ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ وہ ادیب‘ نقاد‘ مزاح نگار اور صحافی تھے۔ انہوں نے 1982ء میں اپنے گھر پر ’’پائے‘‘ کا سالانہ یکجہتی ظہرانہ اور مشاعرے کا آغاز کیا تھا۔ وہ اب اس دنیا میںنہیں ہیں ان کے بیٹے فہیم قریشی نے ان کی یاد میں 22 جنوری کو انتالیس واں سالانہ یک جہتی ظہرانے و مشاعرے کا اہتمام کیا جس کی مجلسِ صدارت میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر‘ سردار یاسین ملک اور میاں زاہد حسین شامل تھے جب کہ مشاعرے کی صدارت محمود شام نے کی۔ مہتاب اکبر راشدی مہمان خصوصی تھیں۔ عنبرین حسیب عنبر نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ حافظ حسن ضیا نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ بشیر احمد بھٹی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ فہیم قریشی نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ وہ اپنے والد کے راستے پر چل رہے ہیں‘ وہ اردو ادب کے خدمت گزار ہیں‘ وہ اس پروگرام میں شامل افراد کے ممنون و شکر گزار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج پاکستان بے شمار مشکلات کا شکار ہے۔ اس وقت ہم سب کو متحد ہو کر پاکستان کی حفاظت کرنی ہے۔ آج کے پروگرام کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم مل بیٹھ کر پاکستان کی ترقی کے لیے کام کریں۔ اس پروگرام کے دو حصے تھے پہلے دور میں محمود شام‘ پروفیسر سحر انصاری‘ ڈاکٹر فاطمہ حسن‘ عقیل عباس جعفری‘ عقیل دانش‘ اختر سعیدی‘ حیات رضوی امروہوی‘ ڈاکٹر رخسانہ صبا‘ سلیم فوز‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ خالد میر‘ فیاض علی فیاض اور مہر گل عدیل نے اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔ محمود شام نے خطبۂ صدارت میں کہا کہ ڈاکٹر معین قریشی کے صاحبزادوں نے اپنے والد کی روایت کو زندہ رکھا ہے یہ ایک قابلِ تحسین اقدام ہے کہ ہم اس پُر آشوب دور میں شاعری سے لطف اندوز ہو رہے ہیں‘ میں اس پروگرام کے آرگنائزر کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ایک بھرپور تقریب سجائی۔ اس پروگرام کے دوسرے حصے میں م۔ص۔ ایمن نے کہا کہ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے طنز و مزاح میں بھی ناکام کمایا‘ ان کے تنقیدی مضامین اردو ادب کا سرمایہ ہے‘ ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہوتے تھے‘ وہ 27 کتابوں کے مصنف تھے ان کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ وہ ہر دل عزیز شخصیت تھے‘ وہ زندگی کے جن تجربات و مشاہدات سے گزرے انہوں نے وہ تمام امور اپنی نثر میں بیان کیے اس کے علاوہ انہوں نے معاشرے کے سلگتے ہوئے مسائل کا احاطہ کیا‘ وہ چاہتے تھے کہ معاشرے سے برائیاں ختم ہوں‘ ہمیں چاہیے کہ ہم معین قریشی کے ویژن پر عمل کریں۔ امان اللہ سرمہ والا نے کہا کہ تجارت و معاشیات کے اعتبار سے پاکستان کی حالت بہت خراب ہے۔ لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ ہم یک جان ہو کر زندگی کے مسائل کا سامنا کریں تاکہ پاکستان ترقی کرے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ ہمارے ملک کے ذخائر بہت تیزی سے کم ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ ہم مختلف گروہوں میں منقسم ہیں‘ ہماری ہوا اکھڑ رہی ہے‘ خدا کے لیے اتحاد پیدا کیجیے‘ آج یکجہتی کی شدید ضرورت ہے تاکہ ہمارے مسائل حل ہو سکیں۔ سردار یاسین ملک نے کہا کہ ڈاکٹر معین قریشی کے کہنے پر انہوں نے اپنی بائیو گرافی لکھنی شروع کی تھی گزشتہ تین سال سے اس کتاب پر کام ہو رہا ہے امید ہے کہ یہ بہت جلد شائع ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مہنگائی بڑھنے کے سبب زندگی اجیرن ہے بجلی اور گیس کا بحران بڑھ رہا ہے‘ عوام میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ مشکلات کا مقابلہ کریں ہم جب تک متحد نہیں ہوں گے مشکلات میں گھرے رہیں گے۔ مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ پاکستان میں احتساب کا عمل کمزور ہو گیا ہے کوئی ایسا رہبر نظر نہیں آرہا جو ہمیں مشکل سے نجات دلائے۔ ہم نفسا نفسی کا شکار ہیں‘ ہم مختلف عنوانات سے تقسیم در تقسیم ہو رہے ہیں جس سے نقصان ہو رہا ہے‘ ملکی معیشت تباہ ہو رہی ہے‘ آج یکجہتی کی ضرورت ہے‘ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم قائداعظم کے فرامین پر عمل کریں۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے کہا کہ عوام اور حکومت کا رشتہ کمزور ہو رہا ہے‘ کوئی فلاحی کام نہیں ہو رہا۔ عوام بہت پریشان ہیں زندگی کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے ہم دوسرے ممالک سے امداد مانگ رہے ہیں سیلاب کی تباہ کاری کے زخم ابھی بھرے نہیں ہماری معاشی حالت خراب ہے۔ ہم پاکستانی قوم بن کر پاکستان کو مضبوط کر سکتے ہیں‘ ہمیں چاہیے کہ ہم جزا و سزا کا معیار بہتر بنائیں‘ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر دشمنوں کا مقابلہ کریں‘ اصولوں پر سودے بازی نہ کریں‘ لسانی اور علاقائی تعصبات سے نکل آئیں‘ پاکستان کے استحکام کے لیے یکجہتی پیدا کریں انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر معین قریشی کی وفات ایک عظیم سانحہ ہے‘ ہم ایک عظیم انسان سے محروم ہو گئے ہیں لیکن ان کی پھیلائی ہوئی روشنی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ان کے صاحبزادے ان کی روایت کے امین ہیں۔ پروگرام کے اختتام پر تمام شرکائے محفل کی پائے سے دعوت کی گئی۔