انٹرنل آڈٹ

315

اُس کی عادت تھی ڈائری ہمیشہ پرس میں رکھتی، کئی دفعہ نکال کر کچھ لکھتی اور رکھ دیتی۔
پوچھا: ڈائری میں ایساکیا لکھتی ہو؟
اُس کا جواب تھا: حاصلِ زندگی۔
مطلب؟

مسکراتے ہوئے بولی: زندگی ہر دم کچھ سکھاتی ہے۔ دن میں سوچ کے کئی نئے در وا کرتی ہیں۔ بس وہی لکھتی ہوں۔

میں نے کہا: زندگی میں مجھے توکچھ خاص نہیں لگتا، روز و شب یونہی گزرے چلے جا رہے ہیں۔

غور سے دیکھتے ہوئے بولی: تم اتنی غیر سنجیدہ کیسے ہوسکتی ہو؟

اللہ تعالیٰ نے جس زندگی کو اتنی اہمیت دی کہ دو لکھنے والے مقرر کیے جو لمحہ لمحہ آڈٹ کر رہے ہیں۔ بھلا ایسے کیسے ہوسکتا ہے فائل آڈیٹر کے پاس جانے سے پہلے کئی بار پرکھی نہ گئی ہو! زندگی کا معاملہ تو اس سے بھی زیادہ باریک بینی کا تقاضا کرتا ہے۔ آڈٹ میں تو پھر بھی کرپشن کی کوئی صورت نکل سکتی ہے، جب کہ یہاں ایک کلک، ذرا سی حرکت، انداز، ایک نگاہ تک پوشیدہ نہیں کہ جانچنے والا علیم ہے، باریک بیں اور باخبر ہے۔ ذرے کی بھی کرپشن کا سوچا نہیں جا سکتا۔ گزرتے لمحوں کا انٹرنل آڈٹ بے حدضروری ہے۔

وہ اپنی ڈائری لکھنے کو انٹرنل آڈٹ کہہ رہی تھی۔

الجھے انداز میں دیکھا تو سمجھاتے ہوئے بولی: میری بہنا! زندگی سب سے زیادہ سنجیدگی کی حق دار ہے۔ ہر طرف بکھرے کھرے کھوٹے میں سے کھرے کی پہچان کرکے لینا اور پھر مناسب انداز سے استعمال میں لانا، اس کا صحیح مقام پر استعمال انتہائی ضروری ہے۔ زندگی میں اس سے بڑھ کر کچھ بھی اہم نہیں۔ اسی لیے جو کچھ حاصل کرتی ہوں لکھ لیتی ہوں۔

اس کی اہمیت ہماری ایک استاد نے سکھائی تھی، ڈائری لکھنے کے اَن گنت فوائد بتائے تھے۔ وہ خود بھی لکھا کرتیں۔ یوں ہماری بھی ڈائری لکھنے کی عادت بن گئی۔ یہ چھوٹا سا عمل نہ صرف سیکھنے کا مستقل وسیلہ بنا بلکہ نمایاں طور پر اس کے دو بڑے فائدے ہوئے، پہلا یہ کہ روزانہ کا محاسبہ ہونے لگا، زندگی میں کیا رکھنا ہے کیا نہیں، اس کی کانٹ چھانٹ ہونے لگی۔ دوسرا اپنا مافی ضمیر بیان کرنے میں مہارت پیدا ہوگئی۔ یہ کتنی بڑی نعمت ہے تم سوچ بھی نہیں سکتیں۔ اندر چلے طوفان ہوں یا جمع شدہ کچرا… درستی کی راہ مل جاتی ہے۔

ہمارے ابو جی کہا کرتے کہ میٹنگ میں کسی کے قلم اور ڈائری کے ساتھ آنے سے ہی اُس کی سنجیدگی کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ انھوں نے ایک سائنسی بات بھی بتائی کہ آپ جب ہاتھ سے لکھتے ہیں اُس کا دماغ سے فوراً رابطہ بن جاتا ہے جس سے کام پر توجہ مرتکز ہوجاتی ہے۔
آپ کسی بات کو سننے کے بعد جب نوٹ بھی کرلیتے ہیں تو وہ بات مضبوطی کے ساتھ دماغ میں جم جاتی ہے اور بوقتِ ضرورت آپ کے سامنے کھڑی ہوتی ہے۔ اسی لیے لکھنے کی نہ صرف عادت ہے بلکہ طلبہ میں منتقلی کی کوشش بھی رہتی ہے۔
ڈائری لکھنے کی اہمیت نے آنکھیں کھول دی تھیں، اسی وقت پرس میں پڑے چند صفحات کو اسٹیپل کرکے ڈائری کی شکل دے دی تھی کہ معاملہ مزید تاخیر کا متحمل نہیں تھا۔ ایکسٹرنل سے پہلے انٹرنل آڈٹ کا کام عرصے سے کیا جو نہ تھا۔

حصہ