سلسلہ ننھے جاسوس۔6 قسط 1

223

کورے کاغذ
انسپکٹر حیدر علی ان دنوں بہت ہی پریشان تھے۔ بات نہ صرف پریشانی کی تھی بلکہ کیس حل نہ ہونے کی وجہ سے ان کے لیے بڑے شرم کی بات بھی تھی۔ پولیس کے اعلیٰ حکام کی نظروں میں انسپکٹر حیدر علی ایک قابل اور زیرک پولیس آفیسر سمجھے جاتے تھے کیونکہ اب تک وہ متعدد کیس بہت خوبی کے ساتھ حل کرتے رہے تھے۔ گو کہ خود حیدر علی اس بات کے معترف تھے کہ بیشتر کیسوں میں مجرموں تک رسائی جمال اور کمال، دو بھائیوں کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکی تھی لیکن ان کا نام تذکروں میں تو ضرور آتا رہا تھا مگر پولیس کے کسی باقاعدہ رکارڈ میں موجود نہیں تھا۔ پولیس کے ریکارڈ میں جمال اور کمال کے نام شامل نہ ہونے میں کسی قسم کی بد دیانتی کا کوئی دخل نہیں تھا۔ یعنی انسپکٹر حیدر علی کی کبھی یہ نیت نہ ہوئی کہ وہ ہر کیس کی کامیابی اپنے سر لیکر اسے خالص اپنے کارنامے کے طور پر پیش کرتے ہوں بلکہ ایمانداری کی بات یہ ہے کہ وہ ان دونوں کم عمر بچوں کو دشمنوں کی سفاکیت سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔ البتہ جب بھی اعلیٰ پولیس حکام کے سامنے تفصیل رکھی جاتی تھی تو وہ ان سے علیحدگی میں صاف صاف بتا دیا کرتے تھے کہ اس کیس میں کامیابی کا سب سے بڑا سبب جمال اور کمال کی خداداد صلاحیتوں کا رہا ہے۔ یہ سن کر پولیس کے اعلیٰ حکام اس خواہش کا اظہار کرتے ضرور نظر آتے تھے کہ کیاہی اچھا ہو کہ کبھی آپ ان سے ہماری ملاقات بھی کرادیں۔ پھر خود ہی اعلیٰ حکام یہ تاکید بھی ضرور کرتے کہ اگر ایسا کیا بھی جائے تو اس طرح کیا جائے کہ کسی کو اس بات کی خبر نہیں ہو کیونکہ اس بات کا خدشہ ہے کہ اعلیٰ حکام سے ملنے کی وجہ سے وہ جرائم پیشہ افراد کی نظروں میں آ جائیں اور انھیں اور ان کے خاندان والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ زندگی میں کوئی موقع بنا تو دیکھا جائے گا۔
جن حالات اور واقعات کا اس وقت حیدر علی کو سامنا تھا وہ ایسے نہیں تھے جو ان کے خیال میں دو کم عمر بچوں کے سامنے رکھے جائیں۔ اس سے قبل جتنے بھی واقعات ہوئے تھے وہ ضرور ایسے تھے جس میں ان بچوں کی رائے لی جا سکتی تھی۔ معاملا چوری چکاری یا خدا نخواستہ ڈاکا زنی کا ہوتا تو شاید بچوں کی ذہانت کو آزمایا جا سکتا تھا لیکن بات کافی کم عمر بچوں اور بچیوں کے اغوا کا تھا۔ سب سے پہلی بات تو یہ تھی کہ اغوا کار 9 اور 12 سال کے اندر اندر کے بچوں اور بچیوں ہی کو کیوں اغوا کرتے ہیں۔ دوئم یہ کہ اغوا کے پیچھے اکثر دیرینہ دشمنی کا عنصر بھی شامل ہوا کرتا ہے۔ سوئم یہ کہ اغوا کرنے والے زرِ تاوان کا مطالبہ رکھتے ہیں۔ چہارم یہ کہ ایسے بچوں کو ملک سے باہر اسمگل کرکے بھاری رقمیں وصول کی جاتی ہیں یا اکثر کو زیاتیوں کا شکار کرکے مار دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار مقاصد ہو سکتے ہیں۔ حیدر علی نے ہر ہر پہلو کو سامنے رکھ کر اقدامات اٹھا لیے تھے۔ جن جن گھر والوں کے ساتھ ایسے درد بھرے واقعات ہوئے تھے ان سب کو بتا دیا تھا کہ اگر اغوا کاروں کی جانب سے کوئی مطالبہ آئے تو جس طرح بھی ہو بلا خوف خطر پولیس کو اطلاع ضرور دی جائے۔ تھانے کی حدود کے ہر راستے پر پہرہ بٹھا دیا گیا تھا۔ تمام متعلقہ اہلکاروں کو آنکھیں کھلی رکھنے کو کہہ دیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود نہ تو کہیں سے یہ اطلاع ملی تھی کہ اغوا کاروں نے کوئی مطالبہ رکھا ہے نہ ہی کسی ہسپتال یا رضاکارانہ طور پر کام کرنے والوں نے کسی کے کہیں سے پائے جانے کی اطلاع دی تھی اور نہ ہی پولیس کسی بھی قسم کی مشکوک گاڑی یا فرد کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو سکی تھی جس پر ایسی وارداتیں کرنے والوں کا شک گزر سکے۔
جمال اور کمال عمر میں بے شک کافی چھوٹے تھے لیکن اخبارات میں اس قسم کے واقعات پڑھ پڑھ کر وہ بھی اپنی جگہ بہت پریشان تھے اور کہیں بھی آتے جاتے وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کے شکرانے کے طور پر اپنے ہوش و حواس کو ہر ہر لمحے بیدار رکھا کرتے تھے لیکن ان کی نظروں سے بھی کوئی ایسا شخص، موٹر سائیکل سوار یا گاڑی بردار ایسا نہیں گزرا جس پر ان کی چھٹی حس نے کسی شک کا اظہار کیا ہو۔
بد قسمتی سے جمال اور کمال کی اپنی گلی میں بھی کسی گھر سے بچوں، بڑوں، مردوں اور خواتین کی آہ و بکا نے ان کے دل کو دہلا کر رکھ دیا تھا۔ ان ہی کے پڑوس کے پڑوس کی ایک بچی اسکول سے واپسی پر اغوا کاروں نے اٹھا لی تھی۔ اس بات کے چشم دیدہ گواہوں نے آکر اطلاع دی تھی کہ آپ کی بیٹی کو ایک سفید رنگ کی شیراڈ کار میں بیٹھے تین افراد نے کار سے اتر کر منہ پر کپڑا رکھا جس میں یقیناً بیہوش کرنے والی دوا ہو گی اور اس سے پہلے کہ ہم کچھ سمجھ سکیں کار منٹوں سیکنڈوں میں نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔ کار کی نمبر پلیٹ پر کیچڑ ملی ہوئی تھی جس کی وجہ سے ہم نمبر نہیں پڑھ سکے۔ اس واقعے کی وجہ سے پوری گلی اور محلے میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی تھی۔ تھانے میں خبر کردی گئی تھی جس کی وجہ سے خود انسپکٹر حیدر علی صورت حال معلوم کرنے آئے ہوئے تھے۔ (جاری ہے)

حصہ