بزم ناطق بدایونی کے روح رواں فیروز ناطق خسرو نے گزشتہ ہفتے اپنی رہائش گاہ پر شعری نشست کا اہتمام کیا جس کی صدارت ڈاکٹر ارشد رضوی نے کی۔ جنہوںنے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ مشاعروں سے بھی زبان و ادب کی ترویج و اشاعت ہو رہی ہے‘ مشاعرے ہماری روایت ہیں۔ مشاعروں سے ہم ذہنی سکون حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ نئے نئے استعاروں اور جدید لفظیات سے فیض یاب ہوتے ہیں‘ شاعر بہت حساس ہوتا ہے‘ وہ اپنے ماحول پر گہری نظر رکھتا ہے اور اپنے مشاہدات و تجربات کو شاعری میں ڈھال کر پیش کرتا ہے۔ اگر شاعری کو معاشرے سے نکال دیا جائے تو سارا ماحول حبس زدہ ہو جائے گا‘ ہمیں چاہیے کہ ہم شعر و ادب سے اپنا رشتہ جوڑے رکھیں۔ فیروز ناطق خسرو نے کہا کہ اردو ادب روبہ زوال نہیں ہے بلکہ اچھی تخلیقات کی کمی ہو رہی ہے‘ ہمارے ناقدینِ ادب اپنی ذمہ داریوںسے انصاف نہیں کر رہے‘ وہ دوستیاں نبھا رہے ہیں‘ صاف ستھری اور کھری تنقید نہیں کر رہے جس کی وجہ سے بھی معیاری تخلیقات کا فقدان ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گروہ بندی سے ہم کمزور ہو رہے ہیں‘ ادبی گروہ بندیوں نے بہت سے مسائل پید اکر دیے ہیں۔ جب تک ادبی گروہ بندیاں ختم نہیں ہوں گی ہم ترقی نہیں کرسکیںگے۔ ناہید عزمی نے کہا کہ مردوں کے معاشرے میں خواتین کا استحصال ہو رہا ہے‘ خواتین کو حقوق نہیں دیے جا رہے‘ نسائی ادب کے ذریعے ہم خواتین کے مسائل سامنے لا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب غزل میں جدیدیت آگئی ہے‘ اب غزل میں زندگی کے تمام عنوانات لکھے جا رہے ہیں۔ اردو زبان کی ترقی کا عمل جاری ہے۔ اجمل اعجاز نے کہا کہ افسانہ نگار بھی زندگی کے معاملات پر لکھ رہے ہیں لیکن پرنٹ میڈیا کی اہمیت کو الیکٹرانک میڈیا نے دھندلا دیا ہے۔ فیس بک اور گوگل نے ہمارے ذہنوں پر اپنے اثرات مرتب کیے ہیں۔ نوجوان نسل کتابوں کے بجائے فیس بک پر زیادہ دل چسپی لیتی ہے۔ مذاکرے کے بعد فیروز ناطق خسرو‘ اختر سعیدی‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ انیس جعفری‘ ناہید عزمی‘ کشور عروج اور اجمل اعجاز نے اپنا کلام پیش کیا جب کہ ڈاکٹر ارشد رضوی نے اپنا افسانہ سنایا۔