ڈاکٹر اسلم فرخی کا یادگار انٹریو
اتوار کا سورج جب چڑھنے لگتا تو گلشن اقبال کے ایک بنگلے میں ادبا و شعرا جمع ہو جایا کرتے تھے۔ شہر کراچی جہاں عرصہ دو دہائی سے موت سڑکوں‘ گلیوں اور چوراہوں میں رقصاں رہی‘ جس کے شہری گولیوں‘ بم دھماکوں‘ بھتوں‘ دھونس اور دھمکیوں کے عادی ہو گئے‘ جہاں محفلوں میں سیاست کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوا کرتی تھی۔ ہاں اسی شہر ناپرساں کے اس بنگلے میں شعر و سخن‘ ادب و تصوف اور تحقیق و تصنیف موضوع گفتگو رہتے۔ سلیم احمد‘ مشفق خواجہ اور محب عارفی کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد یہی ایک گھر رہ گیا تھا جس کی محفل میں شرکت کے لیے اجازت طلبی ضروری نہیں تھی۔
یہ ڈاکٹر اسلم فرخی کا گھر تھا۔ سو ان کی رحلت کے بعد یہ گھر بھی ادیبوں اور شاعروں کی آمدورفت سے محروم اور وہ ادبی محفل بھی اجڑ گئی جو اتوار کو سجا کرتی تھی۔
23 اکتوبر 1924ء کو لکھنؤ میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر اسلم فرخی کا وطن ضلع فرخ آباد کا صدر مقام فتح گڑھ تھا‘ جہاں انہوں نے لڑکپن اور جوانی کے دن گزارے‘ پھر ستمبر 1947ء میں کراچی آگئے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ریڈیو پاکستان کراچی سے وابستہ رہے۔ شہر کے دو کالجوں میں تدریسی فرائض انجام دیے۔ اد بی رسالہ ’’نقش‘‘ کی ادارت سے منسلک رہے‘ پھر کراچی یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو میں لیکچرار مقرر ہوئے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے زمانۂ وائس چانسلری میں رجسٹرار اور اس سے پہلے شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انجمن ترقی اردو کے مشیر علمی و ادبی رہے۔ اردو کالج کو جمیل الدین عالی مرحوم کی کوششوں سے یونی ورسٹی کا درجہ ملا تو وہاں کے شعبۂ تصنیف و تالیف کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ ان کے دو صاحب زادے آصف فرخی اور طارق اسلم ہیں۔ اہلیہ تاج بیگم ڈپٹی نذیر احمد کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور ن کی پڑپوتی ہیں۔ خود بھی لکھتی ہیں‘ ڈپٹی نذیر احمد اور شاہد احمد دہلوی کی سوانح اور علمی و ادبی خدمات پر ان کی دو کتابیں اکادمی ادبیات نے شائع کی ہیں۔
ڈاکٹر اسلم فرخی نے علمی و ادبی اعتبار سے بھرپور زندگی گزاری۔ اپنے زمانے کے کم بیش تمام قابل ذکر ادیبوں اور شاعروں سے گہرے مراسم رہے۔ تحقیق و تصنیف‘ خاکہ نگاری اور شاعری ان کی ادبی دل چسپی کے میدان تھے۔ ان کی عالمانہ تحقیقی کتاب جو ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ تھا ’’محمد حسین آزاد: حیات و تصانیف‘‘ (دو جلدیں) انجمن ترقی اردو سے شائع ہوئی اور اپنے موضوع پر استناد کا درجہ رکھتی ہے۔ ان کے شخصی خاکوں کی متعدد کتابیں ہیں جن میں گلدستہ احباب‘ آنگن میں ستارے‘ لال سبز کبوتروں کی چھتری‘ موسمِ بہار جیسے لوگ اور سات آسمان (سات کلاسیکی شاعروں کے ادبی خاکے) نے صنفِ خاکہ نگری میں اپنے اسلوب اور موضوع کو برتنے کے اچھوتے انداز سے بے بہا اضافے کیے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب تصوف سے بھی خصوصی شغف رکھتے تھے۔ انہیں مشہور صوفی بزرگ اور محقق و استاد ڈاکٹر غلام مصطفی خان سے بیعت کا شرف بھی حاصل رہا۔ سلطان المشائخ محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاؒ سے ایسی گہری عقیدت کہ آپ کے حوالے سے چھ کتابیں مرتب کیں ان میں ’’دبستان نظام‘‘ کو وہ اپنے لیے ’’حاصل زندگی‘‘ قرار دیتے تھے۔ڈاکٹر صاحب کو بچوں کے ادب سے خصوصی دل چسپی رہی۔ ایک ایسے زمانے میں جب پختہ کار ادیبوں نے بچوں کے ادب سے منہ موڑے رکھا‘ آپ نے بچوں کے لیے کئی کتابیں لکھیں۔
ڈاکٹر فرخی کی ایک خاص بات یہ تھی کہ ان کی گفتگو یا تقریر‘ تحریر ہی کی طرح مربوط ہوتی تھی۔ حافظہ غضب کا پایا۔ اردو کے کلاسیکی ادب پر نہایت گہری نظر تھی۔ زیر نظر انٹرویو 1999ء میں ؒیا گیا موضوعِ گفتگو ’’تصوف۔‘‘
طاہر مسعود: ڈاکٹر صاحب! یہ فرمایئے کہ ادب کے ساتھ ساتھ تصوف سے دل چسپی کیسے پید اہوئی؟ ادھر خاکہ نگاری کے ساتھ تواتر سے صوفیائے کرام خصوصاً حضرت نظام الدین اولیاؒ پر آپ کی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ تصوف کی طرف رجوع کرنے میں آپ کے پیش نظر کیا بات تھی؟
ڈاکٹر اسلم فرخی: اس کی توضیع ذرا طولانی ہے۔ یہ ساری کتابیں تصوف کے حوالے سے کچھ یوں ہے کہ میں تصوف کو ادب سے کوئی علیحدہ تصورنہیں کرتا۔ یہ جو عام خیال ہے کہ تصوف کوئی الگ چیز ہے اور ادب کوئی الگ چیز ہے تو اسے خانوں میں نہیں بانٹا جاسکتا۔ شیخ عظیم سے ایک قول دریافت کیا جاتا ہے کہ ’’تصوف برائے شعر گفتنیء خوب است‘‘ میرا اپنا مطمح نظر یہ ہے کہ یہ جملہ تصوف کی نفی ہے۔ مطلب کہنے کا یہ ہے کہ تصوف کی حقیقت شعر و شاعری ہے اور کچھ بھی نہیں حالانکہ تصوف ایک طریقۂ زندگی ہے۔
طاہر مسعود: اقبال تصوف کو مذہب کا فلسفہ کہتے ہیں؟
ڈاکٹر اسلم فرخی: میں تو ایک ناچیز اور کم علم آدمی ہوں‘ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس بات کو حضرت سلطان جی نے بڑی خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔ آپ کا فرمانا یہ ہے کہ جو پوری انسانی زندگی پر محیط ہے‘ وہ دائرہ شریعت ہے اور اس شریعت کے دائرے کے اندر ایک چھوٹا دائرہ ہے‘ پاکیزگی اور تزکیۂ نفس کا‘ اس کے دائرے کے اندر ایک چھوٹا دائرہ ہے‘ پاکیزگی اور تزکیۂ نفس کا‘ اس کا نام ہے طریقت۔ مزید وضاحت میں حضرت سلطان جی نے فرمایا کہ کوئی طریقت کے دائرے سے گرے گا وہ شریعت کے دائرے میں گرے گا لیکن اگر شریعت سے گر گیا تو وہ بالکل باہر ہی ہو جائے گا تو اس گفتگو سے معلوم ہوا کہ جسے ہم تصوف یا طریقت کہتے ہیں وہ شریعت سے ماورا کوئی چیز نہیں ہے‘ وہ جو کچھ بھی ہے شریعت کے اندر ہے بلکہ آپ کے ذہن میں یہ حدیث بھی ہوگی کہ تم میں بزرگ وہ ہے جو زیادہ صاحبِ تقویٰ ہے تو صاحبِ تقویٰ وہ ہوا جو چھوٹے دائرے میں ہے تزکیہ نفس کے‘ تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔ اب آپ کا یہ فرمانا کہ اس طرف کیسے آنا ہوا اور کیوں‘ تو یہ ایک طولانی داستان ہے۔ اگر آپ اسے سننے کے لیے تیار ہوں تو میں بیان کروں۔
طاہر مسعود: جی بالکل اختصار سے بیان فرمائیں۔
ڈاکٹر اسلم فرخی: میں اپنی ابتدائی زندگی میں مسلمان کی حیثیت سے ارکان کا پابند نہیں تھا اور نوجوانی تک بلکہ کراچی میں بھی یہ کیفیت تھی کہ مسلمان تھا مگر نام کا مسلمان تھا۔ نہ روزے سے تعلق نہ نماز سے تعلق‘ حد یہ کہ عید‘ بقرعید کی نماز بھی نہیں پڑھتا تھا بلکہ میرے ایک دوست تھے شمس زبیری جن کے ساتھ رسالہ ’’نقش‘‘ نکالا تھا۔ عید کا دن ہوتا تو ہم لوگ صبح ہی صبح گارڈن چلے جاتے تھے وہاں بیٹھے رہتے تھے۔ پھر وہاں سے اٹھ کر آتے تھے اور اِدھر اُدھر گھومتے پھرتے تھے تو یہ غفلت کا عالم تھا۔ جب ڈاکٹر غلام مصطفی خان کی خدمت میں نیاز حاصل ہوا‘ ڈاکٹر صاحب کی کشش تو محسوس ہوئی لیکن وہ اتنے صاحبِ دل اور یوں کہنا چاہیے کہ لوگوں کے مزاج کو سمجھنے والے آدمی ہیں کہ انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ بھی تم نماز کیوں نہیں پڑھتے ہو‘ روزہ کیوں نہیں رکھتے ہو۔ اسلامی ارکان کی پابندی کیوں نہیں کرتے ہو۔ کالونی کی جامع مسجد ڈاکٹر صاحب کے دولت کدے سے قریب تھی‘ مغرب کے وقت گیا تو معلوم ہوا اوّابین کی نماز پڑھ رہے ہیںتو کبھی ڈاکٹر صاحب نے یہ نہیں فرمایا کہ تم بیٹھے ہوئے ہو نماز میں شامل کیوں نہیں ہوتے لیکن ایک اثر اور ایک کشش محسوس ہوئی اور پھر یہ ہوا کہ شادی ہوئی تو ہماری بیوی تھیں‘ وہ پابندِ صوم و صلوٰۃ تھیں۔ کبھی کبھی وہ کہتی بھی تھیں کہ آپ نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ کچھ عرصے بعد پھر کہا آپ میرے کہنے سے ایک بار تو پڑھیے‘ اگر کچھ محسوس ہو تو ٹھیک اور اگر نہ محسوس ہو تو آپ جیسا چاہیں۔ تو ہم نے سوچا کہ ایک بار نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ چنانچہ وضو کیا اور خشو و خضوع سے نماز پڑھی تو محسوس یہ ہوا کہ یہ تو کچھ اور ہی چیز ہے جس سے اب تک ہم ناواقف تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تو وہ دیکھ کر مسکرائے لیکن کچھ نہیں کہا۔ انہوں نے غالباً اس کیفیت کو محسوس کر لیا‘ اب جب ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوتی تو نماز ہو جاتی اور پھر آہستہ آہستہ ان کے اثرات پڑتے گئے۔ مجھے ادب کے طالب علم کی حیثیت سے امیر خسرو سے دل چسپی تھی‘ ریڈیو میں تھا تو ہر سال امیر خسرو پر فیچر وغیرہ لکھتا‘ امیر خسرو کے توسط سے حضرت نظام الدین اولیاؒ کے نام نامی اسم گرامی سے آگاہی ہوئی اور ان کے بارے میں پڑھا اور اسے پڑھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ دل میں ایک غیر معمولی کشش محسوس ہوئی اور میں نے دلی عُرس میں جانے کا فیصلہ کیا۔ درخواست بھجوائی اور وہ درخواست منظور ہو گئی اور جو کیفیت میں محسوس کی نہ وہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں اور نہ بیان کرنے پر قادر ہوں۔ بہرحال میں ایسا گیا کہ جب تک صحت نے اجازت دی میں ہر سال پابندی سے جاتا رہا۔ میرا خیال یہ ہے کہ کوئی چودہ مرتبہ مسلسل میری حاضری ہوئی اور اس میں‘ میں نے ایسی کیفیات دیکھیں کہ پھر یہ کہ حضرت کے بارے میں مجھے جو کچھ مل سکتا تھا اسے پڑھا اور غور کیا‘ کتابیں دیکھیں‘ ملفوظات دیکھے اور تاریخیں دیکھیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت سلطان المشائخ کے کردار و سیرت اور ملفوظات سب کچھ میری شخصیت کا جزو بن گئے بلکہ ایک بار ایک دوست نے کہا کہ آپ لکھتے ہیں تو اس میں سلطان حضرت نظام الدین اولیاؒ کا ذکر ضرور آتا ہے۔ میں نے کہا کہ وہ تذکرہ اس لیے آتا ہے کہ وہ میری زندگی کا مرکز و محور بن گئے ہیں۔ اچھا یہ بات بڑی دل چسپ اور قابل غور ہے کہ ڈاکٹر صاحب قبلہ (ڈاکٹر غلام مصطفی خان) جن کا باضابطہ مرید ہوں‘ وہ نقشبندی سلسلے کے بزرگ ہیں۔ میں حضرت سلطان المشائخ کی خدمت میں ڈاکٹر صاحب کی تحریری اجازت کے بغیر کبھی حاضر نہ ہوا۔ جب میں حج کرنے اور عمرہ کرنے گیا جب بھی میں نے ڈاکٹر صاحب سے اجازت لی۔ ویسے ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ میں ابتدائی زمانے میں سلطان المشائخ کے دربار میں جاتا رہا ہوں‘ فرماتے ہیں کہ وہاں جا کر مجھ پر ایک ایسی کیفیت طاری ہوتی تھی اور ایک ایسا لطف محسوس ہوتا تھا کہ میں اپنے آپے میں نہیں رہتا تھا۔
یہ بات مجھے ڈاکٹر صاحب نے باضابطہ تحریر میں بھیجی۔ ڈاکٹر صاحب کو میری اس عقیدت کا پوری طرح علم تھا اور انہوں نے بار بار مجھے یہ لکھا کہ آپ سلطان المشائخ کے عقیدت مند ہیں اور ان کے نظر کردہ ہونے کی وجہ سے مجھے بہت عزیز ہیں۔ اس سلسلے میں میری کتابوں کو انہوں نے وقت نظر سے پڑھا‘ پسند کیا بلکہ میرے لیے تو بڑے فخر کی بات ہے کہ ’’دبستانِ نظام‘‘ کا دیباچہ بھی ڈاکٹر صاحب نے تحریر کیا۔ جب کتاب چھپ گئی اور میں نے ان کی خدمت میں پیش کی تو انہوں نے لکھا کہ اتنی عظیم کتاب اتنے عظیم بزرگ کے بارے میں ایک ادیب ہی لکھ سکتا ہے۔ میں نے یہ بات کبھی کسی کو نہیں بتائی۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ بات اپنے ایک خط میں لکھی۔ لیکن میرے لیے تو بہت بڑا سرمایۂ زندگی ہے۔
طاہر مسعود: آج کا دور جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مادّہ پرستی کا دور ہے۔ اس مادّہ پرستانہ دور میں کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اولیائے کرام کی ہستیاں آج بھی نمونہ تقلید ہیں اور ان سے وابستگی ہو تو اس نہج پر اس طور سے ہو کہ ان سے فیضان بھی حاصل کرسکیں؟
ڈاکٹر اسلم فرخی: طاہر مسعود صاحب! یہ سوال بڑا دل چسپ ہے کہ اس میں لوگوں کے ناراض ہونے کا احتمال بھی ہے لیکن سچی بات کہنے میں کوئی عار نہیں ہے۔ ہم نے تو اولیاء اللہ کو دراصل حاجت براری کا ایک ذریعہ بنا رکھا ہے کہ صاحب ریس کے گھوڑے کا نمبر معلوم ہوجائے‘ مقدمہ میں کامیابی ہو جائے اور بیٹا ہوجائے‘ ان سب باتوں کے لیے ہم اولیا اللہ کے در پر دوڑتے ہیں۔ اب دیکھیں تو مرادیں مانگنے والے‘ منتیں مانگنے والے اور سوال کرنے والے ہزارہا ہوتے ہیں اور زیادہ تر تعداد اولیاء اللہ کے مزاروں پر جانے والوں کی جو ہوتی ہے وہاں اسی قسم کے لوگوں کی ہوتی ہے جنہیں سیرت سے‘ کردار سے‘ کارناموں سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ میں نے کئی مرتبہ سلطان شیخ المشائخ کے آستانے پر ایسے لوگوں کو دیکھا جنہیں معلوم نہیں تھا کہ حضرت نظام کیا تھے‘ کیسے تھے‘ آپ کے کارنامے کیا تھے‘ آپ کا عہد کیا تھا۔ حضرت غریب نوازؒ کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں بھی یہی کیفیت دیکھی۔ اصل میں ہم سے ایک بڑی کوتاہی یہ ہوئی کہ ہم نے اپنے بزرگوں کے سیرت و کردار کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ نئی نسل کے سامنے پیش نہیں کیا۔ ہم نے ان بزرگوں کو مبلغ اسلام اور سوشل ریفارمر کی حیثیت سے تو کبھی پیش نہیں کیا۔ ہم نے تو یہ تصور دیا کہ یہ ایک بہت بڑے بزرگ ہیں۔ آپ ان کے مزار پرجایئے تو آپ کی مرادیں پوری ہو جائیں گی۔ یقینا بزرگوں کا کرم اور التفات ہوتا ہے۔ بزرگوں کے کرم سے فائدہ ہوتا ہے۔ بزرگوں کے واسطے سے مرادیں بھی پوری ہوتی ہیں لیکن جو ان کی زندگیوں کا بنیادی مقصد ہے ہم نے اس کی طرف توجہ نہیں دی۔
طاہر مسعود: کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ جو کتابیں لکھ رہے ہیں‘ ان سے اس مقصد کی تکمیل ہوتی ہے؟
ڈاکٹر اسلم فرخی: دیکھیے میری کتاب’’نظامِ رنگ‘‘ ایک خاکہ ہے جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ایک مردِ درویش ہے جس نے اپنی ساری زندگی سرکار دو عالمؐ کی مبارک اِتباع میں گزاری۔ نہ وہ دولت کے آگے جھکا نہ اسے ثروت کی فکر تھی۔ بوریا نشیں تھا‘ ہزاروں انسانوں کی اصلاح کی‘ ہزاروں کو نیکی کا راستہ دکھایا‘ تو یہ وہ انسان ہے جس کے کردار اور تعلیمات سے آج بھی فیض اٹھایا جاسکتا ہے۔ اب میں نے ان کرامتوں کے زنجیرے کو دانستہ بیان نہیں کیا کیوں کہ میرا مقصد یہ تھا کہ ایک نہایت پاکیزہ‘ ایک متوازن اور قابلِ لحاظ شخصیت کا تصور پڑھنے والے کے سامنے آئے اس کے کارنامے جو عملی سطح کے ہیں‘ روحانی سطح کے ہیں‘ جو معاشرتی سطح کے ہیں وہ سامنے آئیں اس کے بعد ’’صاحب جی سلطان جی‘‘ لکھی تو مقصد یہی دکھانا تھا کہ اصل بادشاہی جو ہے وہ دل کی بادشاہی ہے۔ حضرت سلطان جی دلی میں رہتے تھے‘ دلی دارالحکومت تھی۔ بڑے بڑے بادشاہ گزرے‘ بعض آپ کے معتقد تھے‘ بعض ایسے تھے جو معتقد نہیں تھے‘ جنہوں نے ستانے اور آزار پہنچانے کی بھی کوشش کی۔ مگر یہ کہ جس طرح آپ بیٹھے تھے اسی طرح بیٹھے رہے۔ داد و دھونس سے نہ آزار پہنچانے سے متاثر ہوئے۔ بس اپنے کام میں مصروف رہے۔ تو یہ ایک بہت بڑا ہمیں سبق ملتا ہے کہ ایک درویشانہ زندگی کے کیا معنی ہیں۔ پھر تیسری کتاب لکھی ’’فرید‘ فردِ فرید‘‘ اور اس میں مقصد یہ تھا کہ حضرت سلطان جی کی تربیت کیسے ہوئی۔ حضرت فرید الدین مسعود کی تربیت کیسے ہوئی؟ کیا دستور العمل تھا؟ اُن کے کیا نظام الاوقات تھے؟ مریدوں اور شاگردوں کی اصلاح کیسے ہوتی تھی اور انہیں کس چیز کی تعلیم دی جاتی تھی؟ کیا سکھایا جاتا تھا؟ تو ان تینوں کتابوں کا مقصد یہ تھا کہ انسانیت کا جو ارفع اور اعلیٰ تصور ہے وہ ان بزرگوں کی ذات سے نئے پڑھنے والوں تک پہنچے اور انہیں یہ معلوم ہو کہ ہمارے یہ بزرگ جو ہیں یہ محض نام کے بزرگ نہیں ہیں یا ہم ان کے توسط سے صرف حاجت براری کی ہی کوشش نہیں کرتے بلکہ یہ تو دنیا کے ان عالی مرتبت انسانوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلیدا ور پیروی میں انسانیت کی فلاح کا عَلم بلند کیا تھا اور اس میں ایسی کامیابی حاصل کی۔ حضرت سلطان جی نے ایک بار یہ فرمایا کہ بڑے بڑے آدمی گزرے ہیں‘ آج کوئی نام بھی نہیں جانتا مگر آپ یہ دیکھیے جنید‘ بایزید و شبلی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کل گزرے ہیں۔ ان ہستیوں کو یہ مقام ان ساری کتابوں کا مقصد بھی یہی تھا کہ اصل چیز حسنِ عمل ہے ‘نیک نیتی ہے‘ درویشی ہے اور بنی نوع انسان کی خدمت ہے۔ ہم نے بنی نوع انسان کی خدمت کے پہلو کو بہت پیچھے ڈال دیا ہے۔ درویش کی زندگی کا تو بنیادی مقصد ہی یہی ہے وہ جس کے لیے درویشی اختیار کرتا ہے۔
طاہر مسعود: خانقاہی نظام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اب اس میں بڑی خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں اور اس اعتبار سے تصوف آئوٹ آف ڈیٹ ہو چکا ہے۔ کیا آپ کے خیال میں تصوف کو آج بھی ایک زندہ حقیقت کے طور پر رائج کیا جاسکتا ہے اور وہ صاحبانِ فکر و نظر کہ جن کی بزرگی سے قلوب منور ہو جاتے ہیں‘ کیا ایسی شخصیات اب بھی پائی جاتی ہیں کہ جن کی طرف رجوع کرنے کا مطلب اللہ سے رجوع ہو؟
ڈاکٹر اسلم فرخی: دیکھیے صاحب! بات یہ ہے کہ خانقاہی نظام کا بنیادی اصول یہ تھا کہ جسے جوہرِ قابل سمجھتے تھے‘ اپنے بعد اسے خانقاہ کا سربراہ بنا دیتے تھے کہ بھائی یہ جو ہمارا اثاثہ ہے‘ تمہارے حوالے ہے۔ خواجہ امیر چشتی رحمتہ اللہ علیہ کے صاحب زداے موجود تھے لیکن سجادہ نشینی کی سند خواجہ بختیار کاکیؒ کو حاصل ہوئی۔ خواجہ بختیار کاکیؒ کی سجادہ نشینی کی سعادت خواجہ فرید الدین مسعود کو ملی اور خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر کی اولاد موجود تھی‘ خلافت ملی حضرت نظام الدین اولیاؒ کو۔ حضرت نظام الین اولیاؒ نے سجادہ نشین بنایا حضرت چراغ نصیرالدین کو یعنی جس میں جوہرِ قابل دیکھا اسے خانقاہی نظام کا سربراہ بنایا۔ خانقاہی نظام کامیابی سے چلتا رہا مگر ہوا یہ کہ وہ خانقاہی نظام جو تھا وہ رجواڑے میں تبدیل ہو گیا۔ باپ کی جگہ بیٹا سجادہ نشین ہوا تو اب یہ ضروری نہیںہے باپ میں جو صفات تھیں یا خصوصیات تھیں وہ بیٹے میں بھی موجود ہوں۔ دیکھیے یہ جتنے بزرگوں کا میں نے نام لیا‘ یہ اپنے اپنے عہد کے عالی مرتبہ عالم تھے۔ یہ خالی درویش نہیں تھے میں نے ’’دبستانِ نظام‘‘ میں پوری طرح یہ بات بیان کر دی ہے کہ یہ کیفیت تھی حضرت سلطان جی کی کسی نے کوئی حوالہ دیا اور آپ نے حدیث پڑھ دی۔ کوئی اور حوالہ آیا آپ نے ایک آیت قرآنی پڑھ دی اور یہ صرف قرآن و حدیث تک محدود نہیں ہے‘ فقہ کا حوالہ آیا تو امام ابو حنیفہؒ اور امام شافعیؒ کے حوالے آئے پھر یہ بھی تھا کہ ادھر کسی نے مصرع پڑھا اور آپ نے پورا شعر پڑھ دیا تو یہ اپنے عہد کے انتہائی عالم ہوتے تھے۔ یہ بھی ان کی ایک پہچان تھی۔ علم سے فارغ ہو کر اس کوچے میں آتے تھے۔ اب یہ بات صحیح ہے کہ اگر باپ کی جگہ بیٹے نے سنبھال لی تو بیٹا صحیح جانشین نہیں ہوسکتا۔ مگر جو سلاسل تھے‘ ان میں یہی کیفیت ملتی ہے‘ نتیجہ یہ ہوا کہ جو خانقاہی نظام درویشی اور انکسار پر قائم تھا‘ وہ ایک رجوڑاے میں تبدیل ہو گیا۔ مویشی خانے‘ مال خانے اور اناج خانے ہونے لگے۔ ان سب کا درویشی اور خانقاہی نظام سے کیا تعلق ہے؟ حضرت نظام جی کا معمول تھا کہ جو کچھ خانقاہ میں ہوتا تھا‘دوسروں کو‘ ضرورت مندوں کو عطا کر دیا کرتے تھے تو اس خانقاہی نظام کا یہ عنصر تو باقی نہیں رہا۔ مطلب یہ ہے کہ جو اس کی بنیادی خصوصیات تھیں فیاضی‘ سخاوت‘ خدمتِ خلق تو خالی ہوتی گئیں اور وہ دولت و ثروت جمع کرنے کا ذریعہ بنتی گئیں۔ آج کل کے بزرگانِ عظام کے حالات سے آپ لوگ بہ خوبی واقف ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان بزرگانِ عظام کے توسط سے جو محض اپنے بزرگوں کے نام پر معیشت حاصل کر رہے ہیں‘ آپ کس خانقاہی کی توقع کر سکتے ہیں۔ ان صفات اور روایات سے خانقاہی نظام تو ختم ہوگیا۔
طاہر مسعود: اصلاح کی کوئی صورت ہے؟
ڈاکٹر اسلم فرخی: خانقاہ کا جو نظام رائج تھا اور بادشاہی نظام کے مقابل بہتر‘ اعلیٰ اور ارفع زندگی کے تصور کا ایک نظام تھا۔ اسی لیے خانقاہ اور سلطنت میں فرق تھا‘ کسی مسئلے پر ہنگامہ ہو جاتا تھا‘ بادشاہ کو چونکہ بالادستی حاصل تھی‘ وہ خانقاہ والوںکو ستاتا بھی تھا۔ اب اصلاح کا مسئلہ یہ ہے کہ اوّل تو اب خانقاہیں نہیںہیں۔ وہ جو مریدوں کے آداب و تربیت کا ادارہ تھا‘ وہ بدقسمتی سے مشکوک ہو گیا ہے اور وہ دولت کی تحصیل کا ایک ذریعہ بن گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اب اس ادارے کو‘ دنیا طلبی اور جاہ طلبی کا ذریعہ بنا دیا گیا حالانکہ آج کے دور میں بھی بڑی بڑی پاکیزہ ہستیاں‘ بڑے بڑے بزرگ موجود ہیں۔ ان کی خدمت میں حاضری دینے سے دل میں اجالا پھوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ انسان ان سے ہدایت پاتا ہے مگر جو عام سلسلے ہیں ان میں اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ میں اب ایک واقعہ بیان کرتا ہوں کہ میرے والد ایک صاحب کے ہاں جایا کرتے تھے‘ میں نے ان سے پوچھا کہ جن صاحب کے ہاں آپ جاتے ہیں وہ پڑھے لکھے بھی نہیں ہیں اور پھر بھی پیری مریدی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا چلو کسی دن ہم تمہیں دکھا لائیں۔ میں ان کے ساتھ گیا تو وہ بیٹھے ہوئے تھے۔ معلوم ہوا کہ بے تکلف دوست ہیں۔ چائے وائے آئی۔ باتوں میں کسی نے کہا کہ فلاں آدمی بڑا تنگ کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی قرآن میں مذمت آئی ہے اور پھر انہوںنے قرآن شریف کی ایک آیت کا اس مسئلے پر نہایت غلط اطلاق کیا۔ اس طرح کے شوشے انہوں نے اور چھوڑے۔ میں نے بعد میں والد صاحب سے کہا کہ آپ یہاں کیوں آتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ بھائی خلق خدا کی جہالت کا تماشا دیکھنے آتا ہوں۔ اس لیے میں کہوں گا کہ جب تک جہالت موجود ہے ان لوگوں کی بھلا کوئی اصلاح ہو سکتی ہے؟ بہرحال ان کی کوئی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ ہاں خوش قسمتی سے کھلے ذہن رکھنے والے‘ پڑھے لکھے لوگوں کا ایک ایسا حلقہ موجود ہے جو تصوف کی راہوں اور اس کے نکات کو سمجھتے ہیں‘ انہیں ہدایت بھی حاصل ہے اور وہ صحیح راہ پر گامزن بھی ہیں۔
طاہر مسعود: مولانا اشرف علی تھانویؒ صاحب نے آزادی سے پہلے تھانہ بھون میں خانقاہ بنائی‘ لوگ آتے تھے‘ ٹھہرتے تھے‘ اُن کی اصلاح ہوتی تھی۔ کیا آپ سمجھتے ہیں ہمارے ملک میں جو روحانی تشنگی پائی جاتی ہے‘ اس پیاس کو بجھایا جائے۔ اس طلب کو پورا کیا جائے اور جو لوگ اپنی اصلاح چاہتے ہیں ان کے لیے کوئی ایسا خانقاہی نظام ہونا چاہیے؟ کیا آپ کسی ایسے امکان کی طرف اشارہ کرسکتے ہیں؟
ڈاکٹر اسلم فرخی: جی ہاں‘ ممکن ہے۔ خانقاہ تو نہیں لیکن میں نے یہ دیکھا کہ صبح سے شام تک ڈاکٹر غلام مصطفی خان صاحب کے ہاں کہ ان کا گھر ایک مرکزِ علم و ہدایت ہے۔ لوگ باگ شخصی طور پر بالمشافہ ہدایت حاصل کرتے ہیں جو کہہ نہیں سکتے وہ اپنے مسائل لکھتے ہیں‘ خطوں کے ذریعے ہدایت اور رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور ہفتہ اتوار کو کراچی اور سندھ سے بہت بڑی تعداد لوگوں کی آتی ہے۔ نمازوں میں شامل ہوتی ہے تو ضرورت تو ہے۔ جہاں لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی ضرورت رفع ہوتی ہے‘ لوگ وہاں جاتے ہیں۔ پنجاب میں بھی کئی ایسے بزرگ ہیں جن کے یہاں لوگ پروانہ وار آتے ہیں اور ان سے صحیح رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ اور آج کے دور میں یہ فرق ہو گیا ہے کہ سادگی اور عجز نظر نہیں آتا۔ اب لوگوں میں اپنی اصلاح کی طلب بھی نہیں رہی۔
طاہر مسعود: اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ بعض جھوٹے اور ڈبہ پیروں کا بھی ایک جم غفیر ہے جس میں بعض بڑے بڑے نام آتے ہیں۔ بڑے بڑے عرس ہوتے ہیں۔ لوگ دیوانہ وار آتے ہیں۔ جب تک صحیح نظام وضع نہیں کیا جائے گا‘ کھرے کھوٹے میں تمیز کس طرح کی جاسکتی ہے۔ لوگوں کو کس طرح ایجوکیٹ کیا جاسکتا ہے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ہے؟
ڈاکٹر اسلم فرخی: دیکھیے ان کے پیچھے پیچھے لوگوں کے چلنے کی وجہ تو صاف ظاہر ہے‘ جو آدمی لوگوں کا کام کرتا ہے خلق خدا تو اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ دنیاوی فائدہ جہاں جہاں ہوتا ہے وہاں وہاں لوگ جاتے ہیں‘ ان لوگو ں کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ ہے پھر دوسرے یہ کہ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو سیاسی پس منظر کے حامل ہوتی ہیں اپنے حلقہ بگوشوں کو معتقد بنانے کی تدبیریں بھی کرتے رہتے ہیں۔ اب یہ کہ اصل اور نقل کا فرق کیسے پہچانا جائے۔ ایک بار حضرت سلطان جی سے کسی صاحب نے یہ پوچھا کہ اگر پیر کسی نامشروع بات کا حکم دے تو کیا کرنا چاہیے؟ حضرت سلطان جی نے برجستہ جواب دیا کہ پیر کو معلوم ہونا چاہیے وہ ایک نامشروع کا حکم دے رہا ہے۔ تو پیر تو وہی ہوتا ہے جو شرع سے واقف ہوگا وہی صحیح پیر ہوگا۔ اب یہاں بڑائی کا کتنا بڑا پہلو نکلتا ہے کہ پیر عالم بھی ہو‘ درویش بھی ہو‘ شریعت کا حامل بھی ہو اور کسی نامشروع کا حکم نہ دے۔
طاہر مسعود: آپ کیا محسوس کرتے ہیں کہ اب آنے والے زمانے میں روحانیت کے عروج کی کوئی صورت تصوف کے ذریعے ممکن ہے؟
ڈاکٹر اسلم فرخی: یقین ہے۔ آج انسان جس مصروف و پیچیدہ زندگی کی صورت حال سے گزر رہا ہے‘ مادّہ پرستی کے سیلاب میں بہا جا رہا ہے‘ مہلک ہتھیاروں کی دور میں تباہ ہو رہا ہے‘ اپنی خودی اور روحانیت سے بے گانہ ہو گیا ہے۔ آپ یہ دیکھیں کہ دوسری جنگ عظیم میں انسانیت اور اس کے وقار و یک جہتی کو کتنا نقصان پہنچا ہے جس نے ملکوںکے درمیان ایک کش مکش پیدا کر دی ہے۔ انسان اپنے مرکز سے ہٹ گیا ہے‘ بھٹک گیا ہے۔ آخر کو اسے اس طرف تو آنا پڑے گا۔ آپ دیکھیے کہ مغرب نے خاندانی اورکنبے کی زندگی کو خیر باد کہہ دیا ہے‘ اس کو اب یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ وہ آزادی اب اس کے گلے میں آگئی ہے یوں وہ کنبہ داری کی طرف لوٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ گویا مادّی آزادی کا تصور صحیح ثابت نہیں ہوا اور انسان اپنی اصل کی طرف لوٹ رہا ہے۔ مغرب کسی اور چیز سے خائف نہیں ہے جتنا اسلام سے خائف ہے۔ ہماری غفلت کے باوجود روحانی اثرات معدوم نہیں ہوئے ہیں۔ اگرچہ ان کی توسیع اور فروغ کی رتتار بہت تیز نہیں ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ مایوس ہونے کی تو کوئی وجہ نہیں بلکہ اکیسویں صدی میں تو یہ نہیں ہوگا لیکن مجھے یہ خیال ضرور ہے کہ ایک ایسا معاشرہ وجود میں آجائے گا جس کی بنیاد روحانیت اور پاکیزگی پر ہوگی۔
طاہر مسعود: کسی واقعی روحانی شخصیت یا بزرگ سے تعلق یا نسبت قائم کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ کیا شخصیت میں کوئی تبدیلی آتی ہے؟ آپ کا اپنا مشاہدہ اور تجربہ کیا ہے؟
ڈاکٹر اسلم فرخی: دیکھیے اس کے جواب میں‘ میں اپنی کیفیت آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں۔ ہر انسان کی زندگی میں کمزوری کے لمحے آتے ہیں‘ ایسا نہ کرو ایسا کرو۔ کسی دفتر میں گئے تو معلوم ہوا کہ اتنی رقم درکار ہے آپ کا کام ہو جائے گا۔ واپسی پر میں نے یہ سوچا کہ میں بزرگوں کی تعلیمات کو قلم بند کرتا ہوں اور ان کے کارنامے لکھتا ہوں تو مجھے کیا یہ زیب دیتا ہے کہ میں ایک غیر شرعی اور غیر قانونی کام میں ملوث ہوں۔ آپ یقین مانیے کہ مجھے بعض اوقات بے حد تکلیف ہوتی ہے‘ بڑی جھنھجلاہٹ ہوتی ہے لیکن ذہن میں یہ تصور کہ کل کلاں کو مجھے اللہ تعالیٰ کو منہ بھی دکھانا ہے اور پھر اگر تم راہ سے بھٹک گئے تو تمہیں یہ حق نہیں پہنچے گا کہ تم بزرگوں کے کارنامے اور ان کے حالاتِ زندگی کو لکھو۔ چنانچہ اس تکلیف کو گوارہ کیا اور غلط کام نہیں کیا بزرگوں کے حلقہ بگوشوں کے لیے ضروری ہے کہ ہر سچائی کو اپنائیں۔