میراث

358

’’دیکھو بھائی! تم بلاوجہ پریشان ہورہے ہو۔ اگر تھوڑی سی عقل لگاؤ تو آج کل کے حالات سے نمٹنا مشکل نہیں۔‘‘ چائے کے ہوٹل میں اگلی میز پر بیٹھے شخص کی بات سن کر نہ جانے کیوں میں نے اسے گھور کر دیکھا۔

وہ سادہ سے شلوار قمیص میں ملبوس ایک عام سا آدمی تقریباً پینتیس سے چالیس کے پیٹے میں تھا۔ چہرے پر ہلکی داڑھی اور ہاتھ میں بندھی گھڑی اس کی شخصیت کو دوسروں سے ممتاز کررہی تھی۔

میں بے اختیار اپنی پیالی تھامے اُس کی میز پر جا بیٹھا۔ وہ اور اُس کا دوست چونک کر مجھے دیکھنے لگے۔

میں نے کہا ’’بھائی! تمہاری بات سن کر آیا ہوں، ذرا وضاحت کرو۔‘‘

نہ جانے کیوں دل کے کسی کونے میں یہ خیال تھا کہ وہ مجھے یا تو کسی قارون کے خزانے کا پتا دے گا یا ذہنی دباؤ کی ایسی دوا جو میری اور مجھ جیسے بہت سارے نوجوانوں کی آج کل کی ضرورت ہے۔

اس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولا’’لیکن ایک شرط ہے۔‘‘

میرے پوچھنے پر اس نے میری چائے کی پیالی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’اس کا بل میری طرف سے۔‘‘

میں اثبات میں سر ہلاتا ہوا اس کے جواب کا منتظر اس کی طرف دیکھنے لگا۔
اس نے میری پریشانی کو بھانپتے ہوئے مسکرا کر دیکھا اور بولا ’’دیکھیں بھائی صاحب! میری عمر اکتالیس سال ہے اور آپ کی بھی لگ بھگ اتنی ہی ہوگی۔‘‘

میں نے ہاں میں سر ہلایا، کیوں کہ میں واقعی چونتیس کا تھا اور شاید شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہونے کی وجہ سے میرے سفید بالوں کی موجودگی نے میری عمر میں اضافہ کردیا تھا۔

اس نے گفتگو جوڑی: ’’دیکھیں بھائی صاحب! حالات گمبھیر ہیں، زندگی کے امتحان کا پرچہ مشکل ضرور ہے لیکن اس کا حل انتہائی سادہ اور آسان ہے… بس محنت ہمیں خود کرنی ہے۔ اگر آپ آج سے بیس سال پہلے اپنے بچپن کا سوچیں تو آپ کو یاد ہوگا کہ ہمارے گھر میں ایک فون ہوتا تھا جس سے نہ صرف پورے گھر والے بلکہ محلے والے بھی استفادہ کرتے تھے، پورا خاندان مل جل کر ایک دسترخوان پر کھانا کھاتا جوکہ عموماً شوربے والے سالن اور اچار کے ساتھ سادہ روٹیوں پر مشتمل ہوتا۔ کسی مہمان کی اچانک آمد پر شامی کباب اور پودینے کی چٹنی کا اضافہ کرکے بڑا پُرشکم کھانا کھلایا جاتا۔ نہ باہر سے کھانا منگواتے، نہ جیب پر مہمان بھاری پڑتا۔‘‘

مجھے اس کی کسی بات سے اختلاف نہ تھا کہ میں خود بھی اُس زمانے کا گواہ ہوں۔ میں ہمہ تن گوش تھا۔

’’شادی بیاہ کے موقع پر بڑے بھائیوں کی پرانی شیروانی چھوٹے بھائی بڑے فخر سے پہنتے۔ تحائف زیادہ قیمتی ہونے کے بجائے ضرورت کی چیزوں پر مشتمل ہوتے۔ دکھاوا اور اسراف سے اجتناب کرتے تھے۔ ایک کمرے میں سارے خاندان کے بچے مل کر رہتے اور کھیلتے۔ رات کو سارے ایک دسترخوان پر کھانا کھاتے… نہ بچوں میں تفریق ہوتی، نہ کھانے کی تقسیم میں کوئی مسئلہ ہوتا۔‘‘

’’آپ کی بات درست، مگر اُس وقت آٹا سستا ہوتا تھا، اشیائے خورونوش اور کپڑے بہت مناسب قیمت میں ملتے تھے۔‘‘

’’لیکن آمدن بھی تو سوچیں…‘‘ وہ میری بات کاٹتے ہوئے بولا۔

میں واقعی سوچ میں پڑ گیا۔ ابو کی ایک نوکری ہوا کرتی تھی، چاچو کی فریج ٹھیک کرنے کی ایک چھوٹی سی دکان جس سے کبھی کبھار ہی آمدنی آتی تھی جو عموماً دکان کے کرائے اور ان کے ذاتی اخراجات کی نذر ہوجاتی۔ دوسرے چاچو ملک سے باہر گئے ہوئے تھے جن کی آمدنی دادا کے پاس آتی۔ یہ سب پیسے گھر کے بلوں اور کچن کی مد میں دادی کے ہاتھ میں جاتے۔ اس میں دادی مل ملا کر پورے مہینے سب کو ہر تفریق سے بالاتر ایک سا کھانا پیٹ بھر کے کھلاتی تھیں۔

جمعہ کا خاص اہتمام ہوتا۔ مہمانوں اور پھوپھو کی آمد پرگھر میں رونق کا سماں ہوتا تھا۔ نہ برگر، پیزا کے آرڈر دیکھے، نہ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ۔

آج کل کے خرچے تو ہمارے خودساختہ ہیں… ہر بچے کا الگ کمرہ، الگ موبائل، لیپ ٹاپ، الگ اسکول، ٹیوشن اور وین کے خرچے… پھر بچوں کے درمیان موازنے نے ان کو ہم سے زیادہ ذہنی مریض بنادیا ہے۔ گویا ان کے اندر کا بچپن تو مرگیا ہے۔

اس کے سوال میں اپنا جواب تلاش کرتے ہوئے میں مطمئن ہوگیا… نہ جانے یہ آسان حل میری عقل میں پہلے کیوں نہیں آیا تھا!

پھر اس نے اپنی بات کو مزید بڑھایا کہ مرغن غذاؤں سے پرہیز کرکے صحت اور پیسے دونوں کی بچت کی جاسکتی ہے، بلاوجہ سیل کے کپڑے خرید کر الماریوں کو بھرنا عام ہوگیا ہے، بجلی کی اشیا کے ضرورت کے تحت استعمال سے ہمارے اخراجات میں بہت حد تک کمی آسکتی ہے۔ اسراف نے بچوں میں بچت کی عادت معدوم کردی۔ انہی بچوں کے ہاتھوں صدقے و خیرات دلائی جاتی۔ اس طرح رزق میں برکت کے ساتھ برائیوں سے پناہ مانگی جاتی۔

نمود و نمائش سے پرہیز ازخود ہوجایا کرتا، خاص کر شادی بیاہ کے مواقع پر خرچ کرتے ہوئے جوش کے بجائے ہوش سے کام لیا جاتا۔ آج بھی دوسروں کے احساسات اور محبت کے جذبات کی قدر کی جائے۔ پیسہ تو آنی جانی شے ہے مگر احساسات نہ رہیں تو واپس نہیں آتے۔

پھر بات کو سمیٹتے ہوئے بولا’’بھائی! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لیے فرمایا کہ دین میں اپنے سے اوپر والے اور دنیا میں اپنے سے نیچے والوں کو دیکھا جائے۔‘‘

میں نے اس کو تشکر آمیز نظروں سے دیکھا اور مسکرا کر کہا ’’بے شک دین پر عمل کرنے میں ہی ہماری بقا ہے۔ آپ کا سکھایا ہوا یہ سبق زندگی بھر یاد رکھوں گا۔‘‘ چائے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اجازت چاہی۔

یہ سوچتے ہوئے میں نے اپنے گھر کا راستہ لیا کہ آج سالن کا ایک پیالہ پڑوس میں بڑے بھیا کو بھیج کر اُن کو ضرور منا لوں گا اور ایک سنت زندہ کروں گا۔ کوشش کروں گا کہ اپنے بچوں میں بھی قناعت کا وہ جذبہ ڈالوں جو ہمارے بزرگوں کی میراث تھی۔

مہنگائی اور مادّیت پرستی کے بے قابو جن کو زیر کرنے کا بس یہی ایک طریقہ ہے کہ ہم سنتوں پر عمل کریں اور قناعت سے بھرپور شکر والی زندگی گزاریں۔

حصہ