سورئہ مدثر بھی سورئہ مزمل کی طرح ابتدائی دور کی سورۃ ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ سورئہ مزمل کے نزول کے بعد جتنی زیادہ سخت کش مکش تھی خود اس سے زیادہ سخت کش مکش سورئہ مدثر کے نزول کے وقت تھی۔ اگرچہ زمانے کا فرق کچھ زیادہ نہیں ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت جب شروع ہوئی ہے اور آپ نے لوگوں کو ہانکے پکارے دین کی طرف بلانا شروع کیا تو ہرروز بُغض و عداوت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اس کے بڑھنے ، ترقی کرنے اور شدت اختیار کرنے میں ہفتے بھی نہیں لگتے۔ ایک دن کچھ سختی ہے اور دوسرے دن کچھ اور۔ اسی زمانے میں سورئہ مزمل نازل ہوئی جس میں ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تربیت کا کورس بتایا گیا کہ ان کی عداوت کا مقابلہ تم کس طرح سے کرو۔ اسی زمانے میں سورئہ مدثر بھی نازل ہوئی۔
احادیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ راستے سے گزر رہے تھے کہ یکایک آپؐ کی نگاہ کسی چیز کی آہٹ محسوس کر کے آسمان کی طرف اُٹھی۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ وہی جو غارِ حرا میں میرے پاس آیا تھا وہی آسمان کے اُوپر چھایا ہوا نظر آیا (حضرت جبریل ؑ)۔ اس نظارے کو دیکھ کر مجھ پر اس قدر ہول طاری ہوا کہ میں سیدھا گھر گیا اور میں نے جاکر کہا: مجھے اُوڑھا دو، مجھے اُوڑھا دو۔ اس حالت میں، جب کہ آپ اُوڑھے لپٹے لیٹے ہوئے تھے تو سورئہ مدثر نازل ہوئی۔
اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ابتدائی دور کی سورہ ہے۔ آگے چل کر آپؐ کا تحمل بہت بڑھ گیا تھا۔ وہ مناظر جن کو ابتدا میں دیکھ کر آپؐ پر ہول کی کیفیت طاری ہوگئی تھی، اب وہ کیفیت ختم ہوگئی تھی۔ ابتدائی دور میں بالکل نیا نیا تجربہ تھا اور وہ مناظر دیکھنے میں آرہے تھے جو کبھی چشمِ تصور میں بھی نہ دیکھے ہوں گے۔ اس وجہ سے اس زمانے میں آپ پر ہول کی کیفیت طاری ہوگئی۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
یٰٓاََیُّھَا الْمُدَّثِّرُ o قُمْ فَاَنْذِرْ o وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ o وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ o وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ o وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ o وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ o (المدثر ۷۴:۱-۷) اے اُوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اُٹھو اور خبردار کرو اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو۔ اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔ اور گندگی سے دُور رہو۔ اور احسان نہ کرو زیادہ حاصل کرنے کے لیے اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو۔
رب کی کبریائی کا اعلان
دثار عربی زبان میں ان کپڑوں کو کہتے ہیں جو اُوپر سے اُوڑھے جائیں ، جیسے کوئی چادر، لحاف یا کمبل کو اُوڑھ لیا جائے۔اسی طرح شعار ان کپڑوں کو کہتے ہیں جو جسم سے لگے ہوتے ہیں، جیسے کُرتا پاجامہ آدمی پہنتا ہے۔ مدثر سے مراد یہ ہے کہ آپؐ لحاف یا کمبل اُوڑھے ہوئے تھے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ اے اُوڑھے لپٹے شخص اُٹھو اور ڈرائو اور متنبہ کرو، یعنی تمھارا کام اب اُوڑھ لپٹ کر لیٹنا نہیں ہے بلکہ تمھارے اُوپر ایک بھاری ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔ تمھارا کام یہ ہے کہ تم اُٹھو اور خلقِ خدا کو اُس بُرے انجام سے خبردار کرو جس کا انھیں اللہ کی نافرمانی اختیار کرنے، اللہ کے مقابلے میں بغاوت کرنے، اور کفروشرک اختیار کرنے کے نتیجے میں سامنا کرنا ہوگا ،اور جو ان کی غفلت اور خدا سے بغاوت کے نتیجے میں ان پر آنے والا ہے۔ اس انجام سے لوگوں کو خبردار کرو۔ انذار کے قریب قریب وہی معنی ہیں جو انگریزی زبان میں warning کے ہیں، یعنی متنبہ کرنا۔
وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ(۷۴:۳) اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو۔
یعنی دنیا میں جتنی ہستیوں کی بڑائی کے اعلانات ہو رہے ہیں، ان کے مقابلے میں لوگ اپنے رب کو بھول گئے ہیں۔ کوئی لات کی بڑائی کا اعلان کر رہا ہے، کوئی ہبل کی بڑائی کا اعلان کر رہا ہے، کوئی قیصر کی بڑائی کا اعلان کر رہا ہے اور کوئی کسریٰ کی بڑائی کا اعلان کر رہا ہے۔ ان ساری بڑائیوں کے مقابلے میں تم اپنے رب کی کبریائی کا اعلان کرو۔
دوسرے الفاظ میں تیرے رب کے سوا جن جن کی بڑائیاں بیان کی جارہی ہیں ان سب کی بڑائی کی نفی کرو۔ اور یہ بیان کرو کہ اصل بڑائی میرے رب کی ہے، خواہ ستاروں اور سیاروں کی بڑائی بیان کی جارہی ہو، یا جنوں اور شیاطین کی بڑائی بیان کی جارہی ہو، یا انسانوں کی بڑائی بیان کی جارہی ہو، اور انسانوں میں انبیا ؑ اور اولیا کی بڑائی بیان کی جارہی ہو یا کسی اور کی۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ اس بات کا اعلان کرو کہ کوئی بڑا نہیں ہے صرف ایک تیرا رب بڑا ہے۔
پاک دامنی کی ہدایت
وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ(۷۴:۴) اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔
اس کا لفظی ترجمہ تو یہ ہے کہ اپنے کپڑے پاک رکھو لیکن ہم اُردو زبان میں بھی کہتے ہیں کہ فلاں شخص پاک دامن ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کے دامن پر کوئی گندگی لگی ہوئی نہیں ہے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اخلاق نہایت پاکیزہ ہیں۔ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ میں دونوں مفہوم شامل ہیں، یعنی اپنے لباس کو بھی پاکیزہ رکھو، اور اپنے اخلاق اور اپنی زندگی کو بھی پاکیزہ رکھو۔ ایک بھی دھبہ تمھارے دامن پر نہیں ہونا چاہیے، بے داغ کردار ہو۔ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن پر کوئی دھبہ نہیں تھا اور نبوت سے پہلے کی زندگی بھی پاک تھی لیکن ان الفاظ کے معنی یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور زیادہ پاکیزگی اختیار کرنی چاہیے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ جتنے پاک دامن تم پہلے تھے اس سے زیادہ پاک دامن بن کر رہو، تاکہ کوئی شخص بھی اس بات کی نشان دہی نہ کرسکے کہ جو شخص اپنے آپ کو رسولؐ کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے اس کی زندگی پر یہ چھینٹ لگی ہوئی ہے۔ کہیں کوئی انگلی رکھ کر یہ نہ کہہ سکے کہ اس میں یہ عیب ہے، یہ خرابی اور یہ کمزوری ہے۔ لہٰذا اپنے آپ کو ہرعیب اور ہرخرابی سے بالاتر کرلو۔
وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ (۷۴:۵)اور گندگی سے دُور رہو۔
اس کے بھی دو معنی ہیں، یعنی اخلاقی گندگی اور ظاہری گندگی۔ اپنے آپ کو ہرقسم کی نجاستوں سے پاک کرو اور اس اخلاقی گندگی سے پاک کرو جو تمھارے سارے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے۔
دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ پورا معاشرہ جو انتہائی گندا ہے، اس معاشرے کے اندر جو شخص اخلاقی اصلاح کرنے کے لیے اُٹھے، اس کا یہ کام ہے کہ وہ ان ساری گندگیوں سے اپنے آپ کو بالکل الگ رکھے جو اس معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔ اگر وہ ان گندگیوں میں سے کسی میں خود مبتلا ہوگیا تو پھر اس کی کیا اصلاح کرسکے گا۔ اس کی اصلاح وہ اسی صورت میںکرسکتا ہے ، جب کہ وہ ان ساری گندگیوں سے خود بچا ہوا ہو۔ کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے کہ جن بُرائیوں سے تم ہمیں روک رہے ہو، تم خود ان کا ارتکاب کرچکے ہو۔ اسی لیے فرمایا: وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ کہ ہرقسم کی گندگیوں سے الگ رہو، اپنا دامن ہرطرح کی گندگی سے بچائو۔
جو شخص خدا کے راستے کی طرف بلانے کے لیے اُٹھے، وہ اگرظاہری اعتبار سے گندگی میں مبتلا ہو تو یہ چیز بھی خلقِ خدا کو اس سے متنفر کرنے والی ہے۔ اس کااخلاقی اثر لوگوں پر قائم نہیں ہوتا جب وہ یہ دیکھتے ہیں یہ شخص ایسا گندا رہتا ہے۔ اس کے بیٹھنے کی جگہ، اس کے لیٹنے کی جگہ، اس کے رہنے کی جگہ اگر گندی ہو تو ہرشخص کے دل میںاس سے کراہت ہوگی، اور کوئی بھی یہ توقع نہیں کرے گا کہ جو آدمی اتنا گندا رہتا ہے اس سے خود دنیا کو اخلاقی و روحانی طہارت حاصل ہوسکتی ہے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ ظاہری گندگی اور مادی گندگی سے بھی پوری طرح پرہیز کرو۔ دوسری طرف اسی فقرے میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا ہے کہ تمھارے گردوپیش پورے معاشرے میں جو گندگیاں پھیلی ہوئی ہیں، اپنا دامن ان سے بچائو اور پوری طرح ان سے پرہیز کرو۔ ظاہر بات ہے جو آدمی اصلاحِ خلق اور معاشرے کو درست کرنے کے لیے اُٹھا ہو، اگر وہ خود بھی ان خرابیوں میں مبتلا ہو جن کے اندر وہ معاشرہ مبتلا ہو، تو وہ ان کی کیا اصلاح کرسکے گا۔ وہ اسی صورت میں ان کی اصلاح کرسکتا ہے جب کوئی بھی شخص اس کے بارے میں نشان دہی نہ کرسکے کہ وہ اُن اخلاقی خرابیوں میں مبتلا ہے جن کی اصلاح کے لیے وہ کوشش کر رہا ہے۔ یہاں دونوں قسم کی گندگیاں مراد ہیں کہ ان دونوں سے بچا جائے اور پرہیز کیا جائے۔
صلے کی تمنا
وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ (۷۴:۶) اور احسان نہ کرو زیادہ حاصل کرنے کے لیے۔
تَمْنُنْ تَسْتَکْثِر کے معنی ہیں بے حد خدمت کرنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خلقِ خدا کو خبردار کرنے کی خدمت کرنے کے لیے جب تم کھڑے ہو تو تمھارے دل میں یہ خیال نہ رہے کہ تم خلقِ خدا کے اُوپر کوئی احسان کر رہے ہو،اور تمھارے پیش نظر یہ نہ رہے کہ تم احسان کر کے اپنی ذات کے لیے زیادہ فائدے اُٹھائو۔ یہ چیز تمھارے پیش نظر نہیں رہنی چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں یہ خدمت بے غرضانہ انجام دو۔ کسی قسم کا ذاتی فائدہ، کسی قسم کی دنیوی اغراض تمھارے سامنے نہیں ہونی چاہییں، بلکہ یہ خیال بھی نہیں ہونا چاہیے کہ تم کسی پر کوئی احسان کر رہے ہو۔ یہ ایک فرض ہے جو تم پر خدا کی طرف سے عائد کیا گیا ہے۔ اس فرض کو ایک فرض سمجھتے ہوئے تم انجام دو۔ یہ سمجھتے ہوئے انجام نہ دو کہ تم کسی پر احسان کر رہے ہو جس کا تمھیں کوئی بدلہ ان لوگوں کی طرف سے ملنا چاہیے جن کی تم نے یہ خدمت انجام دی۔ یہ وہی بات ہے جو قرآنِ مجید میں جگہ جگہ فرمائی گئی ہے کہ نبی ؑ کا یہ کام ہے کہ وہ کسی سے کوئی اجر طلب نہ کرے۔ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ (یونس ۱۰:۷۲)،یعنی میرا اجر تو اللہ کے ذمّے ہے ۔
مراد یہ ہے کہ یہ کام بے غرض ہے۔ کوئی ذاتی غرض اپنی نہ رکھو کہ کوئی شخص یہ کہہ سکے کہ یہ دعوت کا کام اس لیے لے کر اُٹھے ہیں کہ اپنی جائیداد بنانا چاہتے ہیں، یا یہ دعوت کا کام اس لیے لے کر اُٹھے ہیں کہ اپنی آئندہ نسلوں کو امیر بناکر چھوڑ جانا چاہتے ہیں۔ تمھاری کوئی غرض اس چیز کی نشان دہی نہ کرے۔ جتنی دیر تک تم تبلیغ کا یہ کام کر رہے ہو، اللہ کے راستے کی طرف بلارہے ہو، تو کسی کا احسان مت لو۔ اس کام کو بے غرض کرو۔
اللّٰہ کی خاطر صبر
وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ (۷۴:۷)اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو۔
’’صبر کرو ‘‘ کا لفظ خود اس بات کی نشان دہی کر رہا ہے کہ یہ بات کن حالات میں فرمائی گئی ہے۔ حالات یہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے راستے کی طرف بلانے کے لیے جب اُٹھے تو پورا معاشرہ آپ کے مقابلے میں دشمنی پر اُتر آیا۔ ہر طرف آپؐ کے خلاف الزامات اور تہمتیں تھیں۔ ہر طرف آپؐ پر گالیوں کی یلغار اور ہر ایک مخالفت کے لیے تیار تھا۔ بہت ہی کم انسان ایسے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے کے لیے تیار ہوئے ورنہ سارا معاشرہ آپؐ کا مخالف تھا۔ اس حالت میں فرمایا گیا کہ وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ ’’اپنے رب کی خاطر صبر کرو‘‘ ، یعنی ان حالات کا مقابلہ کسی اور وجہ سے نہیں صرف اس لیے کرو کہ میرے رب نے یہ خدمت میرے سپرد کی ہے اور یہ کام بہرحال مجھے کرنا ہے، نتیجہ خواہ کچھ بھی نکلے۔ ہرقسم کے حالات کا مقابلہ کرو اور صبر کرو۔
صورتِ حال یہ تھی کہ جو اللہ کا بندہ لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کر رہا تھا، لوگ اس کے جواب میں اس کو گالیاں دے رہے تھے۔ یہ اللہ کا بندہ لوگوں کو خدا کے عذاب سے بچانے کی کوشش کر رہا تھا اور لوگ اسے دنیا میں عذاب میں مبتلا کر رہے تھے۔ اسے ہر طرح کی تکلیفیں اور ہر طرح کی اذیتیں دے رہے تھے۔ اس حالت میں فرمایا گیا کہ اللہ کی خاطر صبر کرو۔ جو بھی مشکلات پیش آئیں، جو کچھ سختیاں تمھارے ساتھ ہوں، ان سب کے اُوپر صبر کرو اور ان کو برداشت کرو۔یہ سب کچھ کسی کی خاطر نہیں صرف اللہ کی خاطر برداشت کرو۔ یہ سمجھتے ہوئے برداشت کرو کہ یہ اللہ کی خاطر فرض ہے جو مجھے انجام دینا ہے۔ اس فرض کو انجام دینے میں جو مصیبت بھی میرے اُوپر آئے مجھے اسے اللہ کی خاطر برداشت کرنا ہے۔
اسی آیت سے ہی آگے کے مضمون سے مناسبت پیدا ہوتی ہے۔
جزا و سزا کا قانون
فَاِِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُوْرِo فَذٰلِکَ یَوْمَئِذٍ یَّوْمٌ عَسِیْرٌ o عَلَی الْکٰفِرِیْنَ غَیْرُ یَسِیْرٍ (۷۴: ۸-۱۰)جب صُور میں پھونک ماری جائے گی، وہ دن بڑا ہی سخت دن ہوگا، کافروں کے لیے ہلکا نہ ہوگا۔
یہاں فرمایا گیا ہے کہ جس روز ناقور میں پھونکا جائے گا۔ ناقورکا لفظ ’صُور‘ سے بناہے۔ نقر کہتے ہیں کسی چیز کو کھوکھلا کرکے اس کے اندر جگہ پیدا کرنا۔ ناقور اس چیز کو کہتے ہیں جس کو کھوکھلا کرکے اگر اس میں پھونکا جائے تو اس سے آواز نکلے۔ یہی معنی ’صور‘ کے بھی ہیں۔ جب صور پھونکا جائے گا تو وہ دن بڑا سخت ہوگا، اور کافروں کے لیے وہ دن کوئی آسان یا سہل دن نہیں ہوگا۔
اب یہ دیکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ فرمایا گیاکہ آپؐ کے خلاف جو کچھ کیا جا رہا ہے ، اس پر آپؐ صبر کریں، اس کے ساتھ یہ نہیں فرمایا گیا کہ اگر تم صبر کرو تو ہم ان پر دنیا میں عذاب لے آئیں گے اور ان کو دنیا میں سزا دیں گے۔ فرمایا گیا کہ جس روز صور پھونکا جائے گا وہ دن انکار کرنے والوں کے لیے بڑا سخت ہوگا۔