پر یشانی

330

لوگوں کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ زندگی مشکل ہوتی جارہی ہے اور پریشانیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مریض ڈاکٹروں کے رویّے سے پریشان ہیں۔ مریض سے محبت کرنے کا زمانہ گزر گیا، اب تو مریض کے حال پر نظر کرنے کے بجائے مریض کے مال پر نظر ہوتی ہے۔ پریشانی ہی پریشانی ہے۔ مریض ہونا غریب ہونے کی ابتدا ہے۔ غیر قانونی ہڑتالوں سے اسپتالوں میں پریشانی کا جو عالم ہوتا ہے، اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ استاد شاگرد کا مقدس رشتہ بھی پریشان ہوکر رہ گیا ہے۔ کالج کے طلبہ اپنے اساتذہ کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں، بس خدا کی پناہ… کسی زمانے میں طلبہ اساتذہ سے ڈرتے تھے اور آج اساتذہ طلبہ سے ڈرتے ہیں۔ استاد پریشان ہیں، طالب علم کہنا ہی نہیں مانتے! استاد، طلبہ کو ایسی سزا دیتے ہیں کہ خدا کی پناہ… بڑے بڑے کالجوں کا نتیجہ خوفناک حد تک کمزور رہتا ہے۔ طلبہ فیل ہوجاتے ہیں اور یوں ایک مستقل پریشانی میں داخل کردیئے جاتے ہیں۔ طلبہ کلاس روم میں پریشان رہتے ہیں۔ کمرۂ امتحان میں بھی پریشان ہوتے ہیں، سڑکوں پر آجاتے ہیں اور پھر ایک نئی قسم کی پریشانی ہوتی ہے۔ اللہ رحم فرمائے آج کے طلبہ پر، آج کے اساتذہ پر… آج کی تعلیم پر۔
ہر شعبہ حیات اپنے اپنے اندر سے پریشان ہے۔ ہر شخص اپنے ماحول میں پریشان ہے، یوں لگتا ہے کہ ہر ستارہ اپنے اپنے مدار میں سرگرداں بھی ہے اور پریشان بھی!۔
پریشانی حالات سے نہیں، خیالات سے پیدا ہوتی ہے۔ جو انسان اپنے موجود لمحے سے گریزاں ہوگا، وہ پریشان ہوگا۔ انسان آنے والے حالات سے خوف زدہ ہوکر جانے والے حالات کو پریشان کردیتا ہے۔ اگر گزرے ہوئے زمانے، خوشی کے زمانے ہوں تو بھی ان کی یاد باعث ِ پریشانی ہے کہ اب وہ دن کہاں گئے، خوشی کے دن گزر گئے۔ جوانی اور صحت کے ایام، محبت و وارفتگی کے دن ہوا ہوگئے۔ پریشانی تو یہ ہے کہ خوشیاں ختم ہوگئیں۔ وہ دن بھی کیا دن تھے، وہ زمانے بھی کیا زمانے تھے، وہ درد بھی کیا درد تھا، ساتھی کتنے وفادار تھے، اب بس یاد ہی یاد ہے… پریشانی ہی پریشانی!۔
اگر ماضی کسی غم سے عبارت ہو، تو بھی باعث ِ پریشانی ہے۔ غم کی یاد ایک تازہ غم دے جاتی ہے۔ عجب حال ہے، خوشی کی یاد بھی پریشان اور غم کی یاد بھی پریشان۔
اسی طرح مستقبل اگر امید سے عبارت ہو، تو بھی حال پریشان ہے کہ کب وہ سہانا دور آئے گا۔ اگر خطرے کا اندیشہ ہو، تو بھی حال پریشان ہے کہ انسان دُور نظر آنے والے خطرے کو ہمیشہ قریب ہی سے محسوس کرتا ہے۔ زندگی کے نصیب میں پریشانی لکھ دی گئی ہے۔ کبھی اپنے لیے پریشانی ہے، کبھی دوسروں کے لیے پریشانی ہے، کبھی اِس زندگی کی فکر ہے، کبھی موت کے بعد کا منظر آنکھوں کے سامنے آتا ہے۔ پریشانی ہر حال میں رہتی ہے۔ پریشانی انسان کے ساتھ ساتھ رہتی ہے۔ اس کا علاج اُس وقت تک ناممکن ہے، جب تک زندگی دینے والے سے نہ پوچھا جائے۔ جس ادارے نے جو مشین بنائی ہو، وہی اس مشین کی حفاظت اور اس کے استعمال اور اس کی اصلاح کا عمل جانتا ہے۔
اگر زندگی ہمارے اپنے عمل کا نام ہے تو اس کے اندر پیدا ہونے والے بگاڑ اور فساد کے ہم خود ہی ذمہ دار ہیں۔ اگر ہم اپنا علاج ہی نہ کرسکیں، تو ہمیں اپنے اختیارات کی حقیقت معلوم ہوجانا چاہیے۔ اگر زندگی، اپنے پیدا کرنے والے کو ہی نہ مانے تو اِسے پریشانی سے کون بچائے۔ ہم اپنے آپ پر اپنی ہمت سے زیادہ بوجھ ڈال دیتے ہیں۔ ہم خود ہی اپنی پریشانیوں کے مصنف ہیں اور خود ہی اپنی پریشانیوں سے تنگ ہیں۔ ہم متضاد خواہشات رکھتے ہیں۔ ایک خواہش پوری ہوتی ہے تو دوسری دم توڑ دیتی ہے۔ اگر دولت اکٹھی کی جائے تو رزقِ حلال کا تصور پریشان کرتا ہے، اور اگر رزقِ حلال پر ہی قناعت کی جائے تو تلخیِ حالات پر رونا آتا ہے۔ پریشانی بہرصورت رہتی ہے۔ وطن سے باہر رہنے والوں کو وطن کی یاد پریشان کرتی ہے۔ وطن میں رہنے والوں کو باہر جانے کی تمنا پریشان رکھتی ہے۔ ہر انسان کو اپنے علاوہ کچھ بننے کی آرزو ہے اور یہی آرزو وجہ پریشانی ہے۔
ہم اپنے علاوہ کچھ نہیں بن سکتے… یہ حقیقت ہی زندگی کا ضابطہ ہے۔ اسی سے زندگی کے شعبے اور پیشے قائم ہیں، اسی سے نظام ہستی قائم ہے۔ ہمیں ہماری حدود میں قائم رکھنے والی قوت پریشان تو کرتی ہے لیکن یہی قوت زندگی کا راز ہے۔ ہر انسان حکمران بننا چاہتا ہے، اگر یہ خواہش پوری ہوجائے تو کون کس کا حکمران ہوگا؟… عجیب پریشانی ہوجائے گی۔ کوئی انسان غریب نہیں رہنا چاہتا… اگر سب ہی امیر ہوجائیں تو کیا ہوگا؟ اگر دنیا کی دولت برابر تقسیم کردی جائے تو چہرے کیسے برابر ہوں گے؟ عقل کیسے برابر ہوگی؟ دل کیسے برابر ہوں گے؟ دلبر کیسے برابر ہوں گے؟ ایک نئی قسم کی غیر مساوی تقسیم کا شعور پیدا ہوجائے گا۔ انسان علاج میں ترقی کرتا ہے۔ نئے نئے علاج دریافت ہوتے ہیں اور پھر ایک نئی بیماری پیدا ہوجاتی ہے۔ کوئی نہ کوئی بیماری ضرور مہلک اور لاعلاج رہے گی۔ اگر علاج سائنس بن جائے تو دعا کا مقام کیا ہوگا؟
پریشانی انسان کو احساس دلاتی ہے کہ وہ اپنی زندگی پر اختیار نہیں رکھتا۔ اگر انسان، اس احساس پر یقین اور ایمان استوار کرلے، تو وہ پریشانی سے بچ سکتا ہے، نہیں تو نہیں…!۔
اگر انسان تسلیم کرلے کہ اس کی زندگی اور زندگی کے ساتھ ہونے والے واقعات اور زندگی کا انجام خالق کے حکم سے ہے، تو یہ پریشانی ختم ہوسکتی ہے۔ گناہ اور برائی کی بات نہیں ہورہی، زندگی کی بات ہورہی ہے۔ گناہ اور برائی، توبہ سے ختم ہوسکتے ہیں۔ توبہ کا مطلب واضح ہے، خالق کو گواہ بناکے یہ اعلان کرنا کہ آئندہ ایسا عمل سرزد نہ ہوگا…!۔
بہرحال پریشانی سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کو خالق کی مرضی کے مطابق بسر کرے۔ جو شخص آج کے دن، آج کے لمحے پر راضی ہوگیا، وہ پریشانی سے نکل گیا۔
( واصف علی واصف ”قطرہ قطرہ قلزم“)

حصہ