دار الخلافت مدینہ منورہ کی ایک رات کی عجیب کہانی
یہ حضرت عمر بن خطاب کے عہد کی بات ہے۔ وہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ تھے۔ ایک دن ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس اپنے گھر سے نکلے۔ یہ رات کا وقت تھا اور رات بڑی تاریک اور ٹھنڈی تھی۔ حضرت عباس حضرت عمر بن خطاب کے گھر کی طرف جا رہے تھے کہ راہ میں انہوں نے ایک بدو کو دیکھا۔ اس بدو نے حضرت عباس کا کپڑا پکڑ کر کھینچا اور کہا کہ عباس میرے ساتھ رہو۔ حضرت عباس نے اس شخص کو غور سے دیکھا تو پتا چلا کہ وہ تو خود حضرت عمر بن خطاب ہی تھے۔ جنہوں نے ایک بدو کا بھیس بدلا ہوا تھا۔ حضرت عباس نے بڑھ کر سلام کیا اور پوچھا کہ امیر المومنین آپ کہاں جا رہے ہیں؟ حضرت عمر نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس تاریک رات میں عربوں کے محلوں میں پھر کر ان کی حفاظت کروں۔ پس حضرت عباس بھی آپ کے ساتھ پھرنے لگے۔ یہاں تک کہ عربوں کے سب گھروں اور خیموں کے گرد پھر لیا اور وہاں سے نکلنے کے قریب ہو گئے۔
اس وقت انہیں ایک خیمہ نظر آیا ۔ جس میں ایک عورت بیٹھی تھی ۔ اس کے ارد گرد کئی بچے تھے جورو رہے تھے۔ عورت نے چولہے پر ہنڈیا چڑھائی ہوئی تھی جس کے نیچے آگ جل رہی تھی اور وہ بچوں سے کہ رہی تھی: ” ذرا ٹھہر جاؤ میرے بچو ابھی کھانا پک جائے تو پھر تم کھانا ۔ ” حضرت عمر حضرت عباس کے ساتھ اس خیمے سے کچھ دور کھڑے ہو گئے اور ان لوگوں کو دیکھنے لگے۔ حضرت عمر کبھی اس عورت کو دیکھتے اور کبھی بچوں کو ، یہاں تک کہ وہاں کھڑے کھڑے کافی وقت گزر گیا۔ نہ کھانا تیار ہوا نہ بچوں نے کھایا اور نہ ان کا رونا بند ہوا۔ حضرت عباس نے حضرت عمر سے کہا: “امیر المومنین آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں اب چلیں ۔ مگر حضرت عمر نے کہا: “خدا کی قسم ! میں یہاں سے نہیں جاؤں گا جب تک یہ بچے کھانا نہ کھالیں۔”
غرض کہ وہ دونوں کافی دیر وہاں کھڑے رہے اور اس دوران میں بچے روتے رہے اور وہ عورت یہی کہتی رہی کہ: “میرے بچو ذرا ٹھہر جاؤ۔ بس تھوڑی دیر میں کھانا پک جائے گا، پھر تم کھانا ۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ چلو اب اندر جا کے اس عورت سے پوچھتے ہیں کہ آخر معاملہ کیا ہے؟ چنانچہ وہ دونوں اندر گئے اور حضرت عمرؓ نے فرمایا: ” خالہ السلام علیک ۔” اس عورت نے بڑی اچھی طرح سلام کا جواب دیا تو حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ بچے کیوں رو ر ہے ہیں؟ وہ کہنے لگیں کہ انہیں بھوک لگی ہوئی ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ آپ انہیں وہ کھانا کیوں نہیں کھلاتیں جو ہنڈیا میں ہے۔ اس پر اس عورت نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں جو میں انہیں کھلاؤں۔ ہنڈیا میں تو صرف کنکر ابل رہے ہیں۔ میں اس انتظار میں ہوں کہ یہ رو رو کر تھک جائیں اور نیند ان پر غلبہ پالے اور یہ سوجائیں۔ اس پر حضرت عمر نے بڑھ کر دیکھا تو واقعی ہنڈیا میں صرف کنکر ہی اہل رہے تھے۔
اس سے حضرت عمر کو بہت حیرت ہوئی اور انہوں نے پوچھا کہ ’’آپ ایسا کیوں کر رہی ہیں؟‘‘ وہ بولیں کہ ’’میں چاہتی ہوں کہ انہیں یہی محسوس ہو کہ ہنڈیا میں کچھ پک رہا ہے۔ بس میں اسی طرح انہیں بہلاتی رہوں گی۔ یہاں تک کہ یہ تھک کر سو جائیں گے۔‘‘ حضرت عمر نے پوچھا کہ’’ آپ کی یہ حالت کیوں ہے؟‘‘ وہ کہنے لگیں کہ ’’میں تنہا ہوں، نہ میرا کوئی بھائی ہے نہ باپ، نہ خاوند نہ کوئی رشتے دار‘‘۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ آپ عمر بن خطاب کے پاس کیوں نہیں تھیں کہ وہ بیت المال میں سے آپ کے لیے کچھ مقرر کر دیں۔ وہ کہنے لگیں: ”اللہ عمر کو زندہ نہ رکھے اور اسے رسوا کرے۔ خدا کی قسم اس نے مجھ پر ظلم کیا ہے۔“
جب حضرت عمر نے اس عورت کی یہ بات سنی تو وہ خوفزدہ ہو گئے اور کہا : ” خالہ عمر خطاب نے آپ پر کیا ظلم کیا ہے؟وہ کہنے لگیں کہ ہاں خدا کی قسم اس نے ہم پر ظلم کیا ہے۔ حکمر ان کا فرض ہے کہ اپنی رعیت میں سے ہر ایک کے بارے میں پتا چلائے کہ وہ کس حال میں ہے۔ شاید ان میں کوئی مجھ جیسا بھی ہو جس کا ہاتھ تنگ ہو۔ بچے زیادہ ہوں اور کوئی مدد کرنے والا بھی نہ ہو۔ حکمران کا فرض ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے بیت المال سے وظیفہ مقرر کرے جس سے ان کا گزارا چلتا رہے۔ یہ بات سن کر حضرت عمر نے فرمایا کہ دیکھو عمر کو آپ کے ان حالات کی کیسے خبر ہو سکتی ہے؟ یہ تو آپ کا فرض تھا کہ آپ اس کے پاس جائیں اور اسے اپنی حالت بتائیں۔
وہ عورت بولی کہ نہیں خدا کی قسم ایک شریف حکمران کے لیے ضروری ہے کہ اپنی رعیت میں سے ہر خاص و عام کی ضروریات کا پتا چلا تار ہے۔ اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ جو شخص غریب ہوا سے حکمران کے پاس جا کے اپنا حال بتاتے ہوئے شرم آتی ہو ۔ اس لیے رعیت کے کسی غریب کا عمر کو جا کر اپنا حال بتانے سے زیادہ یہ ضروری ہے کہ عمر اپنی رعیت کے غریبوں کا حال معلوم کرتا رہے۔ ایک شریف حکمران اگر ایسا نہ کرے گا تو اس کی یہ غفلت رعیت کے حق میں ظلم ہی ہوگی۔
اس پر حضرت عمر نے فرمایا کہ اے خالہ ! آپ نے درست کہا ہے، آپ ذرا ان بچوں کو بہلاتی رہیں میں ابھی آتا ہوں ۔ یہ کہہ کر حضرت عمر حضرت عباس کو لے کر نکلے اور بیت المال میں پہنچے۔ وہاں سے انہوں نے آٹے کی بوری لی۔ جس میں بہت سا آتا تھا۔ اور حضرت عباس سے کہا کہ اسے میرے کندھوں پر لاد دو اور تم یہ گھی کی مٹکی اٹھالو۔ پھر انہوں نے بیت المال کو بند کیا اور اس عورت کے گھر کی طرف چل پڑے۔ آٹے کی بوری بہت بھاری تھی اور عورت کا گھر کافی دور تھا۔ حضرت عباس نے کہا کہ امیر المومنین لائیے۔ یہ بوری میں اٹھائے لیتا ہوں مگر حضرت عمر نہ مانے اور فرمایا کہ قیامت کے دن تم میرے جرائم اورخطائوں کا بوجھ نہیں اٹھاؤ گے اور فرمایا کہ اے عباس یا درکھو کہ لوہے کے پہاڑ کا بوجھ اٹھا لینا اس سے بہتر ہے کہ بے انصافی کا بوجھ اٹھا یا جائے ، چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی۔ اور فرمایا کہ اے عباس جلدی جلدی چلو کہیں بچے رو رو کر سونہ جائیں۔
جب یہ دونوں عورت کے گھر پہنچے تو حضرت عمر اتنے تھک چکے تھے کہ وہ بیل کی طرح ہانپ رہےتھے ۔ پھر انہوں نے ہنڈیا میں سے کنکر وغیرہ پھینک دیئے اور اس میں گھی ڈالا۔ جب بھی پکنے لگا تو آپ ایک ہاتھ میں پکڑی ہوئی لکڑی کے ساتھ گھی کو ہلاتے جاتے اور دوسرے سے اس میں آٹا ڈالتے جاتےاور گھی اور آٹے کو باہم ملاتے جاتے ، یہاں تک کہ کھانا تیار ہو گیا اور بچے اب بھی ان کے گرد بھوک سے رور ہے تھے۔ پھر حضرت عمر نے کھانے کو ایک برتن میں انڈیل دیا۔ وہ اپنے منہ سے پھونکیں مار مار کر لقموں کو ٹھنڈا کرتے جاتے اور بچوں کو کھلاتے جاتے ۔ یہاں تک کہ وہ سب سیر ہو گئے۔
؎
پھر وہ ہنسنے کھیلنے لگے۔ یہاں تک کہ انہیں نیند آ گئی اور وہ سو گئے۔ پھر حضرت عمر نے اس عورت سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے خالہ میں امیر المومنین سے آپ کے حالات بیان کروں گا ۔ کل آپ ان کے گھر آئیں اور بہتری کی امید رکھیں ۔ پھر وہ دونوں رخصت ہو کر چلے تو حضرت عمرؓ نے حضرت عباس سے فرمایا کہ اے عباس جب میں نے اس عورت کو دیکھا کہ بچوں کو کنکروں سے بہلا رہی ہے تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ پہاڑ لرز اٹھے ہیں اور میری پشت پر آپڑے ہیں۔ یہاں تک کہ جب بچوں نے کھانا کھا لیا اور بیٹھ کر کھیلنے اور ہنسنے لگے تو میں نے محسوس کیا کہ وہ پہاڑ میری پشت سے ہٹ گئے ہیں۔
دوسرے دن وہ عورت حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئی تو انہوں نے اس کے لیے اور اس کے بچوں کے لیے بیت المال سے وظیفہ مقرر فرما دیا جو وہ ہر ماہ وصول کر لیا کرتی تھی۔