فرح نے بیٹی کی بات طے ہونے پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ وہ بہت خوش تھی، ہر لحاظ سے اچھا رشتہ تھا، لیکن شادی کی تیاریوں نے اسے ناکوں چنے چبوا دیے۔
یہ کوئی انوکھی بات نہیں، ہر خاندان اس معاملے میں پریشانیوں کا اظہار کرتا ہے، لیکن عملی قدم کے لیے مشکل سے ہی تیار ہوتا ہے۔
ہمارے دین میں کہا گیا ہے کہ ’’برکت کے لحاظ سے عظیم نکاح وہ ہے جس میں مشقت سب سے کم ہو۔‘‘
’’یقینا تمھارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں (اسوہ حسنہ) بہترین نمونہ ہے۔‘‘ (سورہ الاحزاب آیت 21)
ایسا کیوں کہاگیا؟ اور نکاح سادگی سے کیوں؟ ہم پہلے قرآن اور حدیث کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کر یں گے کہ نکاح کیا چیز ہے۔
یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مطہرہ ہے اور آپؐ کی سیرت ہی ہمارے لیے کامل نمونہ ہے۔ اسلامی معاشرے میں خاندان کو جوڑنے والی اور خاندانی نظام کو مستحکم رکھنے والی اگر کوئی چیز ہے تو وہ نکاح ہے۔ اسلامی نظام میں ہر وہ کام جو انسان کی بقا کے لیے ہو، اس پر نہ صرف زور دیا گیا ہے بلکہ اسے آسان بھی کیا گیا ہے تاکہ ہر شخص اس سے فائدہ اٹھا سکے اور ان برائیوں سے بھی بچا جا سکے جو نکاح نہ کرنے کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں۔
اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی جان اور مال کی حفاظت کرے، ان کے لیے حلال کمائی کے ذرائع آسان بنائے، فحاشی کو روکا جائے جس کی وجہ سے برائیاں جنم لیتی ہیں۔ زنا، چوری، لوٹ مار، مادہ پرستی، قتل و غارت گری… یہ برائیاں انسان کی بنیادی ضرورتوں سے محرومی کا نتیجہ ہوتی ہیں، اسی وجہ سے اسلام نے نکاح کو آسان بنانے کا حکم دیا اور زنا پر قدغن لگائی۔ نکاح ہی انسان کے فطری تقاضوں کو پورا کرنے والی اہم ضرورت ہے بلکہ رشتوں کی خالق بھی ہے۔ نکاح سے رشتے وجود میں آتے ہیں یعنی شوہر بیوی، ماں باپ، ساس سسر، چچا، ماموں وغیرہ۔ اسی کے ذریعے حقوق العباد کی ادائی ہوتی ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں یک جہتی پیدا ہوتی ہے اور بعد میں خاندان، قبیلے، قومیں وجود میں آتی ہیں۔ اگر ہم نکاح کو مشکل بنائیں گے تو معاشرہ جمود کا شکار ہوگا، ہرشخص خودغرض، مادہ پرست، ہوگا، رشتوں کا احترام ختم ہوجائے گا، حیوانی جذبوں کو مہمیز ملنے لگے گی، انسان جانوروں کی مانند ہوجائے گا ، اپنی خواہشِ نفس کا غلام بن کر رہ جائے گا، پھر خدانخواستہ آہستہ آہستہ وہ دور آئے گا جس سے آج مغرب دوچار ہے، جہاں حقوق ادا نہیں کیے جاتے، فطری خواہش کو پورا کرنے کے لیے دوسرے راستے اختیار کیے جاتے ہیں۔ یوں زنا، بے حیائی، ظلم اور ناانصافی سر اٹھانے لگی۔ پھر یہ ہوا جس کا ڈر تھا کہ عورت عورت سے، مرد مرد سے شادیاں کررہے ہیں۔ اگر ہم نکاح کو آسان نہ بنائیں گے تو خاندان باقی نہیں رہ سکے گا۔
یاد رکھیں نکاح سے بہترین نسلیں پیدا ہوتی ہیں تو امن و سکون بھی قائم رہتا ہے۔ اگر ہمارے معاشرے میں نکاح سادہ اور آسان نہ بنایا گیا تو خاندان ختم ہوکر ہر شخص اپنے فرض اور حق سے محروم نفسیاتی امراض، پریشانیوں، ناانصافیوں اور نفسانفسی کا شکار ہوجائے گا۔ اگر ہم نے ابھی بھی اپنی شادی کو آسان نہ بنایا تو ہم اپنا انجام دیکھ لیں گے۔
غور کریں کیا ہماری شادیاں ایک پُررونق ہنگامہ بن کر نہیں رہ گئی ہیں؟ یہ اسراف، اجتماعی گناہ ، دل آزاری، بے ہودہ شوز کے مصداق نظر آتی ہیں۔ شادی کو ارمان نکالنے کے لیے زندگی میں آنے والے ایک ہی دن کا نام دے دیا گیا ہے۔ اسے جیسے چاہے منائیں۔ آج ہی کا دن کیوں؟ اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی آج ہی کے دن کیوں کی جائے؟ صرف مولوی صاحب سے نکاح پڑھائیں گے باقی مرضی ہماری! ہمارے لیے ’’توحید کے تقاضے‘‘ کیا ہیں؟ ہمیں نہیں پتا، جس کی وجہ سے نکاح کو ہم مشکل سے مشکل بنارہے ہیں۔ اپنا جائزہ لیں کہ میں ایک عاجز بندہ اللہ کا غلام ہونے کے ناتے کیا کہیں بھی اپنی مرضی چلانے کا حق رکھتا ہوں؟ ہم توحید کے پرستار، کیا ہماری توحید انفرادی الگ ہے اور اجتماعی الگ ہے؟
جس نکاح کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے کہا کہ آسان بنائیں، ہم مشکل ترین بنارہے ہیں۔ ذرا ہم غور کریں۔ اُم المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ سب سے زیادہ برکت والی شادی وہ ہے جس میں بوجھ کم سے کم ہو۔‘‘ (شعب الایمان / البیہقی/ مشکوٰۃ/تحقیق البانی)
ولیمہ سنت ہے
ولیمہ حسبِ استطاعت مرد پر ہے۔ اس میں ریا اور نمود و نمائش نہ ہو۔ بسا اوقات غیر ضروری کاموں کی وجہ سے غیر مناسب حالات آجاتے ہیں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسانی تنگی اور مشکل میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ لہٰذا امیر ہو یا غریب، بے ثروت ہو یا صاحبِ ثروت… ہر ایک کو چاہیے کہ شادی آسان کرے۔