شمس الرحمٰن فاروقی کی یادگار گفتگو
(چھٹی قسط)
سوال: محمد حسن عسکری کے انتقال کے بیس بائیس برس بعد اب دوبارہ لوگ محمد حسن عسکری کی طرف رجوع ہو رہے ہیں۔ عام پڑھنے والوں میں وہ پھر مقبول ہو رہے ہیں۔ آپ کے خیال میں ادھر بیس پچیس برسوں میں اردو میں تنقید لکھنے والوں کی جو کھیپ آئی ہے کیا اس نے محمد حسن عسکری کے اثرات قبول کیے ہیں؟
شمس الرحمٰن فاروقی: یقیناً محمد حسن عسکری سے میری جو عقیدت ہے اور اثرپذیری ہے وہ بہت پرانی ہے۔ جیسا کہ میں نے لکھا بھی ہے کہ جب میں ہائی اسکول اور انٹرمیں پڑھتا تھا تو عسکری صاحب کے مضامین دیکھتا تھا، ’’ساقی‘‘ میں ’’جھلکیاں‘‘ کے عنوان سے۔ مجھے حیرت ہوتی تھی کہ کوئی شخص اتنا پڑھا لکھا بھی ہوسکتا ہے اور اس قدر ز بردست گرفت ہوسکتی ہے اس کی مغربی ادب پر اور نئے علوم پر۔ بلکہ میں نے تو اپنے مضمون ’’غبار کارواں‘‘ میں لکھا ہے کہ عسکری کو پڑھ کر میرے تو چھکے چھوٹ جاتے تھے کہ میں تو اتنا علم رکھتا ہی نہیں ہوں، اور نہ اس طرح لکھ سکتا ہوں۔ تو میں پھر تنقید میں کیا کرسکوں گا؟ تو میں اس وقت سے عسکری صاحب کا قائل اور مداح ہوں۔ ان کا عقیدت مند رہا ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ میں ہر جگہ ان سے متفق نہیں ہوں مگر ان کا حلقہ بگوش تو یقیناً ہوں۔
رہا یہ کہنا کہ بیس پچیس برس کے بعد اب عسکری صاحب کا احیا ہورہا ہے، تو میں اس سے متفق نہیں ہوں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دراصل عسکری صاحب کی تنقید کا اثر و نفوذ کبھی اردو ادب میں کم نہیں ہوا۔ ہندوستان میں ضرور ان کا ذکر کم ہوتا ہے اور ان کا نام کم لیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی چیزیں یہاں کے لوگوں تک پہنچیں ہی نہیں۔ دو کتابیں یہاں علی گڑھ سے چھپی ہیں، وہی یہاں کے لوگوں کو ملی ہیں۔ ’’جھلکیاں‘‘ اور دوسری کتابیں ان کی کہاں دستیاب ہیں؟ ان کے افسانے بھی یہاں نہیں چھپے۔ افسانوں کے مجموعے میں جو اختتامیہ انہوں نے لکھا تھا وہ غیرمعمولی تھا فکشن کی تنقید میں۔ وہ بھی کسی کے پاس نہیں ہے۔ صرف ان لوگوں کے پاس ہے جن کے پاس ’’جزیرے‘‘ کا پہلایا دوسرا ایڈیشن ہو۔ ابوالکلام قاسمی کی کتاب کے سوا کوئی مفصل مطالعہ بھی ان کا نہیں لکھا گیا۔ خیر اس کتاب میں اور خوبیوں کے ساتھ یہ بھی ہے کہ اس میں ’’جزیرے‘‘ کا اختتامیہ شامل ہے۔
تو ہندوستان کے نئے لوگوں نے، یعنی ہمارے بعد آنے والوں نے کم ان کاذکر کیا ہے۔ ہم لوگ، یعنی سنہ ساٹھ والے لوگ بے شک ان کو بہت اہم مانتے ہیں۔ کیا وارث علوی، کیا گوپی چند نارنگ، کیا فضیل جعفری، مغنی تبسم، وہاب اشرفی ہوں یا شمیم حنفی، کوئی ایسا نقاد نہیں جو ان کو اپنا استاد نہ مانتا ہو۔ خلیل الرحمن اعظمی ان کے بہت قائل تھے۔ سب نے ان سے سیکھا ہے اور ان کا اعتراف کیا ہے۔ ہاں باقر مہدی شاید ان سے کچھ خاص متاثر نہ ہوئے، لیکن ان کا معاملہ دوسرا ہے۔
پاکستان کی بات دیگر ہے۔ وہاں ان کی بات تقریباً مستند رہ چکی ہے اور بڑی حدتک اب بھی ہے۔ یعنی کسی بات پر، کسی مسئلے پر عسکری صاحب کی رائے بیان کردی جائے تو زیادہ ترلوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اب اس کے آگے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے، عسکری صاحب تو اپنا موقف ظاہر کرچکے ہیں۔
عسکری صاحب کی تنقید میں تین عناصر بے مثال ہیں۔ ایک تو ان کا اسلوب، بہت ہی واضح، بہت دلنشیں اور ضرورت پڑنے پر انتہائی طنزیہ کاٹ سے بھرا ہوا، شگفتگی، اور مشکل کو آسان کردینے کی صفات سے مزین۔ دوسری چیز تھی ان کے علم کا استحضار کہ وہ مغرب و مشرق کا علم اپنے سامنے رکھتے تھے۔ کچھ بھولتے نہیں تھے۔ جو کچھ پڑھا تھا، انہیں یاد تھا اور وہ وقت ضرورت فوراً اس کو استعمال کرلیتے تھے۔ اور پڑھا انہوں نے بہت تھا۔ نتیجہ نکالنے میں، فکری تہہ دھاروں کے آپسی روابط ڈھونڈنے میں وہ بڑے ماہر تھے۔ تیسری بات جو تھی وہ یہ کہ ان کا ذہن غیرضروری چیزوں کو کاٹ کر فوراً نفس مضمون تک پہنچ جاتا تھا۔ کسی چیز کو پڑھ رہے ہیں، کسی کتاب کو پڑھ رہے ہیں، کوئی مسئلہ سامنے آرہا ہے۔ ہم لوگ ایسے میں عام طور پر پھنس جاتے ہیں فروعات میں۔ وہ ہمیشہ فروعات کو کاٹتے چھاٹتے ہوئے اصل مغزتک پہنچ جاتے تھے۔ یہ تین چیزیں بیک وقت آج کسی میں یکجا نہیں ہیں۔
عسکری کے جو خاص شاگرد تھے، شاگرد کہیں یا متاثر کہیں، یا پیرو کہیں، سلیم احمد اور مظفر علی سید۔ تو مظفرعلی سید میں علم بہت تھا اور اسلوب کی بھی خوبی ایک حد تک عسکری صاحب جیسی ان میں تھی۔ لیکن ان میں یہ خوبی نہیں تھی کہ وہ فروعات کو کاٹ کر مغزتک پہنچ جائیں۔ اور ان کے علم میں وہ وسعت بھی نہ تھی جسے ہم عسکری کا طرہ امتیاز مانتے ہیں۔ اور ان کا قلم عسکری صاحب کی طرح رواں اور حاضر نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بہت کم لکھا۔
سلیم احمد کے یہاں یہ تھا کہ انہوں نے بھی عسکری صاحب کے اسلوب کے بعض پہلوؤں، خاص کر شگفتگی اور سلاست، ان کا اثر بڑی حدتک قبول کیا۔ وہ شاید مظفر علی سید سے زیادہ ذہین بھی تھے۔ لیکن ان کا علم عسکری صاحب جیسا وسیع اور ہمہ گیر نہ تھا۔ طباعی ان کے یہاں بہت ہے، ذہانت کے لوامع بہت ہیں۔ جتنا پڑھا ہے اچھا پڑھا ہے۔ ان میں اپنے طور پر سوچنے کی بھی ہمت تھی۔
اب آج کے لوگوں نے جو کچھ بھی اثر قبول کیا ہے عسکری صاحب کا، تھوڑا بہت، تو اس میں یہی مشکل آجاتی ہے کہ وہ عسکری صاحب کو پوری طرح سے انگیز نہیں کرسکتے، کیوں کہ جو شخص بھی ہے وہ ان تین چیزوں پر بیک وقت قادر نظر نہیں آتا۔ قادر کیا، ان تین میدانوں میں بیک وقت قدم رکھنے کا اہل نظر نہیں آتا۔ تو آج، میں سمجھتا ہوں کہ عسکری جیسا نقاد میری نظر میں نہیں ہے۔ ہندوستان میں ظاہر ہے فضیل جعفری نے اور وارث علوی نے بڑی حدتک عسکری صاحب کے اسلوب سے روشنی حاصل کی۔ تہذیبی معاملات سے سروکار رکھنے کے باعث بھی وارث علوی اور شمیم حنفی ان سے متاثر ہیں۔ بیان کی وضاحت، شگفتگی طرز کی، اور براہ راست گفتگو کا انداز، یہ سب باتیں وارث علوی اور فضیل جعفری نے بلاشبہ عسکری سے سیکھیں۔ لیکن یوں کہیے کہ یہ سب بس ایک حد تک ہوکے رہ گیا۔ اور دونوں کے یہاں اپنی طرح کی مجبوریاں اور اپنی طرح کی کمزوریاں بھی آگئیں۔ مثلاً یہ کہ فضیل جعفری کا علم مشرقی علوم میں اتنا دور رس نہیں ہے جتنا کہ عسکری صاحب کا علم تھا۔ وارث علوی کا علم مشرقی علوم میں کچھ نہیں ہے اور مغربی علوم میں وہ بہت دور نہیں جاتے ہیں۔ جتنا وہ جانتے ہیں خوب جانتے ہیں، مگر اصل الاصول سے انہیں بہت کم دلچسپی ہے۔ وہ جملے بازی اور دلچسپی پیدا کرنے کی خاطر شگوفے چھوڑنے میں زیادہ لگ جاتے ہیں اور ان کا مضمون بہت اچھا انشائیہ فکاہیہ بن جاتا ہے۔ اسی بھیڑ بھاڑ میں تنقیدی باتیں گم ہوجاتی ہیں۔ عسکری کی طرح نظریہ سازی اس وقت کسی کو نہیں آتی۔ عسکری صاحب تو ترجمہ، محاوروں کا استعمال، غزل، ادب اور زندگی میں جنسی حسیت کا مقام، ادبی ہیئت، ان سب موضوعات پر نظریہ ساز مضمون لکھ سکتے تھے۔ یعنی Theorize کرلیتے تھے ہر چیز کو۔ خیال رکھو کہ یہاں To Theorize کے معنی ہیں، کسی چیز کی Theory بیان کرنا، کسی نکتے کو نظریے کا رنگ اور قوت دے دینا، کسی چیز کے بارے میں نظری گفتگو کرنا۔
تو میں نہیں کہہ سکتا کہ اس وقت کوئی ایسا نقاد ہے جس کو میں یہ کہہ سکوں کہ وہ عسکری صاحب کی جگہ کو بھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ علم و فضل کی حدتک آج نہیں تو دس سال بیس پچاس سال بعد یہ صلاحیت کسی کو حاصل ہوجائے گی۔ ان جیسی نثر لکھنے والا اور ان کی طرح کا Passionate concerns رکھنے والا پیدا ہونے میں شاید اور بھی دیر لگے۔
اور ابھی تو مجھے کوئی نظر نہیں آرہا ہے جس میں یہ تین عناصر جو میں نے عسکری صاحب کے بیان کیے، کہ غیر معمولی علم، اور غیرمعمولی طور شگفتہ اور براہ راست اثر کرنے والی آسان نثر اور مسائل کے مغز تک فوراً پہنچ جانا اور فروعات کو چھوڑ دینا، یہ تین صفات بیک وقت آج مجھے کسی نقاد میں نظر نہیں آتے۔
سوال: آپ کے خیال میں محمد حسن عسکری کا تنقیدی شعور فکشن کی تنقید میں زیادہ موثر اور کامیاب ہے یا شاعری کی تنقید میں؟ اور انہوں نے منٹو، انتظار حسین، یا ایک دو اور افسانہ نگاروں کو چھوڑ کر کسی افسانہ نگار یا ناول نگار پر کیوں نہیں لکھا؟ شاعری میں میر پر زیادہ لکھا، غالب پر کم، فراق پر زیادہ لکھا۔ سودا، درد، انیس، پر بالکل نہیں، تو ایسا کیوں ہے؟
شمس الرحمٰن فاروقی: ایک بات تو یہ ہے کہ یہ سوال عسکری صاحب سے پوچھنے کا تھا۔ لیکن انہوں نے میر، غالب اور فراق کے علاوہ بھی شعرا پر لکھا ہے۔ لمبے مضامین میں جراتؔ پر انہوں نے لکھا ہے، حالیؔ پر انہوں نے لکھا ہے، محسن کاکوری پر لکھا ہے۔ اور لمبے تو نہیں، لیکن جمیل الدین عالی اور ناصر کاظمی پر بھی انہوں نے متوسط ضخامت کے مضامین لکھے ہیں۔ یہ لوگ ان کے جونیئر معاصر تھے۔
اصل میں یہ بات زیادہ اہم نہیں ہے کہ وہ اچھے نقاد فکشن کے تھے، یا شاعری کے؟ اور انہوں نے منٹو کے علاوہ اور کسی پر کیوں نہیں لکھا، یا شاعری کے نقاد تھے تو فلاں فلاں پر بھی کیوں نہیں لکھا؟ یا افسانے کی تنقید میں ان کا مرتبہ کیا ہے؟
چونکہ ان کے یہاں فکری لہر بدلتی رہی، لہٰذا انہوں نے اپنی فکری سرگرمیوں کے اعتبار سے موضوعات اختیار کیے۔ کوئی منصوبہ ان کے سامنے نہ تھا کہ فلاں فلاں پر لکھوں گا۔ مثلاً جب انہوں نے منٹو پر پہلے لکھا تو ان کا خیال اور طرح کا تھا ادب کے بارے میں۔ دوبارہ جو منٹو کے بارے میں انہوں نے لکھا تو اس وقت ان کے خیالات ادب کے بارے میں مختلف تھے۔ وہ اس وقت بڑی حد تک فکشن کے لیے فرانسیسی ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں کو ہی معیار قرار دیتے تھے۔ یہ صحیح اس لیے بھی ہے کہ ہمارے یہاں جدید فکشن جب مغرب سے آیا ہے تو مغرب کے بڑے ناموں اور مغرب کے نظریہ سازوں سے ہی ہمیں استفادہ کرنا پڑے گا۔ دوسری بات یہ کہ اپنے دور دوم میں جب وہ فکشن پر لکھ رہے تھے تو ان کے سیاسی اور سماجی تاملات بھی پیش پیش تھے۔ وہ فسادات کے پس منظر میں لکھے ہوئے اردو فکشن کے بارے میں رائیں اور فیصلے قائم کرنا چاہتے تھے۔ پاکستانی ادب کے بھی مسئلے سے وہ الجھے ہوئے تھے۔
لیکن اپنی عمر کے آخری دس پندرہ برسوں میں وہ مغرب کے بڑی حدتک کیا، پوری طرح منکر ہوچکے تھے۔ اس معنی میں منکر ہوچکے تھے کہ وہ کہتے تھے کہ مغرب کا فکری نظام درہم برہم ہوچکا ہے۔ اس آخری زمانے میں اگر پروست یا (Proust) بالزاک یا (Balzac) آندرے مورواس (Andre Maurois) یا آندرے ڑید (Andre Gide) کے حوالے سے وہ لکھتے تو منٹو یا اردو فکشن کے بارے میں کیا کہتے، میں نہیں کہہ سکتا۔ انتظار حسین کے بارے میں بھی یہی معاملہ ہے۔
آج بہت سے نقاد ایسے ہیں جو اپنے چاروں طرف کمزور ذہن اور کم صلاحیت اور درجۂ سوم کے لکھنے والوں کو جمع کرتے ہیں تاکہ ان سے واہ واہ سن سکیں اور کسی قسم کی تنقیدی بحث یا نکتہ چینی ان کے منہ سے نہ نکلنے پائے اور وہ صرف اندھوں میں کانے راجہ بنے رہیں۔ اس کے برخلاف عسکری صاحب بالکل بڑی بے تکلفی سے اپنے سے بہت جونیئر لوگوں کو جن میں وہ دیکھتے تھے کہ ان میں کچھ صلاحیت ہے، ان کی وہ بہت ہمت افزائی کرتے تھے۔ چنانچہ انتظار حسین، ناصر کاظمی، احمد مشتاق، جمیل الدین عالی، جمیل جالبی، سلیم احمد، سجاد باقر رضوی، شمس الرحمٰن فاروقی، ان سب لوگوں پر عسکری صاحب کی مہربانی کا، محبت کا، پرتو ہے اور سب نے ان سے فیض اٹھایا ہے۔
اب رہ گیا یہ سوال کہ وہ فکشن کے بڑے نقاد تھے یا شاعری کے بڑے نقاد تھے؟ اور اگر وہ شاعری کے بڑے نقاد تھے تو انہوں نے شعرا پر کیوں سیر حاصل طور پر نہیں لکھا؟ تو جیسا کہ میں نے کہا کہ ان کے یہاں کمیت کا معاملہ اتنا اہم نہیں ہے۔ کیونکہ ’’جھلکیاں‘‘ کی دونوں جلدیں دیکھیں تو اس میں یہ نظرآئے گا کہ ان کے یہاں بے اتنہا تنوع ہے۔ کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جس کو چھونے سے وہ انکاری ہوں۔ چاہے نثر کی تھیوری ہو، چاہے فکشن کی تھیوری ہو، چاہے استعارے کی بات ہو، چاہے زبان کے مسائل ہوں، چاہے داستان بطور فکشن اور بطور نثر پارہ کا معاملہ ہو، چاہے نفسیاتی تنقید ہو، وہ کسی چیز میں بند نہیں تھے۔ اور کسی موضوع میں وہ اپنے معیار سے نیچے اترتے نہیں تھے۔
وہ نثر ہمیشہ اسی بلند معیار کی، اسی رنگ کی لکھتے تھے، چاہے وہ ایک پیراگراف لکھ رہے ہوں یا بھرپور مضمون لکھ رہے ہوں۔ تو جان لینا چاہیے کہ انہوں نے غالب پر کم لکھا یا یا اقبال پر بالکل نہیں لکھا، یا یہ کہ حالی پر اتنا لمبا مضمون لکھ دیا لیکن شبلی پر نہیں لکھا، یہ زیادہ اہم بات نہیں ہے۔ اہم بات جو ہے وہ یہ کہ ان کی ہر تحریر اور ان کے تمام مجموعے مضامین کے، ایک طرح سے خزانہ ہیں بصیرتوں کا، نکتہ افروزیوں کا۔ اب اس خزانے سے جو چاہے نکال لے۔ مثلاً اگر الگ الگ ان کے مضامین کی بات کرو تو ابھی جو میں نے ’’جزیرے‘‘ کے اختتامیے کے بارے میں کہاتھا کہ فکشن کی تنقید میں اس کا جواب نہیں ہوسکتا۔ بالکل seminal مضمون ہے، یعنی تخم سے بھرپور مضمون۔ اس میں ایسے نکتے اور بصیرتیں ہیں جن کی روشنی میں فکشن کی تنقید پر تفصیلی گفتگو ممکن ہے۔ اور اس میں نزاکت اس بات کی بھی ہے کہ جو شخص لکھ رہا ہے وہ خود افسانہ نگار ہے، اور اپنے افسانوں کے حوالے سے لکھ رہا ہے اس کے باوجود وہ ایسی تنقیدی عمارت تعمیر کر رہا ہے جو عملی طور پر اور نظری طور پر دوسروں کے بھی کام آسکتی ہے۔
تو اب یہ کہنا کہ یہ اختتامیہ سب سے بڑا مضمون ان کا ہے، ’’اور ’’ہیئت یا نیرنگ نظر‘‘ بڑا مضمون نہیں ہے، یا ترجمے پر انہوں نے جو لکھا ہے وہ کم تر ہے اور محاوروں پر جو لکھا ہے وہ برتر ہے، یہ بہت مشکل اور درحقیقت غیرضروری ہے۔
(جاری ہے)