معراج النبیؐ حیاتِ مبارکہ کا اہم ترین واقعہ ہے۔ یہ واقعہ تحریکِ اسلامی کے اس مرحلے میں پیش آیا جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو توحید کی آواز بلند کرتے ہوئے تقریباً 12 سال گزر چکے تھے۔ آپؐ کے مخالفین آپؐ کا راستہ روکنے کے لیے سارے ہتھیار آزما چکے تھے، مگر ان کی مزاحمتوں کے باوجود آپؐ کی آواز عرب کے ہر گوشے میں پہنچ چکی تھی۔ عرب کا کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس میں دو چار آدمی آپؐ کی دعوت سے متاثر نہ ہوچکے ہوں۔ خود مکہ میں ایسے مخلص لوگوں کا ایک مختصر گروہ تیار ہوچکا تھا جو اس دعوتِ حق کی کامیابی کے لیے ہر خطرہ مول لینے کے لیے تیار تھا۔ مدینہ میں اوس اور خزرج کے طاقتور قبیلوں کے لوگوں کی بڑی تعداد آپؐ کی حامی بن چکی تھی۔ انہی حالات میں معراج کا واقعہ پیش آیا۔ قرآن میں سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے جانے کا ذکر کیا گیا ہے، اور اس سفر کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کچھ نشانیاں دکھانا چاہتا تھا۔
تفصیلات کے مطابق رات کے وقت حضرت جبریل علیہ السلام آپؐ کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک براق پر لے گئے۔ وہاں آپؐ کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر وہ آپؐ کو عالمِ بالا کی طرف لے چلے، اور وہاں مختلف آسمانوں میں مختلف جلیل القدر انبیاء سے آپؐ کی ملاقات ہوئی۔ آخرکار آپؐ انتہائی بلندیوں پر پہنچ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے، اور اس حضوری کے موقع پر دوسری اہم ہدایات کے علاوہ آپؐ کو پنج وقتہ نماز کی فرضیت کا حکم دیا گیا۔ اس کے بعد آپؐ بیت المقدس کی طرف پلٹے اور وہاں سے مسجد حرام واپس تشریف لے آئے۔ اس سلسلے میں بکثرت روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کو جنت اور دوزخ کا بھی مشاہدہ کرایا گیا۔ دوسرے روز جب آپؐ نے اس واقعے کا ذکر لوگوں سے کیا تو کفارِ مکہ نے اس کا بہت مذاق اُڑایا اور مسلمانوں میں سے بھی بعض کے ایمان متزلزل ہوگئے۔
سورۂ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ کوئی بہت بڑا، غیر معمولی واقعہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی غیر محدود قدرت سے رونما ہوا۔ ’’تمام کمزوریوں اور نقائص سے پاک ہے وہ ذات، جو ایک رات اپنے بندے کو لے گئی۔‘‘
معراج کا واقعہ درحقیقت تاریخِ انسانی کے ان بڑے واقعات میں سے ہے جنہوں نے زمانے کی رفتار کو بدل ڈالا اور تاریخ پر اپنا مستقل اثر چھوڑا۔ خدا کی سلطنت میں پیغمبری کے منصب پر وہی لوگ مقرر ہوئے ہیں جو سب سے قابلِ اعتماد تھے، اور جب انہیں اس منصب پر مقرر کردیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے خود ان کو اپنی سلطنت کے اندرونی نظام کا مشاہدہ کرایا اور ان پر کائنات کے وہ اسرار و رموز ظاہر کردیے جو عام انسانوں پر ظاہر نہیں کیے جاتے۔
(1) حضرت ابراہیمؑ کو آسمان اور زمین کے ملکوت یعنی اندرونی انتظام کا مشاہدہ کرایا (سورۂ انعام: آیت 75)۔ اور یہ بھی آنکھوں سے دکھا دیا گیا کہ خدا کس طرح مُردوں کو زندہ کرتا ہے۔ (سورۂ بقرہ:260)
(2) حضرت موسیٰؑ کو طور پر جلوۂ ربانی دکھایا گیا (الاعراف: 143)۔ اور ایک خاص بندے کے ساتھ کچھ مدت تک پھرایا گیا، تاکہ اللہ کی مشیت کے تحت دنیا کا انتظام جس طرح ہوتا ہے اس کو دیکھیں اور سمجھیں۔ (الکہف: آیات 60 تا 82)
(3) ایسے ہی کچھ تجربات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی تھے، کبھی آپؐ خدا کے مقرب فرشتے کو اُفق پر عَلانیہ دیکھتے ہیں (التکویر:23)۔ کبھی وہ فرشتہ آپؐ سے قریب ہوتے ہوتے اس قدر قریب آجاتا ہے کہ آپؐ کے اور اس کے درمیان دو کمانوں کے بقدر بلکہ اس سے بھی کچھ کم فاصلہ رہ جاتا ہے (النجم:6 تا 9)۔ کبھی وہی فرشتہ آپؐ کو سدرۃ المنتہیٰ یعنی عالم مادی کی آخری سرحد پر ملتا ہے اور وہاں آپؐ خدا کی عظیم الشان نشانیاں دیکھتے ہیں (النجم 13 تا 18)۔ لیکن معراج محض مشاہدے و معائنے تک محدود نہ تھی بلکہ اس سے بلند درجے کی چیز تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خداوند تعالیٰ نے اپنی بارگاہ میں اس لیے طلب کیا تھا کہ تحریکِ اسلامی ایک اہم موڑ لینے والی تھی، اور اسی موقع کی مناسبت سے آپؐ کو اسلامی ریاست کے منشور کی دستاویز سے آگاہ کرنا ضروری تھا۔
جب آپؐ براق پر سوار ہونے لگے تو وہ چمکا۔ جبریل علیہ السلام نے تھپکی دے کر کہا: کیا کرتا ہے! آج تک محمدؐ سے بڑی شخصیت کا کوئی انسان تجھ پر سوار نہیں ہوا ہے۔ اس پر وہ شرمندہ ہوکر پسینے پسینے ہوگیا (مسند احمد، ترمذی، ابن حبان، ابن جریر، ابن اسحاق، ابن سعد)۔
اس سفر کے دوران ایک جگہ کسی پکارنے والے نے پکارا ’’ادھر آئو‘‘۔ آپؐ نے توجہ نہ کی۔ جبریلؑ نے کہا: ’’یہ یہودیت کی طرف بلا رہا تھا‘‘۔ دوسری طرف سے آواز آئی ’’ادھر آئو‘‘۔ آپؐ نے اس طرف بھی التفات نہ کیا۔ جبریلؑ نے کہا ’’یہ عیسائیت کا داعی تھا‘‘۔ پھر ایک عورت نہایت بنی سنوری نظر آئی اور اس نے اپنی طرف بلایا۔ آپؐ نے اس سے بھی نظر پھیر لی۔ جبریلؑ نے کہا ’’یہ دنیا تھی‘‘۔ پھر ایک بوڑھی عورت سامنے آئی۔ جبریلؑ نے کہا ’’دنیا کی باقی ماندہ عمر کا اندازہ اس عورت کی باقی ماندہ عمر سے کرلیجیے‘‘۔ پھر ایک اور شخص ملا جس نے آپؐ کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا، مگر آپؐ اسے بھی چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔ جبریلؑ نے کہا ’’یہ شیطان تھا جو آپؐ کو راستے سے ہٹانا چاہتا تھا۔‘‘
بیت المقدس پہنچ کر آپؐ براق سے اُتر گئے اور اسی مقام پر باندھ دیا جہاں پہلے انبیاء اس کو باندھا کرتے تھے (مسند احمد، صحیح مسلم، ابن جریر، بیہقی، ابن ابی حاتم)۔ ابن اسحاق میں ہے کہ جبریل ؑ نے ایک چٹان میں انگلی مار کر سوراخ کیا اور اس سے براق کو باندھا۔
آپؐ ہیکل سلیمانی میں داخل ہوئے تو اُن سب پیغمبروں کو موجود پایا جو ابتدائے آفرینشن سے اس وقت تک دنیا میں پیدا ہوئے تھے۔ آپؐ کے پہنچتے ہی نماز کے لیے صفیں بندھ گئیں۔ سب منتظر تھے کہ امامت کے لیے کون آگے بڑھتا ہے۔ جبریلؑ نے آپؐ کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھایا اور آپؐ نے سب کو نماز پڑھائی۔ پھر آپؐ کے سامنے تین پیالے پیش کیے گئے، ایک میں پانی، دوسرے میں دودھ، تیسرے میں شراب۔ آپؐ نے دودھ کا پیالہ اٹھالیا۔ حضرت جبریلؑ نے مبارک باد دی کہ آپؐ فطرت کی راہ پاگئے۔ اس کے بعد ایک سیڑھی آپؐ کے سامنے پیش کی گئی اور جبریل اس کے ذریعے سے آپؐ کو آسمان کی طرف لے چلے۔ عربی زبان میں سیڑھی کو معراج کہتے ہیں۔ اسی مناسبت سے یہ سارا واقعہ معراج کے نام سے مشہور ہوا ہے۔ پہلے آسمان پر آپؐ کی ملاقات حضرت آدمؑ سے ہوئی جو انسانی بناوٹ کا مکمل نمونہ تھے، چہرے مہرے اور جسم کی ساخت میں کسی پہلو سے کوئی نقص نہ تھا۔ پھر آپؐ کو تفصیلی مشاہدے کا موقع دیا گیا۔ ایک جگہ آپؐ نے دیکھا کچھ لوگ کھیتی کاٹ رہے ہیں، جتنی کاٹتے جاتے ہیں اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے۔ پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ کہا گیا: یہ خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں۔ کچھ اور لوگ دیکھے جن کے کپڑوں میں آگے پیچھے پیوند لگے ہوئے تھے اور وہ جانوروں کی طرح گھاس چر رہے تھے۔ پوچھا: یہ کون ہیں؟ کہا گیا: یہ وہ ہیں جو اپنے مال میں سے زکوٰۃ خیرات کچھ نہ دیتے تھے۔ پھر ایک آدمی کو دیکھا کہ لکڑیوں کا گٹھر جمع کرکے اُٹھانے کی کوشش کرتا ہے، اور جب وہ نہیں اُٹھتا تو اس میں کچھ اور لکڑیاں بڑھا لیتا ہے۔ پوچھا: یہ کون احمق ہے؟ کہا گیا: یہ وہ شخص ہے جس پر امانتوں اور ذمے داریوں کا اتنا بوجھ تھا کہ اُٹھا نہ سکتا تھا، مگر یہ ان کو کم کرنے کے بجائے اور زیادہ ذمے داریوں کا بار اپنے اوپر لادے چلا جاتا تھا۔ پھر دیکھا کہ کچھ لوگوں کی زبانیں اور ہونٹ قینچیوں سے کترے جارہے ہیں، پوچھا: یہ کون ہیں؟ کہاگیا: یہ غیر ذمے دار مقرر ہیں جو بے تکلف زبان چلاتے اور فتنہ برپا کرتے ہیں۔ایک اور جگہ دیکھا ایک پتھر میں ذرا سا شگاف ہوا اور اس سے ایک بڑا موٹا سا بیل نکل آیا۔ پھر وہ بیل اسی شگاف میں واپس جانے کی کوشش کرنے لگا مگر نہ جاسکا۔ پوچھا: یہ کیا معاملہ ہے؟ کہا گیا: یہ اُس شخص کی مثال ہے جو غیر ذمے داری کے ساتھ ایک فتنہ انگیز بات کرجاتا ہے پھر نادم ہوکر اس کی تلافی کرنا چاہتا ہے مگر نہیں کرسکتا۔ایک اور مقام پر کچھ لوگ اپنا گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے۔ پوچھا: یہ کون ہیں؟ کہا گیا: یہ دوسروں پر طعن و تشنیع کرتے تھے۔ انہی کے قریب کچھ اور لوگ تھے جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے منہ اور سینے نوچ رہے تھے۔ پوچھا :یہ کون ہیں؟ کہا گیا: یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے پیٹھ پیچھے اُن کی برائیاں کرتے اور اُن کی عزت پر حملے کیا کرتے تھے۔
کچھ اور لوگ دیکھے جن کے ہونٹ اونٹوں کے مشابہ تھے اور وہ آگ کھا رہے تھے۔ پوچھا: یہ کون ہیں؟ کہا گیا: یہ یتیموں کا مال ہضم کرنے والے لوگ ہیں۔ پھر کچھ لوگ ایسے دیکھے جن کے پیٹ بے انتہا بڑے اور سانپوں سے بھرے ہوئے تھے۔ آنے جانے والے ان کو روندتے ہوئے گزرتے ہیں مگر وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتے۔ پوچھا: یہ کون ہیں؟ کہا گیا: یہ سودخور ہیں۔
پھر کچھ لوگ نظر آئے جن کے ایک جانب نفیس چکنا گوشت رکھا تھا اور دوسری جانب سڑا ہوا گوشت، جس سے سخت بدبو آرہی ہے۔ وہ اچھا گوشت چھوڑ کر سڑا ہوا گوشت کھا رہے تھے۔ پوچھا: یہ کون ہیں؟ کہا گیا: یہ وہ مرد اور عورتیں ہیں جنہوں نے حلال بیویوں اور شوہروں کے ہوتے ہوئے حرام سے اپنی خواہشِ نفس پوری کی۔
انہی مشاہدات کے سلسلے میں آپؐ کی ملاقات ایک ایسے فرشتے سے ہوئی جو نہایت ترش روئی سے ملا۔ آپؐ نے جبریلؑ سے پوچھا ’’اب تک جتنے فرشتے ملے تھے سب خندہ پیشانی اور بشاش چہروں کے ساتھ ملے۔ ان حضرت کی خشک مزاجی کا کیا سبب ہے؟‘‘ جبریلؑ نے کہا ’’اس کے پاس ہنسی کا کیا کام؟ یہ تو دوزخ کا داروغہ ہے‘‘۔ یہ سن کر آپؐ نے دوزخ دیکھنے کی خواہش کی۔ اس نے یکایک آپؐ کی نظر کے سامنے سے پردہ اُٹھا دیا اور دوزخ اپنی تمام ہولناکیوں کے ساتھ نمودار ہوگئی۔ (سیرت ِابن ہشام)
آپؐ ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچ گئے، جو عالم خلق اور پیش گاہ رب العزت کے درمیان حدِّ فاصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس پر تمام خلائق کا علم ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے ماوراء جو کچھ بھی ہے وہ غیب ہے، جس کا علم نہ کسی نبی کو ہے نہ کسی مقرب فرشتے کو۔ اسی مقام کے قریب آپؐ کو جنت کا مشاہدہ کرایا گیا۔
سدرۃ المنتہیٰ پر جبریلؑ ٹھیر گئے اور آپؐ تنہا آگے بڑھے۔ ایک بلند ہموار سطح پر پہنچے۔ بارگاہ ِجلال میں ہم کلامی کا شرف بخشا گیا۔ جو باتیں ارشاد ہوئیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
(1) ہر روز پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔
(2) سورئہ بقرہ کی آخری دو آیتیں تعلیم فرمائی گئیں۔
(3) شرک کے سوا دوسرے سب گناہوں کی بخشش کا امکان ظاہر کیا گیا۔
(4) ارشاد ہوا کہ جو شخص نیکی کا ارادہ کرتا ہے اُس کے حق میں ایک نیکی لکھ لی جاتی ہے، اور جب وہ اس پر عمل کرتا ہے تو دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ مگر جو برائی کا ارادہ کرتا ہے اُس کے خلاف کچھ نہیں لکھا جاتا، اور جب وہ اس پر عمل کرتا ہے تو ایک ہی بُرائی لکھی جاتی ہے۔ (صحیح مسلم۔ نسائی۔ ترمذی)۔
واپسی کے سفر میں آپؐ سیڑھی سے اُتر کر بیت المقدس آئے، یہاں پھر تمام پیغمبر موجود تھے۔ آپؐ نے ان کو نماز پڑھائی جو غالباً فجر کی نماز تھی۔ پھر براق پر سوار ہوئے اور مکہ واپس پہنچ گئے۔ صبح سب سے پہلے آپؐ نے اپنی چچا زاد بہن اُم ہانیؓ کو یہ روداد سنائی۔ پھر باہر نکلنے کا قصد کیا۔ انہوں نے آپؐ کی چادر پکڑلی اور کہا: خدا کے لیے یہ قصہ لوگوں کو نہ سنائیے گا ورنہ وہ آپؐ کا مذاق اُڑائیں گے۔ مگر آپؐ یہ کہتے ہوئے باہر نکل گئے کہ میں ضرور بیان کروں گا۔ حرم کعبہ میں ابوجہل نے یہ واقعہ سن کر آپؐ کا خوب مذاق اُڑایا۔ آناً فاناً یہ خبر تمام مکہ میں پھیل گئی۔ لوگ اس امید پر حضرت ابوبکرؓ کے پاس پہنچے کہ یہ محمدؐ کے دستِ راست ہیں، یہ اس تحریک سے پھر جائیں گے تو تحریک کی جان نکل جائے گی۔ انہوں نے قصہ سن کر فوراً ہی تصدیق کی اور بارگاہِ خداوندی سے صدیق کا لقب پایا۔
جس رات معراج ہوئی اس کے بعد دو دن تک حضرت جبریل علیہ السلام ہر نماز کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ بتانے کے لیے آتے رہے کہ 5 نمازیں فرض کی گئی ہیں، ان کو ادا کرنے کے اوقات کیا ہیں۔ انہوں نے ہر نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امامت میں پہلے دن اوّل وقت پڑھائی اور دوسرے دن آخر وقت۔ پھر کہا کہ ہر نماز کا وقت ان دونوں اوقات کے درمیان ہے۔
معراج النبیؐ سے مسلمانوں کو سب سے پہلا پیغام یہ دیا گیا کہ قرآن ہی وہ چیز ہے جو ٹھیک راستہ دکھانے والی ہے۔ دوسری اہم حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان اپنی ایک مستقل اخلاقی ذمے داری رکھتا ہے۔ اس کا اپنا عمل اُس کے حق میں فیصلہ کن ہے۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ معاشرے کو تباہ کرنے والے بڑے لوگ ہیں، جب کسی قوم کی شامت آنے والی ہوتی ہے تو اس کے خوش حال لوگ فسق و فجور پر اُتر آتے ہیں۔ ظلم و ستم اور بدکاریاں شروع کردیتے ہیں۔ چوتھی اہم بات آخرت اور اس کی باز پرس کی یاد دہانی ہے۔
معراج النبیؐ دراصل ان اصولوں پر مبنی تھی جو آئندہ برسوں میں مدینہ کی اسلامی ریاست میں معاشرے کی بنیاد بننے والے تھے اور یہی اصول اسلامی فلاحی ریاست کا منشور قرار پائے۔