’’ہمیں فرزند کے لیے تعلیم یافتہ، دراز قامت، کم ازکم سترہویں گریڈ کی افسر اور اعلیٰ خاندان کی حامل لڑکی کا رشتہ درکار ہے۔ موافقت نہ رکھنے والے رابطہ کرکے معذرت کا موقع نہ دیں۔‘‘
سوشل میڈیا پر چلتی انگلیاں یک دم ٹھیر سی گئیں۔ میرج بیورو کے اس پلیٹ فارم میں آئے روز چونکا دینے والے اشتہارات نظر سے گزرتے رہتے تھے ۔ پہلو میں براجمان کولیگ چہرے کے بدلتے تاثرات کو جانچتے ہوئے استہزائیہ مسکرا دیں اور گویا ہوئیں کہ گزشتہ کئی برسوں سے وہ اپنے بھائی کے لیے مناسب جوڑ کی تلاش میں ہیں جو کہ اوسط تعلیم یافتہ، معقول تنخواہ دار اور شریف النفس بھی ہے مگر کبھی کرائے کا مکان آڑے آجاتا ہے، تو کہیں ظاہری خدوخال پر اعتراضات اٹھنے لگتے ہیں، اور کبھی غیر شادی شدہ بہنیں چبھنے لگتی ہیں۔ شادی میں حائل طویل فہرست بتاکر جانے وہ کب کام میں مگن ہوچکی تھیں مگر میرا دماغ اسی نکتے پر اٹک گیا کہ نہ جانے کب تک لڑکے لڑکیوں کی عمریں ان بے جا مطالبات کی بھینٹ چڑھتی رہیں گی؟
شادی قطعی عجلت سے حل کیا جانے والا معاملہ نہیں۔ سوچ بچار اور پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ناگزیر ہے۔ کہتے ہیں کہ زمانے کے انداز بدل جائیں تو رواج بھی بدل جاتے ہیں۔ کسی زمانے میں رشتے جوڑنے کی بنیاد محض شرافت ہوا کرتی تھی، مگر وقت اور حالات بدلے، مزاج بدلے تو گویا ترجیحات ہی بدل گئیں، مادہ پسندانہ سوچ حاوی ہونے لگی۔ متناسب عمر، چاند چہرہ اور مناسب تعلیم کو جہاں لڑکے والوں کی ترجیحات سے منسوب کیا جاتا تھا، وہیں اب ہم پلہ علاقے، برادری اور مختصر خاندان کی بنیاد پر رشتے کا سلسلہ چلایا جاتا ہے۔ مناسب بَر کی تلاش میں لڑکی والے بھی کسی طور پر پیچھے نہیں۔ آئے روز بڑھتی شرائط سے دونوں فریق کڑھتے تو دکھائی دیتے ہیں مگر کوئی سمجھوتا کرنے پر نہ ہی آمادہ ہے اور نہ پہل کرنے پہ راضی۔
مثل مشہور ہے ’’اپنا مارے گا تو چھاؤں میں مارے گا۔‘‘ اسی کے پیش نظر پہلے جب کسی گھرانے میں بچے شادی کی عمر کو پہنچتے تو خاندان کے بزرگ ازخود ذمے داری محسوس کرنے لگتے۔ رنجشوں کو یکسر بھلا دیا جاتا اور آپس میں ہی کئی رشتے داریاں منسوب کرلی جاتیں۔ اس کے برعکس موجودہ دور میں مناسب جوڑ کے باوجود خاندان میں بیاہ نہ کرنا ترجیح بن گئی ہے۔ اپنوں کو ٹھکرا کر نئے چہروں میں خلوص ڈھونڈنے کی کوشش میں برسوں گزر جاتے ہیں، نتیجتاً ہم پلہ خاندان اور حسب نسب کی کھوج بروقت رشتوں کو بھی گنوانے کا باعث بن رہی ہے۔
تعلیم عمومی طور پر تربیت کو نکھارنے کا کام کرتی ہے۔ بدقسمتی سے اعلیٰ تعلیم جہاں اچھی نوکری کی ضمانت سمجھی جانے لگی، وہیں بہترین رشتوں کے لیے بھی اسے دلیل بنادیا گیا ہے۔ نئے تقاضوں نے ذہنی ہم آہنگی کو ڈگری کے اس ٹکڑے سے جوڑ دیا۔ اس ضمن میں رشتہ کروانے والی خاتون سے رابطہ کیا گیا جوکہ گزشتہ دہائی سے اس کام سے منسلک ہیں، اُن کا کہنا تھا کہ لوگوں نے شادی کو نوکری کی طرح محض کنٹریکٹ سمجھ لیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان قدرے کم تعلیم پر قطعی لچک نہیں دکھاتے۔ ڈاکٹر، انجینئر، بینکر اور بزنس سے جڑے رشتوں کو فوقیت دی جاتی ہے مگر پھر بھی طور طریقے یکسر مختلف ہونے کی وجہ سے بات بن نہیں پاتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے خاندانوں کو برسوں سے رشتے دکھا رہی ہوں، مگر محض والدین ہی نہیں خود لڑکے لڑکیاں بھی کم تعلیم پر سمجھوتا کرنے پر ہرگز تیار نہیں، اور ایسے رشتوں کو یکلخت جھٹلانا عمومی رویہ بن گیا ہے۔
بے شک رشتے آسمانوں پر بنتے ہیں، گویا تدبیر اور کوشش کی حد جہاں ختم ہوتی ہے وہیں تقدیر کے فیصلے حاوی ہوجاتے ہیں۔ فکری پہلو یہ ہے کہ بہتر سے بہترین کی جستجو نے شادی بیاہ کو بہت دشوار بنادیا ہے۔ دونوں فریق پریشان حال تو دکھائی دیتے ہیں مگر آئے روز نت نئے اور انواع و اقسام کے مطالبات پہ رتی برابر بھی گنجائش نکالنے کو رضامند نہیں۔ اکثر لڑکے اور لڑکیاں بے جا ڈیمانڈز پر سرجھکائے رہ جاتے ہیں اور معاشرے میں رائج اس فرسودہ سوچ کا خمیازہ انہیں عمر گنوانے کی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے۔
یہ بے جا خاندانی رسوم و رواج کا شاخسانہ ہی ہے کہ بہت سے لڑکے لڑکیاں بالوں میں چاندی اتارے خوشیوں کے منتظر ہیں اور عمر کا یہ حصہ اپنی صلاحیتیں اور اُمنگیں اگلی نسل کو منتقل کرنے کے بجائے مایوسی میں گزار رہے ہیں۔ آج بھی بہت سے گھرانے برادری میں ہی رشتے کرنے پہ سختی سے عمل پیرا ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ برادری میں رشتہ نہ ملنے کی صورت میں گھر بٹھانے کو فوقیت دی جاتی ہے اور غیر برادری میں شادی کرنا گویا عزت پہ حرف لانے کے مترادف گردانا جاتا ہے۔
حالانکہ ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جہاں اولاد کی بڑھتی عمر کے پیش نظر کڑوا گھونٹ سمجھ کر غیر برادری میں بیاہنا پڑا۔ ہزار وسوسوں اور بوجھل پن کے ساتھ نیک کام سرانجام دیا گیا۔ خاندان بھر میں بہت سبکی ہوئی اور باتیں بھی سننی پڑیں۔ مگر وہی اپنی زندگی میں سُکھی اور آباد ہوئے تو ادراک ہوا کہ دراصل اچھائی برائی کسی ذات سے منسوب نہیں کی جا سکتی، یہ محض سوچ کا فتور ہے۔
شادی میں انسان کے لیے فطری ضروریات پنہاں ہیں، جس کے نہ ہونے یا تاخیر سے ذہنی کشمکش اور قبل از وقت جسمانی تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں۔ اسٹریس جنم لیتا ہے اور اخلاقی تشنگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ نکاح میں تاخیر یا غیر ضروری طول سے ہارمونز پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک تجربہ کار ڈاکٹر صاحبہ کا کہنا تھا کہ ہر عمر کے کچھ فطری تقاضے اور خواہشات ہوتی ہیں جو انسان کی جسمانی اور ذہنی تکمیل کا حصہ ہیں۔ ان میں تاخیر سے انسان متاثر ہوتا ہے اور خواتین کو پیچیدگیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ان میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت بتدریج کم ہوجاتی ہے، یہی نہیں بلکہ سن یاس کا عمل بھی قبل از وقت شروع ہونے کے امکانات بڑھ جاتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ شادی جیسا اہم ترین فریضہ ادا کرنے کے لیے دونوں فریق گنجائش اور لچک کا مظاہرہ کریں، غیر ضروری مطالبات سے گریز کریں تاکہ معاشرے کے دو فعال لوگوں کو فطری جذبات کی تسکین کے لیے غلط راہوں کا انتخاب نہ کرنا پڑے۔ گھر والوں اور معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ انہیں بہتر زندگی کی شروعات میں مدد دیں اور خوامخواہ رکاوٹیں کھڑی نہ کریں۔ غیر ضروری باتوں پر اعتراض کرکے نہ الجھائیں کہ حلال شے کا حصول بھی مشکل ہوجائے۔ اَنا کے بُت کو اتنی تقویت نہ دیں کہ رشتوں میں احترام و لحاظ پہ زد پڑے۔