لفظ جمہوریت سننے میں بڑا ہی اچھا لگتا ہے اور عوام یہ سمجھتے ہیں کہ ان پر حکمرانی کرنے والے ان کے بہی خواہ اور ان کے تمام تر مسائل کو حل کرنے والے ان کے اپنے نمائندے ہیں۔ عوام ان کو نہ صرف اپنا نمائندہ اور نجات دہندہ سمجھتے ہیں بلکہ ان سے عقیدت اور محبت کے اظہار کے لیے اپنا سب کچھ، حتیٰ کہ اپنی جان تک نچھاور کردیتے ہیں۔ جب سے پوری دنیا میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور مغرب نے اِس نظامِ حکمرانی کا طریقہ ایجاد کیا اُس وقت سے لے کر آج تک چند ممالک کے سوا پوری دنیا میں یہ طرز حکمرانی قائم ہے۔ 1917ء میں روس میں کمیونسٹ انقلاب اور چین میں ماؤزے تنگ کے انقلاب کے بعد دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوگئی اور دو طرز کی حکمرانی قائم ہوگئی۔ پورے یورپ، امریکہ اور ایشیا کے اکثر ممالک میں مغربی جمہوری نظام کے تحت عوامی نمائندوں کے ذریعے امور ریاست چلائے جارہے ہیں۔ میرا موضوعِ تحریر ہندوستان کی بالعموم اور پاکستان کی بالخصوص جمہوریت ہے، ویسے تو علامہ اقبال نے اس جمہوری طرزِ حکمرانی کے لیے جو شعر کہا ہے وہ اس تحریر کا خلاصہ ہے:
جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے باوجود ہندوستان میں گزشتہ 75 سالوں سے تمام اقلیتوں کو نہ صرف اُن کے جائز حقوق سے محروم رکھا گیا ہے بلکہ اُن کی جان و مال اور مذہبی مقامات تک محفوظ نہیں ہیں، اور آئے دن فسادات میں لوگ قتل کیے جاتے ہیں، اور کانگریس کے زمانے سے لے کر آج تک شدت سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اب تو ریاست ہندوتوا کے ایجنڈے کے تحت باضاطہ اس پر کاربند ہے۔ جہاں تک لوک سبھا اور راجیا سبھا میں نمائندگی کا سوال ہے، ہسٹری شیٹر جرائم پیشہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد منتخب ہوتی ہے اور اُن کے انتخاب کو روکنے کا کوئی قانون موجود نہیں ہے، حالانکہ بھارت کا الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ کہلاتا ہے۔
اب آتے ہیں پاکستان کی نام نہاد جمہوریت اور طرزِ حکمرانی کی جانب۔ ان 75 سالوں میں 35 سال تو بوٹ برداروں کی براہِ راست حکمرانی میں ایسے بے ضمیر اور بے غیرت سیاست دانوں نے فوج کی کاسہ لیسی کی اور عدلیہ و انتظامیہ کی سرپرستی میں عوامی امنگوں کا گلا گھونٹا جاتا رہا جس کی مثال افریقہ کے ملکوں میں بھی نہیں ملتی۔ کرپشن کے کوڑھ میں ہوس پرستوں نے ایک اتحادِ خبیثہ قائم کرکے اس ملک کو 24 سال کے اندر دولخت کردیا اور ملک پر اپنی حکمرانی کو قائم رکھنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ شاعر نے ان کے بارے میں جو کچھ کہا وہ حرف بہ حرف درست ہے:
تم نے ہر عہد میں ہر نسل سے غداری کی
تم نے بازاروں میں عقلوں کی خریداری کی
اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی خود داری کی
خوف کو رکھ لیا خدمت پہ کماں داری کی
آگے شاعر عوامی بیداری کے لیے مزید کہتا ہے:
آج تم مجھ سے میری جنسِ گراں مانگتے ہو
حلف و ذہن وفاداریِ جاں مانگتے ہو
جاؤ یہ چیزیں کسی مدح سرا سے مانگو
اپنے دربار کے بدتر فقرا سے مانگو
اپنے دربار کے گونگے شعرا سے مانگو
مجھ سے پوچھو گے تو خنجر سے عدو بولے گا
گردنیں کاٹ بھی دو گے تو لہو بولے گا
ملک ٹوٹنے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کی قائم کردہ سیاسی جماعتوں کی قیادت جو ان ہی جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں اور ملکوں کی اولادیں ہیں جن کے اجداد نے تحریکِ پاکستان کے مجاہدوں کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دیا، اور ان کے باپ دادا خطابات اور جاگیروں سے نوازے گئے، اور یہ آزادی کے فوراً بعد مسلم لیگ میں شامل ہوگئے جن کے بارے میں قائداعظم نے کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ پاکستان کو دولخت کرنے والے آج بھی موجود ہیں اور ان کی اولادیں نہ صرف حکمرانی کے مزے لے رہی ہیں بلکہ اس ملک کے وسائل کو شیرِ مادر کی طرح پی رہی ہیں لیکن پھر بھی ان کا پیٹ نہیں بھرتا۔ انہوں نے ملک کو کنگال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے ہر آئین شکن جرنیل پرانے جمہوری گماشتوں کو نئی پارٹی بناکر ملک کے عوام پر مسلط کردیتا ہے۔ کبھی نون لیگ، کبھی قاف لیگ، حتیٰ کہ روشنیوں کے شہر کراچی پر ایم کیو ایم کے آدم خوروں کو مسلط کرنے کے بعد شکم سیری نہیں ہوئی تو تحریک انصاف کے نام پر ایک پلے بوائے عمران خان اور تحریکِ انصاف… جو کہ اصل میں تحریکِ تخریب ہے.. کو عدلیہ اور انتظامیہ کے ساتھ مل کر آئین کو ذبح کرکے نام نہاد انتخابات کے ذریعے ملک پر مسلط کیا، جس کی کابینہ میں اکثر امپورٹڈ اور لوٹے سیاسی بازیگر موجود تھے۔ اس جمہوری تماشے نے چار سال کے اندر مدینہ کی ریاست کے نام پر تمام تر دینی، اخلاقی اور معاشی تباہی کا نہ رکنے والا سونامی برپا کردیا ہے، اور اب اس کی جگہ نئے سیاسی گدھ جمہوریت کے نام پر عوام سے جینے کا بچا کھچا حق بھی چھین رہےہیں۔
ہمارے ملک کی جمہوریت اندھے کی وہ ریوڑیاں ہیں جو وہ اپنوں کو بانٹتا ہے۔ جب ہم ملک کے انتخابی قانون کو دیکھتے ہیں تو اس میں دفعہ 62 اور 63 نظر آتی ہیں جو ایک صاحب ِکردار اور محبِ وطن فرد کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دیتی ہیں اور اس کی اہلیت کے معیار کا تعین کرتی ہیں۔ مگر آج تک ان دفعات پر عمل درآمد کی نوبت نہیں آئی۔ سپریم کورٹ نے تو یہ تک کہہ دیا کہ اس پر عمل درآمد کرنے سے سوائے سراج الحق کے کوئی اہل نہیں ہوگا۔ پھر قربان جائیے ایسے جمہوری نظام انتخاب کے، جس میں مسجد کا امام یا ایک معتبر شریف النفس انسان اور ایک جرائم پیشہ فرد کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ گزشتہ 75 سال سے یہ تماشے دیکھ کر عوام بے زار ہوچکے ہیں بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس جمہوریت سے ان کا اعتماد ختم ہوگیا ہے، جس کا بیّن ثبوت یہ ہے کہ آج تک 50 فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں ڈالے گئے.. اس میں بھی دھاندلی اپنی جگہ۔ یورپ اور امریکا کے انتخابات کو شفاف کہا جاتا تھا، اب وہاں بھی دھاندلی کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔
دوسری بات جو سب سے اہم ہے، انتخابات میں کوئی غریب شخص حصہ لینے سے اس لیے معذور ہے کہ وہ اس کے اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں، اور تشدد کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتا، جبکہ متحارب پارٹیاں قتل و غارت گری بھی کرتی ہیں۔ ان انتخابات میں دھن، دھونس، دھاندلی کی بنیاد پر ہی منتخب ہوا جاتا ہے۔ اب تو یہ جمہوری سیاست دان اخلاقی خرابیوں کا مجموعہ بن چکے ہیں۔