اٹھو،اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو!

486

(دوسرا اور آخری حصہ)
اس بات کی وضاحت پہلے بھی کی جاچکی ہے کہ اگرچہ انبیا ؑ کا انکار کرنے والوں اور ان کی تکذیب کرنے والوں اور ان کو ستانے والوں کے اُوپر دنیا میں بھی عذاب آتے رہے ہیں، اور خودکفارِ مکہ کو بھی قرآنِ مجید میں دھمکیاں دی گئی ہیں کہ تم اگر اس روش سے بازنہیں آئو گے تو وہ دن دیکھو گے جو عاد اور ثمود نے دیکھا ہے۔ لیکن اصل عذاب دنیا کا عذاب نہیں ہے بلکہ آخرت کا عذاب ہے جس سے کفار کو بھی ڈرایا جاتا ہے اور جس کے متعلق پہلے انبیا ؑ کو بھی اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تسلی دی گئی ہے کہ جو لوگ تمھیں یہاں ستا رہے ہیں آخرکار ان کی شامت قیامت کے دن آئے گی۔

اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ اس دنیا میں ظلم و ستم کرتے ہیں ضروری نہیں ہے کہ ان میں سے ایک ایک شخص کے اُوپر اسی دنیا میں عذاب آجائے۔ فرض کیجیے کہ ایک خاص دن عذاب آنے والا ہے۔ اس دن سے ایک روز پہلے جو لوگ مرگئے ان کے اُوپر کون سا عذاب آیا۔ قومِ عاد پر عذاب آیا، قومِ ثمود پر عذاب آیا اور دوسری قوموں پر عذاب آیا اور ایک خاص تاریخ پر عذاب آیا۔ اس تاریخ پر یا اس عذاب کے نزول سے ایک گھنٹہ پہلے جو لوگ مرگئے ان پر تو کوئی عذاب نہیں آیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ظلم و ستم کرنے والوں کے لیے اصل عذاب دنیا کا عذاب نہیں ہوسکتا کیوںکہ ہر ظالم کی شامت اس دنیا میں نہیں آسکتی۔

یہ تو حقیقت میں ایک گرفتاری ہے۔ دنیا میں جو عذاب آتا ہے اس کی نوعیت ایسی ہے جیسے ایک آدمی بڑھکیں مارتا پھر رہا تھا تو وہ اس روز گرفتار کرلیا گیا۔ اب یہ کوئی سزا نہیں ہے بلکہ فقط گرفتاری ہے۔ اصل سزا تو اس وقت ملے گی جب وہ عدالت میںپیش کیا جائے گا، اور عدالت سے اس کو سزا سنائی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ یہاں صرف گرفتاری سے نہیں ڈرا رہا بلکہ یہ فرما رہا ہے کہ ان لوگوں کی شامت اس روز آئے گی جس روز صُور پھونکا جائے گا۔ وہ دن کافروں کے لیے بڑا سخت ہوگا۔

دوسری بات یہ ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ نبیؐ کی زندگی میں نبیؐ کے سامنے ہی عذاب آجائے۔ حضرت عیسٰی ؑ کا یہودیوں نے انکار کیا اور ان کے مقابلے میں اس قدر سخت باغیانہ روش اختیار کی کہ آخرکار اپنی طرف سے انھیں سولی پر چڑھا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اُٹھا لیا اور کوئی دوسرا شخص سولی پر چڑھا دیا گیا لیکن انھوں نے تو اپنی طرف سے حضر ت عیسٰی ؑہی کو سولی پرچڑھا دیا تھا۔ جس وقت وہ مقدمہ چلا رہے تھے اس وقت وہ عذاب نہیں آیا۔ جب وہ صلیب پر چڑھا رہے تھے اس وقت بھی وہ عذاب نہیں آیا۔ ۷۰ء میں جاکر رومیوں نے بیت المقدس فتح کیا اور ہیکل کو مسمار کردیا اور بنی اسرائیل کو دنیا بھر میں تتر بتر کر دیا۔ اس کے بعد مزید چندسال لگے اور ۱۳۵ء میں تمام بنی اسرائیل کو فلسطین سے نکال دیا گیا اور حکم دے دیا گیا کہ کوئی یہودی بیت المقدس کی حدود میں داخل نہیں ہوسکے گا۔

اس سے معلوم ہوا کہ نبی ؑ کی زندگی میں ہی کفار پر عذاب آنا ضروری نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ظالم لوگ نبی ؑکو پکڑلیں، گرفتار کرلیں، قتل کرڈالیں لیکن اس کے باوجود نبی ؑ کی زندگی میں عذاب نہیں آسکتا اگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ نہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی اور موقعے کے لیے عذاب کو اُٹھا رکھا ہو۔

اس وجہ سے نبی ؑ کو صبر کرنا چاہیے لیکن یہ سمجھتے ہوئے نہیں کہ شاید چند سال بعد عذاب میری زندگی میں ہی آجائے۔ نبی ؑ کو صبر کرنا چاہیے یہ سمجھتے ہوئے کہ اس دنیا میں کوئی شخص خواہ کچھ کرڈالے لیکن بہرحال آخرت میں اپنے اعمال کا نتیجہ دیکھ کر رہے گا۔ نبی ؑ کو چونکہ اس پر کامل یقین ہوتا ہے کہ آخرت ضرور آنی ہے، اس کے ہاں یہ فلسفہ نہیں ہے کہ اس نے کچھ مقدمات کے زور پر یہ نتیجہ نکالا ہو کہ آخرت آسکتی ہے، یا آخرت آنی چاہیے، بلکہ اسے علم ہے کہ آخرت آئے گی اور اسے اس بات پر پختہ یقین ہوتا ہے۔ اس لیے نبی ؑ کے لیے یہ مکمل وجۂ تسلی ہے کہ اس دنیا میں چاہے کوئی شخص اپنے اعمال کا بُرا نتیجہ نہ دیکھے لیکن آخرت میں لازماً دیکھے گا۔

آیاتِ قرآنی سے عناد کا انجام
اب اس کے بعد ایک خاص مخالف کا کیس (مقدمہ) لیا جا رہا ہے:
ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا o وَجَعَلْتُ لَـہٗ مَالًا مَّمْدُوْدًا o وَبَنِیْنَ شُہُوْدًا o وَّمَہَّدْتُ لَہٗ تَمْہِیْدًا o ثُمَّ یَطْمَعُ اَنْ اَزِیْدَ (۷۴: ۱۱-۱۵)چھوڑ دو مجھے اور اس شخص کو جسے مَیں نے اکیلا پیدا کیا، بہت سا مال اس کو دیا، اس کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے دیے، اور اس کے لیے ریاست کی راہ بھی ہموار کی، پھر وہ طمع رکھتا ہے کہ مَیں اسے اور زیادہ دوں۔

یہ ایک خاص شخص کی طرف اشارہ ہے جو مکہ معظمہ کے بڑے سرداروں میں سے تھا، بلکہ کہاجاتا ہے کہ مکہ معظمہ میں سب سے بڑا ذی وجاہت سردار یہی تھا، یعنی حضرت خالد بن ولیدؓ کا باپ ولید بن مغیرہ۔ یہ بنی مخدوم کا سردار تھا اور بہت بڑا دولت مند تھا۔ بڑا ذی وجاہت آدمی تھا اور مکہ معظمہ میں اس کی عقل مندی اور دانش مندی کی شہرت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسے قابل اور اعلیٰ درجے کے بیٹے دیے تھے جن کا پورے معاشرے کے اندر اثر تھا۔ ان آیات میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ ولید بن مغیرہ چونکہ بڑا سمجھ ار آدمی تھا، اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور کلام، یہ دونوں چیزوں کو دیکھ کر دل میں سمجھ گیا تھا کہ یہ کلام انسانی نہیں ہوسکتا۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ یہ جو کہا جارہا ہے کہ یہ شاعری ہے، یہ کہانت ہے، یہ سب کی سب فضول بات ہے۔ یہ کلام نہ شاعری کی نوعیت کا ہے، نہ کہانت کی نوعیت کا۔ اس نے اس بات کو اپنے ایک جلسے میں کہا بھی تھا۔ تمھارا یہ کہنا کہ یہ شاعری ہے، غلط بات ہے۔ کیا ہم نے شعر سنے نہیں ہیں۔ اس کلام کا شاعری سے کیا تعلق۔ کیا ہم نے کاہنوں کی باتیں سنی نہیں ہیں۔ اس کلام کا کاہنوں کی باتوں سے کیا تعلق۔ پھر وہ آپؐ کو بچپن سے جانتا تھا۔ اسی شہر کا رہنے والا بھی تھا، اور خاندانی رشتہ داریاں بھی تھیں۔ اس لیے وہ آپؐ کی شخصیت سے بھی واقف تھا۔ اس کے دماغ میں کبھی یہ خیال نہیں آسکتا تھا کہ حضوؐر شاعری کر رہے ہیں، یا یہ بناوٹی آدمی ہیں (نعوذ باللہ)۔ اس لیے وہ دل میں قائل ہوگیا تھا لیکن اس کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ اگر میں اس شخص کو مان لیتا ہوں تو میری سرداری اور وجاہت ختم ہوجاتی ہے۔ قوم جو مجھے بڑا سمجھتی ہے اور میرے گرد جمع ہوگئی ہے، مجھ سے دُور ہوجائے گی اور میرا سارا اثرورسوخ ختم ہوجائے گا۔

ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا(۷۴:۱۱) چھوڑ دو مجھے اور اس شخص کو جسے مَیں نے اکیلا پیدا کیا۔

مراد یہ ہے کہ اس معاملے کو میرے حوالے کرو، مَیں اس سے نبٹوں گا۔ تمھیں اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب مَیں اس شخص سے نبٹوں گا۔ اس معنی میں یہ قرآنِ مجید میں بھی آیا ہے اور اُردو زبان میں بھی کہتے ہیں کہ چھوڑ دو مجھے مَیں ذرا اس کی خبر لوں۔ اسی مفہوم میں اسے لیا گیا ہے کہ تمھیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس کا معاملہ میرے سپرد کردو۔

ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا (۷۴:۱۱) چھوڑ دو مجھے اور اس شخص کو جسے مَیں نے اکیلا پیدا کیا۔

اس کے دو معنی ہیں۔ ایک معنی یہ ہے کہ اس شخص کو مَیں نے اکیلا پیدا کیا۔ جس وقت یہ اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا تو کوئی فوج اور جتھہ لے کر نہیں آیا تھا۔ اس وقت اپنے ساتھ کوئی سازوسامان لے کر نہیں آیا تھا۔ کوئی محلات اور سواریاں لے کر نہیں آیا تھا، بلکہ اکیلا ہاتھ پائوں لیے پیدا ہوا تھا۔

اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جس کو مَیں نے اکیلا پیدا کیا، اس کو پیدا کرنے میں کوئی لات یا ہبل شریک نہیں تھا۔ تنہا مَیں اس کو پیدا کرنے والا تھا۔ کسی اور کا اس کو پیدا کرنے میں ہاتھ نہیں تھا۔ یہ دونوں مفہوم ایک ہی فقرے کے ہیں۔

وَجَعَلْتُ لَـہٗ مَالًا مَّمْدُوْدًا (۷۴:۱۲) بہت سا مال اس کو دیا۔
مالِ ممدود سے مراد لمبا چوڑا مال ہے۔ یعنی ماں کے پیٹ سے یہ کچھ نہیں لے کرآیا تھا ۔ میں نے اس کو یہ سب کچھ اس دنیا میں دیا۔ میں ہی اس کو اکیلا پیدا کرنے والا تھا اور کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں تھا۔ میں ہی اس کو مال دینے والا تھا اور کوئی دوسرا اس کو مال دینے میں شریک نہیں تھا۔

وَبَنِیْنَ شُہُوْدًا (۷۴:۱۳) اس کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے دیے۔
یعنی میں نے اس کو ایسے لڑکے دیے جو بڑی بڑی محفلوں میں اس کے ساتھ شریک ہونے والے ہیں، بڑے بڑے اور اہم مواقع پر شریک ہونے والے ہیں،اور جن کی سرداری اس دنیا میں مانی جاتی ہے۔

وَّمَہَّدْتُ لَہٗ تَمْہِیْدًا (۷۴: ۱۴) اور اس کے لیے ریاست کی راہ ہموار کی۔
تمہید اُردو زبان میں، آگے کی تقریب کرنے اور میدان تیار کرنے کی خاطر جو ابتدائی کلمات بولے جاتے ہیں انھیں تمہید کہتے ہیں۔ عربی زبان میں تمہید کے معنی راستہ صاف کرنے کے اور راستہ تیار کرنے کے ہیں۔ یہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ بڑائی، وجاہت اور ریاست کے مقام پر پہنچنے کے لیے مَیں نے اس کے لیے اسباب فراہم کیے، راستہ تیار کیا ، اور راہ ہموار کی ۔

ثُمَّ یَطْمَعُ اَنْ اَزِیْدَ (۷۴: ۱۵) پھر وہ طمع رکھتا ہے کہ مَیں اسے اور زیادہ دوں۔

یہاں ’مزید دوں گا‘ اس معنی میں ہے کہ وہ یہ طمع رکھتا ہے کہ میں اس کا انجام بھی ٹھیک اور بخیر کروں گا۔یعنی یہ اُمید رکھتا ہے کہ دنیا تو مَیں نے اس کی ٹھیک بنائی ہے اب آخرت بھی ٹھیک کروں گا۔ ان لوگوں کے نزدیک آخرت یقینی نہیں تھی لیکن چونکہ خبریں سنتے تھے کہ آخرت بھی آنے والی ہے تو کہتے تھے کہ اگر آخرت بھی آئی، قیامت بھی برپا ہوئی اور کوئی دوسرا عالم ہوا تو وہاں بھی ہم اچھے ہی رہیں گے، کیوں کہ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں دولت دی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ دولت کچھ دیکھ کر ہی دی ہے، اور کسی قابل سمجھا تھا تو دی ہے۔ اس لیے وہاں بھی ہم اچھے ہوں گے۔ ان کا یہ استدلال تھا۔ چونکہ اس زمانے میں مسلمان خستہ حال تھے اور جو خوش حال تھے ان کو بھی خستہ حال بنا کر رکھ دیا گیا تھا۔ اس لیے یہ ان سے کہتے تھے کہ میاں دیکھ لو کہ دنیا میں خدا کا محبوب کون ہے؟ خدا کے محبوب تو ہم ہیں، اس لیے کہ ہمیں راحتیں نصیب ہیں، دولت نصیب ہے،اعلیٰ درجے کے مکانات اور اعلیٰ درجے کی محفلیں نصیب ہیں۔ کیا خدا کے محبوب تم ہو کہ تمھیں کھانے کو نصیب نہیں ہو رہا اور پہننے کو کپڑے نصیب نہیں ہو رہے، اور رہنے کو گھر نصیب نہیں ہیں۔ یہ ان کا استدلال تھا اور اس وجہ سے وہ یہ سمجھتے تھے کہ چونکہ ہم خدا کے محبوب ہیں اور خدا کے محبوب ہونے کی علامت یہ ہے کہ ہمیں دنیا میں خوش حال بنایا گیا ہے، اس وجہ سے آخرت میں بھی ہم ہی بھلے رہیں گے، اور وہ لوگ جو دنیا میں خستہ حال ہیں وہ آخرت میں بھی خستہ حال ہوں گے۔

اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ اب وہ طمع رکھتا ہے کہ میںاسے مزید دوں اور آخرت میں بھی اس کی ریاست قائم رہے۔ وہاں بھی اس کو مزید وجاہت اور ریاست نصیب ہو۔

کَلَّا ط اِِنَّہٗ کَانَ لِاٰیٰتِنَا عَنِیْدًا (۷۴: ۱۶) ہرگز نہیں، وہ ہماری آیات کے مقابلے میں عناد رکھتا ہے۔

یعنی آخرت میں اس کے لیے کسی سرداری اور کسی ریاست اور کسی بڑائی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ آخرت میں کسی شخص کو کوئی بڑا مقام صرف اس لیے نہیں مل سکتا کہ دنیا میں اسے بڑا مقام حاصل تھا۔ آخرت میں بڑا مقام صرف اس بنیاد پر مل سکتا ہے کہ اللہ کی آیات کے ساتھ اس نے کیا رویہ اختیار کیا۔ چونکہ اس نے ہماری آیات کے مقابلے میں عناد (دشمنی) کا رویہ اختیار کیا ہے، اس وجہ سے کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ اسے وہاں مزید کوئی بڑائی ملے۔

سَاُرْہِقُہٗ صَعُوْدًا (۷۴: ۱۷) میں تو اسے عنقریب ایک کٹھن چڑھائی چڑھوائوں گا۔

یعنی بجاے اس کے کہ یہ وہاں کوئی بڑی دولت حاصل کرے، کوئی بڑی وجاہت یا ریاست یا کوئی بڑائی اسے وہاں نصیب ہو، ہم تو اسے بڑی کٹھن گھاٹی چڑھائیں گے، بڑے سخت راستے سے یہ وہاں گزرے گا۔

قرآن کو جادو قرار دینا
اِِنَّہٗ فَکَّرَ وَقَدَّرَ o فَقُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَ o ثُمَّ قُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَ o ثُمَّ نَظَرَ o ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ o ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَ o فَقَالَ اِِنْ ہٰذَآ اِِلَّا سِحْرٌ یُّؤْثَرُ o اِِنْ ہٰذَآ اِِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ (۷۴: ۱۸-۲۵)اس نے سوچا اور کچھ بات بنانے کی کوشش کی، تو خدا کی مار اس پر، کیسی بات بنانے کی کوشش کی۔ ہاں، خدا کی مار اس پر، کیسی بات بنانے کی کوشش کی۔ پھر (لوگوں کی طرف) دیکھا۔ پھر پیشانی سکیڑی اور منہ بنایا۔ پھر پلٹا اور تکبر میں پڑ گیا۔ آخرکار بولا کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک جادو جو پہلے سے چلا آرہا ہے۔ یہ تو ایک انسانی کلام ہے۔

یہاں اللہ کی آیات کے مقابلے میں اس نے جو عناد اختیار کیا تھا اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ وہ دل میں قائل ہوگیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معاذاللہ جھوٹے نہیں ہیں۔ دل میں جان گیا تھا کہ یہ انسانی کلام نہیں ہوسکتا۔ یہ کلام فی الواقع اس شان کا ہے کہ یہ خدا کے سوا کسی اور کا کلام نہیں ہوسکتا۔ مگر اب معاملہ تھا اپنی بڑائی اور ریاست اور وجاہت کا۔ اس کے سامنے معاملہ یہ تھا کہ اگر اس کو مان لیتا ہوں تو میری ساری بڑائی اور وجاہت جاتی رہتی ہے۔

اب اس کی کیفیت بیان کی گئی ہے کہ اس نے غور کیا۔ پھر اٹکل دوڑائی کہ کیا الزام چسپاں کروں؟ کس طرح سے اس کا انکار کروں؟ شاعری کہہ نہیں سکتا، کیوں کہ جانتا ہوں کہ یہ شاعری نہیں ہے۔ کہانت کہہ نہیں سکتا کیوں کہ جانتا ہوں کہ اگر کہانت کہوں گا چاہے لوگ اس پر اعتبار کرلیں لیکن جو سمجھ دار لوگ ہیں وہ کہیں گے کہ کیا نبی ؑ بھی اس طرح کی کہانت کہہ سکتا ہے۔ اس لیے کہ کہانت کا کلام کس کو معلوم نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں بھی نجومی اور فال گیر اِسی طرح کے لگے بندھے فقروں کے ترنم کے ساتھ آوازے لگاتے پھرتے ہیں۔ اسی طرح کے فقرے عرب میں بھی کاہن کہتے پھرتے تھے۔ لہٰذا اس نے سوچا کہ کون شخص مانے گا کہ یہ قرآن کاہنوں، فال گیروں اور نجومیوں کے فقروں جیسا کلام ہے۔ اس کے دماغ میں یہ خیال آتا تھا کہ اگر میں اس طرح کی کوئی بات کروں گا تو ظاہر بات ہے کہ لوگ کہیں گے کہ اتنا سمجھ دار آدمی بھی ایسی باتیں کر رہا ہے۔ اس لیے اب اٹکل دوڑا رہا ہے، سوچ رہا ہے کہ کیا الزام لگائوں؟

فرمایا گیا: قُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَ، مارا گیا یہ کہ دیکھو اس نے کس طرح سے اٹکل دوڑائی۔ ثُمَّ نَظَرَ ، پھر اس نے سوچا، غور کیا کہ کیا الزام لگائوں۔ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ ، پھر اس نے منہ بنایا، تیوری چڑھائی۔ جس طرح سے کوئی آدمی کسی ایسی بات کے بارے میں کوئی بات بنانا چاہ رہا ہو جس کے بارے میں اس کا دل خود کہہ رہا ہو کہ یہ غلط بات ہے، تو ظاہر ہے کہ کچھ نہ کچھ چہرہ بناتا ہے۔ کچھ غور کرتا ہے، کچھ سوچتا ہے کہ کیا بات بنائوں؟ آخرکار اس کی تیوریاں چڑھتی ہیں، منہ بنتا ہے۔ اس کیفیت کو بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح ایک اندرونی کش مکش میں مبتلا ہے۔ بات سچی ہے اور اسے جھوٹی قرار دے رہا ہے۔ الزام تجویز کرنا (باقی صفحہ 9پر)

چاہتا ہے لیکن کوئی چسپاں نہیں ہو رہا، کوئی ایسا الزام جو اس پر لگ سکے۔ اس لیے منہ بناتا ہے۔ آخرکار پلٹ گیا اور گھمنڈ میں مبتلا ہوگیا۔ بجاے اس کے کہ غوروخوض کرکے اور جب وہ منہ بنا رہا تھا اور تیوریاں چڑھا رہا تھا اس وقت اس کا دل اور اس کا ضمیر اس کو یہ کہتا کہ میاں کیوں حق بات کو جھٹلا رہے ہو، سیدھی طرح مان لو۔ اس کے بجاے وہ پلٹ گیا اور کس بنا پر پلٹ گیا؟ استکبار کی وجہ سے۔ گھمنڈ اور اپنی بڑائی کی بناپر پلٹ گیا اور کہنے لگا کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک جادو ہے۔

کیوں وہ جادو کہتا تھا؟ اور عرب کے لوگ قرآنِ مجید کے لیے بالعموم جادو کا لفظ استعمال کرتے تھے تو آخر کس بنا پر کرتے تھے؟

وہ کہتے تھے کہ اس کلام کے اندر ایسا جادو ہے کہ اس کو اگر کوئی آدمی سن لے تو اس کے بعد وہ اپنے بال بچے، خاندان برادری، رشتے دار، سب کچھ چھوڑ دیتا ہے۔ بیٹا باپ سے منحرف ہوجاتا ہے۔ بیوی شوہر سے منحرف ہوجاتی ہے۔ یہ جادو نہیں تو کیا ہے؟ اس مفہوم میں وہ لوگ اسے جادو کہتے تھے۔ ولید بن مغیرہ کو بھی یہ ہمت نہ پڑی کہ اس کو شاعری کہے۔ اس کو یہ ہمت نہ پڑی کہ اس کو کہانت کہے۔ اب اس نے سوچ بچار کے بعد کہا کہ یہ تو ایک جادو ہے۔

عرب کے سردار بالعموم لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ میاںاس کے کلام کو نہ سننا۔ یہ بیٹے کو باپ سے لڑا دیتا ہے، بیوی کو شوہر سے لڑا دیتا ہے، بھائی کو بھائی سے لڑا دیتا ہے۔ یہاں تک کہ بہت سے لوگ ایسے تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے تھے کہ آپؐ قرآن پڑھ رہے ہیں تو کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے تھے یا روئی ٹھونس لیتے تھے کہ کانوں میں آواز نہ پڑے۔ اس بات سے ڈرتے تھے۔

اسی معنی میں اس نے یہ بات کہی کہ یہ ایک ایسا جادو ہے جو اُوپر سے نقل ہوتا چلا آرہا ہے۔ مطلب یہ کہ ایسے جادوگر پہلے بھی گزرچکے ہیں۔ اس کا اشارہ انبیا ؑ کی طرف تھا کہ پہلے بھی ایسے جادوگر گزرچکے ہیں۔ یہ بھی اسی طرح کا جادوگر ہے (نعوذباللہ)۔ دوسرے الفاظ میں اس نے اس طرح سے دھوکے بازی کی کہ جس بات کو وہ سمجھتا تھا کہ یہ خدا کا کلام ہے بجاے اس کے کہ یہ کہتا کہ یہ خدا کا کلام ہے، اور یہ وہ کلام ہے جو پہلے انبیا ؑ پر بھی آتا رہا ہے، اور یہ وہ کلام ہے جس کی تاثیر پہلے بھی یہ تھی اور اس وقت بھی یہ دیکھی جارہی ہے۔ یہ انسان کو اس کے آپے میں نہیں رہنے دیتا اور انسان اپنی غلط کاری سے باہرآکر ہر طرح کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ یہ بات اس نے نہیں کہی۔ اس نے کہا کہ یہ جادو ہے۔ اس کی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا کہ یہ جادو ہے اور یہ پہلے سے نقل ہوتا چلا آرہا ہے۔

اِِنْ ہٰذَآ اِِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ (۷۴:۲۵)یہ تو ایک انسانی کلام ہے۔

اس نے کہا کہ یہ کچھ نہیں ہے بس ایک انسان کا کلام ہے۔ درآں حالیکہ وہ دل میں مان چکا تھا کہ یہ انسان کا کلام نہیں ہے لیکن صرف اپنی بڑائی قائم رکھنے کے لیے اس نے کہا کہ یہ انسان کا کلام ہے۔

جہنم کا کڑا عذاب
سَاُصْلِیْہِ سَقَرَ o وَمَآ اَدْرٰکَ مَا سَقَرُ o لاَ تُبْقِیْ وَلاَ تَذَرُ o لَوَّاحَۃٌ لِّلْبَشَرِ (۷۴: ۲۶-۲۹)عنقریب میں اسے دوزخ میں جھونک دوں گا اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دوزخ؟ نہ باقی رکھے نہ چھوڑے۔ کھال جھلس دینے والی۔

اس طرح کے آدمی کا علاج اس دنیا میں نہیں ہوسکتا۔ اس دنیا میں اس کو خواہ کوئی عذاب دے دیا جائے وہ اس کی سزا نہیں ہوسکتی۔ اس کی سزا جہنم ہے اور وہ جہنم کیا ہے؟ اس جہنم کے بارے میں قرآنِ مجید میں جتنے عذاب بیان کیے گئے ہیں ان کے مقابلے میں یہ عذاب جو ایک فقرے میں بیان کیا گیا ہے سخت کڑا ہے، یعنی یہ کہ نہ باقی رکھے نہ چھوڑے۔

ایک دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے: لَایَمُوْتُ فِیْھَا وَلَا یَحْیٰی (الاعلٰی ۸۷:۱۳) ’’وہ نہ اس میں مرے گا نہ جیے گا‘‘۔ اس کے اندر آدمی کی حالت یہ ہوگی کہ نہ مرے گا اور نہ جیے گا۔ عذاب اتنا سخت ہوگا کہ باربار موت آئے گی لیکن وہاں چونکہ موت نہیں ہے اس وجہ سے موت نہیں آئے گی مگر جینے کی طرح جیے گا بھی نہیں۔ یہ جہنم کے عذاب کی سختی کی انتہا ہے کہ جو یہاں بیان کی گئی ہے۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے ہ وہ عذاب کے مستحقین میں سے کسی کو باقی نہ رہنے دے گی جو اُس کی گرفت میں آئے بغیر رہ جائے، اور جو بھی اس کی گرفت میں آئے گا اسے عذاب دیے بغیر نہ چھوڑے گی۔

لَوَّاحَۃٌ لِّلْبَشَرِ (۷۴:۲۹)آدمی کی کھال کو چاٹ کھائے گی۔
’’یہ کہنے کے بعد کہ وہ جسم میں سے کچھ جلائے بغیر نہ چھوڑے گی، کھال جھلس دینے کا الگ ذکر کرنا بظاہر کچھ غیرضروری سا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن عذاب کی اس شکل کو خاص طور پر الگ اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ آدمی کی شخصیت کو نمایاں کرنے والی چیز دراصل اس کے چہرے اور جسم کی کھال ہی ہوتی ہے جس کی بدنمائی اُسے سب سے زیادہ کَھلتی ہے۔ اندرونی اعضا میں خواہ اسے کتنی ہی تکلیف ہو، وہ اس پر اتنا زیادہ رنجیدہ نہیں ہوتا جتنا اس بات پر رنجیدہ ہوتا ہے کہ اس کا منہ بدنما ہوجائے، یااس کے جسم کے کھلے حصوں کی جِلد پر ایسے داغ پڑ جائیں جنھیں دیکھ کر ہرشخص اُس سے گھِن کھانے لگے۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ یہ حسین چہرے اور بڑے بڑے شان دار جسم لیے ہوئے جو لوگ آج دنیا میں اپنی شخصیت پر پھولے پھر رہے ہیں، یہ اگر اللہ کی آیات کے ساتھ عناد کی وہ روش برتیں گے جو ولید بن مغیرہ برت رہا ہے تو ان کے منہ جھلس دیے جائیں گے اور ان کی کھال جلاکر کوئلے کی طرح سیاہ کردی جائے گی‘‘۔(تفہیم القرآن، جلد ششم، ص۱۴۸-۱۴۹)

حصہ