شیخ رشید، عمران ریاض خان کو رہا کرو، شاندانہ گلزار۔ پاکستان میں جنگل کا قانون، پاکستان انڈر فاشزم، خیبر پختون خوا امن مارچ، انصاف کرو پاکستان بچائو، اُمیدِ سحر کی بات سنو، پرانے شکاری نیا جال، مراد نے کہا تھا، مریم، تیرے سنگ مریم نواز، شاہد خاقان عباسی، پشاور بلاسٹ، میانوالی، پشاور، طالبان خان جواب دو، امام حسین، فواد آیا سواد آیا، بہاولپور، پنک بس سروس، طالبان، آخر کب نکلو گے، شیطان کی مجلسِ شوریٰ، پیٹرول ڈیزل پرائس، 35 روپے، ہم تمہیں ٹکر دیں گے، امپورٹڈ نالائق حکمران، خوف کے آگے جیت ہے، یہ سارے وہ ہیش ٹیگز ہیںجو اس ہفتے پاکستان میں ٹوئٹر پر چند اہم سیاسی ٹرینڈز بنے تھے۔ ان کے علاوہ انٹرٹینمنٹ کے شعبے سے بھی مختلف اداکاروں کی فلمیں اور ڈرامے موضوع بنے۔ سام سنگ کا ’گلیکسی ایس23‘ اپنی لانچنگ مارکیٹنگ مہم کی وجہ سے ٹرینڈ لسٹ میں لہراتا رہا۔
سیاسی اعتبار سے پاکستان میں پشاور پولیس لائن بم دھماکہ سنسنی خیز ایشو بنا رہا، سیکڑوں خاندان ختم ہوگئے، بچے یتیم ہوگئے، خواتین بیوہ ہوگئیں۔ یہی نہیں بعدازاں خیبر پختون خوا کے دارالحکومت میں ہونے والے اس دھماکے کی وجہ سے وہاں کی سیکورٹی، پھر فنڈزکی کمی کے بیان پر خاصا ردعمل آیا۔ اس میں افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے مذمتی بیان کا ایک دل چسپ جملہ بھی ڈسکس ہوا جس میں انہوں نے کہاکہ ’’پشاور دھماکے کی باریکی سے تحقیقات کریں، اپنا بوجھ ہم پہ نہ ڈالیں،20 برس جنگ لڑی ایسی کوئی جیکٹ نہیں دیکھی جو چھت اُڑائے۔ افغانستان پہ الزام نہ لگائیں۔‘‘
صوبے میں تحریک انصاف کی مسلسل 9 سالہ حکومت کو اس معاملے میں خوب نشانۂ تنقید بنایا گیا، خصوصاً فنڈز کے نہ ہونے کے معاملے پر۔ اس کے بعد یہ تبصرے لازمی تھے کہ ایک بار پھر لاشوں پر ڈالر کمانے کی پالیسی محسوس ہورہی ہے، الیکشن کو آگے بڑھانے کی باتوں میں وزن آنا شروع ہوگیا۔
اسی طرح سابق وزیراعظم پاکستان اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کے عہدے سے استعفے کو بھی موضوع بنایا گیا۔ اُن کے نام سے ٹوئٹر پر کئی اکائونٹ چل رہے ہیں، جن میں سے ایک بھی اُن کا محسوس نہیں ہوتا بلکہ یوں لگتا ہے کہ یہ سارے ٹوئٹر اکائونٹس مخالفین نے منصوبہ بندی کے تحت بنائے ہیں۔ ویسے ان اکائونٹس کو اس طرح چلانے میں خاصی محنت لگتی ہے، تاہم اب جس طرح سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو استعمال کررہی ہیں یہ بالکل ممکن نظر آتا ہے۔
تحریک انصاف کی جانب سے شدید مہنگائی کی لہر پر پوسٹنگ کا سلسلہ خوب رہا۔ اب چوں کہ ان کی حکومت کو گئے سال ہونے کو ہے تو وہ قیمتوں کے موازنے میں خاصے تیز نظر آئے۔ پیٹرول سمیت دیگر عام استعمال کی اشیاء کی قیمتوں کی فہرست بناکر وہ پوسٹوں کی صورت شیئر کرتے رہے۔ یوں لگتا ہے کہ اگلے انتخابات میں مہنگائی ختم کرنا ہی ایک اہم انتخابی وعدہ ہوگا۔
اب میں ایک اور اہم عالمی ہیش ٹیگ کے ٹرینڈ کے موضوع پر بات کروں گا جو امریکا اور یورپ سمیت عالمی سطح پر نظر آیا۔ وہ تھا ’’بلیک ہسٹری منتھ‘‘۔ مطلب ’’سیاہ فاموں کی تاریخ کا مہینہ‘‘۔ یہ پورا مہینہ امریکا سمیت کئی مغربی ممالک میں منایا جاتا ہے اور اب سوشل میڈیا پر تو ظاہر سی بات ہے پوری قوت سے مؤقف کا اظہار کیا جاتا ہے۔ آپ جانتے ہوں گے کہ امریکا میں صنعتی معاشرے کو بندوق کے زور پر اسی طرح نافذ کیا گیا۔ اس کو جس خوشنما نعرے میں لپیٹا گیا تھا وہ تھا ’’انسانوں کی غلامی کا خاتمہ‘‘ کا لیبل۔ امریکی معاشرہ صنعتی انقلاب کے بعد تیزی سے تبدیل ہورہا تھا۔ انہیں سیاہ فاموں کی غلامی کے 100سال تک مزے لینے کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی کہ ہمیں تو اب صنعتی مزدور چاہیے، اس لیے انہوں نے اس غلامی کو ’’غیر انسانی‘‘ کہہ کر لپیٹ دیا۔ شمالی امریکا کی ریاستوں نے تو بات سمجھ لی مگر جنوبی امریکا کو یہ بات ہضم نہ ہوئی، اس لیے امریکا میں طویل خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس سے پہلے یورپ میں برطانیہ سیاہ فاموں کی غلامی ختم کرکے سب کو صنعتی مزدور کی شکل دے چکا تھا، وہاں ایسا مسئلہ نہیں ہوا۔ 1860ء میں ریاست ہائے متحدہ امریکا میں ابراہم لنکن صدر بنا۔ اِس کی اوّلین وجوہات میں سیاہ فام تعصب کارفرما تھا۔ ان کی غلامی، ان کے ووٹ کا حق اور ریاستی حقوق پر کئی دہائیوں تک بڑھتے ہوئے تنائو کے بعد خانہ جنگی شروع ہوئی۔ یہ امریکی سرزمین پر لڑی جانے والی اب تک کی سب سے مہنگی اور مہلک ترین جنگ کہلاتی ہے۔ اس میں 2.4 ملین فوجیوں میں سے تقریباً ساڑھے چھ لاکھ فوجی مارے گئے تھے جب کہ کئی لاکھ فوجی زخمی ہوئے، دیگر تباہیاں الگ تھیں۔ بس یہ جان لیں کہ ساری جنگ بنیادی طور پرسیاہ فاموں کی ’غلامی‘ کو ختم کرکے انہیں سرمایہ دارانہ معیشت میں بطور مزدور ضم کرنے سے متعلق تھی۔
معروف سیاہ فام لیڈر اور اسکالر کارٹر جی ووڈسن نے یہ مشہور بات کہی کہ ’’اگر کسی نسل کی کوئی تاریخ نہیں ہے، اگر اس کی کوئی قابلِ قدر روایت نہیں ہے، تو یہ دنیا کی سوچ میں ایک نہ ہونے کے برابر عنصر بن جاتی ہے، اور اس کے ختم ہونے کا خطرہ ہے۔‘‘
کارٹر نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اسی کام میں لگایا۔ یوں ایک ایسے ملک میں، جہاں نسلی تعصب اتنا پایا جاتا تھا کہ یہ ’’لنچنگ لاز‘‘ کے مطابق قانونی طور پر جائز تھا کہ کسی کالے کو کئی سفید فام مل کر قتل کردیں۔ ہم جانتے ہیں کہ امریکا کے اصل باشندے تو ریڈانڈین تھے، جن کی بڑے پیمانے پر نسل کُشی کی گئی، بعد میں افریقہ سے مزید سیاہ فام لائے گئے اور سب کو غلام بنایا گیا۔ باوجود کئی قوانین کے یوں کہیے کہ سیاہ فام نسل کے خلاف گوروں کا نسلی تعصب آج بھی ختم ہو کے نہیں دیا۔ وہ انہیں کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر سمجھتے ہیں، مگر ظاہری طور پر ریاست کے رکھ رکھاؤ میں ایسے دن مناتے ہیں تاکہ امریکیوں کی اعلیٰ مثال عوامی توجہ کا مرکز رہے۔ نسل سے متعلق اس سیاہ سفید کے معاملے کو امریکا، برطانیہ اور دیگر حصوں میں ہمیشہ ایک حساس معاملہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ 1976ء میں دل پر بھاری پتھر رکھ کر ہی سہی، امریکا سے’’بلیک ہسٹری مہینے‘‘ کی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اِس کے بعد کئی ممالک میں بلیک ہسٹری کا مہینہ منایا جانا شروع ہوا جیسے کہ برطانیہ میں 1987ء میں، جرمنی میں 1990ء میں، کینیڈا میں 1995ء میں، 2010ء میں جمہوریہ آئرلینڈ ، فرانس میں 2018ء میں جب کہ افریقہ میں 2020ء سے شروع ہوا۔
یہ مہینہ درحقیقت لبرل ازم اور اس کے تضادات سے عبرت پکڑنے کے لیے سوشل میڈیا پر ایک بہترین مثال کے طور پر نظر آیا ہے۔ ’’سیاہ فاموں کی تاریخ‘‘ پر مبنی پورا مہینہ منانے کا بنیادی پیغام یہی ہے کہ اب لبرل ازم نے اِن کو اپنے ساتھ اکاموڈیٹ کرلیا ہے۔ مگر یہ اُن کے ساتھ کیے گئے سفاک عمل کا کوئی ازالہ نہیں ہے۔
لبرل معاشرت میں لوگ کسی بھی تاریخ کو ایکسرسائز یعنی عملی حقیقت نہیں بناتے بلکہ صرف اُس تاریخ کو مناتے ہیں، صرف اظہار کرتے ہیں، واقعاتی حقیقت نہیں بناتے۔ اِس بات کو اُن کی دیگر مثالوں سے سمجھیں تو بات آسان ہوجائے گی جیسے ’’بوڑھے افراد‘‘۔ لبرل ازم نے پہلے اپنے ’’بوڑھوں‘‘ کا پورا معاشرتی کردار ختم کیا، پھر اُن کو احساس ہوا تو ازالے کے بجائے اُن کو الگ عنوان دے کر’’سینئر سٹیزن‘‘ کے طور پر پیش کیا، اس نام پر قانون سازی کرکے انہیں الگ حقوق دلا دیے۔ کہنے کو تو شاید یہ بڑا اچھا لگے، مگر درحقیقت کسی کو اُس کی اپنی روایتی معاشرت، اُس کے گھر، خاندان سے کاٹ کر ’’اولڈ ہائوسز‘‘ میں ڈال دینا بڑا عزت افزائی کا کام کردیا، یہی نہیں بلکہ پوری علمیت کھڑی کردی، جامعات میں اب پورا مضمون متعارف کرا دیا گیا ہے کہ بڑے بوڑھوں کا خیال کیسے رکھنا ہے۔ مطلب یہ کہ صدیوں سے جو اولاد والدین کی خدمت کرتی آرہی ہے، وہ جتنے بوڑھے ہوتے ہیں اُتنے ہی بااثر ہوتے ہیں اپنی معاشرت میں، مگر لبرل ازم میں اُن کو ’’سینئر سٹیزن‘‘ کے عنوان سے کاٹ کر الگ کردیا جاتا ہے۔ ریاست اُن کو حقوق کے نام پرکچھ رعایتیں دیتی ہے جس سے ہمیں لگتا ہے کہ یہ بہت اچھا کام ہے، مگر درحقیقت اُن کا اصل مقام تباہ و برباد کردینا اس رعایت سے بہت بڑا ظلم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لبرل اَزم کی پوری تاریخ سفاک نسل کُشی کی ہے جسے وہ بعد میں نام نہاد مہذب ہونے کا دعویٰ کرکے ’پلورل ازم‘ یعنی ’’سب کو ساتھ لے کر چلنے‘‘ کے عنوان سے مناتا ہے۔ آپ اس مثال کو مدر ڈے، فادر ڈے کے ذیل میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ’’ماں‘‘ کا کردار معاشرے سے ختم کیا گیا، باپ کا کردار ہی نہیں بلکہ باپ کو ہی ختم کردیا گیا۔ ماں ہمیشہ سے اولاد کی پرورش کی تربیت گاہ تھی۔ لبرل ازم نے بچے کی پیدائش سے لے کر دودھ کے ڈبوں تک، ڈے کیئر سے لے کر بورڈنگ تک، تعلیم سے لے کر اس کی تربیت کی ہر چیز ریاست و مارکیٹ کے حوالے کردی۔ یہی نہیں، پھر لبرل ریاست نے بیٹے کو ماں سے ’’شہری‘‘ کے نام پر چھین لیا، ایسی ایسی قانون سازی کی گئی بچے کے حقوق کے نام پر، کہ اس کے ذریعے بچے کا تعلق ماں کے بجائے ریاست سے بڑھتا چلا گیا۔ اب یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ ماں اپنے بچے کو کسی کام سے منع کرے یا سختی کرے تو بچہ محض پولیس کو ایک فون کرکے ماں یا باپ کوگرفتار کروا سکتا ہے۔ بات اور آگے بڑھ چکی ہے کہ سروگیسی، ٹیسٹ ٹیوب اور دیگر سفاک طریقے متعارف کرواکر صدیوں سے چلا آنے والا ’ماں‘ کا پورا تصور ہی ختم کردیا گیا۔ باپ کے ساتھ تو دو ہاتھ مزید ہوئے کہ اس کی بیوی کو ’’عورت‘‘ قرار دے کر مارکیٹ کے حوالے کردیا گیا، یوں باپ کے پاس نہ بیوی بچی اور نہ اُس کی اولاد کے ساتھ کوئی تعلق۔ نتیجتاً وہ بھی گھر میں ایک مشینی کردار بن گیا، جو اگر سوتے میں خراٹے بھی لے تو اس کی بیوی اسے گرفتار کروا سکتی ہے۔ وہ ایک ایسے گھر کا سربراہ ہے جہاں وہ اپنے مرتبے کے مطابق کسی پر اپنا کوئی ’تصور خیر‘ اُس کی خواہش یا مرضی کے بغیر نافذ نہیں کرسکتا۔ ایسا کرنے کے بعد اب ’مدر ڈے‘ اور ’فادر ڈے‘ منانا کیسے حقیقی تصور رکھ سکتا ہے؟ یادگار کے طور پر ایسے منا رہے ہیں جیسے آپ سے زیادہ کوئی مقام دینے کا ضامن نہیں ہے، مگر جن کے دن آپ منا رہے ہوتے ہیں اصل میں ان کو تباہ آپ نے ہی کیا ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’سیاہ فام‘ اور یہ مقامی امریکی یعنی ’ریڈ انڈینز‘ اپنی علمیت کے ساتھ تھے تو آپ نے اُن کو کبھی برداشت نہیںکیا۔ ریڈ انڈین انسان کو نہیں مارا بلکہ آپ نے اُس کے حقیقی لائف اسٹائل کو بھی مارا، اس کو مجبور کردیا کہ وہ بھی اپنا لائف اسٹائل سرمایہ دارانہ ہی بنائے۔ چنانچہ اب مغرب اسی بات کی سیلی بریشن کرتا ہے کہ دیکھو ہم نے کیسے ان سب کی حقیقی زندگی کو بدل کر اپنے رنگ میں ڈھالا۔ میں ٹوئٹر پر اس ٹرینڈ کے ذیل میں آنے والے مواد کو بغور دیکھ رہا تھا کہ یہ سب کیسے ہوا؟ یہاں میں آپ کو یاد دلاؤں کہ مسلم معاشرے پر سب سے سفاک حملہ چنگیز خان یعنی تاتاریوں کا کہا جاتا ہے، مگر اُس نے بھی پوری طاقت اور فاتح ہونے کے باوجود مسلم معاشرت میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی۔ مسلمان بھی جہاں فتوحات حاصل کرتے وہاں کی معاشرت کو بالکل نہیں چھیڑتے تھے۔ شرع اسلامی بس یہ بتاتی ہے کہ مسلمان، مسلمان کیسے رہیں گے اور مسلمان اور کافر کے درمیان معاملات کیسے ہوں گے۔ کافروں کے باہمی تعلقات کیسے ہوں گے وہ یہ خود طے کرتے، شرع اسلامی کا اطلاق صرف مسلمانوں پر ہی ہوتا تھا، کافر صرف جزیہ دے گا اور کچھ نہیں۔ مگر یہ لبرل استعماریت پوری معاشرت کیسے بدلتی ہے یہ آپ بغور دیکھ کر سمجھ سکتے ہیں۔