے لیے ’’استاد کا انسٹی ٹیوشن‘‘ کیسے بحال کیا جائے؟
انور شعور: بات یہ ہے کہ یہ کام ادیبوں کی انجمنوں کے کرنے کا تھا مگر انجمن ترقی پسند مصنفین اور خلقہ ارباب ذوق کی جو ادبی اور تنقیدی نشستیں ہو اکرتی تھیں‘ وہ یہ فریضہ ادا نہ کرسکیں تو اب اس کا حل تو یہی ہے کہ استاد کی ضرورت کا احساس خود نئے شعرا کو کرنا چاہیے۔ ساری بات اپنے شوق و جستجو کی ہے مجھ سے کس نے کہا تھا کہ افسر صابری‘ تابش دہلوی اور سراج الدین کی جوتیاں سیدھی کرو۔ میں ان بزرگوں کی صحبت میں اٹھا بیٹھا۔ مثلاً مولانا ماہر القادری کو قریب سے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ ان میں شعر کے عیب کو سمجھنے کی بڑی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ بلکہ اس معاملے میں مولانا کی اکثر تابش دہلوی صاحب سے نوک جھونک پائی چلتی رہتی تھی۔ ایک مرتبہ کسی شعر کے بارے میں مولانا ماہرالقادری نے فرمایا یہ بے تکا شعر ہے۔ تابش صاحب نے کہا پہلے یہ تو دیکھو کہ شعر بھی ہوا یا نہیں بعد میں یہ دیکھنا کہ بے تکا ہے یا نہیں۔ تابش صاحب کو دیکھتا تھا کہ اچھے اچھے بزرگ شعرا ان کی شاگردی میں آجاتے تھے۔ تابش صاحب ایک سخت استاد تھے اور کسی شعری عیب یا سُقم کو معاف نہیں کرتے تھے۔ ایک بار ڈاکٹر اسلم فرخی نے نعت سنائی۔ تابش نے کہا بھئی دیکھو نعت کو شرک سے پاک ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر فرخی نے کہا ’’شرک تو ہوگا۔‘‘ تو ان صحبتوں میں اٹھنے بیٹھنے سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ آدمی صحبت سے جتنا سیکھتا ہے کتابوں سے نہیں سکھتا۔
طاہر مسعود: صحبت کے علاوہ کلاسیکی اور جدید شعرا کے کلام نے بھی آپ کی شاعری کو محسوس یا غیر محسوس انداز میں متاثر کیا ہوگا۔ کچھ اس بارے میں بتایئے۔
انور شعور: اگر میں شاعروں کا ایک شجرہ نسب بنائوں تو اس میں ولی دکنی‘ میر تقی میر‘ سودا سی سراج اورنگ آبادی تک سبھی شامل ہوں گے۔ لیکن نوآموز شعرا کو شاعری کے پنج تن کو نہایت توجہ اور غور سے پڑھنا چاہیے اور یہ پنج تن ہیں میر‘ غالب‘ اقبال‘ انیس اور فیض۔ میرا عقیدہ ہے کہ اگر کسیکو اردو غزل لکھنی ہے تو ان پانچ شعرا کو اس طرح پڑھنا چاہیے کہ یہ پڑھنے والے کے خون میں سرایت کر جانے چاہئیں۔ ویسے تو اصولاً نو آموز شعرا کو ان تمام ہی شعرا کو پڑھنا چاہیے جو رجحان ساز سمجھے جاتے ہیں‘ جن کے کلام کا اثر بعد کے شاعروں نے قبول کیا ہو۔ مثلاً داغ اور انیس زبان اور شعورانہ خوبیوں کے اعتبار سے نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔ میرا ایک نظریہ اور بھی ہے جس طرح افسانہ کے لیے کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے اسے دل چسپ ہونا چاہیے۔ واقعہ کیسا بھی ہو افسانے کو لائق مطالعہ ہونا چاہیے۔ کچھ یہی معیار میں شعر کا بھی رکھتا ہوں۔ شعر کو بھی دل چسپ ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شعر غیر دل چسپ ہے اور پڑھنے والوں کے لیے اپنے اندر تاثیر نہیں رکھتا تو وہ میرے نزدیک اس کا سُقم ہے۔ اب دیکھیے نا عزیز حامد مدنی کتنے اچھے شاعر ہیں لیکن متاثر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو اس طرح دائرہ محدود ہو جاتا ہے۔ اچھے شاعر کو اپنے لیے وسیع دائرہ بنانا چاہیے۔
طاہر مسعود: گویا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ شاعر کو قاری کی سطح پر اتر کر اپنے شعری تجربات کا اظہار کرنا چاہیے۔ اس طرح تو آپ سطحیت کو جواز فراہم کر رہے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہوتا بعض اوقات شعری خیال اگر فلسفیانہ ہے‘ پے چیدہ ہے تو اس کا اظہار بھی ویسا ہی ہوگا‘ اسے دل چسپی اور ابلاغ کے لیے آپ چھیڑیں گے تو اس کی معنوی سطح ممکن ہے وہ نہ رہے اور شعری حسن بھی متاثر ہو۔
انور شعور: شاعری میں دل چسپی سے میری مراد اثر انداز ہونے کی صلاحیت ہے جیسے غالب مشکل پسندی سے سادگی اور سہل اسلوب کی طرف آئے اور صحیح معنوں میں غالب کو مقبولیت کلام کے اسی حصے سے ملی جس میں اثر انداز ہونے کا وصف موجود تھا۔
طاہر مسعود: لیکن شعری تجربہ مبہم ہو تو شعر میں بھی ابہام ہوگا اور ابہام کبھی شعر کا حسن بھی بن جاتا ہے جیسے راشد یا مدنی۔ کیا آپ ان سے سہل بیانی کا مطالبہ کریں گے؟
انور شعور: ن۔م راشد اور عزیز حامد مدنی کا شعری لب و لہجہ اتنا تھکا ہوا ہے کہ اگر وہ خود بھی تبدیل کرنا چاہیں تو شاید نہ کرسکیں۔ آپ کی بات بھی صحیح ہے لیکن میں نے تو عمومی طور پر ایک بات کہی ہے کہ اب کو اپنی دوسری خوبیوں کے علاوہ دل چسپ بھی ہونا چاہیے۔
طاہر مسعود: شاعری میں ذاتی تجربہ اور مشاہدہ میں کیسے فرق کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً ایک بہت عمدہ شعر ہے:
قربِ بدن سے کم نہ ہوئے دل کے فاصلے
اک عمر کٹ گئی کسی نا آشنا کے ساتھ
کیا شاعر نے یہ شعر اپنے انفرادی تجربے کی بنا پر کہا ہے؟ اسی طرح خود آپ کے بہت سے اشعار مل جائیں گے۔
انور شعور: طاہر! تم افسانے لکھتے ہو‘ کیا تم ہر افسانے میں اپنا تجربہ رقم کرتے ہو یا اس میں بہت کچھ مشاہدہ اور تخیل کا بھی دخل ہوتا ہے۔ بات ساری فنکارانہ چابک دستی کی ہوتی ہے۔ شاعر ہو یا افسانہ نگار اپنا ہی نہیں دوسروں کے جذبات اور تجربات کا بھی عکاسی کرتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ فن کار دوسروں کے جذبات کو اپنے اندر اتارتا ہے اور پھر اس کا اظہار کرتا ہے۔ نثر میں اس کے لیے پتا مارنا پڑتا ہے‘ کرسی اور میز تک خود کو محدود کرنا پڑتا ہے جب کہ شعر تو چلتے پھرتے بھی کہا جاسکتا ہے۔
طاہر مسعود: آپ غزل کے شاعر ہیں۔ ایک پیش پا افتادہ سی بات غزل کے حوالے اب بھی کہی جاتی ہے کہ غزل اپنے تمام امکانات پورے کر چکی ہے۔ دوسرے آج کی زندگی اتنی متنوع‘ پے چیدہ اور الجھاوے کا شکار ہے کہ اس کی عکاسی کے لیے نظم یا نثری نظم کی صنف ہی زیادہ موزوں ہے‘ غزل آج کی مشینی اور صنعتی زندگی اور اس کے تجربات کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ آپ کیا سوچتے ہیں؟
انور شعور: آج کی غزل اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اس نے تمام امکانات کا اظہار کیا ہے۔ جدید دور فاسٹ فوڈ کا دور ہے یعنی کام کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔ غزل میں یہ رفتار بھی آرہی ہے بلکہ میں تو کہتا ہوںکہ غزل نثر سے زیادہ آج کے زمانے کا ساتھ دے رہی ہے۔ ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی تو یہ تجربہ بھی کرکے دکھا چکے ہیں کہ سات نظمیں اور سات غزلیں لے کر ان کا موازنہ کیا اور یہ دکھایا کہ غزل کس طرح بھی نظم سے پیچھے نہیں۔
طاہر مسعود: آپ نے غزل کے علاوہ نظم کی طرف توجہ کیوں نہیں کی؟
انور شعور: ہر صنف میں ہاتھ مارنے کی میری عادت نہیں۔ ایک ہی صنف کی خدمت کر جائوں تو بڑی بات ہے۔ ہمارے احمد ندیم قاسمی مرحوم غزل‘ نظم‘ افسانہ‘ تنقید سبھی کچھ لکھتے تھے۔ اتنا تنوع ہمارے ہاں نہیں ہے۔ کچھ وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری کاہلی نے کسی اور طرف متوجہ ہونے نہیں دیا۔ ایسا نہیں کہ میں نے نظم کہنے کی کوشش نہیں کی ہے لیکن جب بھی نظم لکھنے بیٹھتا ہوں‘ غزل تیار ہو جاتی ہے۔ اب اس کا کیا کروں؟
طاہر مسعود: آپ کی غزلوں کا ایک حُسن اس کی سادگی اور سہل ہونا بھی ہے۔ مضمون کوئی بھی ہو آپ اسے نہایت سہل طریقے سے شعر بنا دیتے ہیں‘ اس کی کوئی خاص وجہ؟
انور شعور: وجہ تو مجھے نہیں معلوم۔ ممکن یہ وجہ ہو کہ فارسی مجھے آتی نہیں اس لیے میرے اشعار میں فارسی زدگی پیدا نہیں ہو پاتی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میری سادہ بیانی میری جہالت کا کرشمہ ہو۔
طاہر مسعود: لیکن آپ کے اشعار بڑے رواں دواں ہوتے ہیں‘ کیا اس میں دخل آپ کی مشق و ریاضت کا ہے؟
انور شعور: نہیں میری روانی مشق و ریاضت کا نتیجہ نہیں ہے۔ ابتدا ہی سے جب شعر کہنے شروع کیے‘ انداز یہی رہا۔ میرا ہی ایک شعر ہے:
فن کو سمجھ لیا گیا محض عطیۂ فلک
سعی و ریاض کا صلہ خوب دیا گیا مجھے
طاہر مسعود: میر اور غالب میں آپ کی طبیعت کس کی طرف مائل ہے؟
انور شعور: غالب۔ اس کے ہاں سبھی کچھ آجاتا ہے۔ اپنا تعقل بھی اور میر کا سوز و گداز بھی۔ مثلاً غالب کا یہ شعر دیکھیے:
کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی
اس میں شدتِ احساس بھی ہے اور سوز و گداز بھی۔
طاہر مسعود: لیکن سلیم احمد نے ’’غالب کون‘‘ میں ایک ہی مضمون پر میر اور غالب کے جن اشعار کا موازنہ کیا ہے‘ ان میں تو میر کا پلڑا غالب سے بھاری نظر آتا ہے۔ مثلاً غالب کا شعر ہے:
ہے ہر مکاں کو اس کے مکیں سے شرف اسد
مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے
اور یہی مضمون میر نے اس طرح ادا کیا ہے:
مرگِ مجنوں پہ عقل گم ہے میر
کیا دوانے نے موت پائی ہے
آپ کی کیا رائے ہے کہ کس کا شعر جذبِ دروں کا آئینہ دار ہے؟
انور شعور: میر کی استادی کو تو غالب نے بھی تسلیم کیا ہے۔
آپ بے بہرہ ہیں جو معتقدِ میر نہیں
میر کی شاعری کی کیفیت ایسی ہے کہ سینے کے اندر کے دل کو جیسے خوئی مسل دے۔ لیکن غالب کے اشعار میں بھی ایسی کیفیات مل جائیں گی۔ پھر زمانے کا شعور غالب کے ہاں میر سے زیادہ ہے۔ اگر مجھ کو پڑھنے کے لیے کوئی ایک کتاب چننے کو کہا جائے تو میں ’’دیوانِ غالب‘‘ کو چنوںگا۔ لیکن یہ میری ذاتی رائے ہے اس سے کسی کو بھی اختلاف ہو سکتا ہے۔ مثلاً میں ایک اور بات کہتا ہوں جو سننے والوں کو شاید عجیب لگے۔ میرا کہنا ہے کہ اصل مصورِ پاکستان مرزا غالب ہے۔ اس لیے کہ مرزا نے سرسید احمد خان کو جب وہ دہلی کی پرانی عمارتوں کی تحقیق و تفتیش میں لگے تھے اور ’’آثار الصنادید‘‘ جیسی کتابیں لکھ رہے تھے‘ نہایت بروقت ٹوکا اور کہا کہ میاں کلکتے میں دُخانی انجن اور ریل چلی آئی ہے تو اس نئی چیز کی طرف توجہ کرو۔ یہ تم کیا پرانی عمارتوں پر اپنا وقت ضائع کر رہے ہو۔ تو سرسید کے ہاں جوسوچ اور اپروچ کی تبدیلی ملتی ہے‘ نئی تہذیب‘ نئی تعلیم پر قبولیت کا جو جھکائو نظر آتا ہے‘ مرزا غالب نے اس طرف سرسید کو لگایا۔ یوں مرزا غالب اپنے زمانے کے ایسے نابغہ (جینئس) ہیں جو مستقبل بیں ہیں۔ علامہ اقبال بھی غالب سے متاثر ہیں اور انہوں نے بھی غالب سے بہت کچھ لیا ہے لیکن اس سے علامہ کی کم تری ثابت نہیں ہوتی اس لیے کہ انہوں نے جیسی شاعری کی ہے اس کی مثال تو پوری اردو اور فارسی شاعری میں کہیں نہیں ملتی۔