سوال: امید ہے مزاج بخیر ہوں گے اور ان شاء اللہ میری معروضات و گزارشات پر غور فرما کر جواب دینے کی پوزیشن میں ہوں گے، محترم ملک غلام علی صاحب کے ’’جسٹس‘‘ کے منصب پر فائز ہونے سے قبل میں عموماً سوالات و اشکالات کے سلسلے میں انہیں زحمت دے لیا کرتا تھا۔
گزشتہ ہفتہ عشرہ کے دوران میں یہاں جدید تعلیم یافتہ افراد کے ایک سنجیدہ حلقے میں ایک بحث چھڑی، سوال زیر بحث یہ تھا کہ ’’گناہ گار مسلمان‘‘ کیا اپنے گناہوں کی سزا پائیں گے یا نہیں! انہیں اگر گناہوں کی سزا ملی تو کیا وہ دوزخ ہی کے کسی حصے میں دی جائے گی یا دوزخ سے جدا کسی دوسرے اور مقام پر؟ یا عارضی طور پر وہاں انہیں رکھ کر پھر جنت میں بھیج دیا جائے گا؟
اس بحث میں دینی علوم سے بہرہ مند اشخاص سے بھی رجوع کیا جاتا رہا لیکن سوال کا جس حد تک جواب ملتا، اس سے کئی اور سوال پیدا ہوجاتے۔ یوں بحث کا یہ سلسلہ فکر اور احساس مندی کے ساتھ جاری رہا، یعنی اس میں محض ذہنی عیاشی یا دلائل کی گولہ باری مقصود نظر نہیں آتی تھی، پتا چلتا تھا کہ جواب پانے کے خواہش مند فی والواقعہ سنجیدگی سے اس سوال کا حتمی جواب چاہتے ہیں۔ آج سعودی تبلیغی مشن کے ایک فاضل ممبر، جو اہل حدیث مکتب فکر سے متعلق ہیں، خصوصی طور پر بلائے گئے، خیال تھا کہ وہ جس علمی مرتبے کے آدمی ہیں، کافی وشافی جواب فراہم کریں گے لیکن ان کے خطاب نے خود احادیث نبوی کے بارے میں ذہنوں میں کئی سوالیہ نشان پیدا کردیئے ہیں۔ آپ سے رجوع کرنے کا فوری سبب ہی یہ بنا ہے کہ ان صاحب کی پیش کردہ احادیث نے تشکیک کی کچھ ایسی لہریں پیدا کردی ہیں جن کا بڑھنا اور تیز ہونا خاصا مسئلہ عقیدہ و ایمان بن سکتا ہے۔
ان کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام گناہ گاروں کو بخش نہیں دے گا وہ گویا تعلیمات اسلام کی توہین کررہا ہے، انہوں نے بعض ایسی احادیث پیش کیں جن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر رات اپنا ہاتھ دراز کردیتا ہے کہ دن بھر شرک کے علاوہ جملہ گناہ کرنے والے اشخاص مغفرت طلب کریں اسی طرح ہر صبح اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے کہ رات بھر گناہ و عصیاں کا ارتکاب کرنے والے اس کے نیچے پناہ گزیں ہوجائیں اور وہ انہیں بخش دے۔ انہوں نے وہ حدیث بھی سنائی جس میں محض ایک کتے کو پانی پلا دینے والی عورت کو بخشش کا پروانہ مل گیا اور فقط ایک بلی کو ہلاک کردینے والی صالحہ و عابدہ کو جہنم میں ڈال دیا گیا۔ انہوں نے یہ حدیث بھی پیش کی کہ اگر تم لوگوں نے گناہ نہ کئے تو اللہ تعالیٰ تمہیں فنا کرکے اور مٹا کر نئی امت پیدا کردے گا اور ان سے گناہ کرائے گا (الفاظ قابل غور ہیں) جب وہ گناہ کریں گے تو انہیں کہے گا کہ بخشش مانگو تو پھر انہیں مغفرت سے نوازے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب مبین میں بندوں سے کیسے رویے کا مطالبہ کرتا ہے؟ گناہ و نافرمانی یا اطاعت و فرمانبرداری، ظاہر ہے کہ اسلام کا سب سے بڑا اور بنیادی تقاضا ہی یہ ہے کہ تمام انسان خدا اور اس کے رسول کی اطاعت اختیار کریں۔ پھر کتاب و سنت کی معروف تعلیم یہی ہے کہ خدا کی زمین پر ظلم و عصیاں، فتنہ و فساد، بغاوت اور سرکشی کی روش کا مومن مقابلہ کریں۔ انسانیت کو گندے اور شیطانی ماحول سے نجات دلانے کے لئے جہاد اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیں، خدا کی زمین کو اشرار اور شیاطین اور طواغیت کے غلبے سے نکالنے کی جدوجہد کریں۔ ایسے کام کرنے والوں کا اجر کتاب حکیم اور احادیث میں بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ مومنانہ روش کے علی الرغم طرز عمل اپنانے والوں کے انجام کی خبر بھی پوری تفصیلات کے ساتھ قرآن و حدیث میں آتی ہے۔
میں نے جیسا کے اوپر عرض کیا ہے کہ مذکورہ عالم دین کے مذکورہ فتویٰ سے حق کا کام کرنے والوں کے لئے جیسی فضا پیدا ہونے کا امکان پیدا ہوسکتا ہے اور گناہوں کے معاملے میں بے باکی عام ہوجانے کا احتمال ہوسکتا ہے، اسی نے مجبور کیا ہے کہ آپ کو خط لکھ کر متوازن رائے لی جائے، اب آپ سے اختصاراً جن سوالات کے جواب مطلوب ہیں وہ یہ ہیں:
(1) شرک سے محفوظ لیکن باقی گناہوں میں ملوث مسلمان کیا دوزخ میں جاسکتے ہیں؟
(2) کیا دوزخ میں انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ڈالا جائے گا یا کسی محدود مدت کے لئے؟
(3) اعمال اور احساس دونوں میں کوئی تطابق و تعلق ہے یا ایک برے اعمال رکھنے والا شخص اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کی آس لگالے تو یہ امید و آس کیا اس کے اعمال کو دھودے گی؟
(4) اللہ تعالیٰ کے نزدیک اطاعت کی اہمیت زیادہ ہے یا گناہ کے ساتھ احساس ندامت کی؟
(5) متذکرہ بالا ایک حدیث اگر صحیح ہے (کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی بصورت گناہ نہیں کروگے تو اللہ تعالیٰ تمہیں مٹاکر ایسے لوگوں کو لے آئے گا جن سے گناہ کرائے گا اور پھر انہیں مغفرت سے نوازے گا) تو پھر شیطان گویا اللہ تعالیٰ کا کہنا ہی تو پورا کررہا ہے، اسے مطعون کرنا یا خدا کے نافرمانوں میں اصلاح و تعمیر کی کوشش کرنا بے معنی و فضول ہے بلکہ خدا کے منشا کے خلاف ہے (المعیاذ باللہ)
(6) براہ مہربانی مناسب و متوازن نکتہ نظر سے قرآن و حدیث اور علمائے امت کی آرا کے حوالے کے ساتھ آگاہ فرمائیں۔
(7) اس بحث میں شریک تمام لوگ تحریک اسلامی کے متفق نہیں ہیں، لیکن مولانا مودودی کا اس سلسلے میں جو مؤقف ہے وہ بھی مکمل آجائے تو تسلی کے لئے کافی ہوگا۔
جواب: آپ کے تمام سوالوں کا دو ٹوک اور مختصر جواب قرآن پاک کی درج ذیل آیات میں آجاتا ہے۔
’’(اے نبی) کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو۔ یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے وہ تو غفور و رحیم ہے۔ پلٹ آئو اپنے رب کی طرف اور مطیع ہوجائو اس کے، قبل اس کے کہ تم پر عذاب آجائے اور پھر کہیں سے تمہیں مدد نہ مل سکے‘‘۔(39)، (54,53)
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ بندگی اور اطاعت کی طرف پلٹ آنے سے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ آیت میں پیش کردہ اسی اصول کی بنیاد پر کفار و مشرکین کو اسلام کی دعوت دی جاتی ہے۔ فکر اور شرک سے بڑا گناہ اور کوئی نہیں ہے، لہٰذا جب توبہ اور اطاعت کی طرف پلٹ آنے سے کفر و شرک معاف ہوجاتے ہیں تو باقی گناہ بدرجہ اولیٰ توبہ اور انابت سے معاف ہوسکتے ہیں۔
آیا توبہ و انابت کے بغیر بھی گناہ معاف ہوسکتے ہیں یا نہیں۔ تو اس سلسلہ میں سورۃ النسا کی یہ آیت روشنی ڈالتی ہے۔
’’اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا اس کے، سوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لئے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے۔ اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھہرایا اس نے تو بہت ہی بڑا جھوٹ تصنیف کیا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی‘‘ (4، 48)
اس آیت میں شرک کی عدم مغفرت اور شرک کے ، سوا گناہوں کی بخشش کو ’’تحت المشیت‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ اس تقابل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس آیت میں زیر بحث مغفرت وہ ہے جو توبہ کے بغیر ہو۔ اس لئے کہ توبہ کے ساتھ تو شرک کی مغفرت بھی ہوجاتی ہے، لیکن ’’یغفر مادون ذالک‘‘ کے الفاظ کے ساتھ ’’لم یشاء‘‘ کی قید ہے۔ یعنی اللہ چاہے گا تو بخشش کرے گا، نہیں چاہے گا تو بخشش نہیں ہوگی۔
قرآن و حدیث سے جو اصول ہمارے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ”الل ئپ“ نہیں ہوتی بلکہ کسی اور ضابطے کے تحت ہوتی ہے، لہٰذا آیت سے تو اتنی بات معلوم ہوتی ہے کہ شرک اور کفر کے سوا باقی تمام گناہ قابل معافی ہیں۔ رہی یہ بات کہ کن کے لئے معافی ہے اور کن کے لئے نہیں تو یہ اللہ کی مشیت کے سپرد ہے۔ لیکن اللہ کی مشیت بغیر کسی استحقاق کے نہیں ہوتی۔ اس لئے جو لوگ بخشش کے مستحق ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کی بخشش کرے گا اور جو مستحق نہ ہوں گے، ان کی بخشش نہیں کرے گا۔
بخشش کے استحقاق کے لئے جو اصول اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں ان میں ایک اصول توبہ و استغفار کا ہے، جس سے ہر گناہ معاف ہوسکتا ہے بشرطیکہ توبہ و استغفار حقیقی ہو اور اللہ تعالیٰ اسے قبول بھی کرلے، لہٰذا کفر و شرک کے علاوہ بھی جس گناہ سے کسی نے مقبول توبہ کرلی تو اللہ تعالیٰ اس کی بخشش کی مشیت فرمادے گا۔
(2) نیکیوں اور برائیوں کا موازنہ کرنے کے بعد نیکیوں کے غلبے کی وجہ سے معافی۔
’’ہم قیامت کے روز انصاف کے ترازو لگا دیں گے اس لئے کسی نفس پر ذرا برابر بھی زیادتی نہیں کی جائے گی‘‘۔
’’جس نے ذرہ برابر نیکی کی اسے وہ دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی اسے بھی دیکھے گا‘‘۔
’’اور کتاب عمل سامنے لاکر رکھ دی جائے گی۔ پھر یہ منظر آپ کے سامنے آئے گا کہ مجرمین اس کے مندرجات سے کانپ رہے ہوں گے اور کہیں گے کہ ہائے ہماری بدبختی، اس کتاب کو کیا ہوگیا ہے کہ اس نے کسی بھی چھوٹی بڑی چیز کو احاطے کے بغیر نہیں چھوڑا، لوگ اپنے اعمال کو حاضر پائیں گے اور آپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا‘‘۔
(3) بعض نیکیاں اس قدر وزنی ہوں اور مقبول ہوجائیں کہ وہ پچھلے باقی گناہوں پر غالب آجائیں اور ان گناہوں سے توبہ کی توفیق کا سبب بن جائیں، اسی بات کو واضح کرنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدری صحابہ کے بارے میں فرمایا: ’’تمہیں معلوم نہیں، اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو دیکھ لیا ہے اور اس فرمایا: ’’تم جو چاہو کرو‘‘ میں نے تمہاری مغفرت فرمادی‘‘۔ اہل بدر کی اس مغفرت کا یہ مطلب نہیں کہ اب ان کو اطاعت سے آزادی مل گئی بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کی اطاعت کا حال اللہ کو معلوم ہوگیا ہے اور وہ امتحان میں کامیاب ہوگئے ہیں، جو کچھ ان کے بارے میں اسے معلوم کرنا تھا وہ اسے معلوم ہوگیا ہے۔ اس لئے اب وہ اطاعت پر رہیں، اور اگر بشری کمزوری کی وجہ سے کوئی گناہ ان سے سرزد ہوگیا تو وہ اپنی تلافی کرلیں گے توبہ و استغفار کے ذریعے۔
(4) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کے متعلق ایک بظاہر معمولی کام کی وجہ سے مغفرت کی خبر دے دی ہو وہ اپنی جگہ درست ہے اور وہ بظاہر معمولی کام حقیقتاً بہت بڑا کام ہوتا ہے، لیکن ہماری نظر میں وہ معمولی ہوتا ہے۔ ایسا ہوتا رہتا ہے کہ ایک ہی کام مختلف افراد کے لحاظ سے معمولی اور غیر معمولی قرار پاتا ہے، جس بدکار عورت کو ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے پر بخش دیا گیا اس کا یہ کام اس کے اعتبار سے اور اس کے قطبی جذبات و احساسات اور اخلاص کے لحاظ سے بڑی حیثیت اختیار کرگیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر بدکار کی لئے ایسا کرنے سے گناہ معاف ہوجائیں گے بلکہ ایسا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی گناہ گار کا ایسا کام اسی عمل کی طرح وزنی ہوجائے جس طرح اس بدکار عورت کا عمل و زنی ہوگیا تھا۔
اس سے یہ چیز واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ جو شخص محض اس بنا پر کہ شرک کے علاوہ باقی گناہوں کی معافی کی گنجائش موجود ہے، اپنے لئے واقعی معافی کے ہم معنی قرار دے کر گناہوں میں منہمک رہے تو وہ شیطان کے دھوکے اور غرور نفس کا شکار ہے۔ اسے جتنی جلد ممکن ہو اپنی اصلاح کرلینا چاہئے۔
اگر کسی کا گناہ معاف نہ ہوا اور اسے اس کی سزا بھگتنا پری تو کفر و شرک کے علاوہ کسی بھی گناہ کی سزا ’’خلود فی النار‘‘ نہیں ہے۔ ایسا شخص اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد اپنے ایمان کی جزا بھی پائے گا، اور یہ جزا (سزا بھگتنے کے بعد ) دائمی ہوگی۔ اس چیز کو حدیث میں یوں واضح فرمایا گیا ہے: ’’جہنم سے ہر اس آدمی کو نکال لیا جائے گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا‘‘۔
یہ حدیث کہ اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ کسی ایسی امت کو پیدا کرے گا جو گناہ کرے، کا مطلب گناہوں کی ترغیب نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان سے گناہ سرزد ہوہی جاتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ انسانوں کو ان کے ہر چھوٹے بڑے گناہ پر پوری سزا دینا چاہے تو پھر کسی بھی انسان کا سزا سے بچنا مشکل ہے، اور دوسری مخلوق پیدا کرنے کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ’’خلافت فی الارض‘‘ ایسی مخلوق ہی کو دیتا ہے جس میں نیکی کے ساتھ بدی کی صلاحیت بھی ہوجیسے کہ فرشتوں نے کہا تھا…
بقیہ: گنا اور مغفرت/شیخ الحدیث مولنا عبدالمالک
’’اتجعل فیہامن یفسد فیہا ویسفک الدماء‘‘۔
ان تمہیدی کلمات کے بعد آپ کے سوالوں کا بالترتیب جواب یہ ہے۔
(1) شرک سے محفوظ لیکن باقی گناہوں میں ملوث مسلمان اپنے گناہوں کی سزا پانے کے لئے دوزخ میں جائیں گے، بشرطیکہ وفات سے پہلے انہوں نے اپنے گناہوں سے سچی توبہ نہ کرلی ہو، جسے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت مل گئی ہو یا ان کی نیکیاں ان کے گناہوں پر کہ ’’یاکیفا‘‘ بھاری اور غالب نہ ہوگئی ہوں۔
(2) ہمیشہ جہنم میں رہنما صرف کفر و شرک کی سزا ہے۔ باقی کسی گناہ کی سزا ہمیشہ جہنم میں رہنا نہیں ورنہ لازم آئے گا کہ مومن کو اس کے گناہ کی سزا توملے لیکن ایمان کی جزا سے وہ محروم ہی رہے اور یہ انصاف کے منافی ہے۔ اور ’’فمن یعمل مثقال ذرۃ خیراً یرہ‘‘ کے بھی منافی ہے۔
(3) ایک شخص اللہ کی رحمت اور مغفرت کی آس بغیر کسی سبب کے لگائے رکھے تو یہ اس کی جہالت ہے۔ اسباب رحمت و مغفرت کو عمل میں لانے کے بعد ہی مغفرت کی آس لگانا معقول ہے۔
(4) اہمیت اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی ہی کو حاصل ہے گناہ سے پہلے بھی اور گناہ کے بعد بھی۔ گناہ سے پہلے اطاعت یہ ہے کہ گناہ سے بچنے کی جدوجہد کرے اور گناہ کے بعد اطاعت یہ ہے کہ اس سے توبہ کرے۔ معافی سے مایوسی کا شکار ہوکر گناہ میں گرفتار نہ رہے۔ گناہ کے بعد توبہ اور انکساری اور آہ و زاری بڑا مقام رکھتی ہے لیکن اس کے حصول کے لئے عمداً گناہ کرنا انتہائی جہالت ہے اور ایسے شخص کے متعلق خطرہ ہے کہ اسے توبہ کی توفیق ہی نہ ملے۔
جو کچھ لکھا گیا ہے یہی اہل اسلام کا نظریہ ہے سوائے معتزلہ اور خوارج کے، کہ ان کے نزدیک ’’گناہ کبیرہ‘‘ کی معافی کی ایک ہی صورت ہے وہ یہ کہ گناہ گار اس سے توبہ کرلے اور توبہ نہ کرسکے تو اس کی سزا اور کفر کی سزا میں فرق نہیں ہوگا۔ دونوں کی سزا جہنم میں ہمیشہ رہنا ہوگا۔ لیکن یہ نظریہ کتاب و سنت اور سلف صالحین اور عقل سلیم سے متصادم ہے۔ اسی طرح آپ کے سلفی دوست نے جس انداز سے اس مسئلہ کو بیان کیا ہے وہ انداز بھی درست نہیں ہے اور اس سے سلف صالحین کے مسلک کی صحیح طور سے ترجمانی نہیں ہوتی۔ امید ہے کہ ان سطور سے آپ کی تشفی ہوجائے گی۔ (ان شاء اللہ تعالیٰ)
ایک اشارہ مزید:
مولانا عبدالمالک محترم نے نہایت ہی مدلل اور خوب صورت جوابی تحریر لکھی ہے۔ ایک سلیم الطبع آدمی کو گناہ اور مغفرت کے بارے میں کوئی الجھن باقی نہیں رہتی۔ مجھے یہاں محض ایک چھوٹی سی بات اور بیان کرنی ہے۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنی سلطنت کائنات اور گوناگوں مخلوق کا نظام چلانے کے لئے جابجا ایسی آیات فرمائی ہیں جن کا اصل مقصد یہ واضح رہے کہ سلطنت کائنات کا دستور کیا ہے۔ مثلاً لاتبدیل لکمٰت اللہ۔ حرمت علی نفسی ظلم یا اذاجاء اجلہم لایستاخرون ساعتہً ولا یاستقدمون۔ توتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممن تشاء۔ یہی حالت گناہ گاروں کی سزا پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی برتر اتھارٹی کو واضح کردیا ہے کہ بغفرلمن یشاء و یعذب من یشاء۔ ان آیات کو جب قانون مغفرت کی آیات سے گڈ مڈ کردیا جاتا ہے تو پڑھنے والا الجھ جاتا ہے۔ ضرورت ہے کہ سلطنت الٰہیہ کے دستور کو مرتب کرلیا جائے۔ (ن۔ص)
(ترجمان القرآن، اگست 1983ء)