بلاگنگ : جدید دور کا میدان کار زار

618

ہمیں کو جرأتِ اظہار کا سلیقہ ہے
صدا کا قحط پڑے گا تو ہم ہی بولیں گے

شعبہ نشرواشاعت ضلع شرقی کے تحت بلاگرز کے لیے ایک تربیتی نشست منعقد کی گئی، جس میں کہنہ مشق اور نوآموز بلاگرز نے بھرپور شرکت کی۔ پروگرام کا آغاز سورہ القلم کی تلاوت و ترجمے سے ہوا۔ اس پروگرام کا سب سے اہم حصہ وہ پریزنٹیشن تھی جو نائب نگراں ضلع شرقی کرن وسیم نے پیش کی۔ اپنے پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جدید دور کے اس میدانِ کارزار میں نظریاتی کارکن کو علم ہونا چاہیے کہ کس محاذ پر اُسے کون سی صلاحیت استعمال کرنی ہے اور اس صلاحیت میں مہارت کیسے پیدا کرنی ہے۔ تحریک سے جڑے ہوئے افراد کی یہ خوش قسمتی ہے کہ تحریک انہیں اپنی صلاحیتوں کو دورِ حاضر کے لحاظ سے اَپ ڈیٹ کرنے اور جدت کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ اجتماعیت کا یہ بہترین اسلوب اور احسان ہے کہ وہ نظریاتی بلاگر کو جدید دور سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ہر طرح کی مدد فراہم کرتی ہے۔

بلاگنگ(Blogging)
بلاگنگ اظہارِ رائے کا بہترین ذریعہ ہے اور دورِ جدید میں حق و باطل کی کشمکش کے میدانِ کارزار میں ابلاغ کا مؤثر ہتھیار بھی ہے۔ اسکرولنگ ڈاؤن کی عادی نئی نسل کے لیے لکھنا ایک چیلنج بنتا جارہا ہے۔ ان افراد کو اپنا ’کونٹینٹ‘ پڑھنے پر مجبور کرنے کے لیے مختصر و مؤثر تحریر ناگزیر ہے۔

انہوں نے سورہ لقمان کی آیت نمبر 27 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ربِ کائنات کی باتیں، اس کے پیغامات اور دین کا ابلاغ لامحدود ہے اور ہماری زندگی مختصر… لہٰذا تیزی سے رونما ہوتے ہوئے چیلنجز میں ایک نظریاتی لکھاری کے قلم کا یہ حق ہے کہ وہ رواں رہے، اسے رکنا نہیں چاہیے۔ ایک حقیقی لکھاری کے لیے لکھنا زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتا ہے۔ لکھنا لکھاری کے وجود کا حصہ ہے۔ سلیم احمد نے کہا ’’لکھاری کا جمود ادب کی موت ہے۔‘‘

آج کا دور بلاگنگ کے لیے بہترین دور ہے۔ ایک نظریاتی قلم کار کو ابلاغ کے اس فورم کو خالی نہیں چھوڑنا چاہیے۔

یہ کمرشلزم کا دور ہے، یہاں ایک ماہر بلاگر خاصا معاوضہ لے سکتا ہے، لیکن ایک نظریاتی بلاگر ’’دیہاڑی کا مزدور‘‘ ہوتا ہے جو اپنے لامحدود اجر کا شمار نہیں کرسکتا۔

اس تمہید کے بعد بلاگ رائٹنگ کی ابتدا، اس کی اہمیت اور اس میں مہارت پیدا کرنے کے لیے انتہائی مؤثر انداز میں درج ذیل اہم تکنیکی نکات پیش کیے گئے:

٭بلاگ کا اچھوتا متوجہ کرنے والا آغاز

٭ٹو دی پوائنٹ بات

٭اختصار…کم الفاظ میں مکمل ابلاغ

٭سادہ اور عام فہم پیرائے میں بیان

٭ریسرچ اور فیکٹس اینڈ فگرز کی درستی

٭مشاہدے اور مطالعے کی اہمیت

٭تحریر احساسات کو جھنجوڑنے والی ہو لیکن شدت پسندی اور تنقید سے پاک

٭ ذہنی استعداد کے مطابق الفاظ کا استعمال ہو

٭ بات کرنٹ ایشوز پر ہو

٭ مضبوط، مثبت اور متوازن مؤقف کی ترویج

٭کسی بھی واقعے پر فوری اور مثبت لیکن پوری معلومات کے ساتھ ردعمل حقیقی بلاگر کی پہچان ہے

٭مسلسل اور مستقل لکھتے رہنا

انہوں نے پریزنٹیشن کا اختتام اپنے ہی دل نشیں اشعار پر کیا:

وقتِ فرصت ہے کہاں

ابھی تو زادِ سفر کا حساب لکھنا ہے

جہانِ رنگ و بو کا احتساب لکھنا ہے

ہنسی کا عکس خوشی کا سراب لکھنا ہے

خزاں کی زد میں ہجر کا عذاب لکھنا ہے

وقت ِفرصت ہے کہاں

پریزنٹیشن کے بعد اقبال کی فارسی نظم منظوم ترجمے کے ساتھ ملٹی میڈیا پر دکھائی گئی جو نشست کے اگلے حصے کا عنوان بھی تھا اور اس نشست کا مرکزی پیغام بھی ’’از خواب گراں خیز‘‘ (گہری نیند سے بیدار ہوجائو)

نگراں نشرواشاعت ضلع شرقی صائمہ عاصم نے کہا کہ ہمارا لکھاری مایوس ہے، اس کا بیانیہ کہیں جگہ نہیں پا رہا۔ لیکن قدرت نے خود سوشل میڈیا کا ایک وسیع میدان ہمارے لیے فراہم کردیا ہے، اور سنت بھی یہی ہے کہ دعوت کا کوئی میدان خالی نہ چھوڑا جائے بلکہ وقت کے جدید ترین ذرائع کو ابلاغ کے لیے استعمال کیا جائے۔ دورِ جدید کے میدانِ کارزار میں نظریاتی بلاگر کا قلم ہی اس کا ہتھیار ہے۔ ہمیں گہری نیند سے بیدار ہوکر معرکۂ حق کا قلمی مجاہد بننا ہے۔

جب ایک موضوع پر بیک وقت مختلف عنوان سے بلاگز لکھے جاتے ہیں تو ہمارے بیانیے کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ انہوں نے ملٹی میڈیا کی مدد سے بتایا کہ کرنٹ ایشوز پر بلاگ کی پہنچ چند گھنٹوں میں ہزاروں تک جاتی ہے۔ ایک بلاگر کرنٹ ایشوز پر اپنا نقطۂ نظر لاکھوں افراد تک پہنچا سکتا ہے۔ ہمیں بہر صورت بیدار رہنے اور فوری رسپانس کے ساتھ قدرت کے عطا کردہ ان جدید مواقع سے فائدہ اٹھانا ہے۔ اپنی صلاحیتوں کو جلا دینا اور صلاحیتوں کی جواب دہی کا احساس پیدا کرنا ہے۔

اس جگا دینے اور قلم کار کو اٹھا کھڑا کرنے والے خطاب کے بعد حریم ادب کراچی کی نائب نگراں طاہرہ فاروقی نے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ضلع شرقی کی اس کاوش کو بہترین، ضروری اور مؤثر قرار دیا۔

اس پروگرام میں شرکا کو سال کے اہم مواقع کے عنوانات پر مشتمل کلینڈر تقسیم کیے گئے جو بآسانی اور بروقت لکھنے میں مدد گار ہوں گے۔
آخر میں نگراں حریم ادب ضلع شرقی عصمت منیر صاحبہ نے اشعار سنا کر اس مفید اور یادگار نشست کا اختتام کیا:

شکست و فتح کی صورت بدلنے والی ہے
یہ رات صبح کے قالب میں ڈھلنے والی ہے
حصارِ ذات سے نکلو صفیں درست کرو
کسی بھی لمحے ہوا تیز چلنے والی ہے

حصہ