ایک عالمِ کے حلقے میں ایک شخص تھا جو ان سے بہت زیادہ قریب تھا۔ وہ اس کو دوسروں سے زیادہ مانتے تھے اور دوسروں سے زیادہ اس پر بھروسہ کرتے تھے۔ عالم نے اس شخص کو ایک کاروبار پر لگا دیا۔ اس میں اسے کامیابی ہوئی اور وہ پیسے والا آدمی بن گیا۔
اس کے بعد ایک روز وہ مذکورہ عالم کی صحبت میں تھا۔ کسی بات پر عالم نے اس کو سختی سے منع کیا‘ وہ شخص بگڑ گیا۔ اس نے سخت انداز میں جواب دیا اور اٹھ کر عالم کے پاس سے چلا گیا۔ چند دن کے بعد اس کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو وہ دوبارہ آیا اور عالم سے معذرت کرنے لگا۔ عالم نے جوا دیا کہ تم کو معذرت کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں پہلے ہی اس معاملے کو اس طرح ختم کر چکا ہوں کہ اب تک میں تم کو اپنے معیار سے دیکھتا تھا‘ اب میں تم کو تمہارے معیار سے دیکھوں گا۔
اس دنیا میں عافیت کی زندگی گزارنے کا یہی واحد کامیاب اصول ہے۔ ایک لفظ میں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’لوگوں سے خود ان کے لحاظ سے معاملہ کرو نہ کہ اپنے لحاظ سے۔‘‘
ایک آدمی زیادہ امید پر پورا نہیں اترتا تو اس سے اپنی امید کو کم کر لیجیے۔ ایک آدمی آپ کی پابندی کو قبول نہیں کرتا تو اس سے پابندی کا مطالبہ کرنا چھوڑ دیجیے۔ ایک شخص آپ کا خاص آدمی بننے کے لیے تیار نہیں ہے تو اس کو عام آدمیوں میں شمار کرنا شروع کر دیجیے۔ ایک آدمی پرآپ کا قابو نہیں چلتا تو اس سے مواقفت کی روش اختیار کر لیجیے۔ ایک آدمی آپ کو دینے کے لیے تیار نہیں ہے تو اس سے اپنی توقعات کو ختم کر دیجیے‘ ایک آدمی اس جگہ کا اہل نظر نہیں آیا جہاں آپ نے اس کو رکھا تھا تو آپ سادہ طور پر صرف یہ کیجیے کہ ایک خانے سے نکال کر اس کو دوسرے خانے میں ڈال دیجیے۔
زندگی خاجی حقیقتوں سے موافقت کرنے کا نام ہے۔ سورج‘ ہوا‘ بارش‘ پہاڑ اور سمندر سے موافقت کرکے ہی ہم اس دنیا میں زندگی گزارتے ہیں۔ یہی اصول انسانوں کے بارے میں بھی ہے۔ آپ انسانوں سے موافقت کے اصول پر معاملہ کیجیے‘ دنیا آپ کے لیے خوشی اور عافیت کا گہوارہ بن جائے گی۔