محمد حسن عسکری کل اور آج

338

(پانچویں قسط)
سوال: عسکری صاحب جب لاہور پہنچے اور وہاں انہوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین اور حلقہ ارباب ذوق کے احباب میں ٹکراؤ کو دیکھا، اس کا تو اثر نہیں پڑا ان کے ذہن پر؟
شمس الرحمٰن فاروقی: نہیں میں تو یہ نہیں سمجھتا۔ اور یہ بات دھیان میں رکھنے کی ہے کہ 1947 تک عسکری صاحب نے اپنا نظریۂ ادب مکمل طور پر اپنے ذہن میں، اور بہت حدتک اپنی تحریروں میں، قائم کرلیا تھا۔ حلقۂ ارباب ذوق کی جنگوں کو بھلا وہ کیا اہمیت دیتے۔ عسکری صاحب نے کبھی بھی ذاتی پسند یا ناپسند کو ادب پر جاری نہیں کیا۔ مثلاً احتشام صاحب سے ان کے دوستانہ مراسم تھے۔ اپنی مرتب کردہ کتاب ’’میری بہترین نظم‘‘ میں انہوں نے احتشام صاحب کا ذکر بھی کیا ہے۔ تو ذاتی تعلقات کی بات اور ہے، ادبی چھان بین کی بات اور۔
عسکری صاحب منٹو کو بہت پسند کرتے تھے۔ اگرچہ منٹو ترقی پسند تھے اور بعد میں نہیں رہے، لیکن اس کا خیال کیے بغیر کہ پہلے وہ کیا تھے اور کیا نہیں، عسکری صاحب نے ان کی تعریف کی۔ میں صرف ایک شخص کے بارے میں سمجھتا ہوں، وہ ہیں خواجہ منظور حسین صاحب مرحوم، کہ خواجہ صاحب کے بارے میں انہوں نے ذاتی ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ اور ایک آدھ اور چھوٹے موٹے لوگوں پر بھی وہ ناراض ہوئے، لیکن اس کا تعلق ادبی اور اصولی معاملات سے نہیں ہے۔ مثلاً یہ نہیں ہے کہ کسی سے دوستی ہے تو اس کی تعریف کر رہے ہیں اور کسی سے تعلقات خراب ہیں تو اس کے خلاف لکھ رہے ہیں۔
خواجہ منظور حسین صاحب مرحوم سے عسکری صاحب کی ناراضگی زیادہ تر اس بات پر تھی کہ ان کے خیال میں خواجہ صاحب ان کے شاگردوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتے تھے، انہیں نمبر کم دیتے تھے۔ ممکن ہے یہ القاص لا یحب القاص قسم کی کوئی چیز ہو، لیکن خواجہ صاحب مرحوم کی ادب شناسی کے بارے میں عسکری صاحب نے جو لکھا اس میں مجھے ذاتیات، یا کینہ توزی کا کوی شائبہ نظر نہیں آیا۔ یہ ضرور ہے ک جب وہ کسی کے بارے میں مخالفانہ رائے کا اظہار کرتے تھے تو رو رعایت زیادہ نہ کرتے تھے۔ اور جہاں تک ادب شناسی کا سوال ہے، تو خواجہ صاحب مرحوم کے عزیز اور محترم شاگردان، سرور صاحب اور اسلوب احمد انصاری صاحب مجھے معاف فرمائیں، لیکن واقعہ یہی ہے کہ عسکری صاحب کا مطالعہ خواجہ صاحب کے مطالعے سے وسیع تر اور ہمہ گیر تر تھا، اور ادب فہمی میں تو عسکری صاحب ان سے کوسوں اوپر تھے۔
اور جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا تھا، تربیت کے علاوہ دوباتیں ہیں۔ تربیت تو تھی ہی ہم دونوں کی، لیکن یہ بات بھی تھی کہ ہم دونوں اپنے ادب سے تھوڑی بہت جو واقفیت رکھتے تھے تو ہم نے دیکھا کہ وہاں بھی یہ سوال کبھی نہیں پوچھا جارہا تھا کہ ادب میں سیاسی حقیقت اور سماجی بصیرت کی کیا اہمیت ہے؟ یعنی شاعر کو کس طرح کی سماجی سیاسی بصیرت کا اظہار کرنا چاہیے؟ مثلاً ہم نے خاقانی کا قصیدہ پڑھا،
ہاں اے دل عبرت بیں از دیدہ نظر کن ہاں
تو ہم نے اسے پسند کیا کہ اس میں زور ہے، مضامین کی آمد ہے، دردمندی ہے، اس میں علم کی فراوانی ہے۔ ہم نے اسے اس لیے نہیں پسند کیا، یا اس کی تحسین کی، کہ یہ کوئی سیاسی پنگا لے رہا ہے جو کہ منگولوں یا ترکوں کے خلاف جارہا ہے۔ جب انوری نے مرثیہ لکھا خراسان کی تباہی کا، اور والی سمرقند سے مدد مانگی کہ اس مصیبت میں ہماری مدد کرو، تو کیا وہ اس لیے لکھ رہے تھے کہ وہ کسی مخصوص سیاسی نظام کے موافق یا مخالف تھے؟ نہیں بلکہ وہ عمومی بات کہہ رہے تھے کہ ہماری تہذیب تباہ ہوئی، شہر ہمارا غارت کیا گیا، اس لیے رو رہے ہیں اور مدد مانگ رہے ہیں۔ تو ہماری ادبی تہذیب میں ایسا کوئی تصور ہی نہیں کہ ذاتی پسند، ناپسند کو فوقیت دیں۔
سوال: عسکری صاحب کے ساتھ کچھ اور دوسرے نقاد تھے جو ان کی ہم نوائی کر رہے تھے۔
شمس الرحمٰن فاروقی: اس زمانے میں تو عسکری صاحب کی ہم نوائی کم و بیش کرنے والوں میں دو صاحبان تھے، لیکن وہ اپنے اپنے رنگ میں تھے۔ مثلا کلیم الدین احمد صاحب تھے، تو وہ بھی کہتے تھے کہ ادب پر نظریے کی قید لگانا مناسب بات نہیں، کجا کہ کسی سیاسی نظریے کو ادب پر حاوی کرنا۔ وہ صاف کہتے تھے کہ ادب پہلے ادب ہوتا ہے۔ وہ تو الفاظ سے بنتا ہے۔ الفاظ کیسے ہیں، معنی کتنے ہیں، اور جو کہا جارہا ہے وہ کس طرح کہا جارہا ہے؟ یہ سوال اہم ہیں۔ اور سچائی اور جھوٹ کا معیار یہ نہیں کہ مارکس نے کیا لکھا ہے اور افلاطون نے کیا لکھا ہے؟ دوسرے آل احمد سرور، ان کا معاملہ یہ ہے کہ شروع شروع میں بھی، جب وہ ترقی پسندی کے بہت نزدیک تھے، اس زمانے میں بھی وہ کبھی نظریے کی حاکمیت کے قائل نہیں تھے۔ اور بعد میں تو ان کی پوزیشن بالکل ہی لبرل اور روشن فکر ہوگئی اس معاملے میں۔ اور وہ اس خیال سے دور ہوگئے کہ مارکسزم یا سماجی حقیقت نگاری یا اشتراکی حقیقت نگاری (Socialist Realism) ہی ادب کا اصل معیار ہے۔ تو یہ لوگ تھے جن کے موقف اور عسکری کے موقف میں کچھ وحدت تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن ان دونوں ہی کے ساتھ عسکری صاحب کی کوئی خاص ہمدردیاں اور ہم آہنگیاں نہیں تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں صاحبان اپنے تمام تر علم و فضل کے باوجود عسکری صاحب کی نگاہ میں بہرحال مغرب زدگی کا شکار تھے۔
کلیم الدین احمد صاحب نے اپنی کتاب ’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ کے دوسرے ایڈیشن میں عسکری صاحب پر ایک پورا باب لکھا ہے اور انہیں بہت برا بھلا کہا ہے، کہ یہ مغرب سے مانگے تانگے کی خبریں لے آتے ہیں اور بہت ہی تھرڈ گریڈ کا، معمولی رپورٹر کے جیسا کام کرتے ہیں۔ وہ سطحی قسم کے تبصرے پڑھ لیتے ہیں اور پھر ہم لوگوں پر آکر دھونس جماتے ہیں کہ براہ راست واقفیت کی بناپر گفتگو کر رہے ہیں۔ گویا عسکری کو کلیم الدین احمد صاحب نے بہت سے بہت ایک سیکنڈ کلاس کا جرنلسٹ قرار دیا۔ انہوں نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ آپ کا نظریۂ ادب غلط ہے، یا آپ کی ادب فہمی مشکوک ہے۔ بلکہ اس بات پر وہ ناراض ہوئے کہ ان کے خیال میں عسکری صاحب پڑھتے کم تھے اور بولتے زیادہ تھے۔ وہ براہ راست کم جانتے تھے اور تبصرہ اس سے بڑھ کر کیا کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ عسکری صاحب کا علم بہت ہی پکا اور وسیع علم تھا، اس میں کوئی شک نہیں۔ مگر میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کلیم الدین احمد اور محمد حسن عسکری کے درمیان کسی طرح کی ذہنی ہم آہنگی نہیں تھی اور نہ ہوسکتی تھی۔ کلیم الدین احمد پورے پورے مغرب کے پیرو تھے۔ اور عسکری مغرب کے پیرو نہیں تھے بلکہ یہ کہ مغرب سے اپنے آپ کو باخبر رکھتے تھے، اس کے مبصر، طالب علم، اور نقاد تھے۔
مثلاً اقبال کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ کلیم الدین صاحب کا خیال اچھا نہیں تھا۔ اس ضمن میں انہوں نے ایک بات یہ بھی کہی کہ اقبال کے یہاں فلسفیانہ شاعری کا وہ معیار نہیں نظر آتا جو مثلاً ہمیں آوڈ (Ovid) کے یہاں ملتا ہے، جو لاطینی کا بڑا شاعر ہے۔ اس کے برخلاف، عسکری نے بہت پہلے یہ بات لکھی تھی کہ خاقانی نے علمی اور فلسفیانہ شاعری کا وہ معیار قائم کیا ہے کہ جان ڈن (John Donne) تو کجا، خود لکریشئس (Lucretius) کے یہاں بھی نہیں ملتا۔ یہ بات انہوں نے 1944 یا 1945 کے کسی خط میں لکھی ہے۔ مجھے اب یاد نہیں آرہا ہے کہ وہ خط انہوں نے کس کے نام لکھا ہے، عبادت بریلوی کے نام، یا کسی اور کے نام۔ اور ہمارے کلیم الدین صاحب یہ فرمارہے ہیں کہ Ovid کے یہاں فلسفیانہ کلام کی جو گہرائی اور اونچائی ہے، اس تک اقبال نہیں پہنچ سکتے۔ ہم جانتے ہیں کہ لکریشئس (Lucretius) تو یورپ کا سب سے بڑا فلسفیانہ شاعر مانا جاتا ہے، اور عسکری اسے خاقانی کے مقابلے میں ہیچ ٹھہراتے ہیں، جب کہ کلیم الدین صاحب کو ایک کم تر درجے کے شاعر Ovid نے ہی اتنا موہ لیا کہ وہ اسے اقبال سے بڑھ کر مانتے ہیں۔ یہ فرق دیکھ رہے ہیں آپ؟ تو ان دونوں میں کوئی فکری آہنگی نہیں ہوسکتی۔
اچھا اب سرور صاحب۔ تو سرور صاحب کے بارے میں عسکری صاحب کی رائے بہت اچھی نہیں تھی۔ معاف کیجیے گا، یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔ سرور صاحب کے بارے میں ان کے دو اعتراضات تھے۔ ایک تو یہ کہ سرور صاحب دوٹوک بات کہنے سے گھبراتے ہیں۔ وہ انصاف اور توازن کے اتنے متلاشی رہا کرتے ہیں کہ مثلاً وہ یوں گفتگو کرتے ہیں، میرانیس بہت اچھے شاعر ہیں تو دبیر بھی کوئی خراب شاعر نہیں ہیں۔ انیس کے یہاں خوبیاں ہیں اور دبیر کے اپنے محاسن ہیں۔ یہ بات عسکری صاحب کو پسند نہ تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جو بات ہو یا جو خیال ہو وہ دوٹوک ہونا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ سرور صاحب کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ یہ مغربی ادب سے مرعوب ہیں، اور خود سے بہت کم سوچتے ہیں۔ حالانکہ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ سرور کا جومغربی ادب کا مطالعہ ہے وہ زندہ اور متحرک ہے اور وہ مرعوب ہونے والا نہیں ہے۔ کلیم الدین احمد نے جو یہ بات کہی کہ Ovid کے برابر اقبال نہیں پہنچ سکتے، ایسی بات سرور صاحب مرتے دم تک نہیں کہہ سکتے، چاہے آپ ان کو پھانسی پر لٹکا دیجیے۔ بلکہ وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ارے بھائی کیا ضروری ہے کہ آپ کسی سے ان کا مقابلہ ہی کیجیے۔ ممکن ہے میں عسکری کا ہم نوا ہوکر یہ کہہ دوں کہ اقبال کی فلسفیانہ شاعری میں جو بات ہے وہ لکریشئس کے یہاں نہیں ہے۔ لیکن سرور یہ بھی نہ کہیں گے کہ اقبال خراب شاعر ہیں یا چھوٹے شاعر تھے، اور لکریشئس سے موازنہ بھی درمیان میں نہ لائیں گے۔
سوال: فراق صاحب بھی تو انگریزی ادب کے استاد تھے، اور انگریزی ادب کی راہ سے اردو ادب میں آئے تھے۔ کیا فراق صاحب کے یہاں مغرب سے مکمل وابستگی کی وہ فضا نہیں ہے جو عسکری صاحب کو شاید کلیم الدین صاحب کی تحریر میں نظر آتی تھی؟ عسکری صاحب نے فراق کی شاعری اور ان کی تنقید پر بہت کچھ لکھا ہے۔ اور فراق کی شاعری پر آپ نے جو لکھا ہے وہ عسکری صاحب کی رایوں کے بالکل برعکس ہے۔ تنقید میں بھی آپ فراق صاحب کو کچھ بہت بلند مقام نہیں دیتے۔ سوال یہ ہے کہ عسکری صاحب فراق صاحب کی تنقید اور شاعری سے اس قدر متاثر کیوں تھے؟
شمس الرحمن فاروقی: یہ بات بالکل درست ہے کہ عسکری صاحب کی جو عقیدت ہے اور جو محبت ہے فراق صاحب سے، اور جو، کہنا چاہیے کہ گویا پرستش کی حد تک پہنچی ہوئی تھی، وہ میری سمجھ میں کبھی نہیں آئی۔
ایک وقت تھا کہ بہت سارے نوجوانوں کے ساتھ میں بھی فراق صاحب کا بہت قائل تھا، اتنا تو نہیں جتنا عسکری صاحب تھے، لیکن پھر بھی قائل تھا کہ ہاں اچھے شاعر ہیں۔ آہستہ آہستہ میرا خیال بدلا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار خلیل الرحمٰن اعظمی نے مجھ سے کہا کہ فراق بڑے شاعر نہیں ہیں، بہت سے بہت وہ مصحفی کے برابر ٹھہریں گے۔ اور میں تو اس زمانے میں بھی، جب میں فراق صاحب کا معتقد تھا، اس ستائش و ثنا سے خود کو متفق نہ کرسکا جو عسکری صاحب نے فراق صاحب پر نچھاور کی ہے۔
استدلال انہوں نے جو بیان کیے ہیں وہ صرف دعوے ہیں۔ مثلاً، فراق کا یہ شعر ایسا ہے جو بہت ہی انسانی بلندی پر پہنچ کر ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہاں فراق صاحب نے ایسی بات کہی ہے جو دوسرا آدمی کہہ سکتا ہی نہیں۔ ’’اردو کی عشقیہ شاعری‘‘ کے بارے میں عسکری صاحب نے لکھا کہ یہ ایسی کتاب ہے جو آدمی کی ہمت چھڑادیتی ہے۔ تو یہ سب ظاہر ہے کہ محض جملے ہیں۔ ایسے جملے ہیں جو عسکری صاحب کی زبان سے نکلے ہیں۔ لہٰذا انہیں ہم توجہ سے پڑھتے ہیں، انہیں اہمیت دیتے ہیں۔ لیکن کم از کم میں ان سے اپنے کو متفق نہیں کرسکا۔ مجھے یہاں پر عسکری صاحب کی ایک ناکامی نظر آتی ہے کہ وہ فراق صاحب کے اتنے مداح ہیں کہ ان کے سامنے وہ فکر اور منطق کو تہہ کرکے الگ رکھ دیتے ہیں اور عقیدہ اور ہیرو پرستی کی دنیا میں آجاتے ہیں۔
ظاہر بات ہے کہ فراق صاحب سے بدرجہا زیادہ پڑھے لکھے آدمی تھے عسکری صاحب۔ کیا انگریزی اور فرانسیسی ادب، کیا دوسری یورپی زبانوں کا ادب، کیا اردو اور فارسی ادب، کیا فلسفہ اور نظریہ، ان سب چیزوں میں عسکری صاحب ان سے زیادہ عالم تھے اور اس کے علاوہ ان کا ذہن مختلف چیزوں کو جوڑنے اور مختلف چیزوں کو آپس میں ملادینے، دور کی چیزوں کو نزدیک لادینے کا کام جس طرح کا کرتا تھا اس طرح تو شاید کم ہی کسی کا ذہن کام کرتا ہو۔ جس طرح کا ذہن عسکری صاحب کا تھا، فیصلہ کن اور عالمانہ، اس کے مقابلے میں فراق صاحب کا ذہن شاعرانہ ذہن تھا۔ تنقید میں بھی ان کا شاعرانہ ذہن بہت زیادہ کارفرما نظر آتا ہے۔ واہ واہ سبحان اللہ، کیا عمدہ ردیف استعمال کی ہے، ردیف بول رہی ہے۔ کیا ٹھیٹ زبان ہے اور کس طرح سے عشق کا تجربہ کتنی خوبی سے بیان ہوا ہے۔ اور یہاں دیکھیے مصحفی کے یہاں تو نچلا ہونٹ دانتوں میں دباکر مسکرادینے کی ادا پائی جاتی ہے۔
یقیناً فراق صاحب کا قاری ان کی شخصیت اور ان کی زبان کے سحر میں گرفتار ہوسکتا ہے اور عسکری کے ساتھ شاید ایساہی ہوا۔ تنقید میں عسکری صاحب کے یہاں فراق صاحب کے لیے انتہائی غیراستدلالی لہجہ ہے۔ اور کچھ شاگردی کی عقیدت بھی عسکری صاحب کے رویے میں شامل ہے۔ (جاری ہے)

حصہ