شمس الرحمن فاروقی کی یادگار گفتگو
(چوتھی قسط)
سوال: روایت کے سلسلے میں ایک بات کہنے سے رہ گئی۔ ’’مکالمہ‘‘ کراچی کے کسی شمارے میں روایت پر گفتگو کرتے ہوئے جمیل جالبی صاحب نے فرمایا تھا کہ عسکری صاحب نے غلط لکھا ہے کہ فیلن (Fallon) نے نظیر اکبر آبادی کو ’’شیکسپیئر ہند‘‘ کہا ہے۔ جالبی صاحب نے لکھا کہ فیلن نے ایسی کوئی بات نہیں کہی تھی۔ تو آپ کے خیال میں کیا عسکری صاحب نے اتنی بڑی غلطی کردی کہ فیلن سے وہ قول منسوب کردیا جو اس کا قول تھا ہی نہیں؟
شمس الرحمٰن فاروقی: ایسا ہے کہ عسکری صاحب اتنے بھی جلد باز اور بھولے نہیں تھے کہ اتنا اہم حوالہ فرضی طور پر دے گزریں۔ یہ ضرور ہے کہ وہ اپنے مضامین اور کتابوں میں بے دریغ حوالے دیا کرتے تھے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ایسے حوالے دے جاتے تھے جن کے بارے میں مشکوک معاملہ ہو۔
قصہ یہ ہے کہ دو فیلن (Fallon) ہیں۔ ایک تو مجہول سا آدمی ہے، T. Fallon اس کا پورا نام ہے۔ یہ وہ فیلن ہے جس کے ساتھ مل کر مولوی کریم الدین نے گارساں دتاسی کی تاریخ کا ترجمہ کیا، ’’طبقات شعراے ہند‘‘ کے نام سے۔ اس شخص کی تفصیل کسی کو معلوم نہیں۔ اس کا علم بھی بہت کم رہا ہوگا، اس لیے کہ جگہ جگہ اس کتاب میں تلفظ کی غلطیاں ہیں، گرامر صحیح نہیں ہے۔ شعرا کے نام بھی صحیح نہیں لکھے ہیں۔ کریم الدین تو فرانسیسی جانتے نہیں تھے، اس لیے فیلن نے اسے جیسے پڑھ دیا، کریم الدین نے مان لیا۔
لیکن ایک فیلن اور ہے جو مشہور آدمی ہے اور واقعی بڑا نام ہے۔ وہ ہے S.W.Fallon، جس نے لغت لکھا ہے اردو کا، جو1879میں چھپا۔ اس میں S.W.Fallon نے ایک دیباچہ لکھا تھا لمبا چوڑا۔ اس دیباچے میں اس نے کہا ہے کہ نظیر اکبرآبادی بہت بڑے شاعر ہیں اور ’’شیکسپیئرہند‘‘ کہلانے کے مستحق ہیں، اور افسوس ہے کہ اردو والے نظیر کی قدر نہیں کرتے۔ چونکہ فیلن کی ڈکشنری کا خاصا بڑا حصہ عوامی اور نام نہاد ’’عامیانہ‘‘ الفاظ پر مشتمل ہے، اور ظاہر ہے کہ بہت سارے ایسے الفاظ نظیر کے یہاں ملتے ہیں، تو نظیر سے اس نے فائدہ اٹھایا۔ اور شاید اس بے تکلف کثرت الفاظ کے باعث اس نے لکھا ہے کہ وہ ’’شیکسپیئر ہند‘‘ کہلانے کے لائق ہیں، کیونکہ شیکسپئر کی بھی ایک بڑی صفت یہ ہے کہ اس کا ذخیرہ? الفاظ غیر معمولی طور پر متمول ہے، اور اس نے اداے مطلب کے لیے کسی بھی طرح کے لفظ سے احتراز نہیں کیا ہے۔ تو عسکری صاحب نے ایس۔ ڈبیلو۔ فیلن کی بات کہی ہے۔ جمیل جالبی صاحب محقق آدمی ہیں، ان کا ذہن ’’طبقات شعراے ہند‘‘ کی طرف منتقل ہوا، اسی لیے انہوں نے اس بات کا حوالہ T.Fallon کے یہاں ڈھونڈا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ وہ حوالہ وہاں کہاں ملتا؟ اور یہی ان سے بھول ہوئی کہ دو فیلنوں کو ایک سمجھ بیٹھے۔
سوال: آپ اور محمد حسن عسکری میں ایک قدر مشترک شاید یہ بھی ہے کہ عسکری نے ترقی پسند ادب کی مخالفت کی اور آپ بھی اپنے ابتدائی زمانے سے ہی ترقی پسند ادب کے خلاف رہے۔ آپ نے ترقی پسند ادب کی مخالفت جن بنیادوں پر کی، وہ نظری تنقید اور شعریات کی بنیادیں ہیں۔ موجودہ زمانے کے لوگ آپ کے موقف سے خوب واقف ہیں۔ لیکن اپنے زمانے میں محمد حسن عسکری صاحب نے ترقی پسندی کی مخالف کیوں کی، یہ بات آج کے نوجوانوں پر شاید اتنی واضح نہ ہو۔ تو ذرا آپ بتائیں کہ محمد حسن عسکری نے جو ترقی پسندوں سے اختلاف کیا تو اس کے کیا اسباب تھے؟ کیا یہ اسلامی ادب کی طرف ان کے رجحان کے باعث تھا، جب کہ ترقی پسند فکر کو عام طور پر لامذہب، بلکہ مذہب مخالف سمجھا جاتا تھا۔
شمس الرحمن فاروقی: نہیں، عسکری صاحب نے ترقی پسندی کی مخالفت اس وجہ سے ہرگز نہیں کی کہ وہ اسلام پسند تھے، یا مذہبی آدمی تھے، اور ترقی پسند فکر کا عام پیکر لامذہبیت کا ہے۔ عسکری صاحب نے تو ترقی پسند ادب کی مخالفت اس وقت بھی کی تھی جب ان پر مذہب کا رنگ نہ چڑھا تھا، اور ترقی پسند ادب کے عروج کا وہ زمانہ تھا۔
لہٰذا میں ایک بات سب سے پہلے صاف کردوں کہ مخالفت ترقی پسند ادب کی نہیں بلکہ ترقی پسند نظریات ادب کی تھی، میری بھی اور عسکری صاحب کی بھی۔ ادب تو ترقی پسندوں کے یہاں بھی کچھ اچھا بھی ہے اور وہ یقیناً پڑھنے کے قابل ہے، یا اپنے زمانے میں پڑھنے کے قابل تھا، یا رہا ہوگا۔
نظری اعتبار سے دیکھیں تو ترقی پسند نظریات ادب میں بڑے کھانچے اور بڑے جھول ہیں اور عمومی حیثیت سے ترقی پسند نظریۂ ادب میں جو چیزیں اہم ہیں، وہ ادبی نہیں بلکہ غیرادبی چیزیں ہیں، یعنی ان کی بشردوستی (Humanism)، سماجی تبدیلی (Social Change) سے ان کا لگاؤ، عام انسان کو ادب کی محفل میں سر منبر بٹھانا اور اس کے مسائل کو اہمیت دینا، وغیرہ۔ عسکری صاحب کی مخالفت کی وجہ تو بہت سامنے کی اور صاف ہے۔ وہ ہم لوگوں سے زیادہ، اور ہم لوگوں سے بہت پہلے، مغربی ادب سے واقف ہوئے تھے۔ یہ جو نام نہاد ترقی پسندی تھی، ان کے وقت ہی میں اس کا یورپ میں چرچا ختم ہوچکا تھا، اس کا پول کھل چکا تھا۔ اور لوگ سمجھ گئے تھے کہ اس میں جو نظریے پرزور ہے، اور انقلاب کی موافقت میں ادب کو سرمیدان لانے کی بات ہے، اس کے پیچھے محض سیاسی منصوبہ ہے کوئی ادبی منصوبہ نہیں۔
تو کوئی بھی شخص جو براہ راست ادب کا مطالعہ کرتا ہے اور جو ادب کو مرکزی اہمیت دینا چاہتا ہے، وہ اس بات سے کبھی انکار نہ کرے گا کہ ترقی پسند ادب میں ادب کی اہمیت محض ایک آلۂ کار کی سی ہے۔ گویا زندگی کینوس ہے اور ادب موقلم یا برش ہے کہ اس قلم سے آپ کینوس پر کوئی تصویر کھینچے دیجیے اور پھر تقاضا کیجیے کہ سب کو اسی رنگ میں رنگ جانا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص بھی ادب کو اہمیت دے گا، ادب کو انفرادی اظہار، اور تہذیبی اقدار کا عکاس قرار دے گا اسے ترقی پسند نظریۂ ادب کی پابند، سیاسی فضا پسند نہ آئے گی۔
آپ ذرا ہم دونوں کے ادبی اور تربیتی پس منظر کو نگاہ میں رکھیں۔ میں اور عسکری صاحب دونوں الٰہ آباد یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے تھے اور دونوں کے گویا سب سے بڑے استاد پروفیسر ایس۔ سی۔ دیب (S. C. Deb) صاحب تھے۔ عسکری صاحب نے ’’جزیرے‘‘ انہیں کے نام معنون کی ہے۔ ہمارے یہاں الٰہ آباد یونیورسٹی میں ان کے زمانے میں، اور میرے زمانے میں بھی، سماجی اور سیاسی حالات پر ادب کا مطالعہ مبنی کرنے کی رسم تھی۔ اب مجھے تو معلوم نہیں کہ کیا صورت ہے، لیکن ہمارے زمانے میں تو ایک پورا پرچہ تاریخ کا ہوتا تھا،
Political and Social History of England
یعنی کون بادشاہ کب مرا، کیسے مرا؟ اس کے زمانے میں سماجی تصورات کیا تھے، وغیرہ؟ اس طرح کی تمام باتیں پڑھائی جاتی تھیں تاکہ سماجی اور سیاسی حالات کو ادب سے پورے طور پر متعلق رکھنے کے لیے بنیاد پیدا ہو۔ لیکن یہ بھی ہے کہ ایسا کبھی نہیں کہا گیا کہ ادب کے لیے ضروری ہے کہ وہ سماجی اور سیاسی تصورات کو منعکس کرے۔ مثلاً جان ڈن کی ہمارے یہاں اہمیت تھی، اور ڈن کے نزدیک یہ سب معاملات، سماج اور سیاست، کچھ اہمیت نہیں رکھتے۔ کیٹس (Keats) کی ہمارے یہاں ان دنوں بڑی اہمیت تھی۔ اور کیٹس سراسر غیرسیاسی آدمی ہے۔ ہمیں کبھی یہ نہیں کہا گیا کہ تم کیٹس کو اس بنا پر مطعون کرو کہ وہ سیاسی اور سماجی شعور سے کچھ سروکار نہیں رکھتا۔ اور مثلاً شیلی (Shelley) کے یہاں جو سیاسی ادب ہے، اس کی کوئی اہمیت ہمارے یہاں اس زمانے میں نہ تھی۔ شیلی کے ادب کا وہ حصہ ہمارے یہاں پڑھایا ہی نہیں گیا جس میں کہ سیاسی تحریکات یا سیاسی تصورات کی باتیں ہیں۔
لہٰذا ایک طرف تو یہ نظریہ تھا کہ ادب میں سیاسی اور سماجی حالات کا عمل دخل ہوتا ہے، یا کوئی تعلق ایسا ہے جو ان دونوں میں قائم ہوجاتا ہے۔ اور ممکن ہے کہ ایک کی روشنی میں دوسرے کو دیکھیں تو کوئی فائدہ پہنچے۔ لیکن بالکل one to one کا کوئی رشتہ دونوں کے درمیان ہے، یا ضروری ہے کہ شاعر یا ادیب سیاسی سماجی حالات بیان ہی کرے، اور خاص کر کسی خاص نظریہ? ادب، مثلاً مارکسزم، کی پیروی کرے۔ ایسا تصور ہمارے یہاں کبھی نہیں تھا۔
جب میں پڑھ کر نکلا، آج کوئی چالیس بیالیس سال بلکہ پچاس برس ہونے کو آرہے ہیں، میں نے 1955 میں ایم۔ اے کیا تھا۔ عسکری صاحب نے مجھ سے بھی دس سال پہلے کیا تھا۔ تو اس وقت بھی یہی تھا کہ اس زمانے میں سب سے اہم نقاد I.A.Richards ہے، پھر اس کے بعد ٹی۔ ایس۔ الیٹ تھا۔ اور ایف۔ آر۔ لیوس (F.R.Leavis)، جو ادب میں سماجی اور تہذیبی عناصر پر زور دیتا ہے، اس کی ہمارے یہاں اتنی زیادہ اہمیت نہیں تھی۔ عسکری صاحب نے بھی کوئی خاص ذکر ایف۔ آر۔ لیوس کا نہیں کیاہے، اگرچہ وہ بھی خود کو تہذیبی نقاد سمجھتے تھے اور کہتے تھے، خواہ ان کے تہذیبی مطالعہ? ادب کی بنیادیں نہ رہی ہوں جو ایف۔ آر۔ لیوس کے یہاں تھیں۔
پرانے نقادوں میں ہم کولرج (Coleridge) کے بہت قائل اور مداح تھے۔ مجھے پرفیسر دیب (S.C.Deb) کا قول اب تک یاد ہے کہ مجھے کولرج سے اتنی محبت ہے کہ میں بس اس کی پرستش نہیں کرتا۔
I love Coleridge this side of idolatory.
دیب صاحب کے زیر اثر میں بھی کولرج سے بہت متاثر ہوا، اور مدتوں میں نے ادب، خاص کر شاعری کو کولرج کی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کی۔ اب اگرچہ میں کولرج کا اتنا قائل نہیں رہ گیا، لیکن پھر بھی میرے افکار کی تعمیر میں کولرج کا اب بھی بڑا حصہ ہے۔ عسکری صاحب نے کولرج کا کچھ زیادہ اثر نہیں قبول کیا، لیکن فرانسیسی علامت نگاروں تک پہنچنے کی راہ میں وہ جرمن رومانیوں اور کولرج کے علاقے سے ہوکر گزرے ضرور تھے۔ ان سب لوگوں میں یہ بات مشترک تھی کہ ادب کسی نظریے کا محکوم نہیں ہوسکتا۔ فریڈرک شلیگل (Frederich Schlegel) کا مشہور قول ہے کہ ادب سب سے بڑی جمہوریت ہے۔
تو مطلب یہ ہے کہ ہم لوگوں کی جو تربیت ہوئی اس میں بھی کہیں سے ایسا کوئی شائبہ نہیں تھا کہ ہم ادب کو محکوم ٹھہرائیں کسی نظریۂ ادب کا، کسی نظریۂ حیات و فلسفہ کا، کسی سیاسی پروگرام کا، چہ جائے کہ مارکسزم کا یا کمیونزم کا۔ لہٰذا ہم لوگوں کے زمانے میں تو کسی کو کچھ بھی لگاؤ مارکسی لٹریچر، یا افکار و خیالات سے ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ عسکری صاحب کے زمانے میں کاڈویل کا کیا مرتبہ تھا، (انہوں نے ایک دو جگہ کاڈویل کا نام لیا ہے)، لیکن ہم لوگوں کے زمانے میں تو کاڈویل کی جو دو کتابیں بہت مشہور تھیں، ان کو کوئی پڑھتا نہیں تھا۔ یوں ذکرکرتے تھے کہ کوئی کاڈویل صاحب ہیں جنہوں نے بڑے کھلے اور جوشیلے انداز میں مارکسی خیالات کے لیے کوشش کی ہے کہ انگریزی ادب کو بھی ان کا تابع ٹھہرایا جائے۔ یعنی سیاسی اور سماجی حالات بدلتے ہیں تو ادب بدل جاتا ہے اور انگریزی ادب کی تاریخ کو مارکس کی بنائی ہوئی تاریخی منطق کے ثبوت کے طور پر پڑھا جاسکتا ہے۔ ہم لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اگر یہ صحیح ہے تو پھر ادب میں پیش گوئی عام ہونا چاہیے۔ مثلاً کاڈویل نے کہا کہ سیاسی حالات فلاں طرح کے تھے تو ان کے باعث ناول پیدا ہوا۔ لیکن اگر یہ درست ہے تو ہم دعویٰ کرسکتے ہیں کہ فلاں حالات میں فلاں طرح کا ادب پیدا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ وہ آپ نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ ادب کسی کھیت میں نہیں اگتا کہ اس پر خارجی حالات کا تقریباً پورا تسلط ہو۔
میرے اور عسکری صاحب کے استادوں میں پی۔ سی۔ گپتا (P.C.Gupta) صاحب بھی تھے جو غالباً کمیونسٹ پارٹی کے ممبر تھے، اور انہوں نے ہندی اور انگریزی میں بہت سی کتابیں ترقی پسند انداز کی لکھی تھیں۔ لیکن انہوں نے بھی ادب کے بارے میں ایسی لچر اور لاطائل باتیں نہیں کہیں جیسی ان وقتوں کے ترقی پسند ہمارے یہاں کہتے تھے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عسکری صاحب اور مجھ میں جو چیزیں مشترک ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ ہماری جو تربیت تھی ادب کے پڑھنے پڑھانے کی، اس میں یہ بات بالکل صاف تھی کہ اچھا ادب نہ کسی سیاسی مسلک کا آلہ? کار ہوسکتا ہے اور نہ اسے کسی فلسفے کا پابند ترجمان ہونا چاہیے، چہ جائے کہ مارکسزم ایسے مسلک کا جس کا کھوکھلاپن عسکری صاحب پر اور مجھ پر تویقیناً پوری طرح سے ظاہر ہوچکا تھا۔
(جاری ہے)