خالہ ذکیہ اپنے گھر کمیٹی ڈالتی ہیں، اسی لیے پہلی بی سی خود رکھ لیتی ہیں، پھر ہر ماہ قرعہ اندازی کے ذریعے کمیٹی کھولی جاتی ہے۔ اس طرح جس ممبر کا بھی نام نکلے اُسے بی سی دے دی جاتی ہے۔ یہی ان کا ہمیشہ سے اصول رہا ہے۔ ہر مرتبہ کی طرح اِس بار بھی خالہ ذکیہ نے پہلی بی سی کیا رکھی کہ قرض مانگنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ پہلے جاوید چلا آیا: ’’خالہ میں انتہائی پریشان ہوں، مجھے پچاس ہزار روپے کی سخت ضرورت ہے، مہربانی کریں آپ مجھے اپنی بی سی دے دیں۔‘‘
خالہ ذکیہ دردِ دل رکھنے والی خاتون ہیں، ان سے کسی کی پریشانی دیکھی نہیں جاتی، لیکن اِس مرتبہ انہیں بھی پیسوں کی ضرورت تھی، کہنے لگیں: ’’بیٹا ایسی کون سی ضرورت آن پڑی ہے جو تُو میرے گھر چلا آیا؟ جہاں تک پیسوں کا تعلق ہے وہ ابھی کہاں! جب بی سی جمع ہوگی تبھی میرے ہاتھ میں آئیں گے، اور ویسے بھی مجھے اپنی بیٹی کی شادی کرنی ہے، لہٰذا یہ رقم میں تجھے کسی صورت نہیں دے سکتی۔‘‘
یوں خالہ ذکیہ نے اپنی بات سمیٹتے ہوئے جاوید کو تو ٹال دیا، لیکن وہ ریحان کو بھلا کس طرح ٹال سکتی تھیں! چونکہ ریحان نے خود بھی خالہ ذکیہ کے پاس کمیٹی ڈال رکھی تھی، اس بنیاد پر وہ بھی ادھار مانگنے پہنچ گیا۔ کہنے لگا:”خالہ بڑی خوش نظر آرہی ہو، لگتا ہے کوئی بڑی خوش خبری ملی ہے جس کی وجہ سے چہرہ کھلا کھلا سا لگ رہا ہے۔‘‘
’’بیٹا ایسی تو کوئی بات نہیں، ابھی بچوں کو اسکول سے لائی ہوں، تھکاوٹ سے برا حال ہوگیا ہے، اور تُو کہتا ہے کہ میں بڑی فریش لگ رہی ہوں! اچھا چھوڑ، تُو یہ بتا کیسے آنا ہوا؟‘‘
’’وہ کچھ نہیں، بس ایسے ہی چلا آیا، اور خالہ سے ملنے کے لیے کون سا ویزا لینا پڑتا ہے! سوچا مل آؤں۔‘‘
’’ہائے میرا بچہ کتنی محبت کرتا ہے۔ اور سنا کام وغیرہ کیسا چل رہا ہے؟‘‘
’’ویسے تو سب کچھ اچھا ہے، لیکن آج کل تھوڑی پریشانی آئی ہوئی ہے۔‘‘
’’ہائے میرا بچہ! کیسی پریشانی؟ تیری خالہ کے ہوتے ہوئے تجھے کون پریشان کررہا ہے؟‘‘
’’نہیں نہیں کوئی خاص نہیں، بس کاروباری معاملات کچھ ٹھنڈے چل رہے ہیں اس لیے ہاتھ ذرا تنگ ہے، اگر کچھ پیسے مل جائیں تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
’’ہاں بیٹا تُو ٹھیک کہہ رہا ہے، کاروبار تو واقعی ٹھنڈے ہیں، ایک تو مہنگائی، اوپر سے جیب خالی… ایسے میں کون بازاروں میں آتا ہے! اب تیرا مسئلہ بھی ایسا ہے جسے حل کرنے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے، آج کل ہر دوسرا شخص پریشان ہے، گھر چلانا مشکل ہوگیا ہے، میرے حالات بھی اچھے نہیں، اگر میرے پاس رقم ہوتی تو ضرور دے دیتی، اللہ تیری پریشانی دور کرے۔‘‘
خالہ ذکیہ نے اپنے تئیں دعائیں دے کر ریحان کو ٹالنے کی کوشش کی، لیکن وہ بھی کسی اداکار سے کم نہ تھا، بڑی معصومیت سے بولا: ’’خالہ، وہ بی سی؟‘‘
بی سی کا نام سنتے ہی خالہ کے تو جیسے اوسان خطا ہوگئے، کہنے لگیں: ’’بی سی! کون سی بی سی؟ ارے نہیں بیٹا، وہ تو گڑیا کی شادی کے لیے رکھی ہے۔‘‘
’’شادی تو ابھی دور ہے، اتنے عرصے میں ہوسکتا ہے کہ میری بی سی بھی کھل جائے۔ یہ رقم مجھے دے دو، جب میری بی سی کھلے تو آپ رکھ لینا۔‘‘
یوں ریحان خالہ ذکیہ کو شیشے میں اتارنے میں، میرا مطلب ہے کہ اپنی باتوں کے جال میں پھنسانے میں کامیاب رہا۔ پھر کیا تھا، خالہ ریحان کی باتوں میں آکر کہنے لگیں: ’’تیری بات بھی ٹھیک ہے، شادی میں تو ابھی چند ماہ باقی ہیں، چل تُو اپنا کام نکال لے، جب تیری بی سی کھلے گی تو میں رکھ لوں گی۔‘‘
وہ دن ہے اور آج کا دن.. ریحان خالہ ذکیہ سے بی سی کے پچاس ہزار روپے لینے کے بعد بازار میں لگائے جانے والے اسٹال کو بند کرکے ایسا گیا کہ پھر نہ لوٹا۔ اُس دن سے خالہ نہ صرف اپنی، بلکہ ریحان کی بھی بی سی بھرنے پر مجبور ہیں۔ اب وہ جب ملے گا تب کی تب دیکھی جائے گی۔ اس وقت تو وہ کامیاب رہا۔ ریحان اور خالہ ذکیہ کے درمیان ہونے والی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی سے قرض لینا آسان کام نہیں، اس کے لیے خاصی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے، اگر آپ میں وہ گُر نہیں ہیں تو رقم دینے والا شخص آپ کو بآسانی ٹال دے گا اور آپ ناامید لوٹیں گے۔ اور اگر آپ کلاکار ہیں تو جھولے لال کا نعرہ مارتے ہوئے کامیابی کا جشن منائیں گے۔ آج کل کچھ ایسی ہی صورت حال ہمارے ملک کی بھی ہے، ہمارے وزیرِ خزانہ بھی ریحان کے نقشِ قدم پر چلنے کی بھرپور کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کسی سے قرض لینا آسان کام نہیں، اس کے لیے بھرپور صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے جنہیں استعمال کرنے میں ہمارے وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار صاحب ابھی تک ناکام رہے ہیں۔ گو کہ اُن کی ساری کوششیں اب تک بے سود ثابت ہوئی ہیں لیکن آج نہیں تو کل اُن کا یہ خواب شرمندئہ تعبیر ہوکر رہے گا جس کے نتیجے میں ہمارے وزیر خزانہ آئی ایم ایف سے ایک مرتبہ پھر اربوں روپے کا قرض لینے میں کامیاب رہیں گے۔ یہ ایک اسحاق ڈار کی خصوصیت نہیں بلکہ ہمارے ملک پر مسلط ہونے والے تمام حکمرانوں کی یہی داستان ہے۔ یہ کاسہ گدائی پہلے وزیر خزانہ غلام محمد سے شروع ہوا، اس کے بعد سرتاج عزیز ہوں یا شوکت عزیز… شوکت ترین، حفیظ شیخ، مفتاح اسمٰعیل اور حفیظ پاشا ہوں یا پھر تبدیلی سرکار کے قابل ترین کھلاڑی اسد عمر… سب کی ہمدردیاں ریاست پاکستان کے بجائے ہمیشہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ساتھ رہیں، پاکستان سے وفاداری کے بجائے یہ ہمیشہ غیر ملکی مالیاتی اداروں کی غلامی کرتے ہوئے دکھائی دیے۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آزادی کے فوراً بعد سے ہی پاکستانی لیڈروں نے معاشی و عسکری لحاظ سے مضبوط ہونے کے نام پر قرض کے حصول کے سلسلے میں طاقتور ملک امریکا سے رابطہ کرلیا تھا تاکہ وہ پاکستان کو سرمایہ و اسلحے کی بدولت زیادہ قوی پڑوسی بھارت کا مقابلہ کرنے کے قابل بناسکے۔ امریکی حکمران طبقے نے شروع میں پاکستان کو کوئی اہمیت نہیں دی، مگر پھر بھارت اور چین میں سوویت یونین کے بڑھتے اثررسوخ نے انہیں اکسایا کہ رقم و اسلحہ دے کر جغرافیائی و تزویراتی لحاظ سے اہم اس مملکت پاکستان کو اپنے حلقہ اثر میں لے آئیں۔ اوائل میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات برابری کی سطح پہ استوار رہے، مگر رفتہ رفتہ پاکستانی حکمران طبقہ زیادہ سے زیادہ ڈالر پانے کی ہوس میں امریکی حکمران طبقے کے بوٹ بھی پالش کرنے لگا۔ بس اسی وقت سے امریکی بھی پاکستان کو اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر استعمال کرنے لگے۔ اس طرح پاکستان کو امریکا سے پہلا قرضہ مل گیا جو ایک کروڑ ڈالر پہ مشتمل تھا۔ اُس زمانے میں ایک امریکی ڈالر 3 روپے 31 پیسے میں ملتا تھا۔ گویا پاکستان کو امریکی حکومت سے تین کروڑ اکتیس لاکھ روپے ملے جو مختلف مد میں خرچ ہوئے۔ اُس وقت قومی معیشت کو ڈالر کے قرضوں پہ استوار کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج پاکستان ہزار ارب روپے سے زائد رقم کا مقروض دیس بن چکا ہے۔ یہ اوئل دور تھا، بات یہیں نہیں رکی بلکہ اس کے بعد تو قرض لینے کا یہ سلسلہ ایسا چلا جو اب تک نہ تھما بلکہ مزید تیز ہوگیا۔
دورِ آمریت یا ماضیِ بعید کی حکومتوں کی بات چھوڑیے.. جمہوریت پسند، عوام دوست اور تبدیلی سرکار کہلانے والی حکومتوں کے دور کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دور میں بھی گل کھلائے گئے… میرا مطلب ہے کہ 2008ء سے قائم ہونے والی حکومتوں کے 14 سالہ دور میں بیرونی قرضوں کے حوالے سے اکٹھے کیے گئے اعداد وشمار ہوشربا ہیں، جن کے مطابق 2008ء میں پاکستان کا ہر شخص پانچ سو روپے کا مقروض تھا، اور آج ہر شخص دو لاکھ ستائیس ہزار روپے کا مقروض ہوچکا ہے- 2008ء میں بیرونی قرضوں کا حجم 36 ہزار ارب روپے تھا جو 2013ء میں 88 ہزار ارب روپے ہوگیا-2018ء تک بیرونی قرضے ایک لاکھ چوالیس ہزار ارب روپے تک پہنچ گئے- جبکہ2021-22ء میں یہ بیرونی قرضے تشویشناک حد تک پہنچ چکے ہیں۔ پی پی پی کے دور میں 161 بلین ماہانہ، مسلم لیگ نون کے دور میں 235 بلین ماہانہ، اور پی ٹی آئی کے دور میں 540 بلین ماہانہ کے حساب سے قرضے لیے گئے- اگر ہم 2008ء سے 2021ء تک کے سالانہ لیے گئے قرضوں کا ریکارڈ دیکھیں تو دلچسپ صورت حال سامنے آتی ہے- 2008ء میں 45 بلین ڈالر، 2009ء میں 56 بلین ڈالر، 2010ء میں 62 بلین ڈالر، 2011ء میں 64 بلین ڈالر، 2012ء میں 62 بلین ڈالر، 2013ء میں 56 بلین ڈالر، 2014ء میں 62 بلین ڈالر، 2015ء میں 66 بلین ڈالر، 2016ء میں73 بلین ڈالر، 2017ء میں 86 بلین ڈالر، 2018ء میں 90 بلین ڈالر، 2019ء میں 95 بلین ڈالر، 2020ء میں 113 بلین ڈالر کے قرضے لیے گئے، جبکہ 2022ء میں پاکستان کے کُل قرضے 127 بلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں، جبکہ اس قدر نازک صورت حال میں بھی مقتدر اشرافیہ عیش و عشرت کے نشے میں مست مزید قرض لینے کی تمنا لیے غیر ملکی آقاؤں کے در پر سجدہ ریز ہے اور غریب عوام پر 170 ارب کے ٹیکس لگانے کو تیار ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ ان کی جانب سے معیشت کی بہتری کے نام پر لیے گئے قرض کی پاداش میں ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ قدرتی ذخائر سے مالامال ایٹمی طاقت رکھنے والا ملک اس وقت ان مفاد پرست حکمرانوں کی نااہلی کے باعث معاشی عدم استحکام کا شکار ہے۔ اس سے پہلے کہ حالات مزید خراب ہوں اربابِ اختیار کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے سوچنا ہوگا کہ ہر مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پاکستان کی معاشی پریشانیوں کا طویل مدتی حل نہیں ہے۔ سوچنا ہوگا کہ پاکستان کی طویل مدتی معاشی حکمت عملی عوام کی بھلائی کے لیے ہونی چاہیے۔ ملکی معیشت میں استحکام کے لیے ایسی پالیسیاں مرتب کرنے کی ضرورت ہے جن سے آمدن میں اضافہ اور بے روزگاری میں کمی ہو۔ ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جن کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ سکیں۔ یعنی طویل مدت تک ان اقدامات کے حصول کے لیے ایسا معاشی ماحول بنانے کی ضرورت ہے جس سے ان سرمایہ کاروں کی دلچسپی میں اضافہ ہو جو لمبے عرصے تک سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں۔ افراطِ زر میں کمی اور کم سے کم شرح سود پر زرمبادلہ کی شرح میں استحکام لانے کے لیے پروگرام بنانے ہوں گے۔ آمدن کی نسبت خرچ میں اضافہ ہماری مالی زبوں حالی کی وجہ ہے۔ زیادہ تر مالیات حکومتی اخراجات میں خرچ ہوجاتی ہیں اور نجی شعبے اور سرمایہ کاروں کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ ہمیں اپنی آمدن میں اضافے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے اقدامات سے ہی ملک کو معاشی دلدل سے نکالا جاسکتا ہے، ورنہ کاسہ گدائی ہمارا مقدر ہے۔